جامعة الرشید کی منفرد سالانہ تقریب تقسیم انعامات و اسناد

جامعة الرشید کراچی دینی، تعلیمی، سماجی اور دیگر متعدد خدمات کی وجہ سے ملک بھر میں اپنی ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ جامعة الرشید کراچی کی جانب سے عصرحاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وقفے وقفے سے موثر، منفرد اور مثبت اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، جن کو دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد تک موثر انداز میں دعوت دِین پہنچانے کے لیے جامعة الرشید وقتاً فوقتاً مختلف تقاریب کا انعقاد کرتا رہتا ہے۔ جامعة الرشید کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات و اسناد بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ گزشتہ 10سال سے ہر سال جامعة الرشید کے مختلف تعلیمی شعبہ جات سے اپنی تعلیم مکمل کرنے والے فضلائے کرام کو انعامات و اسناد کی تقسیم کے لیے ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سال رواں یہ تقریب 17 اپریل 2016ءبروز اتوار کو منعقد کی گئی، جس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے 10 ہزار چنیدہ افراد کو مدعو کیا گیا، جبکہ جامعة الرشید کراچی کی سالانہ تقریب تقسیم انعامات و اسناد میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی، مہتمم جامعہ اشرفیہ مولانا صاحبزادہ فضل الرحیم، شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز مولانا عزیز الرحمن ہزاروی، ناظم تعلیمات دارالعلوم کراچی مولانا راحت علی ہاشمی، استاذ الحدیث جامعہ دارالعلوم کراچی مولانا عزیز الرحمن، ناظم تعلیمات جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاﺅن کراچی مولانا امداداللہ، مفتی محمد خالد، مفتی محمد عمران، صدر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد پروفیسر ڈاکٹر احمد بن یوسف بن احمد االدریویش، معروف صحافی و اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود، چیئرمین اے بی اے ڈی حنیف گوہر، جنرل حمید گل مرحوم کے بیٹے چیئرمین تحریک نوجوانان پاکستان عبداللہ گل، وائس چانسلر دیر یونیورسٹی کے پی کے پروفیسر ڈاکٹر خان بہادر مروت، لیفٹیننٹ جنرل (ر) جی ایم ملک، ایسوسی ایٹ پروفیسر کے ایس بی ایل ڈاکٹر ذیشان احمد، سابق چیئرمین سندھ بورڈ آف انویسٹمنٹ زبیر موتی سمیت ملک بھر سے اپنے شعبوں کی متعدد ممتازشخصیات نے شرکت اور شرکاءسے خطاب کیا۔

عمدہ اور منفرد انتظامات کی وجہ سے یہ تقریب ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ نظم و ضبط کو بہتر طور پر سنبھالنے کے لیے انتہائی مستعد افراد پر مشتمل مختلف امور سے متعلق بیسیوں کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں۔ ان کمیٹیوں نے تقریب کے انتظامات کو احسن انداز سے انجام دیا، جس کی بدولت شریک مہمانان گرامی نے جامعة الرشید کے اقدامات کو سراہا اور نظم و ضبط کی دل کھول کر تعریف کی۔ اسٹیج کا پروقار انداز، سلیقے اور ترتیب سے سجی نشستیں، اسٹیج اور پنڈال کے اطراف میں نصب دیو ہیکل اسکرینیں، مقررین کا انتخاب، مہمانوں کی پذیرائی، پروگرام کی ترتیب اور جامعہ کے مختلف شعبہ جات کے تعارفی اسٹالز، خدمت پر مامور رضاکار، انتظامی امور میں مصروفِ عمل عملہ اور اس کے علاوہ بھی تمام چیزیں منفرد اور مثالی تھیں۔ جامعة الرشید کا مقصد ملا و مسٹر کی تفریق کو ختم کر کے اسلام، مسلمان اور پاکستان کے مفادات کے لیے کام کرنا اور زندگی کے ہر شعبے میں وحی کے نور سے روشنی لے کر قرآن و سنت کے اصولوں کو متعارف کروانا ہے۔ تقریب میںپنڈال میں ایک بڑے پینا فلیکس پر نمایاں حروف میں لکھا ”وحی کے نور کے بغیر عقل گمراہ ہے، دینی و دنیوی تعلیم کا امتزاج ناگزیر ہے“ اس کی واضح مثال تھا۔

