پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ

اﷲ تعالیٰ نے تخلیق کائنات فرما کر اس میں حسن و زینت پیدا کرنے کے لئے حضرت انسان کی تخلیق اپنے دست قدرت سے فرمائی ۔انسان اس زمین پر اجنبی تھا مگر نسلِ انسانی کے بڑھتے ہی اس کی اجنبیت اپنائیت میں بدلنے لگی ۔زمین پر رہنے والے جانور حضرت انسان کے تابع کر دئیے گئے ۔چرند پرند کی چہچہاہٹ ،درختوں کا سبزہ ، پھولوں کی مہک اور دن رات کی آمد و جامد نے اسے اس دنیا سے مانوس کر دیا ۔پھر اس کی ہدایت و راہنما ئی کے لئے ہادی روانہ فرمائے گئے جن میں حضرت آدم صفی اﷲ بھی تھے اور حضرت نوح نجی اﷲ بھی ،حضرت ابراہیم خلیل اﷲ بھی تھے اور حضرت موسیٰ کلیم اﷲ بھی، مگر تکمیل انسانیت ابھی باقی تھی ۔ جس کے لئے کامل و اکمل ،اجمل و اطہر ،انور و اکرم، رسول محتشم ،جانِ آدم، حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کو مبعوث فرمایا گیا ۔ امام الرسل حضرت محمد رسول اﷲﷺ کے ذمہ تکمیل انسانیت کا فریضہ بھی تھا اور تکمیل دین کا ذمہ بھی ،اعلانِ نبوت کے بعد 23سال کے مختصر عرصہ میں نبی رحمت ﷺ نے علمی ،فکری ،روحانی ،مذہبی ،اقتصادی ،معاشی ،معاشرتی و تمدنی اور اخلاقی ایسا انقلاب اس دنیا میں برپا کر دیا کہ رب کائنات کو حضرت انسان کی تخلیق پر فخر آگیا اور اس نے اپنی نعمت و رضا کے مکمل ہونے کا مژدۂ جاں فزا سنا دیا ۔

ہادیٔ عالم حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کے دنیا ظاہری سے پردہ فرما جانے کے بعد کائنات میں انسان سوچنے لگا کہ دین اسلام کا جو تن آور درخت حضور تاجدار مدینہ ﷺ نے لگایا اُس کی حفاظت و آبیاری کی ذمہ داری آپ ﷺ کے بعد کس کے ذمہ ہو گی ۔اس لئے کہ سابقہ ادوار میں ایک نبی علیہ السلام کے بعد دوسرا نبی آیا ۔ایک رسول کے بعد دوسرے رسول کی آمد جاری رہی جو سابقہ انبیاء و رسل عظام کی تعلیمات کی توثیق فرماتے ۔اب سرکار مدینہ ﷺ کے بعد تو سلسلۂ نبوت ختم ہوا ۔تو فلاح انسانیت و حفاظت و غلبۂ دین کا فریضہ کون سر انجام دے گا۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت انسان کی راہبری و راہنمائی کے لئے سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی جنا ب نبی اکرم ﷺ کے بعد سلسلۂ ولایت کو جاری فرما دیا ۔شاہکارِ قدرت حضرت انسان کی مانوسیت برقرارر ہی ۔ولایت محمد ی ﷺ پر متمکن ہونے والے افراد نبی تو نہیں ہیں مگر بنی اسرائیل کے نبیوں کے کمالات سے آراستہ کر دئیے گئے ۔امتِ محمدی ﷺ کے ولی میدان عمل میں نکلے اور سر بلندی دین اسلام کے لئے سنت مصطفےٰ ﷺ کے مطابق کبھی اپنے کردار و عمل سے ،کبھی حسنِ اخلاق سے ،کبھی تصنیف و تالیف سے ،کبھی وعظ و تقریر سے اور کبھی نظرِ بے نظیر سے لوگوں کوزلفِ رسول ﷺ کا اسیر بناتے گئے ۔

اولیاء اﷲ نے قرب الہٰی کی منزلوں پر فائز ہو کر قوم کو قرآن و سنت کے مطابق نئی فکر عطا فرمائی ۔چونکہ جس طرح اﷲ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت و کردار پر ’’عصمت‘‘ کا پہرا لگا رکھا تھا اسی طرح ولایت کے منصب پر فائز ہونے والے اشخاص کے عمل و کردار پر اﷲ تعالیٰ نے اپنی حفاظت کا پہرا بیٹھا دیا۔ نوے لاکھ کافروں کو کلمۂ توحید پڑھانے والے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اﷲ علیہ کو ولایت محمدی ﷺ ہی تو حاصل تھی ۔خواجہ محکم الدین سیرانی بادشاہ رحمۃ اﷲ علیہ جہاں سے گزرتے انسان تو انسان درخت ،چرند و پرند ہر چیز کلمہ کا ورد شروع کر دیتی یہ فیضان محمد ی ﷺ ہی تو تھا ۔
معزز قارئین:یاد رہے ولایت کے لئے اعمالِ صالحہ کے ساتھ ساتھ عشقِ محمدی ﷺ شرطِ اول کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس لئے کہ عبادات دل کو نرم کرتی ہیں اعمال صالحہ بندہ کی ظاہری و باطنی پاکیزگی کا ذریعہ ہیں مگر چہرہ پر نورانیت فقط ’’عشق محمد ﷺ‘‘ سے ہی آتی ہے ۔پھر احادیث میں ولایت کی بڑی نشانی بھی یہ ذکر فرما ئی گئی کہ ولی وہ ہے جس کو دیکھ کر خدا یاد آجائے ۔بے ساختہ منہ سے سبحان اﷲ سبحان اﷲ نکلے ۔

