مسلمانوں! قوت کو بڑھاؤ اتنا

اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کے لیے امداد لے جانے والے بحری بیڑے فریڈم فلو ٹیلا پر حملہ کر کے بیس امدادی کارکنوں اور صحافیوں کو ہلاک کر دیا۔ جرم جن کا صرف یہ تھا کہ وہ ان فلسطینیوں کے لیے امداد لے کر جا رہے تھے جنہیں اسرائیل نے انکے گھروں سے نکال کر بے گھر کر دیا ہے اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ اسرائیل میں یقیناً کسی کیڑے کی زندگی بھی کسی فلسطینی کی زندگی سے زیادہ قیمتی ہوگی۔ اسرائیل فلسطین کے خلاف جب ظلم و بربریت کی انتہا کر دیتا ہے تو بھی مغربی دنیا کو وہ تکلیف نہیں ہوتی جو کسی مسلمان ملک میں کسی غیر مسلم یا غیر ملکی کے زخمی یا اغوا ہونے سے ہوتی ہے وہ تہلکہ مچتا ہے وہ طوفان اٹھتا ہے کہ پوری مسلم ملت کو دہشتگرد قرار دے دیا جا تا ہے۔ عراق اور افغانستان پر صرف اور صرف شک یا جھوٹے الزامات اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر پوری قوت سے حملہ کر کے اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ جبکہ نہ صرف اسرائیل بلکہ کوئی بھی غیر مسلم مسلمانوں کے خلاف کاروائی کرے تو اسکی بے شمار توجیہات تلاش کر کے اسکو دبا دیا جاتا ہے یا جائز قرار دے دیا جاتا ہے۔ ہاں اس بار یہ ضرور ہوا کہ اس اسرائیلی کاروائی کی نسبتاً زیادہ مذمت کی گئی سلامتی کونسل کو بھی اپنی ذمہ داری کچھ یاد آئی لیکن ہوا اس اجلاس کے بعد بھی کچھ نہیں اور دنیا کے اس بڑے دہشتگرد کو جسے دنیا کے سب سے بڑے دہشتگرد امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور صرف اسی وجہ سے اس دہشتگرد کے ہر ظلم اور بربریت کو معاف کر دیا جاتا ہے۔ اگر یہی کچھ کسی مسلمان ملک کی طرف سے ہوتا تو پہلے جوابی کاروائی کی جاتی اور پھر اجلاس بلائے جاتے اور وہ بھی مسلم دنیا کو ہی مورد الزام ٹھرا کر ختم ہو جاتے۔

اسرائیل کی دشمنی صرف فلسطینیوں سے نہیں جن کی زمین پر اس نے غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے بلکہ یہ دشمنی دنیا کہ ہر مسلمان کے لیے عام ہے۔ پاکستان تو خیر پوری غیر مسلم دنیا کی آنکھ کا کانٹا ہے اور یہاں ہونے والے کسی انتہائی معمولی واقعے کو بھی کسی غیر ملکی فنڈ سے چلنے والی ملکی یا غیر ملکی این جی او کی مدد سے اچھال دیا جاتا ہے اور پوری قوم کو دہشتگرد قرار دے دیا جاتا ہے اور حکومتوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے لوگوں کے خلاف کاروائی کرے۔ دراصل یہ سب کچھ اسلام کی مخالفت میں کیا جاتا ہے۔ اب جیسا کہ میں اکثر لکھتی ہوں کہ دشمن تو اپنا کام کیے جا رہا ہے اور بڑی تندی و مہارت سے کیے جا رہا ہے لیکن ہم کیا کر رہے ہیں اور بحیثیت مسلمان ہمارا کردار کیا ہے۔ ایک چھوٹا سا اسرائیل اتنی بڑی اسلامی دنیا کو نہ صرف آنکھیں دکھاتا ہے بلکہ اسے اکثر مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہودی فطرتاً سازشی ذہن کا مالک ہے۔ لیکن کیا عالم اسلام سے اسکو کاؤنٹر کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جاتی ہے یا کبھی ہوئی ہے۔ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ مسلمان بستے ہیں، دنیا بھر کے تیل کا اٹھتر فیصد حصہ مسلم ممالک میں ہے اور آج کی دنیا یقیناً توانائی کے لیے مسلم دنیا پر ہی انحصار کرتی ہے اور تیل کے بغیر اسکا چلنا ممکن بھی نہیں لیکن دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ تیل لے جا کر غیرمسلم اس سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں اور مسلمان ممالک کے خلاف جہاز اڑاتے اور ٹینک لڑاتے ہیں اور یوں مسلمانوں کے وسائل مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ مصنوعات انکی ہم استعمال کرتے ہیں اور بڑے فخر سے کرتے ہیں برانڈ ان کے پہننا پسند کرتے ہیں لیکن جنگی سائنس میں ہم ان سے پیچھے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان ایٹم بم بنا کر غیر مسلم دنیا کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ روایتی جنگی ٹیکنالوجی میں ہم نہ صرف ان سے پیچھے ہیں بلکہ ان پر انحصار کرتے ہیں خود کفالت کی منزل پر پہنچنے کے لیے ابھی بہت سارا سفر باقی ہے جسے طے کرنے کی خواہش عام مسلمانوں کی ضرور ہے لیکن حکمرانوں کی نہیں۔ ہمارے حکمران بینک بیلنس بنانے میں مصروف ہیں اور بہت سارے امریکہ سے اپنے تعلقات مضبوط سے مضبوط تر بنانے اور ظاہر کرنے میں مصروف ہیں۔