تقریب تقسیم انعامات و اسناد کا انعقاد جامعة الرشید کراچی کے کیمپس (ٹو) میں کیا گیا اور اندرون اور بیرون شہر سے آنے والے مہمانان گرامی کی رہنمائی کے لیے کئی کلو میٹر دور سے ہی جامعة الرشید کی جانب آنے والی تمام سڑکوں پر رہنمائی نشانات لگائے گئے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ رہنمائی اور مہمانوں کے تقریب کی جگہ تک بسہولت رسائی کے لیے خدمات سرانجام دینے والی کمیٹیوں کے وردی میں ملبوس افراد ٹولیوں کی شکل میں کھڑے تھے۔ تقریب کی سیکورٹی کے لیے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ شرکاءکی سہولت کے لیے گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے علیحدہ اسٹاف مقرر کیا گیا تھا، جو شرکاءکی گاڑیاں خود پارک کر رہا تھا۔ انتظامات کی بہتری کے پیش نظر مدعو کیے گئے تمام مہمانوں کو چار مختلف کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا تھا، جن میں سے ہر ایک کے پاس الگ عنوان سے دعوتی کارڈ تھا۔ پنڈال سے دور متعدد جگہوں پر بیٹھے طلبہ مدعو کیے گئے مہمانان گرامی کو کارڈ کے مطابق پنڈال میں داخلے کے لیے الگ نوعیت کا انٹری کارڈ دے رہے تھے۔ کیمپس( ٹو) میں داخلے کے لیے متعدد گیٹ تھرو لگائے گئے تھے، جن پر کھڑے کارکنان انتہائی مستعدی کے ساتھ شریک ہونے والے افراد کی چیکنگ کر کے انہیں آگے بھیج رہے تھے۔ درجہ بندی کے لحاظ سے داخلہ کارڈ کی تقسیم کی وجہ سے انتظامات کافی حد تک بہتری کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچے۔ انتظامیہ کی جانب سے لگائے گئے گیٹ تھرو اور تقریب کی جگہ کے مرکزی گیٹ کے درمیان جامعة الرشید کے تحت چلنے والے متعدد شعبہ جات کے تعارفی اسٹالز لگائے گئے تھے۔ تقریب کے پنڈال کے مرکزی گیٹ میں داخلے کے لیے مختلف ٹولیوں میں کھڑے افراد شرکا حضرات کی درجہ بندی کے لحاظ سے ان کی نشستوں کی طرف رہنمائی کر رہے تھے۔ مہمانوں کے لیے متعین کی گئیں نشستیں آرام دہ اورانتہائی ترتیب کے ساتھ رکھی گئیں تھی اورپنڈال میں اسٹیج اور دائیں جانب نصب دیو ہیکل پروجیکٹر اسکرینوں پر پنڈال میں موجود تمام شرکاءنے تقریب کو سہولت سے دیکھا اور سنا۔ پنڈال میں جامعة الرشید کے مختلف شعبہ جات کے تعارفی پینافلیکس آویزاں تھے۔ پنڈال کو انتظامی طور پر مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ تقریب میں صحافی برادری کے لیے اسٹیج کے دائیں جانب پریس گیلری بنائی گئی تھی، جس میں مختلف اخبارات کے ایڈیٹر، کالم نویس، نیوز ایڈیٹرز اور رپورٹرز کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی شرکت کی۔ تقریب تقسیم اسناد و انعامات کی بہترین اور بھرپور میڈیا کوریج کے لیے جدید ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے ڈرون کیمرے سے تقریب کی کوریج کا اہتمام بھی کیا گیا۔ تقریب سے پہلے اور تقریب کے دوران حا ضرےن کی تعداد کا درست اندازہ لگانے اور پنڈال اور اردگرد کے انتظامات کے فضائی جائزے کے لیے ڈرون کیمرے مسلسل فضا مےں چکر لگاتے رہے۔جبکہ دنیا بھر میں تقریب کی لائیو کوریج کا انتظام بھی کیا گیا تھا، دنیا بھر کے متعدد ممالک میں لاکھوں لوگوں نے تقریب کو براہ راست دیکھا اور سنا۔
