ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

 دنیا کے تقریباُ 80 ممالک میں آج یکم مئی مزدور ڈے کے طور پر منایا جا تاہے۔اس دن کا آغاز تب ہوا جب 1886 ء میں Haymarketمیں ہونے والے قتل عام کے نتیجے میں شکا گو کے ایک شخص نے پولیس پرڈائنا مائٹ بم پھینکا ھس کی وجہ سے ایک عام ہڑتال کے دوران پولیس ورکرز پر بھی فائرنگ کی گئی تھی۔1891ء میں سکینڈ نیشنل کانگریس میٹنگ کے دوران اس دن کو منانے کے لیئے مئی ڈے کا خطاب ملا۔ جبکہ یونائٹیڈ اسٹیٹس اور کینڈا میں لیبر ڈے ستمبر میں منایا جاتاہے۔1995ئمیں کتھولک چرچ نے یکم مئی حضرت عیسی اور انکے حواریوں سے واقف کر دیا۔اگر ہم یکم مئی کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں دنیا کے مختلف ممالک میں اس دن سے منسلک کسی نہ کسی دن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تاہم ذیادہ تر ممالک میں یکم مئی لیبر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔جن میں سے پاکستان بھی ایک ہے۔ یکم مئی کو ملک بھر میں مزدوروں کے لیے جلسے جلوسوں اور کانفرنسز کا انقعادکیا جاتاہے۔ مزدوروں کے حق میں تقاریر کی جاتی ہیں اور اس دن سرکاری اور غیر سرکاری طور پر اداروں میں چھٹی ہوتی ہے۔
اس شہر میں مزدور جیسا دربدر کوئی نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کوئی نہیں

غیر رسمی معشیت سے وابستہ محنت کش بری طرح غربت کے پھندے میں جکڑے ہوئے ہیں۔پاکستان میں غیر رسمی مزدور بڑی تعداد میں ہیں جن کا استحصال کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں،مزدور تنطیموں کے باوجودان کے حق میں آواز نہیں اٹھائی جاتی۔اسلام میں بھی مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے بہت سی باتیں بتا ئی گئی ہیں۔اس حوالے سے آپﷺ کا ارشاد ہے،جس کا مفہوم یہ ہے کہ مزدور کو جس کی روزی اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دینی چاہیے۔اس کے بعد تو ہم پر بھی لازم ہے کے ہم بھی اپنے گھر میں کام کرنے والوں کا خیال رکھیں، ان کے حقوق کا خاص خیال رکھیں۔ پا کستان میں بھی مزدور پالیسی کا آغاز 1972 ء میں ہوا۔ 1972ء سے پہلے مزدوروں کے لیے نہ تو کوئی قانون تھا اور نہ ہی نسی پالیسی کا آغاز ہواتھا۔پاکستان میں مزدور پالیسی کا با قاعدودہ آغاز 1972ء میں ہوا۔ یکم مئی کوقانونی طور پر مزدور ڈے کا خطاب دے دیا گیا۔آج پاکستان انٹرنیشنل آرگنائزیشن کا ممبر ہے۔جس کا مقصد مزدورں کو معاشی حقوق دینا اور انھیں ان کے حق کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔یکم مئی آتے ہی ہوجگہ مزدوروں کے حوالے سے ایک شعور جاگ جاتاہے۔اور ٹی وی پر اینکرز اور تما م چوٹے بڑے سیاستدان بہت سی باتیں اور وعدے کرتے ہیں۔اس حوالے سے محتلف ڈاکیومنٹریز بھی چلائی جاتی ہیں،مگر اگلے دن گیا بات گئی والا حساب ہوجاتا ہے۔سب لوگ سب کچھ بھول جا تے ہیں،اور ہر کوئی آنے والے نئے ایونٹ پر بات کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے۔اگر یکم مئی کے لیے اتنا ہی کا فی ہے تو شکریا۔ یہ ہمیں خوشی ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس دن کو بھلایا نہیں گیا۔شکریہ اس لیے بھی ادا کرنا چاہیے کے لوگوں کو یاد دلایا گیا اور انھیں بتایا گیا کو اس دن کے لیے ابھی آپکے احساسات زندہ ہیں۔بہت شکریا جن سب تقاریر کا جو کی گیئں اور وہ سب بڑے بڑے وعدے جو کیے گئے ۔تو کیا ہوا انھیں دن کے اختتام پر ڈسٹ کی نظر کردیا گیا۔ خیرکوئی بات نہیں پاکستان میں تو اب ان سب چیزوں کی عادت ہو جانی چاہیے۔ لکھنے سے لے کربولنے تک ہم سب ایک ہی جیسے ایکٹ اور ایک ہی جیسے کردار کا شکار ہیں۔لیکن ٹھرئیے ، رکئیے، اور ذرا سوچیئے ان ننھے ہاتھوں کو جو پاکستان کا مستقبل تھے۔لیکن اب یہ بچے گرم اینٹیں بنانے میں بھٹی میں ، اور کھیتوں میں مصروف ہیں۔ آپ نے ذرا کبھی سوچا ہے ان لوگوں کے بارے میں جو ما سٹرز کی ڈگری لینے کے باوجود بھی کسی مل اور فیکٹری میں معمولی سی ملازمت کر رہے ہیں۔ کہنے کو ہم یکم مئی کوپورے ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری طور پر چھٹی ہوتی ہے۔

