لائبریری اور زوال!

 گزشتہ روز ہمیں اپنے شہر کی لائبریری جانے کے اتفاق ہوا، یہ کوئی عام لائبریری نہیں، اس کی عمارت ہی اس قدر عالیشان ہے کہ بس دیکھا کیجئے۔ اس کو تعمیر ہوئے نو دہائیاں ہو چکی ہیں، گویا صدی کے کنارے پر کھڑے ہیں۔ اس کا بڑا بلند ، روشن اور ہوا دار ہال ہے، جس کے فرش سے چھت تک کشادگی اور خوبصورتی جھلکتی ہے، چھت بہت بلند ہے جس کی وجہ سے اس عمارت میں گرمی کا احساس بھی نہیں ہوتا، بانوے برس قبل تعمیر ہونے کی وجہ سے روشن اور ہوا دار تو ہے ہی، اس عمارت کے گرد برآمدہ ہے، جس سے جہاں اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتاہے وہاں اس میں پائے جانے والے موسم میں بھی خوشگوار تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اس عمارت کے کونوں میں مینار بھی ہیں، جو اس کے طرزِ تعمیر کے اسلامی تشخص کا ثبوت ہیں۔ اس عظیم الشان عمارت کے ارد گرد خالی جگہ ہے، جس میں گھاس اور درخت موجود ہیں۔ لائبریری انتظامیہ نے بعض برآمدوں میں قالین بچھوا رکھے ہیں، جن پر بیٹھ کر مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ پڑھتے ہیں۔ یہ خوبصورت ذکرِ خیر سینٹرل لائبریری بہاولپور کا ہے، یہ پنجاب بھر میں دوسری بڑی لائبریری ہے۔

لائبریری میں کسی سکول کے بچے بھی آئے ہوئے تھے، چیف لائبریرین رانا جاوید اقبال نے بچوں اور ان کے اساتذہ سے بات چیت کی، انہوں نے کتاب کی اہمیت بیان کی، کتاب سے محبت اور دل لگانے کا کہا، اور بتایا کہ جو مزہ کسی کتاب کو کھول کر ترتیب سے پڑھنے کا ہے، وہ کمپیوٹر وغیرہ سے حاصل نہیں ہوتا۔ کتاب کو جب چاہیں بغیر کسی ڈیٹا ، بنا بجلی اور بندوبست کے بغیر پڑھا جاسکتا ہے، مگر کمپیوٹر کے لئے لوازمات چاہئیں ہوتے ہیں، انہوں نے کمپیوٹر کی ضرورت اور اہمیت کی بات بھی کی، انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اساتذہ ہی بچوں کو کتابوں کی جانب راغب کرسکتے ہیں، پہلے وہ خود اس ماحول سے مطمئن اور متاثر ہوں اور پھر اس کے بعد بچوں کو اس کی طرف لائیں تاکہ بچوں میں مطالعہ کا شوق پیدا کیا جاسکے۔ انہوں نے وہاں موجود سکول اور اس کے اساتذہ کو پیشکش کی کہ وہ لائبریری آیا کریں، بلکہ الحاق کریں ہم آپ لوگوں کو مفت خدمات فراہم کریں گے، اور کتابیں ایشو کیا کریں گے۔

کتاب سے دوری کا ماتم تو ہم سب ہی کرتے ہیں، کتاب کی طرف قارئین کا رجحان پہلے سے بھی کم ہوتا جارہا ہے، کتابوں کا معیار بھی شاید گرتا جارہا ہے، اسی لئے کتابوں کے دور کا بستر گول ہوتا جارہا ہے، لائبریریاں آنے والوں کی راہوں میں پلکیں بچھائے کھڑی ہیں، کتابیں منتظر ہیں کہ کوئی آئے، ان پر پڑی گرد جھاڑے، انہیں کھولے اور کچھ فیض پائے، یہ مائل بہ کرم کھڑی عمارتیں اور ان میں تہہ درتہہ پڑی کتابیں کسی سائل کے انتظار میں ہیں، مگر کیا کریں کوئی فیض حاصل کرنا ہی نہیں چاہتا۔ بس وہ لوگ جو کسی تحقیقی کام میں ضروری کتابوں کی تلاش میں ہوتے ہیں، یا وہ لوگ جو کچھ ادب سے لگاؤ رکھتے ہیں، یا پھر کچھ سٹوڈنٹس جو امتحانات وغیرہ کی تیاری کررہے ہوتے ہیں انہیں یہاں مناسب ماحول مل جاتا ہے۔

کتابوں سے دوررہنے کا رونا اپنی جگہ، پہلی بات تو یہ ہے کہ کتابوں سے اپنی قربت ہی کب تھی جو اس قدر دوری ہوگئی ہے، دوسری اور اہم وجہ یہ ہے کہ جب سے آئی ٹی نے اپنا کام دکھایا ہے، تب سے کتاب کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے، بہت ساری معلومات نیٹ سے حاصل ہوجاتی ہیں۔ مگر جو مطالعہ انسان کے دل و دماغ کو کشادہ اور روشن کرتا ہے، سوچ کی نئی راہیں کھولتا ہے، حکمت کے راستے دکھاتا ہے، تنگ نظری اور گھٹن سے نجات دلاتا ہے، وہ کمپیوٹر سے حاصل نہیں ہوسکتا، اس کے لئے کتاب سے کسبِ فیض ہی کرنا پڑے گا۔ مگر اصل المیہ یہ ہے کہ کتابوں کے مطالعہ کی کہانی تو دور کی بات ہے، ہماری نئی نسل کمپیوٹر اور موبائل سے ہی معلومات اور ریسرچ کی کوئی گہری کھوج لگانے کے چکر میں ہے، پرانے لوگ اور پرانی کتابیں اور پرانی باتیں سب دقیانوسی معاملات ہیں، جن پر چل کر ترقی کی منازل حاصل نہیں کی جاسکتیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ چند ضروری معلومات کے علاوہ ہر وقت نیٹ اور کمپیوٹر وغیرہ سے کھیلنا یا موبائل سے پیغام رسانی اور فیس بک پر گھنٹوں وقت ضائع کرنا خود کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔ مگر مطالعہ کی عادت کیسے ڈالی جائے، مطالعہ کے لئے ماحول کیسے دیا جائے ، ان باتوں پر غور اور عمل کرنے کی ضرورت ہے، جو کہ نہیں ہورہا۔ جب عمل نہیں ہوگا تو زوال کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 433481 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.