انہیں نیک ہستیوں میں سے ایک ہستیعالم اسلام کی عظیم روحانی شخصیت،امین فیضان گھمکول شریف ، آفتاب نقشبندیت ،پیر طریقت ،رہبر شریعت حضرت قبلہ پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ بانی آستانہ عالیہ توحید آباد شریف نواں پنڈ سیالکوٹ ہیں۔

نام:آپ کا مکمل نام مبارک سید توحید شاہ ولد سید اقبال شاہ ہے ۔آپ کے پاس کئی مخالفین اہلسنت آتے اور جب یہ کہتے کہ اہلسنت توحید کو پورے تقاضوں سے نہیں مانتے تو آپ بے ساختہ ان کو جواباً کہتے کہ تم کس توحید کی بات کرتے ہو میرا تو نام ہی ’’توحید شاہ ‘‘ہے ۔جس سے بات کرنے والے پر سکتہ طاری ہو جاتا ۔
حلیہ مبارک:حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کا قد مبار ک دراز،داڑھی مبارک گھنی اور لمبی، چہرہ مبارک سفید جو سرخی مائل تھا ۔ہمیشہ سفید لباس زیب تن فرماتے ۔سر پر سفید امامہ سادہ مگر خوبصورت ہوتا جس پر سفید رنگ کا کپڑا اوڑھتے۔سفید شلوار قمیض پر سبز رنگ کا عبایہ نہایت خوبصورت لگتا ۔ہاتھ او رپاؤں مبارک انتہائی خوبصورت اور کشادہ تھے ۔نمازمیں دوزانوں اور عام حالات میں اکثر چار زانوں تشریف فرما ہوتے ۔اﷲ تعالیٰ نے حسن مصطفےٰ ﷺ کا صدقہ حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی کو بھی حسن بے مثال دیا تھا ۔آپ اُس حدیث پاک کے مصداق ہیں کہ ولی وہ ہے جس کو دیکھ کر خدا یاد آجائے ۔
ولادت و تعلیم :حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ 1934ء میں کوہاٹ کے محلہ پیر خیل علاقہ جنگل خیل میں حضرت پیر سید اقبال شاہ کے ہاں پیدا ہوئے جو اپنے وقت کے مجذوب اور صاحب حال بزرگ تھے ۔ ابتدائی تعلیم اور میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول کوہاٹ سے پاس کیا ۔دینی تعلیم اپنے والد بزرگوار اور والدہ محترمہ سے حاصل کی جو انتہائی نیک سیرت اور پاکدامن عورت تھیں ۔گھر کا ماحول مذہبی اور روحانی تھا ۔جس وجہ سے ہوش سنبھالتے ہی نماز روزہ کی پابندی اور شریعت مطہرہ پر سختی سے عمل کیا جاتا ۔سکول کی تعلیم سے فارغ ہو کر پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ نے 10سال رینجرز میں پاکستان کے دفاع اور ملک کی خدمت کے جذبہ سے ملازمت کی ۔دوران ملازمت کافی ساتھی متاثر تھے جو آپ کے اخلاق،حسن کردار اور یاد الہٰی کو دیکھ کر خیال کرتے کہ ہمارے ساتھی سید توحید شاہ ولی کامل انسان ہیں ۔بعد میں والیٔ گھمکول شریف حضرت خواجہ زند ہ پیر رحمۃ اﷲ علیہ کے حکم سے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ۔

بیعت:حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ جب جوان ہوئے تو کوہاٹ میں والیٔ گھمکول شریف حضرت خواجہ زندہ پیر رحمۃ اﷲ علیہ کا بہت شہرہ تھا ۔سر زمین گھمکول شریف ذکر اﷲ کی صداؤں سے گونجتا رہتا تھا ۔ 1960ء میں حضرت پیر سید توحید شاہ رحمۃ اﷲ علیہ بھی والیٔ گھمکول شریف کے دامن سے وابستہ ہو گئے ۔باقاعدہ بیعت کی اور اپنے پیر و مرشد والیٔ گھمکول شریف حضرت خواجہ زندہ پیر رحمۃ اﷲ علیہ کے حکم سے مجاہدات و ریاضت میں مصروف ہو گئے ۔اپنے مرشد کے حکم سے 7ماہ تک گھمکول شریف دربار پر چلہ کشی فرمائی اور کچھ عرصہ کے لئے موہڑہ شریف اپنے دادا مرشد خانہ پر بھی مجاہدات کئے ۔اس طرح والیٔ گھمکول شریف نے پیر سید اقبال شاہ کے صاحبزادے پیر سید توحید شاہ رحمۃ اﷲ علیہ کو سونے سے کندن بنا دیا ۔حضرت پیر سید توحید شاہ رحمۃ اﷲ علیہ نے 1963ء میں اپنے پیر و مرشد کے حکم سے شادی کی ورنہ ذکر اﷲ سے اتنا شغف تھا کہ شادی کا کوئی ارادہ نہ رکھتے تھے ۔شادی کے بعد 1963ء میں ہی والیٔ گھمکول شریف حضرت خواجہ زندہ پیر رحمۃ اﷲ علیہ نے خلافت سے نوازا ۔

