ماں پیاری ماں

اس ظلم کی دنیا میں فقط پیار میری ماں
ہے میرے لیے سایہ دیوار میری ماں
نفرت کے جزیروں سے محبت کی حدوں تک
بس پیار ہے بس پیار ہے بس پیار میری ماں
ماں کی عظمت واہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے،وہ ماں جس نے 9 ماہ بچے کو پیٹ میں رکھا اور پھر اسے تکا لیف اٹھا کرپیدا کیا اسے 2سال اپنا دودھ پلایا اور پرورش کی ۔اسی وجہ سے تو ماں کا مرتبہ عظمت کی بلند یوں کو چھور رہا ہے ،ماں کی شان میں مفکرین نے بھی بہت کچھ کہا ہے ،ایک مفکر کا قول ہے کہ ماں کے بغیر گھر قبرستان ہیں،حقیقتاً ایک ماں سے ہی گھر کی رونق ہے ،وہ نہ صرف اپنے بچوں کو دل وجان سے عزیز رکھتی ہے بلکہ ان پر جان تک نچھاور کر نے کیلئے تیاررہتی ہے ،ایک بچہ جب بہت کمزور اور نحیف ہو تا ہے ،اسے ماں کے سہارے اور پیار کی ضرورت ہوتی ہے تووہ اسے اپنا پیار دیتی ہے، اسے اپنا سا یہ دیتی ہے،جب وہ چلنا سیکھتا ہے تو انگلی پکڑ کر اسے چلا تی ہے اور جب وہ گرتا ہے توسنبھا لنے کیلئے بے اختیار لپکتی ہے،اس کا دل بے اختیار دھڑک اٹھتا ہے اوروہ ڈر جاتی ہے کہ اس کے بچے کو خدا نخواستہ چوٹ نہ لگی ہو،ماں اس کے کمزور سے وجود کو مضبوط بنانے کی فکر میں مبتلا رہتی ہے،وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اسے دیکھتی ہے کہ کہیں وہ کسی تکلیف میں نہ ہو اوروہ اسے مضبوط و توانا بنا نے کیلئے ہرجتن کرتی ہے۔اسے اپنے بچے کی ہروقت فکرلاحق رہتی ہے،اگر وہ لڑکا ہے تو اس کی اچھی تعلیم وتربیت کے خواب دیکھتی ہے،پھروہ اپنے سپنوں میں اسے بڑا ہوتا ہوا دیکھتی ہے،وہ اس سے بہت سی خواہشات وابستہ کرلیتی ہے،وہ اسے اپنے لیے مضبوط سہارے کے طور پر دیکھتی ہے،اگر یہ لڑکی ہے تووہ اسے اپنی رازدان اور معاون کے طور پر سوچتی ہے کہ اس کی بیٹی بڑی ہو کراس بہی خواہ ہوگی،وہ خواہش رکھتی ہے کہ اس کی بیٹی پڑھ لکھ کر ایک اچھے خاندان کی بنیاد بنے اور گھر کے کاموں میں اس کا ہا تھ بٹائے ،وہ اپنے بچوں کی تربیت اس انداز میں کرنا چاہتی ہے وہ اعلیٰ کردار کے حامل اچھے انسان بنیں۔ اس کے بچے زمانہ کے گرداب سے بچ جائیں اور بری صحبت سے بھی محفوظ رہیں اور ان پر کسی قسم کی کو ئی آنچ نہ آئے اور جب ان پر کو ئی تکلف دہ لمحہ آجائے تو تڑپ اٹھتی ہے،وہ سکون کی نیند نہیں سو سکتی،یہ وہی خوبیاں ہیں جو ایک مسلم معاشرے کی ماں میں قدرت نے رکھی ہیں، غیر مسلم معاشروں میں ماں اور اولا د کے درمیان فاصلے موجود ہیں لیکن مسلم معاشرہے میں ایسا نہیں ہے،ماں بچے کی تربیت کیلئے اس کی پہلی درسگا ہ ہوتی ہے اوروہ بیک وقت اپنے بچے کی ذہنی ،جسمانی اوراخلاقی تربیت کے فرائض انجام دیتی ہے ،اسے نہ صر ف بچوں کی گھر میں تعلیم اور توجہ کی فکر ہو تی ہے بلکہ اسکول میں اساتذہ کی جانب سے دی جانے والی تعلیم اور اس دوران آنے والے نشیب وفراز پربھی فکر مند رہتی ہے ،اپنے عمل وکر دار کے ذریعے وہ مستقبل کے کئی خاندانوں کی بنیاد رکھ رہی ہو تی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔

