نایاب دہشت گرد

نی ایک انمول نعمت ہے، قدرت کا ایک حسین تحفہ، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تو پانی زندگی ہے لیکن ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے یہ ایک دہشت گرد بن چکا ہے، کیونکہ ہم جو پانی پیتے ہیں وہ مضر صحت ہے، گندہ اور آلودہ ہے ، ہر طرح کی مہلک بیماریوں کے جراثیم سے بھرا ہوا، تقریباً 24مختلف قسم کی مہلک اور وبائی امراض ہیں جن کا سبب گندہ اور آلودہ پانی ہے، ان بیماریوں کا شکار ہو کر پوری دنیا میں ہر سال تقریباً آٹھ لاکھ بیالیس ہزار افراد موت کا شکار ہو جاتے ہیں، گندے اور آلودہ پانی کے متعلق کیا کرنا ہے، عوام تک صاف پانی کب تک اور کیسے پہنچانا ہے اس بات کا فیصلہ 2025کے بعد کیا جائے گا کیونکہ 2025تک تو حکومت لوگوں کو صرف یہ بتائے گی کہ پانی ملک میں نایاب ہو رہا ہے،
اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی دہشت گردی سے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں، پوری دنیا اپنے قیمتی وسائل کا بے دریغ استعمال کر کے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے سر توڑ کوششیں کر رہی ہے، پاکستان میں بھی دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب جاری ہے اور جہاں کہیں بھی دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاعات ملتی ہیں وہاں فوراً آپریشن کر کے ان کو ختم کیا جاتا ہے۔ ہمارے بہادر جوان اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر قوم کے تحفظ اور سلامتی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دہشت گردوں سے علاقے خالی کرائے جا رہے ہیں اور ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن ایک دہشت گردایسا بھی ہے جو ابھی تک بچا ہوا ہے، سر عام دندناتا پھررہاہے ، سب جانتے ہیں لیکن اس کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی۔ سب کو اطلاعات ہیں کہ وہ کہاں ہے اور کیا کاروائی کر رہا ہے، لیکن پھر بھی اس کے خلاف کچھ نہیں ہو رہا۔ اس نے قوم کو جتنا نقصان پہنچایا ہے شاید ہی کسی اور نے پہنچایا ہو۔ اس کی دہشت گردی کا آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ یہ روزانہ تقریباً 650بچوں کی جان لے جاتا ہے۔ کروڑوں لوگوں کو ہسپتالوں میں پہنچا دیتا ہے اور لاکھوں لوگوں کو ہر سال مار دیتا ہے اس کے علاوہ معیشت کو سالانہ کروڑوں، اربوں روپے کا نقصان بھی پہنچا رہا ہے۔ لیکن اس کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی، بس کسی جلسے میں یا تقریر میں کبھی کبھارکوئی اس کے خلاف بات کرتا ہے اور بس۔ آپ سب بھی اس دہشت گرد سے خوب واقف ہیں اور اس کا نام بھی جانتے ہیں، کیونکہ ہم سب کی زندگیوں کا دارومدار اس پر ہے، اس دہشت گرد کا نام ہے پانی۔ ۔۔جی ، پانی ایک انمول نعمت ہے، قدرت کا ایک حسین تحفہ، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تو پانی زندگی ہے لیکن ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے یہ ایک دہشت گرد بن چکا ہے، کیونکہ ہم جو پانی پیتے ہیں وہ مضر صحت ہے، گندہ اور آلودہ ہے ، ہر طرح کی مہلک بیماریوں کے جراثیم سے بھرا ہوا، اسی پانی کو جب ہم پیتے ہیں، نہاتے ہیں، کھانا تیار کرتے ہیں تو یہ جراثیم ہمارے اندر سرایت کر جاتے ہیں ، ہمیں بیمار بنا دیتے ہیں۔ یہ گندہ اور آلودہ پانی ہر سال لاکھوں، کروڑوں لوگوں کی جان لے لیتا ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعدادو شمار کے مطابق تقریباً 24مختلف قسم کی مہلک اور وبائی امراض ہیں جن کا سبب گندہ اور آلودہ پانی ہے، ان بیماریوں کا شکار ہو کر پوری دنیا میں ہر سال تقریباً آٹھ لاکھ بیالیس ہزار افراد موت کا شکار ہو جاتے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد ایسے معصوم بچوں کی ہے جن کی عمریں پانچ سال یا اس سے بھی کم ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ ان تمام انسانوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کر کے مرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں پینے کا صاف پانی بہت کم لوگوں کو میسر ہے ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پانی بھی کوئی مسئلہ ہے، کیونکہ ہمارے ارد گرد تو پانی کی فراوانی ہے، دریا ہیں، ندی نالے ہیں، زیر زمین پانی ہے، گلیشئیرز ہیں، اس کے علاوہ بارش کا پانی بھی تو ہے، میرے جیسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو وسائل جن کا ذکر میں نے کیا یہ کافی ہیں اور کبھی پانی کی کمی نہیں ہو سکتی، اس لئے ہم پانی کا بے دریغ استعمال کرتے جا رہے ہیں۔ دو گھونٹ پانی پینا ہوتا ہے اور پورا گلاس بھر لیتے ہیں اور باقی پانی ضائع کر دیتے ہیں۔ پانی کانل کھولتے ہیں تو بند کرنا ہی بھول جاتے ہیں۔ گاڑیاں دھوتے ہیں، کپڑے دھوتے ہیں، جانوروں کو نہلاتے ہیں، پانی کا پائپ مسلسل کھلا رہتا ہے اورہر طرف پانی ہی پانی کر دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ نعمت ہے جو ہمیں مفت ملتی ہے اور ہم اسے کھلے دل کے ساتھ استعمال کرتے ہیں ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ مال مفت دل بے رحم والا حساب ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کبھی ختم نہیں ہو گا، چاہے جیسے مرضی اور جتنا مرضی استعمال کریں۔

لیکن حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی، موسمیاتی تبدیلیاں ، ناکافی وسائل اور ناقص انتظام کاری نے ملک کو پانی کے مسئلے سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ چند دہائیاں پہلے کی بات ہے کہ پاکستان میں پانی کی کوئی کمی نہ تھی، لیکن حالیہ رپورٹس اور اعداو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا ملک بھی پانی کی کمی کے شمار ملکوں کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے۔ پانی کی کمی اور آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں اور ہلاکتیں ہمارے نزدیک اس لئے بھی اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ اس بارے میں کوئی بات نہیں کرتا، بس کچھ عالمی ادارے ہیں جو گاہے بگاہے ہمیں اور پوری دنیا کو اس مسئلہ کی طرف متوجہ کرنے کی بے سود کوشش کرتے رہتے ہیں، لیکن ہمارے کانوں پہ بس ایک جوں رینگ کے نکل جاتی ہے اور ہم پھر اسی تماشے میں مگن ہو جاتے ہیں جو ہمیں دکھایا جا رہا ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی ایک تہائی سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ۔ ایک عالمی ادارے ورلڈ ریسورسس انسٹیٹیوٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ان پانچ ممالک کی فہرست میں کیا جا رہا ہے کہ جہاں پانی کی کمی کے مسئلے میں شدت آ تی جا رہی ہے اور جہاں لوگوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی بھی بہت کم ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز بھی پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند بد قسمت ملکوں میں کرتے ہیں جہاں پانی نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق آئندہ آنے والے سالوں میں پاکستان میں پانی کی کمی کا مسئلہ اس قدر شدید ہو جائے کہ یہ تمام مسائل کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور خدانخواستہ اس سے ملکی سالمیت اور بقاکو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