سیالکوٹ آمد:7سال تک اپنے مرشد کی صحبتوں سے فیضیاب ہونے والے حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ 1967 ء میں والیٔ گھمکول شریف حضرت خواجہ زندہ پیر رحمۃ اﷲ علیہ کے حکم سے سیالکوٹ تشریف لے آئے ۔ والیٔ گھمکول شریف نے فرمایا کہ جاؤ اور سیالکوٹ میں ذکر اﷲ کی صدائیں بلند کرو تاکہ لوگوں کا روحانی رشتہ اﷲ تعالیٰ سے مضبوط ہو ۔ سیالکوٹ آکر حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ نے شہر سے جنوب مشرق و یرانے میں ڈیرہ لگایا ۔ جہاں لوگ دن کو آتے ہوئے بھی ڈرتے تھے ۔ایک طرف نواں پنڈ اور دوسری طرف رام گڑھ تھا۔درمیان میں بندۂ رحمان حضرت پیر سید توحید شاہ رحمۃ اﷲ علیہ کا مقام تھا۔ پہلے تو کئی دن دھوپ میں بیٹھے رہے ۔پھر ایک جھونپڑی تیار کی۔بعد میں دو کمرے اور مسجد تعمیر فرمائی ۔آج یہ علاقہ توحید آباد شریف کے نام سے مشہور ہے ۔جس میں عظیم الشان خانقاہ ،مسجد جو اپنی مثال آپ ہے ۔وسیع لنگر خانہ اور صاحبزادوں کے مکانات شامل ہیں ۔پہلے پہل اس علاقہ میں بجلی بھی نہ تھی ۔سب سے پہلے دربار شریف پر ہی بجلی کنکشن لگایا گیا ۔اس جگہ پہلے سیلاب آتے مگر اب پانی کا سیلاب تو نہیں البتہ عشاقانِ رسول ﷺ کے سیلاب اُمڈتے ہیں ۔

پابندیٔ شریعت:حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ نے ساری زندگی نماز با جماعت پابندی سے مسجد میں ادا فرمائی ۔خانقاہِ عالیہ توحید آباد شریف پر ہی زیادہ وقت گزارتے ۔جب مسجد میں اذان ہوتی تو اذان کے بعد کلمہ طیبہ کا ذکر شروع ہو جاتا جو جماعت سے پہلے تک جاری رہتا ۔جب قبلہ پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ حجرہ مبارک سے نکلتے تو اﷲ ھو کی صدائیں بلند ہوتیں ۔عوام الناس پیر کامل کی پابندی شریعت دیکھ کر ہی نماز با جماعت کا پکا ارادہ کر لیتے ۔آستانہ عالیہ پر آنے والے زائرین اور زائرات کو دم ،درود کے ساتھ ساتھ شریعت مطہرہ کی پابندی کی تلقین فرماتے ۔اکثر اوقات بندۂ ناچیز ’’محمد تبسم بشیر اویسی‘‘حاضر خدمت ہوتا تو قرآن و سنت اور بزرگان دین کی کتابیں حجرہ مبارک میں آپ کے پاس موجود ہوتیں۔جن میں سے اکثر پر نشانات لگاکر مجھے بھی علمی اضافے کیلئے راہنمائی فرماتے۔پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ نے ساری زندگی ایام ممنوعہ کے علاوہ پابندی سے روزے بھی رکھے اور حالتِ روزہ میں ہی وصال باکمال ہوا ۔جو کوئی پریشان حال حاضر خدمت ہوتا اسے فرماتے تم اﷲ تعالیٰ کی ڈیوٹی پوری کرو۔ اﷲ تعالیٰ تمہارے لئے رزق کے دروازے کھول دیگا۔ذکر اﷲ کرنے سے آپ کی زبان بھی ’’سیف اﷲ ‘‘کا درجہ رکھتی تھی ۔ جو زبان مبارک سے فرماتے پورا ہو جاتا ۔ہر آنے والے کیلئے خصوصی دعا فرماتے اور دعا میں آخری جملے یہ ہوتے ’’اﷲ تعالیٰ رسول اﷲ ﷺ کی محبت اور تابعداری نصیب فرمائے۔‘‘نماز با جماعت ادا فرماکر باآواز بلند کلمہ طیبہ کا ذکر فرماتے جس سے ایک سما ں بند ھ جاتا ۔ختم خواجگان مسجدمیں پڑھتے تو روحانی کیف و سرور حاضرین پر طاری ہو جاتا ۔ سالانہ عرس مبارک ہو یا ہفتہ وا ر اور ماہانہ محفل پاک نہ کبھی نماز باجماعت ترک فرمائی اور نہ کبھی ذکر کو چھوڑا ۔بلکہ اکثر اوقات فرماتے کہ ذکر ہی تو کامیابی کا ذریعہ ہے ۔بندہ ٔ ناچیز (محمد تبسم بشیر اویسی)جب بھی حاضر ہوتا حضرت سلطان العارفین سلطان باہو رحمۃ اﷲ علیہ کی ذکر کے حوالے سے رباعیات آپ خود سناتے اور فیض روحانیہ جاری ہو جاتا ۔حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ شریعت مصطفےٰ ﷺ کے اتنے پابند تھے کہ آپ کے اکثر مریدین با شریعت اور عامل سنت ہیں۔نورانی چہرہ ،سنت کے مطابق لباس ،خوش اخلاق اور انتہائی شفیق ہستی حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ 1960ء سے مسلسل روزہ رکھتے آئے ۔تہجد کے وقت سے رات گئے تک آنے والوں کے دکھوں کا مداوا کرتے رہے ۔ ہر آنے والے کی عرض محبت سے سنتے اور اُن کا روحانی علاج کرتے رہے ۔آپ روحانی سلسلہ نقشبندیہ کے آفتاب تھے ۔