تقریب تقسیم و اسناد 2 نشستوں پر مشتمل تھی۔ پہلی نشست عصرتامغرب، جبکہ دوسری نشست نمازمغرب کے بعد سے رات ساڑھے گیارہ بجے تک جاری رہی۔ پہلی نشست کاآغاز مقررہ وقت پر تلاوت کلام پاک سے کیاگیا۔ نقابت کے فرائض مفتی سید عدنان کاکا خےل نے سرانجام دیے۔ اسٹیج سے پنڈال کے آخری سرے تک لوگ ہی لوگ تھے، جو کہ نہایت خاموشی اور انہماک سے مقررین کی گفتگو سن رہے تھے۔ ان شرکا میں جید علمائے کرام، صحافی، تاجر، وکلائ، ڈاکٹرز اور ماہرین تعلیم سمیت مختلف شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔ اسٹیج کے دائیں اور بائیں جانب ڈگری لینے والے طلبہ بیٹھے تھے، ان نوجوانوں نے خوبصورت جبے پہن رکھے تھے۔ جامعة الرشید کے مختلف شعبہ جات سے فارغ التحصیل ہونے والے ان طلبہ کے سروں پر عمامے تھے اور یہ عجز و انکساری کا پیکر بنے بیٹھے تھے۔ جامعة الرشید کی اس غیر روایتی اور منفرد تقریب میں مختلف شعبہ جات سے مجموعی طور پر فارغ التحصیل 386 طلبہ کو اسناد و انعامات سے نوازا گیا ہے، جبکہ درس نظامی اور کلیة الشریعہ مکمل کرنے والے طلبہ کی دستار بندی بھی کی گئی۔ فارغ التحصےل طلبہ کو ڈگریاں، تعریفی اسناد اور شیلڈز و انعامات کے علاوہ ساڑھے3لاکھ کتابوں پر مشتمل ڈیجیٹل لائبریری کی صورت مےں ہارڈڈسک بھی دی گئی۔ اس کے علاوہ حسن کارکردگی پر مختلف اساتذہ اور طلبہ کو گولڈ میڈل اور سلور میڈل سمیت مختلف انعامات سے نوازا گیا، جبکہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر پروفیسر ڈاکٹر احمد بن یوسف بن احمد الدریویش نے جامعة الرشید کے تعمیری کام سے متاثر ہوکر رئیس جامعہ مفتی عبدالرحیم کو شیلڈ دی۔

تقریب میں درس نظامی اور کلیة الشریعہ کے طلبہ کی دستار بندی بھی کی گئی۔ یہ دستار بندی رئیس جامعہ مفتی عبدالرحیم نے کی، جبکہ اس موقع پر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی، صدر مفتی، شیخ الحدیث جامعة الرشید کراچی مفتی محمد، دارالعلوم کراچی کے استاذ الحدیث مولانا عزیزالرحمن، ناظم تعلیمات جامعة العلوم الاسلامیہ کراچی مولانا امداداللہ، خلیفہ مجاز حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ، مولانا عزیزالرحمن ہزاروی، مفتی محمد ثاقب سمیت جامعة الرشید کے اساتذہ کرام اور دیگر علمائے کرام بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ تقریب میں مختلف شعبہ جات کے طلبہ کو مدعو کیے گئے مختلف مہمانان خصوصی نے سند اور انعامات سے نوازا۔ تقریب میں پہلی نشست میں سب سے پہلے شعبہ تحفیظ القرآن کے طلبہ کی دستار بندی کی گئی۔ ان طلبہ کو سند، تفسیر عثمانی اور سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم دی گئی۔ حفاظ عربک و حفاظ انگلش کورس کے طلبہ کو دارالعلوم کراچی کے استاذ الحدیث مولانا عزیز الرحمن نے سند دی۔ دراسات دینیہ کورس کے فضلاءکو جامعہ دارالعلوم کراچی کے ناظم تعلیمات مولانا راحت علی ہاشمی نے سند دی،جبکہ ان تمام طلبہ کو سند کے ساتھ تفسیر عثمانی، سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دی گئی۔ تخصص فی التجوید اور تخصص فی القرآت کے طلبہ کو مفتی محمد خالد اور مفتی محمد عمران نے سند دی۔ تخصص فی الافتاءکے طلبہ کو نائب مفتی دارالعلوم کراچی مفتی عبدالمنان اور جامعہ اشرفیہ لاہور کے استاذ الحدیث مولانا احمد علی نے سند دی، جبکہ ان تمام طلبہ کو سند کے ساتھ ساڑھے3لاکھ کتب پر مشتمل ڈیجیٹل لائبریری کی صورت مےں ہارڈڈسک بھی دی گئی۔ بی اے اور بی کام کے طلبہ کو وائس چانسلر یونیورسٹی آف دیر پروفیسر ڈاکٹر خان بہادر مروت اور رفاہ یونیورسٹی سے ڈاکٹر عمر فاروق نے سند دی، جس کے ساتھ ان طلبہ کو تفسیر عثمانی اور سیرت مصطفیٰ بھی دی گئی جبکہ پروفیسر ڈاکٹر خان بہادر مروت اور ڈاکٹر عمر فاروق نے ہی کلیة الفنون کے طلبہ کو سند دی، ان طلبہ کو بھی ایک ہارڈ ڈسک دی گئی۔ دوسری نشست میں لغة العربیہ، کلیة الدعوة اور تدریب المعلمین کے طلبہ کو مولانا ضیاءالرحمن اور دارالعلوم کراچی کے ناظم تعلیمات مولانا راحت علی ہاشمی نے سند دی اور اس کے ساتھ ان طلبہ کو تفسیر عثمانی، سیرت المصطفیٰ اور ہارڈ ڈسک، جبکہ ایک سالہ انگلش اور ایک سالہ عربی لینگویج کورس کے طلبہ کو بھی مولانا ضیاءالرحمن اورمولانا راحت علی ہاشمی نے سند اور ہارڈ ڈسک دی۔

تقریب کے دوران اسٹیج پر لگے پروجیکٹر پر پریزنٹیشن کے ذریعے علوم شریعہ پر مشتمل آٹھ سالہ عالم کورس، یونیورسٹی گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس طلبہ کے لیے چارسالہ عالم کورس (کلیة الشریعہ)، علوم شریعہ پر مشتمل آٹھ سالہ عربی میڈیم عالم کورس، تحفیظ القرآن، آٹھ سالہ درس نظامی کورس، تجوید و قراءات عشرہ اوراسلامک اسکول و مدارس کا نظم و نسق چلانے کے لیے ایک سالہ جامع کورس (تخصص فی القراءات)، کراچی انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ سائنسز (الحاق کراچی یونیورسٹی)، مالی و تجارتی امور میں رہنمائی کے لیے دارالافتاءبرائے مالی و تجارتی امور (ایس سی ایس)، پاکستان کے سات شہروں سے شایع ہونے والا روزنامہ اسلام، ملک بھر کی تاجر برادری کی رہنمائی کے لیے ہفت روزہ شریعہ اینڈ بزنس، عوام کی شرعی رہنمائی کے لیے المفتی آن لائن، مکمل تحقیق کے بعد مختلف فوڈ کمپنیوں کو حلال سرٹیفکیٹ جاری کرنے والا ادارہ حلال فاﺅنڈیشن، ہفت روزہ ”دی ٹرتھ“، پبلک سروسز سینٹر، شعبہ کلیة الدعوة، دراسات دینیہ، حفاظ اور ٹیچر ٹریننگ کورس، سینٹر فار پبلک ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ (تھنک ٹینک)، بے سہارا بچوں کے لیے لباس، طعام، علاج معالجہ، حفاظتی، تعلیمی اور تربیتی سہولیات پہنچانے اور ان کی رہائش کے لیے قائم کیا گیا (ماویٰ ہومز)، صفہ سیوئیر اسکول سسٹم، البیرونی اسکول اینڈ کالج، مدرسہ ام حبیبہ للبنات اور البیرونی گرلز سیکنڈری اسکول، فلکیات و رویت ہلال، حفاظ عربک و انگلش لینگویج کورس، ایک سالہ صحافت کورس (کلیة الفنون) سمیت جامعة الرشید کے دیگر متعدد اداروں کا تعارف کرایا گیا۔ تقریب کے دوران تمام شرکا کو ایک فارم بھی دیا گیا ، جس میں تقریب کے انتظامات سے متعلق رائے پوچھی گئی تھی۔ تقریب کا اختتام رات ساڑھے گیارہ بجے ہوا، جس کے بعد نماز اور مہمانان گرامی کے لیے پرتکلف کھانے کا اہتمام کیا گیا۔ کھانے کا انتظام شرکاءکے زیادہ ہونے اور انتظامات کے پیش نظر چار حصوں میں کیا گیا تھا۔ نماز اور کھانے کے بعد تمام شرکاءباسہولت واپس رونہ ہو گئے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631603 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.