حکومت بین الا قوامی سا مراجی پالیسی سازوں کی ایما پر محنت کش عوام سے تما م تر مراعات چھین وہی ہے۔بجلی گیس پر ملنے والی ریاستی رعایت (سبسڈی) بتد ریج واپس لے لی گئی ہے اور سماج سوشل ڈارون ازم کے اصول کے تحت چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے،جس کا واحد مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس جتنی دولت ہے وہ اتنی ہی بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔جس کے پاس پیسہ ہے وہ علا ج کروائے ، تعلیم، بجلی،پانی ،اور گیس حاصل کرے اور جو پیسے سے محروم ہے اس کے لیے زندگی میں اندھیرا ہی اندھیراہے۔اس گمبھیر صورت حال میں جب مزدور قانون میں دیے گئے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہے تواسے زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یونین سازی بنیادی حق ہے، لیکن کراچی اور فیصل آبا دمیں پاور لومز کے ورکرز یرنین بنانے کی پاداش میں، دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت درجنوں مقدمات قائم کیے گئے۔آج محنت کشوں کی جدوجہد کی علامت اور عظیم دن اس امر کی تجدید کرنے کا دیتا ہیکہ مزدوروں کوبحثثیت طبقہ اپنی بقا اور قانون حقوق کے حصول کے لیے ایک منظم ٹریڈ یونین سبق اورمز دور تحریک کی اشد ضرورت ہے،جوحالات کا مکمل ادراک رکھتی ہو اور مزدوروں پر سرمایہ داروں اوو حکومت کی جانب سے ہونے والے مہلک حملوں کا جواب دینے کی ٹھوس حکمت عملی رکھتی ہو۔یہ کام ایک ایسی مزدوز تحریک اور ٹریڈیونین ہی کر سکتی ہے جس کی قیادت سیاسی اور نظریاتی طور پر طبقاتی شعور سے لیس ہو۔مزدور طبقوں کے ذہنوں کومذہبی،فرقہ ورانہ لسانی اور نسلی تعصبات پرمبنی جہالت کے اندھیروں اور بالادست طبقات کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کے اثر سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کے ان کے بنیادی حقوق اور روز مرہ کے مسائل پر منظم ہوکر جدو جہد کا آغاز کیا جائے۔جو کہ مزدوروں کسانوں اور محنت کرنے والے عام انسانوں کی ایک انقلابی سیاسی کی جانب لے کر جائے گا۔

محنت کس طبقہ کب عہد ہے کہ وہ یکم مئی کے شہدا کی قربانیوں کو رائیگا نہیں جانے دیں گے کرہ ارض سے سرمائے کر کے بربریت اور وحشت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے گا۔ اس لیے کہ ُمزدوروں کو اپنی زنجیروں کے سوا کھونا ہی کیا ہے اور پانے کے لیے ساری کائنات پڑی ہے۔‘
یہاں مزدور کو مرنے کی جلدی یوں بھی ہے محسن
کہ زندگی کی کشمکش میں کفن مہنگا نہ ہو جائے
Anmol Rashid
About the Author: Anmol Rashid Read More Articles by Anmol Rashid: 4 Articles with 2546 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.