جذبہ اطاعتِ رسول ﷺ:جملہ اکابر اولیاء کرام اور صاحب تقویٰ کا اس پر مکمل اتفاق ہے کہ افتتاح ابواب سعادت یزدانی اور استقبال مقامات ربانی فیض الہٰی اور استعداد قبول درجات غیر متناہی سوائے اتباع سنت سید المرسلینﷺ کے حاصل نہیں ہوتے۔ جیسا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے :کہ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْ کُمُ اللّٰہ ُط:شیخ عبد الحق دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ شرح فتوح الغیب میں اسی آیت کے تحت یوں تفسیر فرماتے ہیں :کہ ’’کہہ دیجئے ! اے میرے محبوبﷺ ! اگر تم لوگ خدا کو دوست رکھتے ہو اور تم چاہتے ہو کہ واصل باﷲ ہوجاؤ اور اﷲ کے خاص بندوں سے ہو جاؤاور اﷲ تعالیٰ تمہارا محبوب اور مطلوب اور مقصود ہو ۔تو تم کو چاہئے کہ پیروری کرو میری۔تاکہ تم خدا کے دوست ہو جاؤ ۔‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی پیروی کرنے سے خدا بندہ کا محبوب ہو جاتاہے۔

مولانا عبد الکریم چشتی لاہوری رحمۃ اﷲ علیہ اپنے رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں۔کہ :’’نبی کریم ﷺ کے ساتھ محبت کرنے یا آپ کی پیروی کرنے کی تین اقسام ہیں ۔جیسا کہ حضور پر نور ﷺ نے فرمایاہے ۔(1)اَلشَّرِیْعَۃُ اَقْوَالِیْ ط۔شریعت میرے اقوال ہیں۔ (2)وَالطَّرِیْقَۃُ اَفْعَالِیْ ط۔ طریقت میرے افعال ہیں۔(3)وَالْحَقِیْقَۃُ اَحْوَالِیْ ط، اور حقیقت میرے احوال ہیں ! اور حکم قرآن و حدیث کی دو اقسام ہیں ۔بعض حکم اچھے ہوتے ہیں اور بعضے زیادہ اچھے ۔‘‘(1)پہلی قسم کو شریعت کہتے ہیں ۔(2)دوسری قسم کو طریقت کہتے ہیں ۔(3)شریعت و طریقت دونوں کا نتیجہ حقیقت کہلاتا ہے جب سالک شریعت و طریقت میں مکمل ہو جاتا ہے ۔تو حقیقت جو دلدار کا دیکھنا ہے ۔خود بخود اس پر منکشف ہو جاتی ہے ۔’’مشاغل جلالی‘‘ میں لکھا ہے ۔کہ حضرت شیوخ رضی اﷲ عنہم کا طریقہ بھی پیروی رسول اﷲ ﷺ کرنا ہی تھا اور تین اقسام پیروی رسول ﷺ کی بھی ہیں ۔
(1)’’آپ کے اعمال کی نہایت استعانت کے ساتھ اتباع کرنا اور یہ کام اعضاء کا ہے ۔‘‘(2)’’آپ کے اخلاق اور سیرت کی مطابعت کرے اور اس پر قائم رہے یہ کام دل کا ہے ۔‘‘(3)’’آپ کے احوال کی پیروی کرے اور یہ کام روح کا ہے ۔‘‘

پیروی رسول خدا ﷺ پر حضرت پیر سید تو حید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ اس انداز سے کار بند تھے کہ آپ کی صورت سنتِ رسول ﷺ کے مطابق ، سیر ت سنت رسول ﷺ کے مطابق ،گفتگو اور مزاح سنت رسول ﷺ کے مطابق ،اصلاح و تربیت کا انداز سنتِ رسول ﷺ کے مطابق ، تبدیلی ٔ لباس کے ایام سنتِ رسول ﷺ کے مطابق ۔حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ شریعت ِ محمد ﷺپر عمل کیے بغیر ولایت کا حصول ممکن نہیں ۔ تارک سنتِ مصطفےٰ ﷺ،معرفت و حقیقت سے نا آشنارہتا ہے ۔حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ نے ساری زندگی مسجد میں با جماعت نماز ادا فرمائی ۔ جبکہ بچپن سے لے کر وصال مبارک تک آپ کی فرض نماز تو درکنار نمازِ تہجد بھی کبھی قضا نہ ہوئی تھی ۔فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے مسلسل رکھتے۔نماز اشراق۔چاشت۔اوابین پر دوام تھا ۔تلاوت قرآن حکیم، اورادو وظائف میں ہمیشگی مگر سنتِ رسول ﷺ و پیرویٔ رسول خدا ﷺمیں ۔

