وردی نہیں آئی جی پنجاب کی بدلی

پاکستان میں'' لوٹواورپھوٹو'' کامحاورہ توبہت سنا ہے مگراچانک جنوبی پنجاب میں چھوٹو گینگ نے اپنے نام کاڈنکا اورگڈگورننس کابینڈبجادیامگر فوج نے اسے دھرلیا اورایک منظم آپریشن کے بعدزندہ گرفتار کرلیااب یقینا اس کے سرپرست اورسہولت کاربھی بے نقاب بلکہ بے آبرو ہوں گے۔افواج پاکستان کوزمینی وآسمانی آفات سمیت جس مصیبت میں بھی پکارا گیاہمارے جانبازفوجی جوان ہربار قوم کی امیدوں پرپورااترے۔اس آپریشن میں پولیس ہرگزناکام نہ ہوتی مگراس کواس کے اپنے نااہل کمانڈرنے ناکارہ کردیا ۔پولیس کے فنڈزہڑپ کرنیوالے حکام نے اہلکاروں کے ہاتھوں میں ناکارہ اسلحہ تھمادیا جس کانتیجہ سب نے دیکھ لیا،آپریشن میں شریک اہلکاروں کے پاس جدیداسلحہ سمیت کوئی حفاطتی سامان تک نہیں تھالیکن وہ صادق جذبوں کے ساتھ اپنے مدمقابل منظم چھوٹوگینگ سے بھڑ گئے ۔جس وقت چھوٹو گینگ قانون کی دھجیاں بکھیررہا تھااس وقت پنجاب کے وزیرقانون اپنی مونچھوں کوتاؤدے رہے تھے۔راناثناء اﷲ خاں ہروقت عمران خان ،چودھری پرویزالٰہی اورپیپلزپارٹی کے قائدین کوجواب دے رہے ہوتے ہیں توشرپسندوں کوجواب کون دے گا ۔ صوبائی وزیرقانون کازیادہ تر وقت ٹاک شوزمیں گزرجاتا ہے ،نہ جانے وہ بحیثیت وزیراپنا کام کس وقت کرتے ہوں گے۔جس کو''اِن ایکشن" رہناچاہئے وہ میڈیا میں "اِن" رہتا ہے، کیا اس کام کیلئے پنجاب حکومت کاترجمان کافی نہیں۔وفاقی وصوبائی وزراء سیاسی بیانات چھوڑیں اوراپنے اپنے محکمے کی بہتری کیلئے انتظامی اقدامات پرفوکس کریں۔ راناثناء اﷲ سمیت متعددوزراء میڈیا سے بات کررہے ہوں توجملے بازی اورجگت بازی میں فرق باقی نہیں رہتا ۔پنجاب کوشوبازکی بجائے سنجیدہ وزیراعلیٰ جبکہ ایک داناوزیرقانون کی ضرورت ہے،جودوسروں کی عزت کریں اورلوگ ان کی عزت کریں۔ انسان بڑی مونچھیں رکھنے سے نہیں اپنے افکاراور کردار سے'' بڑا '' ہوتا ہے ۔جگت بازی ،جملے بازی اورشعبدہ بازی کاشوق رکھنے والے حضرات سیاست چھوڑیں اور کسی تھیٹر کارخ کریں۔پاکستان میں بدعنوانی اوربدزبانی کاکلچر برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے حکمران خاندانوں کی طرح چھوٹو گینگ نے بھی ''لوٹو اورپھوٹو'' کواپناٹریڈ مارک بنایا اورلوٹ مار کی انتہاکردی کیونکہ کچھ بااثر مگر بے ضمیر لوگ چھوٹو گینگ کے ڈاکوؤں کو گرفتارکرنے کی بجائے ان کے سہولت کار اورچوکیداربنے ہوئے تھے۔چھوٹو گینگ کاسربراہ چھوٹوکچھ سیاسی'' بڑوں'' کاسہارااوران کی آنکھوں کاتارابناہو اتھا۔چھوٹوگینگ اپنے ڈاکوں کی آمدنی میں سے ان ''بڑوں''کاپیٹ اوران کی تجوریاں بھی بھرتا رہا جواسے بچانے کیلئے اپناسیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے رہے مگر اب انہیں اپنے بچاؤکیلئے ہاتھ پاؤں مارنے پڑیں گے۔