اعزاز؟

 جنازہ ہمارے ایک قریبی دوست کا تھا، ہم مقررہ وقت سے کچھ پہلے پہنچ گئے،بہت سے لوگ ٹولیوں میں کھڑے جنازے کے انتظار میں تھے، اور گپ شپ میں وقت گزار رہے تھے۔ ہمارا دوست کچھ عرصہ قبل ہی سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوا تھا، بہت چاک وچوبند اور خود کو مصروف رکھنے والا انسان تھا، سماجی خدمات اس کے خون میں شامل تھیں، وہ لوگوں کے کام کروانے کے ہنر سے بخوبی آشنا تھا۔ ناراض ہونا یا غصہ کرنا اس نے سیکھا ہی نہیں تھا، ہر کسی سے محبت کا رشتہ تھا۔ ہر سال ربیع الاول میں ایک خوبصورت روحانی تقریب سجانا اس کی دیرینہ عادت تھی۔ پروگرام کے بعد ’لنگر‘ کا بندوبست ہوتا، اس تقریب میں بہت سے بڑے اور بچے شامل ہوتے تھے۔ یہ مت جانئے کہ ہمارا وہ دوست ریٹائر ہوا تو بوڑھا یا ضعیف انسان تھا۔ دیکھنے میں وہ پچپن سے اوپر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ بس ایک روز فجر کی نماز پڑھ کر لیٹا اور پھر نہیں اٹھا۔ وہ سرائیکی زبان کا شاعر تھااور ایک کتاب کا مصنف بھی۔ محافل سجانے ،تقریبات کرنے اور سرکاری ملازمت کی وجہ سے اس کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ جنازے میں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔

جنازے کے وقت سے چند منٹ قبل میت گھر سے باہر لائی گئی، کلمہ طیبہ کی گونج میں ایک ہنگامہ سا مچا، ہر طرف گرد اڑنے لگی۔ کچھ سکون ہوا تو لوگوں نے مرحوم کے آخری دیدار کا قصد کیا اور میت کی چارپائی کی جانب چڑھائی کردی۔ بے ترتیبی اور بے تدبیری سے یہ رسم بھی ادا ہوئی۔ جنازے کا وقت ہوا تو لوگوں نے قطاریں درست کرنا شروع کیں، کسی قطار سے کچھ لوگوں کو آگے اور کچھ کو پیچھے ہٹنے کا مشورہ دیا، تاکہ قطار سیدھی دکھائی دے، یہ کام تقریباً ہر قطار میں ہوا۔ کسی طرف سے قطاروں کی تعداد شمار کرنے کی ہدایت ہوئی، قطاریں طاق ہوں، بارہ ہوگئی ہیں تو کچھ لوگ تیرھویں قطار میں چلے جائیں۔ ایک مولانا اپنے فلسفے کے مطابق کچھ گفتگوفرما رہے تھے، ساتھ یہ بھی فرمادیا کہ انتظامیہ کو کسی کا انتظار ہے، مجھے جب اشارہ ہوگا میں گفتگو ختم کردوں گا۔ وقت ہوگیا، جنازہ شروع نہ ہوا، مولانا نے گفتگو سمیٹ دی، نیت کا طریقہ بتا دیا، حتیٰ کہ جنازہ میں کیا کچھ پڑھنا ہے وہ بھی پڑھ کے سنا دیا اور یہ بھی بتایا کہ باتیں تو میں نے کی ہیں، مگر جنازہ ایک بہت ہی تعلیم یافتہ شخصیت پڑھائے گی، جو کہ مقامی مگر خطے کے سب سے بڑے کالج کے ایک معلم ہیں۔ اس کے بعد کہ جنازہ پڑھے جانے میں کوئی کمی نہیں تھی، مولانا کے اشارے پر ’’اﷲ ھُو‘‘ کا ورد شروع ہوگیا، یہ عمل طول پکڑتا گیا، ورد کرنے والے گردن کو بھی مخصوص انداز میں گھماتے اور ہلاتے تھے، اور جھوم جھوم جاتے تھے۔ بات اتنی آگے بڑھی کہ لوگ پریشان ہونے لگے۔

کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جانب سے پولیس کا حفاظتی دستہ برآمد ہوا، انہوں نے گاڑی ایک طرف لگا دی، چند لمحوں بعد جنازہ گاہ کے سامنے سے دھول اڑاتی ہوئی پرچم والی سرکاری اور کالی گاڑی گزری۔ گاڑی رکی تو اس میں سے چھوٹے وفاقی وزیر یعنی میاں بلیغ الرحمن برآمد ہوئے، ان کا جنازہ گاہ میں اترنا تھا کہ ’’اﷲ ھُو‘‘ کا ورد اپنی منزل کو پہنچا، گویا انتظار ہی وزیر صاحب کا تھا۔ اگر وزیر صاحب نے جنازے میں آنا ہی تھا تو انہیں اتنا معلوم ہونا چاہئے کہ جنازے کا وقت نماز کی طرح مقرر ہوتا ہے، اس میں کسی کے لئے انتظار نہیں کیا جاتا، اس لئے اس قسم کے پروگراموں میں انہیں بروقت آنا چاہیے۔ مگر شاید بروقت آجانے سے ان کا وقت بھی زیادہ لگتا ہے، اور ا ن کی اہمیت بھی نہیں بنتی۔ شرکاء میں سے ایک تو یہ بھی کہہ رہا تھا کہ یہ وزیر لوگ رابطے میں ہوتے ہیں، کہ اب جنازہ تیار ہے آپ تشریف لے آئیں۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوئی، مولوی صاحبان نے جہاں پہلے معمول سے ہٹ کر معاملہ کیا، وہاں دعامیں عجیب پھلجھڑیاں چھوڑیں، ایک بڑے کالج کے پروفیسر صاحب سے یہ توقع بھلا کون کرسکتا ہے کہ وہ جنازے کی دعا کے موقع پر بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت کی تلقین کریں، بلکہ دعا کریں۔ لوگوں کے صبر کا امتحان اس وقت لیا گیا جب وزیرمملکت کی سربلندی اور ترقی وغیرہ کے لئے بھی دعائیں شروع ہوگئیں، وزیروں کا اقبال تو پہلے ہی بہت بلند ہوتا ہے، مگر یہ مولوی حضرات تو معاملہ کو اس قدر اچھالتے ہیں کہ زمین آسمان آپس میں ملتے دکھائی دیتے ہیں، یعنی جنازہ سے قبل اور جنازہ کے بعد کے تمام معاملات میں سب سے اہم شخصیت وزیر صاحب ہی تھے، گویا اﷲ معاف فرمائے یہ تقریب ہی وزیرصاحب کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 429580 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.