رابندر ناتھ ٹیگور۔بنگالی زبان کا شیکسپئر

رابندر ناتھ ٹیگور

7مئی دنیائے ادب کی نامور شخصیت شاعر، ناول نگار، ڈرامہ نگار، مکالمہ نگار، موسیقار ،نغمہ نگار ، مصور (پینٹر)، فلسفی، اداکار اور تعلیم کے شعبہ میں اعلیٰ خدمات انجام دینے والے رابندر ناتھ ٹیگور کا 155واں یوم پیدائش ہے۔ ٹیگور 7مئی 1861ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے ، ہندوستان پر اس وقت برطانوی راج تھا۔ اس کی زبان بنگالی اورانگریزی تھی۔نسلاًبرطانوی انڈین اور قومیت بنگالی تھا۔ اس کا اصل نام رویندر ناتھ ٹھاکر تھا۔ یہ ٹھاکر سے ٹیگور بن گیا۔ ٹیگور کم عمری میں ہی لکھنے کی جانب راغب ہوا، اس کی اولین کتاب اس وقت شائع ہوئی جب اس کی عمر 17برس تھی۔ ٹیگور کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل نہیں کی وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے 1878میں انگلستان گیا لیکن کچھ عرصہ بعد ہی ڈگری لیے بغیر واپس آگیا اور فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنے طور پر علم حاصل کرے گا اور اپنی شخصیت کی تعمیر کرے گا اور اس نے ایسا ہی کیا اور کامیاب بھی ہوا۔ انہوں نے اپنے طور پر بنگالی، سنسکرت اور انگریزی زبانوں پر ایسا عبور حاصل کیا جس نے انہیں دنیا کا صف اول کا قلم کار بنا دیا۔ٹیگور نے بنگال میں ایک مدرسہ قائم کیا جس نے بہت جلد ایک جدید جامعہ کی صورت اختیار کرلی۔ ٹیگور بنیادی طور پر بنگالی زبان میں نثر لکھی اور شاعر کی ، ساتھ ہی اس نے اپنی تحریروں کا انگریزی ترجمہ بھی کیا جس سے اُسے بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کی شاعری کو بہت پسند کیا گیا یہاں تک کہ اسے 1913میں ادب کے شعبے میں ایشیا کا پہلا نوبل انعام شاعر کی حیثیت سے دیا گیا۔ تاجِ برطانیہ نے دوسال بعد 1915میں اسے ’سر‘ کے خطاب سے نوازا، برطانوی اعزازات واپس کرنے کی متعدد مثالی موجود ہیں ٹیگور نے بھی برطانوی اعزاز واپس کر نے کی روایت کو برقرار رکھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزکی حکمرانی کے دوران جب جلیانوالہ باغ، پنجاب میں جنرل ڈائر کے احکامات پر ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا گیا ، نہتے لوگوں پر گولیا برسائی گئیں جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گاہ انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ انگریز کی دہشت گردی، بربریت اورظلم و ستم پر ٹیگور نے احتجاج کرتے ہوئے اپنا نوبل انعام واپس کردیا۔ ٹیگور کے اس اقدام کو برصغیر میں پذیرائی ملی اور وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ ٹیگور کیونکہ بنگالی تھااسے بنگالی زبان کا شیکسپئر بھی کہا جاتا ہے ۔بنگلہ دیش کا قومی ترانہ اسی کا لکھا ہوا نغمہ ہے جو اس نے کبھی لکھا ہوگا۔ اس لیے کہ ٹیگور کا انتقال تو قیام پاکستان سے بھی پہلے ہوگیا تھا۔ٹیگور میں قوم پرستی کے جذبات پائے جاتے تھے۔ وہ شروع ہی سے بنگال کی خود مختاری کے حق میں تھا۔