امید ہے چھوٹوگینگ فوج کی حراست میں رہے گااوراس سے سچائی اگلوائی جائے گی کیونکہ پولیس کے اندر کئی آفیسر ہیں جواس کومقابلے میں پارکرکے اس معاملے کو کچے کے کسی کونے میں دفن کردیں گے ۔ڈاکوتوڈاکوہیں ڈاکے مارناان کی فطرت ہے لیکن اگررہبر رہزن بن جائیں تواس سے بڑاالمیہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔چھوٹوگینگ کے سہولت کاروں کوبھی سولی پرلٹکایاجائے ۔ آئی جی کی نااہلی اورمجرمانہ غفلت کے باوجودپنجاب پولیس کے شہیدوں نے اپناحق اداکردیا مگرپنجاب حکومت کی طرف شہیدوں کے ورثا کی جومدد کی گئی وہ ناکافی ہے ۔بااثرسیاستدانوں کی سرپرستی اوربعض ضمیر فروش پولیس اہلکاروں کی سہولت کاری کے بغیر ''چھوٹوگینگ''یاکوئی دوسراگینگ نہیں پنپ سکتے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کوپولیس کے انتظامی معاملات میں مداخلت کرنے کاکوئی حق نہیں پہنچتا۔پولیس آفیسرز کی ٹرانسفراورپوسٹنگ کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب ان کے انٹرویوزکیوں کرتے ہیں،اس کام کیلئے پولیس فورس کے اندرایک آزاد اورخودمختاربورڈ بنایا جائے ۔ پولیس فورس کوخودمختار،پراعتماد،باوقار اورمنظم ادارہ بنانے کیلئے حکمرانوں اورسیاستدانوں کواس محکمے سے دوررکھناہوگا ۔

ہرشر میں کوئی نہ کوئی خیرضرور ہوتی ہے،چھوٹوگینگ کے ساتھ پولیس مقابلے کے نتیجہ میں اس بدنام زمانہ گینگ سے منسوب کئی کہانیاں اورکرداربھی منظرعام پرآئے۔ قصورمیں سینکڑوں بچوں کے ساتھ بدفعلی اوربلیک میلنگ سمیت پاکستان میں ہربرائی کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاستدان ضرورہوتا ہے ۔ راجن پورمیں چھوٹوگینگ کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے پولیس کے سرفروش اہلکاروں نے اپنے اپنے سینے پرگولی کھائی اور جام شہادت نوش کیا،کسی نے پیٹھ نہیں دیکھائی۔انہیں جس طرح کہا گیا وہ چھوٹوگینگ کوکچلنے کیلئے پیش قدمی کرتے رہے مگر میں سمجھتاہوں انہیں شہیدکرنیوالے چھوٹوگینگ کے لوگ نہیں بلکہ محفوظ اورٹھنڈے دفاترمیں بیٹھے وہ منصوبہ ساز ہیں اوران میں سے ایک کانام مشتاق سکھیرا ہے۔اگرپاکستان میں قانون کی حکمرانی اورانصاف کی فراوانی ہوتی تواس وقت مشتاق سکھیرا قانون کی تحویل میں ہوتے۔فوجی آپریشن کے نتیجہ میں چھوٹو گینگ کی گرفتاری کے بعد یہ طے کرناابھی باقی ہے کہ پاکستان کے بڑے صوبہ پنجاب کے آئی جی اورچھوٹو گینگ میں سے حقیقی ''چھوٹو''کون ہے ۔میں وثوق سے کہتا ہوں اگر مشتاق سکھیرا کی بجائے سی سی پی اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین وینس کووہاں بھجوایا جاتا تونتیجہ یقینا مختلف ہوتااورپولیس فورس کوبھاری جانی ،مالی اوراخلاقی نقصان برداشت نہیں کرناپڑتا۔