ڈرائیونگ لائسنس کا حصول

سائیکل سوار کو 600 روپے کا چالان پکڑایا گیا۔ سائیکل چلانے کے لیے لائسنس حاصل کرنا لازم قرار۔

قارئین کرام ! جب ٹریفک پولیس سے حالات نہ سنبھل سکے تو وہ مختلف حربے استعمال کرنے پر آجاتے ہیں۔ کبھی سڑکیں ون وے کر دی جاتی ہے۔ کبھی ریڑھیوں پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ کبھی گدھا گاڑی والے کو چالان تھمایا جاتا ہے۔ کبھی سائیکل چلانے کے لیے لائسنس لازم قرار دیا جاتا ہے۔

آج سے چند دن پہلے ایک سائیکل سوار کو ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے کی بنا پر چالان کیا گیا۔ سائیکل سوار کو 600 روپے کا پرچہ دینے والے پولیس آفیسر کے مطابق سائیکل چلانے کے لیے بھی ڈرائیونگ لائسنس لازم ہے۔ چند ماہ پہلے کراچی میں ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے والے ڈرائیوروں کی گرفتاری کا قانون منظور کیا گیا تھا۔ فوری طور پر پکڑ دکڑ کا سلسلہ شروع کیا گیا جو بعد میں ایک ماہ کے لیے مؤخر کیا گیا۔ مہینہ گزرتے گزرتے قانون بھی دفن ہو گیا۔ملک بھر میں جہاں دوسرے مسائل میں آئے روز اضافہ ہوتا رہتا ہے وہاں بڑھتی ہوئی ٹریفک قابل تشویش ہے۔ گاڑیوں کا اژدھام اور تنگ سڑکیں ٹریفک جام کے باعث بنتے ہیں۔ کم عمر اور غیر تجربہ کار ڈرائیوروں کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ روزانہ کئی قیمتی جانیں ان حادثات کے نظر ہو جاتی ہیں۔

وطن عزیز میں ڈرائیونگ لائسنس کا حصول چند نوٹوں کے فاصلے پر تھا۔ نظام میں بہتری لانے کے لیے اور غیر تجربہ کار افراد کا راستہ روکھنے کے لیے کمپیوٹرائز ڈرائیونگ لائسنس کو متعارف کیا گیا۔ نئے لائسنس میں جہاں غیر اہل لوگوں کا راستہ کسی حد تک روکھا گیا وہاں اس نظام میں خرابیاں بھی پائی گئی۔ لائسنس کا حصول یورپی ممالک کے گرین کارڈ سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ فزیکل فٹنس سرٹیفیکیٹ، پولیس کلیئرنس اور لرنر کے باوجود لائسنس کا ملنا محال ہوتا ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کا عمل جتنا آسان ہونا چاہئے تھا اتنا ہی پیچیدہ ہے۔ پرانا لائسنس فیس کے ساتھ جمع کراکر ایک پرچی دی جاتی ہے۔ اس پر درج تاریخ کے بعد بھی دفتر کے چکر کاٹے جاتے ہیں لیکن لائسنس کا حصول نا ممکن۔

راقم نے خود بھی جنوری میں لائسنس کی تجدید کا داخلہ کیا ہے جو کہ ابھی تک نہ مل آسکا۔ صرف یہی نہیں بلکہ عملہ کے مطابق اکتوبر تک لائسنس کے بننے کا کوئی امکان نہیں۔ ایک طرف تو گدھا گاڑی اور سائیکل چلانے کے لیے لائسنس کا حصول لازم قرار دیا گیا ہے۔ دوسری طرف لائسنس بننے کے لیے نہ عملہ موجود ہے اور نہ ہی پیپر۔ تبدیلی لانے والوں نے لائسنس کو کمپیوٹرائز تو کر دیا لیکن لائسنس بنانے والے کاغذ کا انتظام نہ کر سکی۔ 6 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی متعلقہ ادارہ ٹریفک پولیس کو لائسنس سکینرز مہیا نہ کرسکی۔ دور جدید میں محکمہ کے ویب سائٹ پر کمپیوٹرائز ہونے کے باوجود بھی کسی بھی لائسنس ہولڈر کا ریکارڈ موجود نہیں۔

متعلقہ حکام و ادارے ان بے قاعدگیوں کا نوٹس لے کر نظام کے شفافیت کے لیے اقدامات کریں اور جلد از جلد لائسنس کے اجرا کو یقینی بنائے۔
 
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 76209 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.