احتجاجی کلچر کا فروغ

پی آئی اے کے احتجاج پر ہم نے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو انتہائی غصے میں دیکھااس سے قبل ہم جناب کو ہمیشہ اطمینان کی ہی کیفیت میں پرسکون دیکھتے رہے ہیں لیکن جب سے پی آئی اے کا احتجاج رو نما ہوا ان کے چہرے پر شکنوں کی لکیریں ہی دیکھیں،پی آئی اے کے احتجاج پر میاں ساحب نے کہاتھا کہ عوام کے مزاج میں اب احتجاج سما گیا ہے اس ملک میں احتجاجی کلچر فروغ پا رہا ہے ہم کسی کو من مانی نہیں کرنے دیں گے۔پھر آپ نے دیکھا کہ یہ احتجاج خونی احتجاج میں تبدیل ہو گیا تھا پھر احتجاج کرنے والوں نے خود وقت کی نزاکت کو پھانپا اورمزید خون خرابہ کو روکنے کے لئے حکومت سے تصفیے پر رضا مند ہوئے ۔میں سمجھتا ہو ں کہ احتجاج کرنے والوں کا یہ ایک شعوری فیصلہ تھا عوامی رائے کے مطابق پی آئی اے کا احتجاج ناکام ہو گیا ،لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پی آئی اے کا احتجاج کامیاب احتجاج تھا کیونکہ پی آئی اے کے ملازمین نے جو پیغام دنیا کو دیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک نکتے پر ہم کسی بھی وقت ایک ہو سکتے ہیں ۔ رفتہ رفتہ پی آئی اے کے ملازمین کے ساتھ دوسرے اداروں کے ملازمین بھی شامل ہوتے جا رہے تھے اور یہ جنگ طبقاتی جنگ میں تبدیل ہو جانے جا رہی تھی کہ ایک دفعہ پھر مزدور تحریک کو خون میں نہلایا گیا خون آلود مزدور تحریک تو تاریخ کا حصہ ہے ،کب مزدور تحریک کو حکومتوں نے کچلنے کی کوشش نہیں کی ۔بقول بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ جنا بـ" ڈاکٹر عبدالمالک" کے کہ مزدوروں کی تحریک اب صرف ایک فیصد تک محدوود رہ گئی ہے کیونکہ موجودہ نظام کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ کوئی مزدورلیڈر اس مقام تک پہنچ سکے جہاں اس نے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہوتی ہے اور آج کے مزدور لیڈروں کا گرآپ مشاہدہ کریں تووہ محلات میں رہ رہے ہیں،شاندار گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں ،کئی کاروبار کا وہ حصہ ہیں اور کئی کاروبار ان کا حصہ ہیں ،اسمبلیوں میں بیٹھے کرپٹ ارکان کے وہ سہولت کار ہوتے ہیں۔ انھوں نے تو مزدوروں کے حقوق دلوانا ہوتے ہیں خود فقیر کی زندگی گزارنا اور مزدور کی طرز زندگی کو بہتر بنانا ان کا مشن ہوتا ہے لیکن افسوس انکی توجہ ذاتی مفادات کی جانب زیادہ ہوتی ہے پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ مزدور لیڈر اعلیٰ طبقے کا رکن بن جاتا ہے اور اسی اعلیٰ طبقے کی گھٹی میں شامل ہے کہ انھوں نے مزدور تحریک کا سر ابھرنے سے قبل ہی کچل دینا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہـ"اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں"۔

میاں صاحب نے فرمایا ملک میں احتجاجی کلچر فروغ پا رہا ہے ،عوام کا مزاج احتجاجی ہو گیا ہے۔بالکل درست فرمایا ہے جناب آپ نے لیکن عوام آپ سے سوال کرتی ہے کہ اپنے اس تین سالہ دور میں آپ نے محنت کشوں کے حقوق کے لئے کیا پالیسی اختیار کی ؟ محنت کشوں،ہنر مندوں کی طرز زندگی کو بہتر بنانے میں کیا کارہائے کارنامے انجام دیئے؟اس کے بر عکس کئی اداروں کو تالا لگا دیا گیاہے ان اداروں کے محنت کشوں کے چولھے ٹھنڈے ہو چکے ہیں ۔پی آئی اے کے بعد اب احتجاج کی باری پاکستان اسٹیل کی ہے کیونکہ وہاں بھی محنت کشوں میں لاوا پک رہا، اس حساس ادارے کو بلا کسی جواز مئی 2015سے بند کر دیا گیا کرپشن اور نا اہل انتظامیہ نے اس کا خسارہ 375ارب تک پہنچا دیا اس کے مستقبل کا کوئی فیصلہ نہ ہونے کے باعث خسار ے میں ہر ماہ اضافہ رہا ہے۔ مجرمانہ غفلت کا یہ عالم ہے کہ اس کے ملا زمین کی زندگی کی جمع پونجی پراونڈنٹ فنڈ کو بھی قرضے کے نام پر خالی کردیا گیا ہے۔ملازمین کو پانچ ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا سامنا ہے ۔ ملازمین پریشان ہیں کہاں جائیں کس سے فریاد کریں۔گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں صنعتکار اور مالکان اراضی تو بے تحاشا دولت کما رہے ہیں لیکن محنت کشوں کی زندگی بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے ۔کپڑے بنانے کی کھڈیوں اور فیکٹریوں میں کم عمر بچے بہت ہی کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں اسی طرح تمام اداروں کی یہ ہی صورتحال ہے آپ فرماتے ہیں احتجاجی کلچر فروغ پا رہا ہے توکیوں نہ پائے، عوام احتجاج نہ کریں تو کیا کریں ،روزی اور روٹی سب کچھ داؤ پر لگ چکا ہے غریب اور متوسط طبقے کا اعلیٰ طبقات کے افراد کی تو کبھی وکی لیکس اور کبھی پنامہ لیکس ہو جاتی ہے تو اس سے مشکوک دولت کا شبہ ابھرتا ہے کہ یہ دولت انھی غریبوں کی محنت او ر خون پسینے سے کشیدہ کی گئی ہو گی۔جناب چیف جسٹس صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ"جمہوریت کے نام پر کچھ گروہ ملکی وسائل پر قابض ہیں،عام آدمی کو دو وقت کی روٹی ملنا محال ہو رہا ہے معاشرے سے خوف خدا اورحرام و حلال کا فرق ختم ہوتا جا رہا ہے"

عام آدمی کو دو وقت کی روٹی نہ ملے اور خاص آدمی دولت لیکر رفو چکر ہو رہا ہو تو احتجاج کا کلچر ہی فروغ پائے گامیاں صاحب ان تمام حقائق کے بعد آپ کونسا کلچر پسند فرمائیں گے ۔
Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 91647 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More