فریڈم فلوٹیلا پر حملہ تو ایک واقعہ ہے جبکہ اسرائیل اسطرح کے جرائم کا عادی مجرم ہے چلیں ان واقعات میں تو جنگی حالات رہے ہوں گے جبکہ اکثر وہاں بھی ایسا نہیں ہوتا مثلاً فلسطینیوں کی بستیاں مسمار کرنا۔ وہاں تو مسلمان ممالک شاید کاروائی نہ کر سکتے ہوں لیکن کیا فریڈم فلوٹیلا کے معاملے میں ایسا ممکن نہ تھا ایک جہاز جسے ساری رات گھیر کے رکھا گیا کیا اس کو بچانے کے لیے کوئی مسلمان ملک حرکت میں نہ آسکتا تھا کیا اسرائیل کا فاصلہ مسلمان ممالک سے اتنا زیادہ تھا کہ کوئی اس محصور جہاز کی مدد کو نہ پہنچ سکتاتھا۔ دراصل یہ وقت صرف باتیں کر نے کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کرنے کا ہے۔ اسرائیل دنیا کے نقشے پر آسانی سے نظر بھی نہیں آتا کیا مسلمان ممالک اس ِ حقیر سے رقبے کے ملک کی ریشہ دوانیوں پر قابو نہیں پا سکتے۔ ہمارے اعلیٰ دماغ کہاں سوئے ہیں۔ کیا صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ اسرائیل پروپیگنڈہ کرنے کا ماہر ہے امریکی اور عالمی میڈیا اسکے قبضے میں ہے امریکہ کے کلیدی فیصلوں پر یہودی اثرانداز ہوتے ہیں۔ اگر بیماری کا علم ہے تو اسکے علاج کی ضرورت ہے۔ میڈیا پر اسرائیل کا قبضہ ہے تو اسکا توڑ مسلمان میڈیا کو کرنا ہوگا اگر وہ امریکہ پر اثر انداز ہوسکتا ہے تو ہمیں اپنی طاقت اتنی بڑھانی ہو گی کہ امریکہ ہم پر اثرانداز نہ ہو سکے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ زندہ رہنا ہے تو قوت کو بڑھاؤ اتنا کہ عدو آنکھ اٹھانے کی بھی جرا ت نہ کرے۔

مسلمان اگر اسرائیل اور اسکے مددگاروں کا معاشی اور تجارتی بائیکاٹ کر لیں اور اپنی منڈیوں کو ترقی دیں تو یقیناً ایک ارب سے زیادہ مسلمان جو کہ زیادہ تر خریدار ہیں انکے معاشی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ بات صرف حکمرانوں کی حکومتی سطح پر ہمت کی ہے۔ اور مسئلہ صرف فریڈم فلوٹیلا کے بدلے کا نہیں بلکہ مسئلہ اسرائیل جیسے دشمن کو قابو اور زیر کرنے کا ہے تاکہ آئندہ وہ ایسے حملوں کی جرات ہی نہ کر سکے بلکہ مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کر دے۔ لیکن اسکے لیے پہلی اور آخری شرط مسلمانوں بلکہ مسلمان حکمرانوں کی بیداری اور ہمت ہے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 509299 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.