تیسری جنس اور ہمارا معاشرہ

آج کا میرا موضوع ہمارے معاشرے کا بہت حساس پہلو ہے۔ بچپن میں مجھے ان سے بہت ڈر لگتا تھا۔ نہ جانے میں ان کو کیا سمجھتی تھی جو ایسا ہو تا تھا۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مجھے یہ پتہ چلا کہ کے ان سے ڈرا نہیں جا تا بلکہ یہ تو محبت کے لائق ہیں۔ہر کو ئی ان کو بری نظر سے دیکھتا ہے۔ان کا کیا قصور؟ اگر وہ نہ عورتوں میں شمار ہیں اور نہ مردوں میں۔ اگر انسان کو خود کو بنانے کا موقع مل جائے تو میں اس بات کی گارنٹی دیتی ہوکہ ہر کوئی وہی مٹی استعمال کرے گا۔جس سے وہ بہت خوبصورت بنے۔لیکن اگر خواجہ سراء اگر ایسے ہیں تو بھلا ان کا قصور ہے۔ہم تو اﷲ پاک کی رضا میں راضی رہنے والے امتی ہونے چاہییں تو پھر ہم ان خواجہ سراؤں کو اپنی زندگی کا حصہ کیوں نہیں بناتے؟کیوں ان سے بھاگتے ہیں۔ وہ ہم سے کئی درجے بہتر ہیں،وہ اﷲ پاک کی رضا میں بھی اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور ہم ان کا ہی مذاق اڑاتے ہیں۔انہیں قبول ہی نہیں کر پاتے۔کیوں آخر کیوں ہم ایسا کیوں کرتے ہیں۔ہم اپنی کون سی خامی کا بدلہ ان کا مذاق اڑا کر نکالتے ہیں۔بس ہاں شایدہم مکمل مرد ہیں اور شاید نہ مکمل عورت۔ جنہیں شاید ان کے گھر والے بھی قبول نہیں کو پاتے۔اگر خدانخواستہ ان کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے توکیا اگر اس کی تربیت گھر میں رکھ کر عا م بچوں کی طر ح کی جائے تو کیا وہ باہر جا کر پھر ناچ گانا کرئے گا؟کیا وہ اپنا ہاتھ کسی دوسرے کے سامنے پھیلائیں گے؟نہیں، ان کا بھی دل ہے، ان کے بھی جذبات ہیں۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ اپنے ماں، باپ، بہن، بھائیوں کے ساتھ ہنسیں بولیں،انکی زندگی کا حصہ بنیں، نہ کہ ان کے لیے گالی۔

پاکستان میں خواجہ سراؤں سے متعلق معلومات بہت محدود ہیں اور ان کے ضمن میں تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ہمارے معاشرے میں تحقیق کا کام عموما بہت کم کیا جاتا ہے اور ایسے کسی کام کی حوصلہ افزائی یا ستائش نہ ہونے کے برابرہے۔حال ہی میں سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کے بارے میں مقدمات کی سمات کرتے ہوئے جو ریمارکس اور فیصلے دیے اس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کو عام شہری کی حثییت سے حقوق ملنے کی امید پید ا ہوئی ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہیکو خواجہ سراء ہیں کیا؟ کیا وہ پیدائشی طور پر خواجو سراء ہوتے ہیں اور جیسا کہ دیو مالائی قصوں میں بیان کیا جاتا ہے کہ جب خواجہ سراؤں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کسی شخص کے گھر پر خواجہ پیدا ہوا ہے تو وہ اسے لینے پہنچ جاتے ہیں یا آختہ کرواتے ہیں۔ان کی طرز معاشرت کیا ہے،یہ کچھ ایسے سوال ہیں جس کے سوال کے لیے ہمیں صحافی اور لسانی حقوق کے کارکن اختر حسین بلوچ کی کتا ب, ُتیسری جنس سندھ کے خواجہ سراؤں کا پس منظر ، ان کے سماجی تعلقات،انتقال و تد فین کی رسومات ، مذہبی طور پر ان کی حثییت ،تاریخی پس منظر کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ُ

اگر اس معاشرے کے المیے کی بات کی جائے تو سوال یہ پید ا ہو تا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان کو کیسا دیکھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟اس معاشرے میں خواجہ سراؤں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی ان کو اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ خو اجہ سراؤں کی تین اقسام ہیں۔اولاکھڈے فقیر، دوئم میلائی کھدڈے،سوئم ناچورارقاص لڑکے شامل ہیں۔یوں تو انکے ناچنے گانے کا سلسلہ نو عمری میں ہی شروع ہو جاتا ہے ۔ انھیں اس حد تک بر بھلا کہا جاتا ہے اور اس حد تک برا سمجھا جاتا ہے کہ یہ لو گ ہر جگہ سے نکال دئیے جاتے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر خواجہ سرا ذہنی دباؤ اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر تنگ آکر ایسا ماحول ڈھونڈتے ہیں جو ان کے لیے ساز گار ہوتاہے۔

سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ یہ لوگ آخر اﷲ تعالی کے بنا ئے ہوئے بندے ہیں تو پھر ان لو گوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟یا شا ید ہمارے والدین ہماری تربیت ہی ایسی کرتے ہیں کے ہم انھیں اچھا نہیں سمجھتے۔ اس میں شاید قصور ہمارا خود کا بھی ہے کہ ہم نے ان خواجہ سراؤں کو بہت سی چیزوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔یہ لوگ بھی آخر انسان ہیں ،اس معاشرے کا حصہ ہیں پر یہ لوگ ایسے دھتکار دیے جاتے ہیں جیسے یہ لوگ اس معاشرے کا حصہ ہی نہیں۔جب خواجہ سرا معاشرے میں چاروں طرف سے دھتکار دیے جاتے ہیں تو ان میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو دوسرے کاموں میں پڑجاتے ہیں جیسے بھیک مانگنا،شادی بیاہ میں ڈانس کرنا اور جسم فروشی وغیرہ۔اور دوسری طرف کچھ خواجہ سراء ایسے بھی ہیں جو اپنی مدد آپ کے تحت تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ فن اورہنر سیکھنے بھی مصروف ہیں تاکہ وہ اپنے روز گار کے مواقعے تلاش کر سکیں۔

ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ان لوگوں کوایک عام شہری کی طرح سمجھیں اور برابری کے حقوق دیں۔ خداراہ انھیں قبول کر الیجیے ، ان کی عزت کیجیے اور معاشرے میں انھیں ہر جگہ شامل کیجیے وہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ ان کے ساتھ کافروں والا سلوک مت کیجیے ۔ہمیں تو کافروں کے ساتھ بھی برا سلوک کرنے کو نہیں کہا گیا تو ہم اپنے ہی مذہب کے لوگوں کے ساتھ برا سلوک کیوں کرتے ہیں۔میرا پیغام بھی بس یہی ہے کہ انھیں قبول کر لیجیے ۔ یہ بھی ہمارے اپنے ہیں۔ہمارے جیسا بھی انکا دل ہے۔ جو دھڑکتا بھی ہے ، جس میں درد بھی ہوتا ہے ، انکو اپنی نظروں حقیر مت کیجیے ۔ اگر خدانخواستہ اﷲ رب العزت نے آپ کو حقیر کر دیا تو اس وقت پچھتاوے کے سوا آپ کے پاس کچھ نہ ہو گا ۔اﷲ پاک ہم سب کو اچھے اعمال کرنے اورنیک لوگوں کی محبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
Anmol Rashid
About the Author: Anmol Rashid Read More Articles by Anmol Rashid: 4 Articles with 2548 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.