مسلم معاشرے میں ماں اولا د کو اپنے سینے سے لگا کر رکھتی ہے،لیکن یو پی وومغربی معاشروں میں ایسا نہیں ہے۔ جب بچوں کو ماں پاب کی شفقت اور پیار کی ضرورت ہوتی ہے تو ماں اور باپ زندگی کی رنگینوں میں گم ہوتے ہیں ،ایسے میں بچوں کو الگ کمروں میں سلا یا جاتا ہے ،تعلیم کیلئے انہیں ہا سٹل منتقل کر دیا جاتا ہے ،جب اولا دجوان ہو تی ہے تو وہی اولاد انہیں ان کے بڑھا پے میں اولڈ ہومز چھوڑ آتی ہے اور ان سے لا تعلق ہو جاتی ہے، مغرب میں یہ کلچر اپنے عروج پر ہے۔ہمار ے معاشرہ اس کی نفی کرتا ہے بچوں کو شروع ہی سے والدین اور بہن بھائیوں کی محبت کی تلقین کی جاتی ہے ،ایک دوسرے کا خیال رکھنے سے متعلق آگہی دی جاتی ہے ،مل جل کر رہنے کا عملی مظاہرہ بچپن سے لے کر جوانی اور پھر بڑھا پے تک جاری رہتا ہے ۔برے کاموں اور غلط باتوں پر ان میں خوف خدا پیدا کیا جا تا ہے ۔اسی لیے ہمارے یہاں ایک بچہ والدین سے یہ توقع رکھتا کہ اس کہ والدین ان سے دور ہوں نہ والدین توقع رکھتے کہ ان کی اولا د ان سے علیحد ہ ہو ۔اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ماں کو بڑا رتبہ عطا کیااور اس کے قدموں میں جنت رکھی ہے نبی مہربان حضرت محمد صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات اور احادیث مبار کہ سے ماں کی عظمت کا پتا چلتا ہے ۔آپ ؐچھوٹے تھے کی آپ کی والد حضرت آمنہ رضی اﷲ تعالی عنہا رحلت فرما گئیں ،آپؐدر یتیم کہلائے ۔
حضر معاویہ بن جاہمہ رضی اﷲ تعالی عنہہ فرماتے ہیں کہ میرے والد جاہمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہہ آپ ؐ کی خدمت میں حاضرہوئے اور کہا کہ اے اﷲ کے رسولؐ میں جہاد پر جا نا چاہتا ہوں آپ ؐ نے پوچھا کیا تمہاری ماں موجود ہے ،انہوں نے کہا ہا ں زندہ ہیں، آپؐ نے فرمایا جاؤ پھر تم اپنی ماں کی خدمت میں لگے رہو، تمہاری جنت ان کے قدموں تلے ہے جبکہ ایک اورمعروف حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک اورصحابی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے پوچھا کہ مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے ،آپؐ نے فرمایا تیری ماں ۔صحابی رسولؐ نے تین بار دریا فت کیا اور تینوں بار آپؐ نے یہی جواب دیا، پھر چوتھی بار دریافت پر آپ نے فرمایا باپ کا۔ آپ ؐاپنی والدہ کی شفقت ،محبت اور سایہ رحمت سے محروم رہے لیکن اس کے باوجود آپ اپنی والدہ حضرت آمنہ رضی اﷲ تعالی عنہا کی قبر مبارک پر جا کر بے اختیار روتے اور ان سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار فرماتے جبکہ آپ ؐکی اپنی رضائی والدہ سے ولہانہ محبت کی بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔
ماں اولا دکیلئے ایک مضبوط حصار ہو تی ہے ۔بقول شاعر
