واپڈا کے دھکے!

اس نے بجلی کے بلوں کا پلندہ میز پر رکھا اور پسینہ پونچھتے ہوئے پانی کا گلاس طلب کیا۔ خادم حسین جس دفتر میں کام کرتا ہے، وہ دو منزلہ ہے، لہٰذا بجلی کے بھی دو ہی میٹر کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ گرمیوں میں بارش میں ان کا تھری فیس میٹر جل گیا تھا، تاہم واپڈا ٹیم نے میٹر کو بند پایا تو اتار کر لے گئے۔ آفس کی طرف سے خادم حسین ہی اس قسم کے معاملات کو ڈیل کرتا ہے، وہ فوری طور پر واپڈا کے دفتر گیا اور بتایا کہ دیکھا جاسکتا ہے کہ میٹر اتارنے سے پہلے والے مہینے میں بھی ریڈنگ موجود ہے، مطلب یہ کہ میٹر پہلے سے خراب نہیں تھا۔ معاملہ حل نہ ہوا،ایم این ٹی والے آئے،انکوائری ہوئی اور واپڈا ٹیم نے اُن کی دلیل تسلیم کرلی ، میٹر لگانے کا وعدہ کر کے چلی گئی، ڈیمانڈ نوٹس ادا کردیا گیا۔دن ہفتوں تک پہنچے اور ہفتے مہینوں تک، انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی گئیں، واپڈا آفس کے چکر بڑھتے رہے۔ کبھی معلوم ہوتا کہ بہت جلد میٹر لگا دیا جائے گا، بس میٹر پہنچنے ہی والے ہیں، کبھی وعدہ ذرا لمبا ہو جاتا۔ کبھی صاف جواب مل جاتا کہ میٹر آئے گا تو لگائیں گے۔

دفتر کا سارا نظام ایک میٹر پر ہی چلتا رہا، جس کے ایک سے زیادہ نقصان تھے، اول یہ کہ وہ میٹر سنگل فیز تھا، اس پر لوڈ زیادہ پڑ رہا تھا، واپڈا کے قانون میں یہ بھی جرم ہے، دوسرا یہ کہ لوڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ بجلی استعمال ہوتی تھی اور ریڈنگ ایک حد سے زیادہ ہو جانے کی بنا پر ا س کا ٹیرف ہی مختلف ہو جاتا ہے، یوں بل بہت زیادہ آتا ہے۔ جو میٹر واپڈا کے قبضے میں ہے، اس کا بھی استعمال کے بغیر ہی کچھ نہ کچھ بل آتا رہا۔ گزشتہ روز ایک مرتبہ پھر خادم حسین سال بھر کے بل اٹھا کر ایس ڈی او واپڈا کے دفتر گیا، انہیں بتایا گیا کہ میٹر نہیں ہے، آئے گا تو لگائیں گے۔ وہ مزید بڑے افسر یعنی ایکسئین واپڈا کے پاس گیا اور انہیں گزشتہ برس والی کہانی یا د دلائی،اور تازہ صورت حال سے بھی آگاہ کیا۔ ایکسئین نے ایس ڈی او کو فون کیا، انداز کچھ جذباتی تھا، نہ جانے اصلی تھا یا روایتی۔ تاہم حکم ہوا کہ ایس ڈی او آفس چلے جائیں۔ اب یہ دوبارہ ایس ڈی او کے آفس پہنچے اور مزید تازہ صورت حال سے آگاہ کیا، صاحب نے میٹر انسپکٹر اور اس نے اپنے مزید کسی ماتحت کو طلب کیا، کس نے اتارا تھا یہ میٹر، اب کہاں ہے؟ سوال اور جواب ادھر دفتر میں ہی ایک دوسرے سے الجھتے رہے، نہ کوئی سوال نمایاں ہو سکا اور نہ کوئی جواب برآمد ہوا۔ آخر خادم حسین کا پیمانہ صبر لبریز ہونے کو آیا، ایس ڈی او سے معلوم کیا کہ جناب آخر مسئلے کا حل کیا ہے، یا جیسا کہ ایکسئین نے کہا ہے کہ اگر میٹر نہ لگے تو دوبارہ میرے پاس آجائیں۔

بتایا گیا کہ میٹر تو نہیں ہے، تاہم ہمیں دو گھنٹے کی مہلت دیں، میٹر انسپکٹر صاحب فیلڈ میں گئے ہیں، واپس آجائیں تو آپ کے مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالتے ہیں۔ انہی دو گھنٹوں کے وقفے میں خادم حسین میرے پاس چلا آیا۔ غم غلط کرنے، واپڈا کا نصف غصہ مجھ پر اور کچھ واپڈا پر اتارنے اور کچھ غصہ پی جانے کے لئے۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ بل زیادہ آنے، میٹر اتر جانے اور لوڈشیڈنگ وغیرہ ہونے کی صورت میں اگر غصہ پی لیا جائے تو گرمی سے کافی افاقہ ہو جاتا ہے، کیونکہ گرمی کو گرمی ہی مارتی ہے۔ مگر میری بات زیبِ داستاں کے ضمن میں تو آسکتی ہے، چنانچہ زمینی حقائق کے مطابق اسے پسند نہیں آئی۔ میرے مزاج سے وہ بھی خوب آشنا ہے، اس لئے اکثر اوقات وہ بھی برا نہیں مناتا، مگر جب وہ زیادہ پریشان یا غصہ میں ہو تو میں بھی احتیاط ہی کرتا ہوں۔

میں نے اسے سمجھایا کہ آپ نے کبھی بجلی کے بل کو الٹا کر دیکھا ہے، اس کا جواب تھا کہ سامنے کا صفحہ دیکھ کر ہی چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں، مزید کسی بات کی ہوش ہی نہیں رہتی۔ تاہم میں نے اسے بجلی بچانے کے بارہ سنہری اصول بتائے، یہ پیش کش میں نے اپنی طرف سے نہیں کی بلکہ بل کی پشت پر یہ ساری تحریر موجود ہے۔ بارہ اصولوں میں بجلی کم استعمال کرنا، فالتو بتیاں بجھا دینا، اہم اوقات میں بجلی کا کم استعمال کرنا وغیرہ شامل تھیں۔ میری بات ابھی جاری ہی تھی کہ اس نے ٹوک کر مجھے بتایا کہ واپڈا اور آپ میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ جہاں میٹر ہی نہیں وہاں مزید بجلی بچانے کا سوال ہی کیا ہے؟ اس نے بل اٹھائے اور واپڈا کے مزید دھکے کھانے کے لئے روانہ ہوگیا۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429946 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.