احساس

رکشے والے نے یکدم بریک لگائے تو عائشہ نے چونک کر موبائل سے سر اٹھا کر دیکھا .ٹریفک سگنل سرخ ہونے پر تمام گاڑیاں تعمیل حکم میں رکی ہوئی تھیں.

اس کے ساتھ ہی کتنے ہی ضرورت مند آس پاس سے نمودار ہوئے . کسی کے ہاتھ میں پھولوں کے گجرے تھے تو کوئی بچوں کے کھلونے لیئے ہوئے تھا ، کسی نے گاڑی کے فرنٹ گلاس کی صفائی کے لوازمات تھامے ہوئے تھے تو کوئی اپنی مجبوری کی کہانی کا فلیکس دکھا رہا تھا ، کچھ بچے غبارے بیچ رہے تھے اور کچھ بوٹ پالش کی آوازیں لگا رہے تھے.

غرضیکہ ایک چھوٹے سے بازار کا سا سماں تھا جو دن میں وقفے وقفے سے سجتا اور بکھرتا ہے.جس کے ساتھ سینکڑوں نفوس کی سانسوں کی ڈور جڑی ہے.

پرندوں کا سا رزق جو صبح اٹھتے ہیں تو شام کا علم نہیں کہ بھوکے ہی آشیانوں کو لوٹیں گے یا بھرے پیٹ !
مگر اپنے مالک پر بھرپور یقین ان کو ہر سحر ایک نئ توانائ بخشتا ہے.

اتنے میں ایک ضعیف بابا جی ان کے رکشے کے قریب آئے اور ہاتھ میں پکڑی سٹیشنری فروخت کے لئیے پیش کی.عائشہ نے ساتھ موجود بہن کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا...

اس نے مدعا سمجھ کر کندھے اچکا دئیے.عائشہ نے بہت سی سٹیشنری بنا ضرورت کے ہی خرید ڈالی.بابا جی کے جھریوں بھرے چہرے پر چمک سی آگئی اور اس بات سے عائشہ کے اندر اطمینان کی ایک لہر سرایت کر گئی ...

اسی دوران سگنل گرین ہوا اور ٹریفک اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوگئی.

ساتھ بیٹھی مریم کے ماتھے پر شکنوں کا جال سا نمودار ہو گیا تھا.

آپی! اس سب کی آخر کیا ضرورت تھی ؟ اچھے سے اچھا سٹور موجود ہے جہاں ہر برانڈ کی اشیاء موجود ہیں .....

ان لوگوں کو تو عادت ہوتی ہے یوں مسکینی دکھا کر ہمدردیاں سمیٹنے کی !

اپنی بھڑاس نکال کر وہ اب خاموش ہوچکی تھی.

عائشہ نےجو اس دوران خاموشی سے اس کی بات سنتی رہی تھی ، فی الحال خاموش رہنے ہی میں عافیت سمجھی .

اتنی دیر میں وہ اپنے مطلوبہ بازار میں پہنچ چکے تھے . رکشے والے کو کرایہ ادا کرکے انہوں نے خریداری کا آغاز کیا.مختلف دکانوں سے حسب عادت بھاؤ تاؤ کرکے من پسند شاپنگ کی.اس دوران برانڈڈ شاپس پر بھی جانا ہوا.وہاں البتہ خریداری کرنا نسبتا آسان ہوتا ہے کیونکہ فکس ریٹس پر بھاؤ تاؤ کی نوبت ہی نہیں آتی.

مریم ! ایک بات تو بتاؤ کہ بڑے سٹورز پر تم قیمت ذرا بھی کم نہیں کرواتیں، مجھے اس بات پر حیرت ہوئی جبکہ چھوٹے سے چھوٹے سٹال پر کم سے کم ریٹ پر خریداری کی کوشش کرتی ہو ؟

ارے بھئ! بات یہ ہے کہ یہ سٹورز اپنی ساکھ بنا چکے ہیں اس لئیے اپنے من پسند ریٹس پر اشیاء بیچتے ہیں.

اچھا ! یعنی وہ اپنی ساکھ کو کیش کراتے ہیں اور ہم جیسے لوگ جانتے بوجھتے اس فریب کا شکار ہوجاتے ہیں اور چونکہ چھوٹے دکاندار ایسی ساکھ نہیں رکھتے تو ہمارا ان کے ساتھ یہ معاملہ بھی نہیں ہوتا ؟

من حیث القوم ہمارا یہی رویہ امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنا رہا ہے. پیسے کی غیر منصفانہ گردش معاشرے کو غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل رہی ہے.

معاشرے کے نچلے طبقے کے لئیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا دن بدن مشکل تر ہوتا جارہا ہے.

اوپر سے ہمارا بے حس رویہ جلتی پر تیلی کا کام کرتا ہے.معاشرے کے مفلوک الحال لوگ اگر بھیک مانگیں تو ہم لعن طعن کرکے ان کے جگر چھلنی کردیتے ہیں اور اگر وہ اپنی جیب کے مطابق چھوٹا موٹا کام کرکے رزق حلال کمانے کی سعی کریں تو تب بھی ہمیں برانڈڈ اشیاء کی یاد ستانے لگتی ہے جنہیں ہم منافع کی مد میں ایک ایک چیز پر بلامبالغہ دسیوں گنا بڑی خوشی سے ادا کرتے ہیں . مگر ذات و حیثیت کا تکبر معاشرےکے ان ناتواں چہروں پر لکھی بےبسی کی واضح تحریر ہماری نظروں سے اوجھل کردیتا ہے. اور ان کی مدد کرنا تو درکنار ، ہم ان سے معمولی ترین قیمت پر بھی کوئ شے خریدنے پر تیار نہیں ہوتے.....

یہ ہماری معاشرتی بےحسی کا بدترین نمونہ ہے.اگر ہر شخص اس بات کا احساس کرنا شروع کردے تو قطرہ قطرہ مل کر دریا بن سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنی دینی ذمہ داری سے بھی عہدہ برآ ہوسکتے ہیں...

ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تو ہمیں یہ معیار دے کر گئے ہیں.
خیر الناس من ینفع الناس
" لوگوں میں وہ شخص بہترین ہے جو ان کو فائدہ ہیں پہنچائے "
الدین النصیحہ
" دین تو خیر خواہی کا کام ہے."
کیا آپ بھی اس نظریے سے متفق ہیں ؟
Sadia Javed
About the Author: Sadia Javed Read More Articles by Sadia Javed: 24 Articles with 18749 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.