پینے کا صاف پانی تیزی کے ساتھ نایاب ہو رہا ہے۔ جتنی تیزی کے ساتھ یہ نایاب ہو رہا ہے، ا تنی ہی زیادہ جانیں لے رہا ہے، ہمارے لئے تو پانی ایک دہشت گرد بن چکا ہے، کبھی نایاب ہو کر جانیں لے لیتا ہے اور کبھی سیلاب بن کر زندگیاں ہڑپ کر جاتا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس نہ ہی کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی حکمت عملی۔ حالانکہ یہ آلودہ پانی بھی تو بچوں کو سکول جانے سے روکتا ہے بلکہ اس کا تو اصل ہدف ہی بچے ہیں ۔ آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بعض بیماریاں تو ایسی ہیں جو بچوں کی ذہنی، جسمانی اور تعلیمی صلاحیتوں کو بھی ماند کر رہی ہیں۔ تعلیمی اداروں کو دہشت گردوں سے محفوظ بنانے کے لئے ہم نے دیواریں اونچی کرا دیں اور اوپر خار دار تاریں بھی لگا دیں، سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر دیے، اساتذہ کو عسکری تربیت دلوا کے اسلحہ بھی د ے دیا، گیٹ مضبوط کر دیے اور گیٹ پر سیکیورٹی گارڈ اسلحے کے ساتھ بٹھا دیے، لیکن اس دہشت گرد کا کیا کریں کہ اس کو تو ہم نے خود ہی سکول میں پالا ہوا ہے۔ سکولوں میں بچوں کے پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں، جاتے ہیں سکول میں پڑھنے کے لئے، واپس آتے ہیں بیمار ہو کر۔ زیادہ دور نہ جائیں صرف پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد ہی کی مثال لے لیں، اسلام آباد میں کل سکولوں کی تعداد 422ہے، جس میں سے صرف 22سکول ایسے ہیں جس میں بچوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے، دور دراز کے گاؤں اور دیہاتوں کا آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ کیا صورت حال ہو گی۔ معیشت کو نقصان تو یہ بھی پہنچا رہا ہے، لوگوں کو مہلک بیماریوں میں مبتلا کر کے، ان کی پیداواری صلاحیتوں اور کارکردگی کو متاثر کر کے، ان کی محدود آمدنی کو ہسپتالوں اور دوائیوں پہ خرچ کرا کے، یہ دہشت گرد توپورے سماج کو بیمار بنا رہا ہے۔ اس کے بہت سارے سہولت کار بھی ہیں جو اس کو مزید خطر ناک بنا رہے ہیں، مثلاً فیکٹریوں اورکارخانوں سے نکلنے والا زہر اس میں شامل ہو کر اس سے پیدا ہونے والی سبزیوں، پھلوں اور فصلوں میں شامل ہو کر اس کو بھی زہریلا بنا رہے ہیں ، لوگوں کو بر وقت اور مناسب علاج معالجے کی سہولیات دستیاب نہیں ہو پاتیں اور ان کی ہلاکت یقینی ہو جاتی ہے۔ یہ ہر سطح پر دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور کوئی اس کو کنٹرول کرنے والا نہیں۔ ہم اپنے مجموعی وسائل میں سے صرف 0.2فیصد حصہ پانی کی فراہمی اورحفظان صحت کے لئے مختص کرتے ہیں۔ جو نہ صرف ناکافی ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریاست جب تک اس مسئلے کی طرف کوئی توجہ کرتی ہے اور عام آدمی کے لئے بھی پینے کے صاف پانی کا انتظام کرتی ہے تب تک ہم اورآپ اپنا خیال خود رکھیں والی پالیسی پر عمل کریں تو زیادہ بہتر ہے ۔ گندے اور آلودہ پانی کے متعلق کیا کرنا ہے، عوام تک صاف پانی کب تک اور کیسے پہنچانا ہے اس بات کا فیصلہ 2025کے بعد کیا جائے گا کیونکہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ پاکستان ویژن 2025کے مطابق سن 2025تک تو حکومت لوگوں کو صرف یہ بتائے گی کہ پانی ملک میں نایاب ہو رہا ہے، اسے احتیاط سے استعمال کریں نہیں تو پانی کے استعمال پر بھی چارجز وصول کیے جائیں گے۔ اس لئے گندے اور آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ کے لئے حفظان صحت کے اصولوں کو مد نظر رکھیں، پانی کو استعمال کرنے سے پہلے ابال لیں ، بچوں کو سکول میں بھیجیں تو صاف پینے کا پانی دے کر بھیجیں۔ اپنی اوراپنے بچوں کی جانیں محفوظ بنائیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

aamer malik
About the Author: aamer malik Read More Articles by aamer malik: 7 Articles with 5318 views Working in social and development sector.. View More