حج اور عمرے:حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ نے 2حج اور 20عمرے ادا فرمائے ۔عرس مبارک آستانہ عالیہ توحید آباد شریف کے موقعہ پر عمرہ شریف پر روانگی کا قافلہ کی صورت میں اعلان کیا جاتا ۔ چند ہی دنوں میں عمرہ کی شعادت حاصل کرنے والے مریدین و عقیدت مند اپنا پاسپورٹ اور زادِ راہ جمع کروادیتے۔احباب سے رابطہ کے بعد حضرت قبلہ پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کی سرپرستی میں عقیدتمندوں کی عمرہ شریف کے لئے روانگی ہوتی تو آستانہ عالیہ توحید آباد شریف ذکر اﷲ اور عشقِ محمد ﷺ کی خوشبوؤں سے معطر ہو جاتا ۔عوام الناس راستے میں جگہ جگہ الوداعی استقبال کرتے اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی ۔سماں ایسا ہوتا کہ واقعی دیارِ حبیب ﷺ کی زیارت کیلئے عشاق جا رہے ہیں۔عمرہ شریف سے واپس آتے تو عشاقانِ رسول ﷺ اس ولی کامل کا والہانہ استقبال کرتے ایسے محسوس ہوتا جیسے جسم میں دوبارہ روح لوٹ آئی ہو ۔آپ نے پہلا حج 1962ء میں اپنے پیر و مرشد کے ہمراہ کیا ۔
پیر خانے سے محبت:حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کو اپنے پیر کامل سلطان الاولیاء ، سلطان الذاکرین حضرت قبلہ سخی زندہ پیر تاجدار گھمکول شریف رحمۃ اﷲ علیہ سے عشق کی حد تک محبت تھی ۔سال میں کئی بار اپنے پیر خانے گھمکول شریف قافلوں کی صورت میں حاضر ی دیتے رہے۔عرس مبارک کے موقعہ پر کئی بسوں پر مشتمل مریدین کا قافلہ لیکر ضرور شرکت کرتے ۔دربار عالیہ کے لنگر سے بھی بہت محبت کرتے ۔پیر خانے پر حاضر ہو کر کبھی یہ محسوس ہی نہ ہونے دیا کہ وہ بہت بڑے پیر اور سجادہ نشین ہیں بلکہ اکثر فرماتے ہم تو اس در کے فقیر ہیں۔مریدین اور دینی محافل میں جب کبھی پیر خانے اور والیٔ گھمکول شریف کا ذکر آتا تو ادباً سر جھکا لیتے۔دربار عالیہ گھمکول شریف پر حاضری کے وقت جہاں جگہ ملتی وہیں بیٹھ جاتے ۔ دربار عالیہ کے سجادہ نشین سے بھی انتہائی عقیدت و محبت رکھتے ۔گھمکول شریف کے سجادہ نشین حضرت پیر حبیب اﷲ سرکار دامت برکاتہم العالیہ جس محفل میں نہ پہنچ سکتے وہاں آپ کی ڈیوٹی لگا دیتے ۔مجھے یاد ہے کہ دربار عالیہ حضرت امیر ملت علی پور سیداں شریف کے سجادہ نشین حضرت پیر سید منور حسین شاہ جماعتی صاحب نے علی پور سیداں شریف کے سالانہ مرکزی عرس مبارک 11-10مئی 2015ء پر حضرت قبلہ پیر حبیب اﷲ سرکار جی کو خصوصی دعوت دی ۔ آپ کسی وجہ سے تشریف فرما نہ ہو سکے تو حضرت قبلہ پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کی ڈیوٹی لگائی جس کو آپ نے فرض سمجھ کر ادا کیا ۔ساری رات اپنے پیر کے حکم کی تعمیل میں علی پور سیداں شریف کے اسٹیج پر جلوہ گر رہے۔ اس موقعہ پر حضرت پیر سید منور حسین شاہ جماعتی سجادہ نشین دربار عالیہ حضرت امیر ملت علی پور سیداں شریف کو بندہ ناچیز(محمد تبسم بشیر اویسی)نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہمارے اسٹیج کی رونق ہی قبلہ پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کی وجہ سے دوبالا ہوئی۔حضرت قبلہ پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ دربار عالیہ گھمکول شریف پر حاضری اپنے اوپر فرض سمجھتے تھے ۔اکثر اوقا ت قافلہ لیکر گھمکول شریف حاضری دیتے اور کئی کئی دن اس حاضری کی برکات کو احباب میں بیان فرماتے ۔

آپ کے سفرمبارک:حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ آستانہ عالیہ پر ہی زیادہ وقت بسر فرماتے رہے تاکہ عوام الناس کا اﷲ تعالیٰ سے بندگی اور رسول کریم ﷺ سے غلامی کا رشتہ مضبوط بنایا جائے ۔عوام الناس کو روحانی علاج کے ساتھ ساتھ نماز روزہ کا پابند اور عقیدۂ اہلسنت کی پختگی کا سختی سے درس دیتے رہے اور فرمایا کرتے کہ ہر چیز ذکر اﷲ سے آباد ہے ۔جبکہ عباد ت کا سرور اور چہرے کا نور عشقِ رسول ﷺ سے پیدا ہوتا ہے ۔

حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ نے کبھی ذاتی غرض و غایت سے سفر نہیں فرمایا ۔مریدین کے ہاں بھی صرف محفل میلاد کے انعقاد پر ہی تشریف لے کر جاتے رہے ۔حرم کعبہ و حرم نبوی ﷺ کے علاوہ کسی ملک کا سفر پسند نہیں فرمایا ۔جبکہ کبھی مریدین محفل میلاد مصطفےٰ ﷺ کیلئے آپ رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں دعوت پیش کرتے تو آپ بخوشی اس سفر مبارک کی دعوت کو قبول فرمالیتے ۔دربار عالیہ توحید آباد شریف پر اس محفل میلاد شریف پر حاضری کا باقاعدہ اعلان ہوتا او رعشاق کا قافلہ قبلہ پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کی سرپرستی میں اﷲ ھو کی صدائیں بلند کرتا روانہ ہوتا۔جس سفر میں بس ذکر اﷲ اور ذکر رسول ﷺ ہو وہ سفر کتنا با برکت ہو گا ۔ جس جگہ محفل میلاد ہوتی اس شہر اور گاؤں کی گلیاں صدائے اﷲ ھو سے معطر ہو جاتیں۔لوگ گھروں سے باہر نکل کر اس ولیٔ کامل کی زیارت کرتے اور زبان سے سبحان اﷲ سبحان اﷲ کہتے ۔بند ہ ٔناچیز(محمد تبسم بشیر اویسی) کو بھی قبلہ پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کے ہمراہ اکثر محافل میلاد پر جانے کیلئے سفر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ کو اولیاء اﷲ کی درگاہوں اور مزارات سے خاص محبت تھی۔قدوۃ السالکین ، حجۃ الکاملین ،حضرت سیدنا داتا علی ہجویری رحمۃ اﷲ علیہ کے عرس مبارک پر بھی قافلے کے صورت میں سفر فرماتے ۔حضرت امام علی الحق شہید رحمۃ اﷲ علیہ کے مزارپر حاضری کاسفر بھی آپ کو بہت پسند تھا اور فرمایا کرتے تھے کہ امام صاحب رحمۃ اﷲ علیہ حاضری میرے مرشد کریم حضرت زندہ پیر تاجدار گھمکول شریف رحمۃ اﷲ علیہ کی سنت ہے ۔ ہر سفر میں عاشق مرشد ڈاکٹر قیصر ضمیر نقشبندی صاحب گاڑی ڈرائیو کرتے اور کبھی صاحبزادگان میں سے کوئی یہ سعادت حاصل کرتا ۔بوقت سفر بھی آستانہ عالیہ توحید آباد شریف پر عوام الناس کی راہنمائی کیلئے حضرت صاحبزادہ پیر سید فرخ شاہ صاحب کو موجود رکھتے تاکہ نبی کریم ﷺ کا کوئی غلام مایوس نہ جائے ۔

اخلاق و کردار:حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کو اﷲ تعالیٰ نے صاحب خلق عظیم حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے اخلاق کریمہ سے حصہ وافر عطا فرمایا تھا ۔ ہر آنے والے شخص کے دل میں اپنے اخلاق و کردار سے محبت پیدا کر دیتے ۔زبان مبارک سے کبھی سخت بات نہ نکالی ۔طبیعت اتنی حلیم کہ دشمن بھی قائل ہو جاتا ۔علماء و مشائخ ملنے کیلئے آتے تو آپ کے اخلاق و کردار کے گرویدہ بن جاتے ۔جو ایک بار قبلہ پیر صاحب سے ملاقات کر کے گیا وہ ساری زندگی یہی محسوس کرتا رہا کہ جتنا پیار مجھ سے ہے اور کسی سے نہیں ۔روزہ رکھنے سے اکثر احباب کی طبیعت میں کچھ شدت آجاتی ہے مگر پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ بارہ ماہ ہی روزہ رکھنے کے باوجود خوش خلقی کا پیکر رہے ۔ہر ملنے والے کو مسکرا کے ملتے جس سے آنے والے کے نصف دکھوں کا مداوہ ہو جاتا۔بندہ ٔ ناچیز(محمد تبسم بشیر اویسی ) کئی بار رات کو کافی دیر سے حاضر ہوا پھر بھی آپ کے چہرے پر ملال نہ دیکھا ۔محفل میں بھی اکثر چہرۂ مبارک پر تبسم ہوتا اور ساری رات ذکر و میلاد کے بعد بھی حلم میں فرق نہ پڑتا ۔عوام الناس کو اپنے کردار اور اخلاق سے ہی شریعت و سنت کا پابند بناتے ۔ کبھی کسی کی چغلی ،غیبت یا عیب جوئی نہ فرماتے بلکہ اصلاح احوال کیلئے اسلاف کی روشن سیرت کے پہلوؤں کو سامنے لاتے جس سے ہر ایک خود بخود صراط مستقیم پر گامزن ہو جاتا۔دورانِ سفر بھی آپ کی طبیعت اخلاق و کردار کا حسین امتزاج رکھتی ۔مجھے 16سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے مگر آج تک کسی ایک شخص کو بھی حضرت قبلہ پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کے اخلاق و کردار پر انگلی اٹھاتے نہیں دیکھا ۔

علماء و نعت خوانوں سے محبت:حضرت قبلہ پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کو علماء کرام اور ثناء خوان مصطفےٰ ﷺ سے بڑی محبت تھی۔عرس مبارک اور دیگر مذہبی تقریبات میں اکثر و بیشتر کثیر تعداد میں علماء کرام اور نعت خوانان حاضر ہوتے ۔ان کیلئے کھانے اور بیٹھنے کا علیحدہ انتظام کرواتے۔ علماء کرام کو سیرت مصطفےٰ ﷺ اور عقیدۂ اہلسنت پر بیان کرنے کی تلقین فرماتے ۔اﷲ تعالیٰ نے پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کو علم ظاہری و باطنی سے خوب نوازا تھا ۔جب کوئی مقرر یا خطیب کوئی بات خلاف حقائق کرتا تو اس کو علیحدگی میں سمجھاتے ۔بندہ ناچیز(محمد تبسم بشیر اویسی) پہلی مرتبہ آستانہ عالیہ توحید آباد شریف کے سالانہ عرس مبارک منعقدہ 1999ء پر حاضر ہوا اور رات کی نشست میں حسن مصطفےٰ ﷺ پر خطاب کیا ۔دوران خطاب جب حسن مصطفےٰ ﷺ کی تعریف کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا’’کہ اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی۔۔۔جیسے میری سرکار ہیں ویسا نہیں کوئی‘‘تو کئی بار اس کو دہرانے کا حکم دیا ۔پوری محفل پر وجدانی کیفیت تھی اور قبلہ پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کی آنکھوں سے عشقِ مصطفےٰ ﷺ کا دریا موجزن تھا اور زبان پر یہ جملے تھے ’’اویسی صاحب پھر پڑھوتم رسول اﷲ ﷺ کی بارگاہ میں مقبول ہو گئے ہو‘‘۔وہ دن تھا اور آج کا دن ہے بندہ ناچیز ہر سال عرس مبارک اور سال بھر کے اسلامی تہواروں پر آپ کے حکم سے حاضر ہوتا رہا ہے ۔جو بھی علماء کرام اور نعت خوان آستانہ پر حاضر ہوتے ان کو تحائف اور نذرانے دیکر رخصت فرماتے اور فرمایا کرتے یہ رسول اﷲ ﷺ کے دین کے پہرے دار ہیں۔میرے ساتھ حضرت پیر محمد ظہور واصف بڈیانوی صاحب سجادہ نشین واصفی آستانہ بڈیانہ شریف ، علامہ حافظ محمد لقمان اویسی اور دیگر ساتھی بھی اس بات کے گواہ ہیں۔