پنجاب پولیس کے پاس ایڈیشنل آئی جی محمدطاہر،ڈی آئی جی لاہور ڈاکٹرحیدراشرف،ڈی آئی جی سلطان احمدچودھری، شہزادہ سلطان، رانایازسلیم، افضال احمدکوثر ،سہیل سکھیرا ،ملک کامران یوسف ،باقررضا ،اسراراحمدعباسی، علی ناصررضوی ،رائے اعجازاحمد،شاکرحسین داوڑاورحسن مشتاق سکھیر،چودھری عاطف حیات،طارق گجر ،چودھری ذوالفقار ،ملک یعقوب اعوان اورعتیق احمدڈوگر کی صورت میں پروفیشنل ،جانباز اورفرض شناس پولیس آفیسر بھی ہیں جو مختلف چیلنجز سے مردانہ وار نبردآزماہوتے ہوئے پولیس کی ناموس اورریاست کی رِٹ پرآنچ نہیں آنے دیں گے مگر اس کے باوجودآئی جی پنجاب کااہل اورزیرک ہوناازبس ضروری ہے ،جوون مین شوکی بجائے ٹیم کے طورپرکام کرنے کی سوچ اور صلاحیت رکھتاہو۔مشتاق سکھیرا کی خودپسندی اوران کی نااہل ڈی پی آر انہیں آج اس مقام پرلے آئی ہے جہاں ان کامنصب اورمستقبل چھوٹو گینگ سے زیادہ غیر محفوظ ہوگیا ہے ۔اگرمشتاق سکھیرانے آئی جی اسلام آباد طارق مسعود یاسین اور سی سی پی اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین وینس،آرپی او گجرانوالہ محمدطاہر سمیت اپنے کسی قابل ٹیم ممبر سے مشاورت کی ہوتی تو کچے میں روپوش چھوٹو گینگ کوکچلنے اوریرغمالی اہلکاروں کی بحفاظت بازیابی کیلئے فوج کونہ بلاناپڑتا ،اس طرح پولیس فورس کامورا ل ڈاؤن ہوتااورنہ بحیثیت ادارہ اس کی خوداعتمادی متاثر ہوتی۔آئی جی پنجاب کی نااہل ڈی پی آر مسلسل اس قسم کی پریس ریلیزاورتصاویر ایشوکرتی رہی جس سے مشتاق سکھیرا کاقدبلندہو اورانہیں اس آپریشن کاہیروبناکرپیش کیا جائے مگرچھوٹوگینگ کے مقابل پسپائی اوررسوائی نے الٹا انہیں ''کٹہرے''میں کھڑاکردیا۔کچے آپریشن میں پولیس کوجس ہزیمت کاسامنا کرناپڑااس پر اخلا قیات کاتقاضا تویہ تھا کہ مشتاق سکھیرا مستعفی ہوجاتے مگر پاکستان میں اس قسم کاکوئی رواج نہیں ہے ۔جہاں حکمران اوران کے بچے کرپشن کی گنگا میں نہاتے بلکہ ڈبکیاں لگاتے ہوں وہاں سرکاری آفیسریااہلکار کس طرح پیچھے رہ سکتے ہیں۔

کچے میں جام شہادت نوش کرنیوالے پولیس اہلکاروں کی شجاعت اوراستقامت قابل دیدتھی،ان شہیدوں نے اپنے محکمے اوراپنے اپنے خاندانوں کوسرفراز کردیا۔جہاں ان شہیدوں کوقومی ہیروزکے طورپریادکیا جائے گا وہاں ان کے کمانڈر آئی جی پنجاب کی قابلیت اوراہلیت پربھی انگلیاں ضروراٹھیں گی ۔چھوٹو گینگ کے ہاتھوں پولیس اہلکاروں کی شہادت پرپولیس فورس کوتنقیدکانشانہ بنایا جارہا ہے مگر یہ ناکامی اوربدنامی درحقیقت آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کی نااہلی ،بدنیتی،بدانتظامی اورمن مانی کاشاخسانہ ہے۔بلاشبہ شہید اہلکاروں نے اپنا حق اداکردیا مگران کے کمانڈر مشتاق سکھیرااپنے منصب سے انصاف اوراس کاحق اداکرنے میں ناکام رہے ۔