تختِ لاہور، ایک سوچ کا عکاس؟

یہ سوچ کسی لوئیر کلاس یا مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے شخص کی نہیں بلکہ۔۔ یہ ایک سرمایہ دار لی سوچ ہے۔ یہ سوچ محض اس نظام کو تحریر: مزمل گلزار پزیراائی دیتی ہے جس میں چندخاندان پوری ریاست کے وسائل پر قابض ہو کر سینکڑوں کی آبادی پر حکمرانی کرتے ہیں۔ انہیں عام آدمی سے کوئی غرض نہیں ۔ یہ لوگ غرور و تکبر کی جس بلندی سے عوام کو دیکھتے ہیں و ہ انہیں محض کیڑے دکھائی دیتے ہیں۔
آپ پنجاب کے دارلحکومت لاہور کا مشاہدہ کرلیں۔ یہ شہر آپکو تعمیرو ترقی کیساتھ ایک خاص قسم کی سوچ کی عکاسی کرتا نظر آئے گا۔ یہ کس قسم کی سوچ ہے اس بات کا اندازہ آپکو شہر کے منصوبوں کا جائیزہ لینے پر بخوبی ہو جائے گا۔

صوبہ پنجاب کی ڈویلپمنٹ کے لیے مختص بجٹ کا 40 فیصد سے زائد صرف لاہور پر سرف ہو رہا ہے۔ بہترین کارپیٹیڈ سڑکیں بنائی جا رہی ہیں جن پر غریب آدمی صبح سویرے روزی کی تلاش میں نکلتا ہے اوردن ڈھلنے کے بعد خالی ہاتھ واپس لوٹ آتا ہے۔ میٹروبس نے تو لاہور کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیے ہیں جس میں غریب آدمی بیٹھ کر وائی فائی سے اپنا پیٹ بھرتا ہے۔ اس خوبصورتی کی قیمت 30 بلین روپے ادا کی گئی۔ ابھی عوام اس صدمے سے نکلے ہی نہ تھے کہ حکومت کو اورنج لائین میٹرو ٹرین بنانے کا خیال آگیا۔ اس منصوبے پر 165 بلین روپے لاگت آئے گی جس میں پانچ بڑی یونیورسٹیاں اور کئی اسپتال بھی بن سکتے تھے۔

بات ابھی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ لاہور کو پیرس بنانے کے لیے ڈالفن پولیس فورس بھی متعارف کروا دی گئی ہے ۔ اس فورس کے قیام کے لیے وزیرِ اعلی صاحب نے 3 بلین روپے کی گرونٹ منظور کی ہے۔ یہ پولیس 250cc ہیوی بائیکس لیے لاہور کی سڑکوں پر گشت کرتی دکھائی دیتی ہے جنہیں دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے ملک کی حکومت ضرورت سے زیادہ امیر ہے۔ دوسری طرف لاہور کی محافظ پولیس جسے اخلاقی تربیت کے علاوہ جدید ٹریننگ اور اسلحے کی ضرورت ہے، اسے عوام کو اوقات میں رکھنے کے لیے لیٹسٹ ماڈل کرولا گاڑیاں عنایت کردی گئی ہیں۔ جبکہ ملک کی صورتِ حال یہ ہے کہ اس کا لٹریسی ریٹ صرف55 فیصد ہے۔ مزید اگر کوئی ڈگری حاصل کر بھی لیتا ہے تو اسے نوکری نہیں ملتی۔ غربت کا یہ عالم ہے کہ لوگ اپنے بچے بیچنے پر مجبور ہیں ورنہ خودکشی کو گلے لگا لیتے ہیں۔ اس حالات کے پیشِ نظر حکومت کی ترجیحات مزید پریشان کن صورتِ حال پیدا کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔

لاہور میں ٹرانسپورٹ پراجیکٹس پر موجودہ حکومت کی شاہ خرچیاں عوام پر بجلی بن کر گر رہی ہیں۔ گڈ گورننس کا پول سانحہ اقبال ٹاؤن پارک کے بعد ہی کھل گیا تھا جب محض 300 زخمیوں کو ایڈجسٹ کرنے میں شہر کے تمام سرکاری اسپتالوں میں جگہ ختم ہو گئی ۔ مریض اسپتالوں کے باہر ایمبولینسوں میں پڑے پڑے مرتے رہے۔ باقی جہاں تک سوال ہے پنجاب پولیس کا تو ان کی قابلیت کا پردہ چھوٹو گینگ نے فاش کردیا۔

تاریخ گواہ ہے کہ کوئی سرمایہ دار اپنی عوام میں شعور نہیں آنے دیتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر ان لوگوں میں شعور آگیا تو وہ سوال کریں گیااور وہ سوالات اس کے لیے پھانسی کا پھندہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ لہذا ایسے سرمایہ دار انہ سوچ رکھنے والے حکمران اپنے لوگوں کے لیے تعلیمی ادارے بنانے کی بجائے انہیں انکم سپورٹ جیسے پراجیکٹس کے ذریعے بھکاری بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

میرا حکومتی نمائیندوں کو مشورہ ہے کہ وہ اپنی سوچ کو اب عوام کے لیے بدلیں کیونکہ اب وہ پہلے سا زمانہ نہیں رہا۔ اب تبدیلی کی لہر اٹھ رہی ہے۔ اب میڈیاعام لوگوں کی آواز بن رہا ہے۔ آپ عوام کی بھلائی کے لیے سوچیں۔ پورے پنجاب میں برابری کی سطح پر کام کروائیں۔ جنوبی پنجاب کو بھی محرومیوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر لگائیں۔ اس کے لیے خصوصی بجٹ قائم کریں تاکہ وہاں کے لوگوں کو بجلی، گیس ، صاف پانی وغیرہ جیسی بنیادی ضروریاتِ زندگی تو فراہم ہو سکیں۔ اس ملک کے عوام کو کو ٹرانسپورٹ پراجیکٹس سے پہلے انصاف اور تحفظ کی ضرورت ہے، اچھے اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے۔ اور اگر اب بھی ایسا نہ ہو ا تو آنے والے انتخابات میں عوام آپکو بھی بری طرح ریجیکٹ کردے گی۔ اپنی سوچ کوغریب عادمی کے لیے بدلیں!
Muzammil Gulzar
About the Author: Muzammil Gulzar Read More Articles by Muzammil Gulzar: 2 Articles with 1259 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.