پاکستان فلاح پارٹی کا فیصل آباد میں پیام امن کنونشن

پاکستان کی موجود صورتحال سب کے سامنے ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے ملک کی غریب عوام کو نچوڑ لیا ہے۔ سابق فوجی جرنیلوں وڈیروں جاگیر داروں کی شکل میں سیاسی روپ دھارئے معاشرئے کا یہ طبقہ آکٹوپسی کی طرح وطن کو جکڑئے ہوئے ہے۔انجمن طلبہ ء اسلام اور مصطفائی تحریک کے عظیم تر مشن سے وابستہ افراد کی یہ سیاسی جماعت یقینی طور پر کرپشن کو بنیادوں سے ختم کرنے کے لیے میدان عمل میں اُتری ہے۔ رسول پاکﷺ کی محبت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنانے والی پاکستان فلاح پارٹی کا قیام گو کہ کافی تاخیر سے ہوا ہے ۔ انجمن طلبہ ء اسلام سے وابستہ افراد گذشتہ سنتالیس سالوں سے انجمن سے فراغت کے بعد سیاست کے لیے دیگر جماعتوں میں جاتے رہے۔اور معاشرئے میں اہم حثیت کے حامل ہیں۔ لیکن اقتدار کی غلام گردشوں میں نظریاتی لوگ بھی جاکر اطیواﷲ و اطیوالرسول کے حوالے سے تگ و تاز میں کامیاب نہ ہوئے وجہ اُن کے سیاسی لیدڑ تو نظریہ کی بجائے صرف بادشاہت کے لیے اقتدار میں آتے ہیں۔ یوں نصف صدی کے قریب ہونے کوآیا ہے کہ انجمن طلبہ ء اسلام سے فراغت اختیار کرنے کے بعد نظریاتی افراد کبھی پی ایم ایل ن ، کھبی پی پی پی ، جے یو پی، پی ٹی آئی میں رہے۔نظام مصطفے پارٹی بھی بنی لیکن فعالیت اختیار نہیں کر سکی۔یوں گھر سے مکتب تک اور مکتب سے معاشرئے تک کے انجمن طلبہ ء اسلام کے مشن کے لیے جو افرادی قوت تھی اُس کو بہتر سیاسی رہنمائی میسر نہ آسکی اور لوگ بکھرتے رہے۔ حتیٰ کہ مایوسیوں نے گھر کر لیا۔انجمن طلبہ اسلام سے وابستہ طاہر القادری جحاجی حنیف طیب ، صاحبزادہ فضل کریم ، حامد سعید کاظمی و دیگر احباب اپنے طور پر سیاست کرتے رہے لیکن میکرو لیول پر نظریاتی لوگوں کو اُس طرح ایڈجسٹ نہ کر سکے جس طرح کا تقاضا تھا۔جے یو پی میں دھڑا بندی اور تقسیم در تقسیم کے عمل نے بھی انجمن طلبہ اسلام سے وابستگان افراد کو مایوسیوں میں رکھا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ جے یوپی کا مرکز اور صوبائی اسمبلیوں میں نام لیوا کوئی نہیں۔ حامد سعید کاظمی صاحب نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا وزیر مذہبی امور رہے اور اُن کو ایسی گرداب میں پھنسا دیا گیا کہ میڈیا نے اُن کا ایسا حشر کیا کہ احمد سعید کاظمی ؒ جیسی ہستی کے صاحبزادئے کے ساتھ یہ سلوک اور گرفتاری نے انجمن طلبہ اسلام کے افراد کو مزید مایوس میں ڈال دیا۔ پاکستان فلاح پارٹی کے قیام سے انجمن طلبہ اسلام سے وابستہ افراد کو امید کی ایک نئی کرن نظر آئی ہے کہ سیاسی مزاج کے حامل افراد کو ایک بہتر سیاسی پلیٹ فارم میسر آجائے۔قاضی عتیق الرحمان امانت علی زیب، بدر ظہور چشتی، سید راشد گردیزی جیسے باکمال اور باہمت افراد اِس سیاسی پلیٹ فارم کے لیے تگ و تاز میں ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سال میں کچھ عرصہ دورہ جات کا شیڈول بناکر جناب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری پاکستان تشریف لے آیا کریں تاکہ احباب کو موبلائز کیا جاسکے۔پاکستانی خطے کا مزاج ایسا ہے کہ اِس خطے میں سیاسی پارٹی کے لیے ایک نمایاں شخصیت ہونا ضروری ہے۔ حاجی حنیف طیب ، ڈاکٹر ظفر اقبال نوری یہ ایسی شخصیات ہیں جو احباب کو فعال کر سکتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں روحانی انداز پنپ نہیں سکا۔ فکر آخرت رب کریم کا خوف ، زندگی کو عا رضی جاننا ان تصورات کے ہوتے ہوئے تو مسلم سوسائٹی دنیا بھر کے تمام ممالک اور مذاہب کے لوگوں کے لیے نشان راہ ہونی چاہے تھی لیکن افسوس جن قوموں کو ہم کافر کو کہتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کفار نے جنت میں نہیں جانا بلکہ جنت صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ ان کفار کے ممالک میں انسانی حقوق بھی انسانوں کو حاصل ہیں اور پولیس و دیگر محکمہ جات بھی قانون پر عمل پیرا ہیں۔ رشوت کرپشن جو ہماری پولیس کا قومی نشان بن چکا ہے۔ اس نشان کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اسلام جیسے عظیم مذہب پر اس کی روح کے مطابق عمل کرکے معاشرے کو امن و سکون کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔ اسی مقصد کے لیے بلا امتیاز قانون سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہے۔ با اثر سے بااثر افراد اگر کسی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں تو پھر یہ حکمرانوں کے اوپر ہے کہ وہ ان لوگوں کی پکڑ کریں اور انصاف سب کو بلاامتیاز مہیا کریں۔اگر اﷲ کی پکڑ سے بچنا ہے تو پھر ان جرائم پیشہ ،رشوت خور پولیس افسران کو پکڑنا ہو گااور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا۔حضرت قائداعظمؒ اور حضرت علامہ اقبال ؒ کے خوابوں کی تکمیل یہ پاکستان کی صرف روح ہی چھلنی نہیں بلکہ اس پاکستان کے جسم کو کو بھی اس طرح نوچا جا رہا ہے جیسے یہ لا وارث ہو۔ 27 رمضان المبارک کی شب وجود میں آنے والی اس سرزمین پاک کو رب تعالیٰ نے قائم رکھنے کے لیے بنایا ہے۔ اس ملک نے ہمیشہ قائم و دائم رہنا ہے۔ اور اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے والوں نے آخر جہنم رسید ہونا ہے۔ اگر قانون شکنوں کو قانون کی پکڑ میں نہ لایا گیا تو پھر اﷲ کی پکڑ سے پھر کون بچ سکتا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے انسانیت کا بول بالا فرما دیا ۔ حتیٰ کہ کفار جو آپ ﷺ کے جانی دشمن تھے ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کا مظاہرہ فرمایا ۔ ایام جنگ میں خواتین بچوں اور بوڑھوں پر تلوار اٹھانے سے منع فرمایا۔ جانوروں کے ساتھ بھی آپﷺ نے رحم دلی فرمائی ۔ جب نبی کریم ﷺ نے انسانی وقار اور احترام کا ایک مکمل ضابطہ دیا تو پھر 1400 سال سے زائد عرصہ گزرنے بعد بھی مسلم معاشرہ ابھی تک ارتقاء میں ہے۔ یہ ارتقائی سفر مثبت سمت کی بجائے منفی رجحان کی طرف گامزن ہے۔ عراق، ایران ، مصر ، عرب ممالک شام، لیبیا ، ترکی ، پاکستان ان تمام ممالک میں عوام کے ساتھ بے رحمانہ سلوک ہوتا ہے۔ آمریتیں جہاں جہاں اپنے قدم جمائے ہوئی ہیں وہاں وہاں کے حکمران لوگوں کی قسمت کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ انسانیت کی قدر کی تعلیم دینے والی مسلمان قوم اب عملی شکل میں انسانیت کی قدر دان کیوں نہیں ہے۔ پاکستان فلاح پارتی جیسی نظریاتی سوچ کی حامل سیاسی جماعت کی معاشرئے میں نفوس پزیری ہونی چاہیے۔
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 387817 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More