چائلڈ لیبر اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہو گا

1 MAYیکم مئی عالمی یوم مزدور ہر سال دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے یہ دن ان محنت کشوں کی یاد میں منایا جاتا ے جنھوں نے اپنے جائز اور بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا یہ 1860 کی بات ہے جب مزدوروں اور محنت کشوں کو کوئی حقوق حاصل نہیں تھے، لیکن کیا آج بھی مزدوروں کو حقوق حاصل ہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب قانون کی کتابوں کے مطابق تو ہاں ہے مگر درحقیقت مزدور اور محنت کش طبقہ آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے نہ صرف نامحروم ہے بلکہ ناآشنا بھی ہے۔ پاکستان میں مزدور اور محنت کشوں کے حقوق کے حوالے سے بہت سے قوانین بن چکے ہیں جن میں سے ایک قانون چائلڈ لیبر کے حوالے سے بہت سے قوانین بن چکے ہیں جن میں سے ایک قانون چائلڈ لیبر کے حوالے سے بھی ہے جس کے مطابق 14 سال سے کم عمر کے بچوں سے کسی بھی قسم کی جسمانی مشقت لینا قانوناً جرم ہے، مگر کیا درحقیقت ایسا ہی ہے جیسا کہ ہماری قانونی کی کتابوں میں لکھا ہے۔ اس کا جواب ہمیں اپنے اردگرد کام کرتے معصوم بچوں کو دیکھ کر مل جائے گا؟ جس عمر میں انہیں اسکول جانا چاہیے، کھیلنا کودنا چاہیے اس عمر میں غربت بھوک اور افلاس نے انہیں حصول رزق میں لگا دیا ہے۔ جن ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہیے ان ہاتھوں میں محنت مشقت سے چھالے پڑ گئے ہیں۔
افلاس کی بستی میں جا کر تو دیکھو
جہاں بچے تو ہوتے ہیں مگر بچپن نہیں ہوتا

ہم آخر کب تک اس حقیقت سے نظریں چرائیں گے کہ یہ بستیاں بھی ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں۔ پاکستان میں غربت کی شرح 50 فیصد سے زیادہ ہے اور اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں، وہ دن رات حصول رزق میں کوشاں رہتے ہیں کیوں کہ ! ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات۔ ان کےگھر کا ہر فرد کام کرتا ہے اور دن بھر کی محنت مشقت کے بعد ان کو ایک وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے تو دوسرے وقت کی فکر ستاتی ہے اور ہمارا ملک جہاں آئے روز ہنگامے، ہڑتال اور یومِ سوگ کے نام پر شہر کئی کئی دن بند رہتا ہے ایسے میں ان خاندانوں پر کیا گزرتی ہو گی جو روز کماتے اور برا بھلا کہ کر سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہو گیا اور ارباب اختیار جن کے گھروں میں دو افراد کے لیے بیس لوگوں کا کھانا پکتا ہے۔
غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں

اس غربت کو دور کرنے کا آسان حل اسلامی اصولوں میں پوشیدہ ہے، زکاۃ جیسے فرض رکن کو اپنا کر ہم اس غربت سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ جن کے پاس دولت ہے وہ اس میں سے ایک خاص حصہ ان لوگوں کو دیں جن کے پاس دولت نہیں ہے یہ حکم الٰہی بھی ہے اور ہم پر فرض بھی، تاکہ معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہو سکے۔ اگر ہم معاشرے سے بھوک اور افلاس ختم کرنا چاہتے ہیں ان پھول سے بچوں کو کملانے سے روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں خود ہی قدم بڑھانا ہو گا۔ ہمیں اپنے اسلامی اصولوں کو اپنانا ہو گا۔ ہم ارباب اختیار کے کسی اقدام کا انتظار کیوں اور کب تک کریں؟ خود ہی کوئی قدم کیوں نہ ٹھائیں؟ چائلڈ لیبر کو روکنے کی ابتداء ہمیں اپنے گھر سے کرنی ہو گی اپنے گھر میں کسی بھی کام کے لیے بچوں کو نہ رکھیں۔ اپنی بساط کے مطابق ان کی مدد کریں ہو سکے تو انہیں اسکول میں داخل کروائیں۔ ان کو پڑھائیں۔ علم کا دیا جلائیں، پھر دیے سے دیا جلے گا اور علم کا دیا تو ہر تاریکی کو مٹا دیتا ہے۔ ان معصوم کلیوں کو کھلنے تو دیں اس چمن (پاکستان) کی فضا کو معطر کر دیں گے۔ ان تاروں کو چمکنے کا موقع تو دیں یہ ہماری راھگزر کو کہکشاں بنا دیں گے۔ آپ اپنے حصے کا دیا جلائیں اور اندھیروں کو دور کریں۔
کچھ نہیں ہو گا اندھیروں کو برا کہنے سے
ہمیں اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہو گا
Shumaila Shafaq
About the Author: Shumaila Shafaq Read More Articles by Shumaila Shafaq: 10 Articles with 8239 views Columnist / Creative writer
MA – Mass Communication
ALSO
Creative, resourceful teacher with proven ability to enhance students’ performance, pos
.. View More