لاکھ اپنے گرد حفا ظت کی لکیریں کھینچو
ایک بھی ان میں نہیں ماں کی دعاؤں جیسی

وہ سرپائے محبت ہو تی ہے ،وہ کبھی اپنی اولاد کو بدعانہیں دیتی، نہ ہی اس کا برا چاہتی لیکن ماں کی بدعا میں اتنی طاقت ہو تی کہ یہ عرش کو بھی ہلا دیتی ہے ،ہمارے معاشرے میں بھی کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جس سے معاشرتی بے حسی کی عکاسی ہو تی ہے ،بچے جب بڑے اور توانا ہوتے ہیں تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں اب کسی کی ضرورت نہیں ہے،وہ خود مختاری حاصل کر نا چاہتے ہیں ،جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں ،وہ بیوی کے مقابلے میں ماں سے انصاف نہیں کرپا تے ۔بیوی کے کہنے پر ماں کو ٹھکرا دیتے ہیں یاا نہیں ایدھی ہوم جیسے ادروں میں چھوڑ آتے ہیں ،وہ ماں جو بچے کے بچپن وجوانی کی ہر اچھی بری بات کو صبر سے برداشت کرتی ہے اس کیلئے قربا نیاں دیتی ہے ،بڑھا پے کی دہلیز پرآنے والی ماں کی باتیں انہیں اب بری لگنے لگتی ہیں ،ان کا ماننا ہوتا ہے کہ ہمارے ماں پاپ نے اپنا اچھا وقت گزار لیا اب ہمارا دور ہے ،انہیں ہمیں تنہاچھوڑ دینا چاہیے، وہ برسوں دیکھ بھال کرنے والے ماں باپ کو تنہا کردیتے ہیں ،بسا اوقات وہ اپنی بیویوں کہنے پر ماں پا پ کو چھوڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے، ایسے میں ان کی آرزوئیں اور امنگیں ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں ،وہ اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں ،انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ جیتے جی مر گئے ہیں ۔پھر وہ سوچتے ہیں کہ اولا د نے جو بے وفائی کی ہے اس کی بیبتا کسے سنائیں ،پھر وہ اپنی بیبتا کسی اورکوسانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی اولاد کو کو ئی برا کہے ،اس بڑے ظلم کے باوجود اس ماں کا حوصلہ دیکھیے کہ وہ اپنی اولاد کو بددعانہیں دیتی بلکہ وہ ان کے حق میں دعا کرتی ہے اور اسی کا نام ممتا ہے لیکن شاید ایسا کرتے والوں کو علم نہیں ہوتا کہ وہ والدین کو ٹھکراکر درحقیقت اپنی زندگی میں سب سے بڑا گھاٹے کا سودا کر نے جا رہے ہیں ۔

اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے اورانہیں کسی بھی طرح اف تک کہنے سے منع فرمایا ہے اورماں باپ کے نافرمان کا ٹھکانہ جہنم بتا یا ہے ،مسلم معاشرہ میں ماں کا مرتبہ بہت بلند اور عظیم ہے اسی لیے ہمیں اپنی ماؤں کی خدمت کرنی چاہیے اگر ماں باپ دونوں دنیا میں موجود نہیں تو ان کی مغفرت کیلئے دعاکرنی چاہیے ،اعمال صالح کر کے ان کیلئے صدقہ جاریہ بننا چاہیے اور اگر کوئی ایک فرد حیات ہے تو اس کی خدمت میں کو ئی کسر نہیں اٹھا رکھنی چاہیے ۔
Zain Siddiqui
About the Author: Zain Siddiqui Read More Articles by Zain Siddiqui: 7 Articles with 4213 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.