آئی جی پنجاب کی ناتجربہ کاری اورناقص منصوبہ بندی کے سبب متعددپولیس اہلکار شہید اورزخمی ہوئے جبکہ متعدد اہلکاروں کو چھوٹوگینگ نے یرغمال بنا لیا تھا جس طرح پولیس سمیت دوسرے سرکاری ادارے حکمرانوں اورسیاستدانوں نے چاردہائیوں سے یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ماضی میں بھی مشتاق سکھیرا کے کریڈٹ میں کوئی خاص کامیابی نہیں تھی لیکن اس کے باوجودانہیں آئی جی پنجاب مقررکیا گیا کیونکہ وہ'' فرمانبرداری ''میں اپنے پیشروآئی جی پنجاب خان بیگ سے بھی دس قدم آگے ہیں۔ پنجاب پولیس کے سابق نیک نیت اورنیک نام آئی حاجی حبیب الرحمن کے ماتحت کام کرنے کے باوجودمشتاق سکھیرا نے ان سے کچھ نہیں سیکھا ۔پولیس کلچر میں بہتری'' وردی'' نہیں آئی جی پنجاب کی ''بدلی ''سے آئے گی ۔مشتاق سکھیرا کی تبدیلی سے یقینا پولیس میں ایک نیا دورشروع ہوگا اورخاص طورپرایڈیشنل آئی جی کیپٹن (ر)محمدامین وینس کوآئی جی پنجاب کامنصب ملنے سے اس فورس کاکلچر توبدلے گاہی بلکہ کایا بھی پلٹ جائے گی ۔

پولیس وردی کی تبدیلی کیلئے آئی جی پنجاب کی بے چینی اورہٹ دھرمی ایک بڑاسوالیہ نشان ہے ۔جوملک اورمعاشرہ حالت جنگ میں ہووہ سکیورٹی فورسز کے یونیفارم کی تبدیلی کامتحمل نہیں ہوسکتا ، دہشت گرد سرکاری عمارتوں اورعوامی مقامات پرخودکش حملے کررہے ہیں لہٰذا ء یہ وقت اس قسم کے تجربات کیلئے مناسب نہیں۔ پولیس کی وردی تبدیل کرنے پرخطیرسرمایہ صرف ہوگااوریقینا اس میں سے حکام کوبھی موٹی رقم ملے گی ۔ہمارے ہاں پہلے کمیشن وصول کرنے اوربعدمیں جوڈیشل کمیشن بنانے کارواج ہے۔عدالت عظمیٰ یاعدالت عالیہ لاہورکواپنے سوموٹوایکشن سے پولیس وردی کی بدلی روکناہوگی ۔پولیس کی وردی اس کاٹریڈ مارک ہے ، اسلام آباد کے سواچاروں صوبوں میں پولیس کایونیفارم ایک ہے توپھر پنجاب میں کیا مصیبت آن پڑی ہے جو وردی کی تبدیلی کے بغیرنہیں ٹل سکتی۔تقریباً بیس بائیس برس قبل پاکستان میں ایک روپیہ کانوٹ تبدیل ہواتوایک بارات پر نوٹ نچھاور کئے گئے جوبچوں نے خوشی خوشی اٹھائے مگربعدمیں کسی نے ان نوٹوں کوجعلی قراردے دیا جس پربچوں نے وہ نوٹ پھینک دیے یعنی یہ اس تبدیلی پرفوری اعتماد نہیں کیا گیا ۔اگرپولیس کا یونیفارم تبدیل ہوتاہے توایک خصوصی مہم کی مددسے شہریوں کو نیایونیفارم متعارف کراناپڑے گاجبکہ دہشت گرد اس بداعتماد ی سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔وردی سے تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہوگا،خالی پیکنگ تبدیل کرنے سے نہیں بلکہ کوالٹی بہتر کرنے سے عوام کاپولیس پراعتماد بحال ہوگا۔ڈولفن فورس نے لاہورمیں اچھی شروعات کی ہے مگر چندروزبعداس کایونیفارم تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی ،لگتا ہے اس پرمناسب ہوم ورک نہیں کیا گیا ۔پولیس کی کالی وردی کوٹرسٹ وردی بنایا جائے ،اس سے روشنی کی کرنیں ضرورپھوٹیں گی ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126495 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.