ٹیگورکی قوم پوستی اپنی جگہ لیکن وہ ایک اعلیٰ درجہ کا فلسفہ اور شاعر بھی تھا۔اسے رومی، گوئٹے، بلھے شاہ اور وارث شاہ کا ہم پلہ فلسفی اور شاعر تصور کیا جاتا ہے۔ وہ جتنا اچھا شاعر تھا اتنا اچھا نثر نگار بھی۔ اسے دنیا کے چند بڑے ناول نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ٹیگور کا ناول ’کابلی ولا‘ معروف ناول ہے جس کا 36زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اس موضوع پر ہندی اور اردو میں فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ دیگر ناولوں میں ٹاٹا گھونسلہ، گری رنگت والا، گھر اور دنیا، عمل در عمل شامل ہیں۔ ٹیگور کی نظم ’سونیٹ‘ جو انگریزی زبان میں ہے بہت مشہور اور شاعری میں بلند مقام رکھتی ہے۔ ٹیگور کی کتاب ’زبان کی سائنس‘ مختلف زبانوں کے تاریخی ارتقا پر مستند کتاب تصور کی جاتی ہے۔ ٹیگور ایک اچھا مصور ہونے کے ساتھ ساتھ اداکار بھی تھا، اس نے کچھ عرصہ عملی طور پر اداکاری بھی کی۔ وہ بہترین گیت نگار بھی تھا اس نے تین ہزار گیت اور سات ڈرامے تحریر کیے۔ اس کے مشہور ڈراموں میں ’ڈاک گھر‘، ’راجا‘ والمیکی کی ذہانت، چڑھاوا، راجا، ڈاک گھراور ’گورا‘، بے حرکت ، آبشار، سرخ کنیز شامل ہیں۔ بنگالی زبان میں ٹیگور کی شاعری کے مجموعوں میں بھانو سمہ ٹکا کے نغمے، مثالی، سونے کی کشتی، گیتا جلی، گیت مالا، کرین کی اڑان شامل ہیں۔ ٹیگور نے اپنی یادداشتیں بھی مرتب کیں جو جیون سمرتی یعنی ’میری یادیں‘ اور چھلبیلا یعنی’ میرے لڑکپن کے دن ‘کے نام سے منظر عام پر آئیں۔ ٹیگورنے 150 سے زیادہ کتب تحریر کیں جن میں سے بیشتر کا دنیا کے بے شمار زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ ٹیگور کی علمیت و قابلیت اور مختلف علوم پر دسترس نے اسے عالمی سطح کا مفکر اور دانشور بنا دیا تھا۔ اسے دنیا کے بڑی جامعات نے لیکچر کی دعوت دی وہ ان تمام جامعات میں گیا اور خطاب کیا۔

پاکستان کے حوالے سے ٹیگور اختلافی شخصیت بھی رہا ۔ کیونکہ وہ بنیادی طور پر بنگالی تھا۔ اس حوالے سے یقینا اس کی تمام تر ہمدردیاں اور محبت بنگال اور بنگلہ کے لیے رہی ہوں گی۔ بنگلہ دیش کے قیام اس کے مرنے کے بعد ہوا۔ جہاں تک ادب اور ادیب کا تعلق ہے اس کی قومیت کچھ بھی ہو، وہ کوئی زبان بھی بولتا ہو اسے محدود نہیں کیا جاسکتا، اس بنیاد پر کہ وہ بنگلہ دیشی ہے، ہندوستان یا بھارتی یا ہندی زبان بولتا ہے، انگریز ہے، جرمن ہے، فرانسیسی ہے، چینی یا جاپانی الغرض اس کی زبان اور ملک ور قومیت کچھ بھی ہو وہ ادب اور ادیب ہے اسے کسی دائرے میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ ادب اور ادیب عالمی طور پر ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ان کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے یعنی ادب کا فروغ۔ علامہ اقبال جو شاعر مشرق اور پاکستان کا تصور پیش کرنے کے خالق ہیں ، ان کی شاعری کو اور ان کی شاعرانہ حیثیت کو بھارت میں آج بھی تسلیم کیا جاتا ان کا تحریر کردہ ترانہ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ وہا ں آج بھی گایا جاتا ۔ کتنے ہی شاعر و ادیب ایسے ہیں جنہوں نے پاکستان ہجرت نہیں کی لیکن وہ اردو کے نامور ادیبوں اور شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ہندومت سے تعلق رکھنے والے کرشن چندر، منشی پریم چند، فراق گورکھپوری، بیدی اردو کے ادیبوں میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق نے منشی پریم چند کو اردو افسانہ نگاروں کا سرتاج کہا ۔ ایوب خان کے دور حکمرانی میں ٹیگور کے گانوں پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن ادیبوں اور دشاعروں نے اسے پسند نہیں کیا اس کے خلاف آواز بلند کی یہاں تک کہ حکومت کو اپنا اقدام واپس لینا پڑا۔ ٹیگور نے مرینالیلیٰ دیوی سے 1883میں شادی کی ،اس کے پانچ بچے ہوئے جن میں سے دو کم عمری میں ہی انتقال کر گئے۔ ٹیگور کا انتقال 7اگست 1941میں 80سال کی عمر میں ہوا۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1281239 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More