وی وی آئی پی کلچراورغریب عوام

ہمارے ملک میں بد قسمتی سے وی وی آئی پی کلچر کی ہوس اس قدر شدت اختیار کر گئی ہے کہ غریب آدمی کا جینا محال ہو گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یوں بیان کر سکتے ہیں کہ قانون صرف غریب آدمی کے لیے ہے ہمارے ملک میں امیر کیلئے کوئی قانون نہیں ہے، غریب بیچارہ دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہا ہے لیکن امیرلوگ عیش وعشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں دولت کی محبت ہر چیز پر حاوی ہو گئی ہے با وسائل افراد کے پاس دولت کے ڈھیر ہیں لیکن ان کی ہوس ختم نہیں ہوتی ہے پاکستان کے بڑے بڑے سیاست دانوں،بیوروکریٹس، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے غیر ملکی بینکوں میں کئی سو ارب ڈالر موجود ہیں اور عوام کے حصہ میں فاقے آرہے ہیں اگر دل کی بات کی جائے تو پاکستان جیسے ملک میں عوام نے بہت دھوکے کھائے ہیں کبھی اسلام‘ کبھی آمریت اورکبھی جمہوریت کے نام پرلیکن جمہوریت کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے شاید ممکن ہے کہ حکمران سچے دل سے کوشش کریں توجمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچ جائیں لیکن حکمران تو اپنے آپکو عقل کل سمجھتے ہیں وہ ایسا کام نہیں کرنا چاہتے ہیں جس سے عام آدمی کو فائدہ ہو۔ جب تک ہمارے ملک میں وی وی آئی پی کلچر کاخاتمہ نہیں ہوتا اس وقت تک ہمارا معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو گا۔ چند دن پہلے کی بات ہے کہ پنجاب کے صوبائی دارلحکومت میں ایک وزیر محترم کیلئے روٹ لگا ہوا تھا اورپروٹوکول ڈیوٹی پر تعینات ٹریفک وارڈنز اور پنجاب پولیس کے اہلکار وں نے لوگوں کو یہ کہہ کر روک رکھا تھا کہ عالی مقام وزیر صاحب کی گاڑیاں گزرنے تک کسی کو آگے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اسی دوران ایک ایمبولینس بدقسمتی سے اسی راستے پر آگئی اور آدھے گھنٹے سے لگی ٹریفک کی لمبی لمبی قطاروں کا حصہ بن گئی۔ مریض کی چیخوں اور اسکے لواحقین کے واویلا کرنے پر کچھ شہریوں نے ہمت کرکے کے پروٹوکول پر معمور پولیس کے دستوں سے التجاء کی کہ کم از کم ایمبولینس کو تو راستہ دلوا دیں مریض درد کے مارے چیخیں مار رہا ہے جس پر انچارج پروٹوکول یوں گویا ہوئے ’’ اتنی ٹریفک میں ایمبولینس کو راستہ دینے کیلئے ساری ٹریفک رواں کرنی پڑے گی اور اگر اس دوران منسٹر صاحب آن پہنچے تو ہماری نوکری کیا یہ مریض بچائے گا‘‘۔اسی طرح چند روز قبل وفاقی دارلحکومت میں ایک اعلیٰ وزیر محترم بیسوں پروٹوکول گاڑیوں کے ہمراہ سفر کررہے تھے کہ ایک موٹر سائیکل سوار شہری بدقسمتی سے وزیر محترم کے پروٹوکول والی گاڑیوں کے برابر آگیا جس پر گاڑی میں سوار پروٹوکول اہلکاروں نے اسے ایسا زور دار دھکا دیا جس سے اس نوجوان کی بائیں ٹانگ ٹوٹ گئی آپ اندازہ کریں اگر وہ بدقسمت نوجوان وزیر کی گاڑی کے برابر چلا جاتا تو شاید اسے فوری فائرنگ کرکے قتل کردیا جاتا اور کہا جاتا کہ دہشت گرد وزیر عالی مقام پر قاتلانہ حملہ کرنیکی کوشش میں مارا گیا۔ اس طرح کے ہزاروں واقعات ہر روز ہمارے ارد گرد پیش آتے ہیں ۔ عوام بیچاری دربدر ٹھوکریں کھارہی ہے خدا کے سوا کوئی فریاد سننے والا نہیں ہے۔پاکستان کے کسی ادارے میں بھی چلے جائیں آپ کو وہاں غریب لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر آئیں گی ،امیر طبقے کے لوگ اور ہمارے سیاست دان اگر وہاں آجائیں تو ادارے کے لوگ غریب عوام کو بے یارو مدد گار چھوڑ کر ان امیروں اور سیاستدانوں کی چاپلوسی میں لگ جاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کلچر ملک کی ترقی اور قانون کی بالا دستی کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے ۔ جب قانون امیر ‘غریب، کمزور اور طاقتورسب کیلئے برابر ہوگا تو معاشرے سے بہت سی برائیوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا ۔ آپ چائنہ کی مثال ہی لے لیجئے پاکستان کے بعد آزاد ہونے والا ملک آج پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ وہاں آپ کو وی وی آئی پی کلچر نظر نہیں آئیگا ۔ صدر ہو یا وزیر اعظم، وزیر ہو یا بیورو کریٹ کسی کیلئے بیس بیس گاڑیا ں پروٹوکول پر معمور نہیں ہیں ،نوکر چاکر اور افسر شاہی کا تصور تک نہیں کیا جاتا۔ امیر ‘ غریب سب ایک ہی قانون اور ضابطے کے پابند ہیں لیکن اس کے برعکس ہمارے ملک میں ایک پٹواری‘ تحصیلداریا ایس ایچ او بھی کم از کم دو گاڑیوں کے پروٹوکول کے بناء سفر کرنا توہین سمجھتے ہیں ۔ اگر ہمارے ملک سے بھی وی وی آئی پی کلچر سمیت رشوت خوری، لوٹ مار، کرپشن، پولیس گردی جیسی موذی بیماریوں کا خاتمہ ہوجائے تو پاکستان بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
Sohail Ahmad Mughal
About the Author: Sohail Ahmad Mughal Read More Articles by Sohail Ahmad Mughal: 19 Articles with 11246 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.