دل میں ہر وقت یاد خدا:اس سے مراد ہے کہ حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ بظاہر مخلوق کے ساتھ رہے اور باطن میں سب سے دور اور علیحدہ رہے۔’’یعنی تن جلوت میں ہو اور دل خلوت میں ہو۔‘‘حضرت شاہ جلال الدین محمد جعفر اُویسی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی کتاب گلزار جلالی میں یہ حدیث بیان فرماتے ہیں :۔ یعنی ’’لوگوں میں رہو جسموں تک اور دو ر رکھو اُن کو اپنے دل سے ۔‘‘

’’حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اﷲ عنہ کا بھی اسی قول کی طرف اشارہ ہے ۔ آپ فرماتے ہیں :۔ کہ اَسَّلَامَۃُ فِی الْوَحْدَۃِ ط۔’’یعنی سلامتی تنہائی ہی میں ہے اور تنہا اس کو کہتے ہیں کہ جو وحدت میں فرد ہو اور وحدت اس کو کہتے ہیں ۔کہ اﷲ تعالیٰ کے سواء کسی کا خیال دل میں نہ سما وے ۔کیونکہ اسی صورت میں سلامت رہ سکتا ہے ۔‘‘

تنہائی سے مراد ظاہری تنہائی نہیں ہے ۔کیونکہ یہ درست نہیں ہے ’’کیونکہ اکیلے کے ساتھ شیطان ہے ‘‘اور دو سے وہ دور بھاگتا ہے ۔‘‘جیسا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : ’’وہ لوگ ہیں کہ جن کو تجارت اور لین دین ذکر اﷲ سے غافل نہیں کرتے ۔‘‘حضرت خواجہ اولیاء کبیر قدس سرہٗ نے فرمایا ۔خلوت درانجمن یہ ہے کہ ذاکر ذکر میں اس قدر مشغول ہو ۔کہ اگر بازار میں جائے تو اُسے کوئی آواز سنائی نہ دے ۔‘‘حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اﷲ علیہ کشف المحجوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص وحدت تنہارہنے کو سمجھے تو یہ غلط ہے کیونکہ اس کے دل کے ساتھ شیطان ہم نشین ہوتا ہے۔اس کے سینہ میں نفس کی بادشاہت ہوتی ہے اور جب تک دنیا وعقبیٰ کا فکر اُس کے دامن گیر رہتا ہے ۔اس وقت تک وحدت کا حاصل ہونا محال ہے اگرچہ مخلوق سے الگ رہتا ہو ۔البتہ اگر کوئی حقیقتاً وحید ہو گا ۔تو مخلوق کو ملنے سے اُسے کوئی ضرر نہیں پہنچے گا اور ملنا اُس کا وحدت میں مزاحم نہ ہوگا ۔

خلوت در انجمن اُس وقت حاصل ہو گی ۔جب آدمی صاحب دل ہو گیا اور خدا کے ذکر کے ساتھ مانوس ہو کر غیر اﷲ کا خیال دل سے نکال دے۔بظاہر مخلوق میں مشغول ہو اور باطن میں حق سے مصروف ہو۔‘‘
حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جب خدا سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے تو مخلوق سے خود بخود تعلق ختم ہو جاتا ہے اور لوگوں کی محبت اُن کے تعلقات میں حائل نہیں ہوتی ۔حدیث شریف میں ہے کہ :’’دانائی سیکھو اور تنہائی اختیار کرو۔‘‘اس میں دل جمی کی طرف اشارہ ہے ۔کیونکہ جب دل یادحق سے مستحکم ہو جاتا ہے تو سالک کا درجہ بلند ہو جاتا ہے اور اس کا ظاہر و باطن یکساں ہو جاتا ہے ’’ایسی حالت میں سالک کو کسی سے ملنے میں کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔‘‘اس اصول کے مطابق حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کے سیرت کے پہلوؤں پر نظر دوڑائیے ۔ آپ نے نہ افرادِ دنیا سے دل لگایا نہ مال دنیا سے۔ افراد آئے تو رجوع الی اﷲ میں لگا دئیے اور مال آیا تو سبیل اﷲ میں خرچ کر دیا۔دل کو یادِ الہٰی کا حجرہ بنائے رکھا۔
بقول سلطان باہو:؂ اے تن رب سچے دا حجرہ وچ پا فقیرا جھاتی ہو

حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ مخلوق خدا اور افراد سے دوری و تنہائی کو راہبانہ طریقہ خیال فرماتے تھے ۔آپ نے اسلامی طرز ِعمل کے مطابق خلوت در انجمن پر ایسا دوام پایا کہ آپ کو کوئی تعلق دنیا رشتہ ، برداری یا معاملاتِ دنیا یادِ الہٰی سے ایک پل بھی غافل نہ کر سکے ۔آپ بقولِ سلطان باہو رحمۃ اﷲ علیہ اسی نظریہ پر قائم رہے کہ
؂ جو دم غافل سو دم کافر سانوں مرشد اے پڑھایا ہو

حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ نے زندگی بھر ہر جمعرات بعد نماز عشاء محفل ذکر کا اہتمام کیا ۔خلوت درانجمن کی بین دلیل پیش کرتے ہوئے حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ ایسا وجدانی ذکر کرتے کہ ما سوائے اﷲ تمام کا خیال جاتا رہتا ۔آپ اکثر فرماتے کہ اﷲ تعالیٰ کے ملنے کا کوئی ایک خاص راستہ متعین نہیں ۔مگر جسے اور جیسے وہ اپنی معرفت اپنے بندے کو عطا کرے تو اُس کا اﷲ کی ذات کے علاوہ جملہ مخلوق سے ظاہری و باطنی تعلق منقطع ہو نا یقینی ہو جاتا ہے۔حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ اﷲ اپنی قدرتوں سے نظر آتا ہے مگر اہل اﷲ ہمارے اندر ہی رہتے ہیں چلتے پھرتے ہیں ۔معاملات زندگی چلاتے ہیں مگر اہل نظر پر ہی ان کی ذات آشکار ہوتی ہے ۔بظاہر مخلوق میں ہوتے ہیں حقیقت میں خالق ہی سے تعلق رکھتے ہیں ۔

فضول گوئی سے پرہیز:اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنی زبان کو فضول گوئی سے بند رکھے اور دل کو بادشاہ دوجہان کی یاد میں رکھے ۔

جیسا کہ مولانا جامی رحمۃ اﷲ علیہ نفخات الانس میں تحریر فرماتے ہیں :ترجمہ’’جب زبان فضول گوئی سے خاموش ہو جاتی ہے تو دل ذکر حق میں گویا ہو جاتا ہے ۔‘‘دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’’ جب دل خواہشات نفسانی سے پاک ہو جاتا ہے تو دل یاد ِ الہٰی میں مستغرق ہو جاتا ہے ۔اگر چہ بظاہر لوگوں سے صحبت و ملاقات کے وقت باتیں کرتا ہے ۔‘‘مولانا جامی اسی کتاب میں خاموشی کی دو اقسام تحریر فرماتے ہیں : اول:(خاموشی زبان کی )گفتار سے پرہیز کرنا۔دوئم:(خاموشی دل کی) دل کا خطرات و خواہشات نفس سے خاموش رہنا۔جس کی زبان خاموش اور دل یادِ حق میں گویا ہو گا اس کے گناہ ہلکے ہوں گے اور جس کی زبان اور دل غیر اﷲ سے باز ہوں گے اس پر اﷲ تعالیٰ کی تجلیات وارد ہوں گی ۔لیکن جس کا دل و زبان دونوں مخلوقات سے گویا ہوں گے وہ مغلوب اور مسخر شیطان ہوگا۔سب سے اچھے لوگ وہی ہیں جو بظاہر تو لوگوں سے باتیں کریں مگر باطن میں (یعنی باطنی زبان سے)ذکر حق میں مشغول رہیں۔ لمعاتؔ میں لکھا ہے کہ حضرت جنید بغدادی قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ تیس سال ہو گئے کہ میں حق سے باتیں کرتا ہوں مگر لوگ سمجھتے ہیں کہ میں ان سے مخاطب ہوں۔

فضوئی گوئی سے پرہیز کے حوالے سے پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کی ذات ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتی تھی ۔آپ فضول گوئی سے کوسوں دور تھے۔مجلس ہو تو زبان سے سیرتِ رسول ﷺ کے تذکر ے جاری رہتے اور تنہائی ہوتی تو زبان ذکر اﷲ سے تر رہتی ۔آپ گفتگو بھی موقعہ محل کے مطابق فرماتے۔ پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتار میں بھی حسن تھا اور خاموشی میں بھی وقار ۔یقینا جو زبان قرآن و حدیث کے بیان ، تلاوت و ذکر کی حلاوت اور تبلیغ کی چاشنی سے لبریز ہو پر اثر ہوتی ہے ۔اسی لئے پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ جب کوئی جملہ زبان سے نکالتے دلوں میں اتر تا جاتا اور جب خاموشی کی چادر اوڑھالیتے تو افرادِ محفل کے دلوں کی دھڑکن تھم جاتی ۔آپ اکثر فرماتے یہ زبان فضولیات کے لئے نہیں ذکر خدا و مصطفےٰ ﷺکے لئے عطا کی گئی ہے ۔ جملہ مخلوقات اپنی زبانیں اُسی خالق کی تسبیح سے تر رکھتی ہیں مگر انسان غفلت میں زبان سے یاوہ گوئی کرتا رہتا ہے ۔اگر ذکر نہیں تو زبان کو خاموش رکھ کر آخرت کا فکر مند رہ یہ بھی نجات کا سامان بن جائے گا۔

تواضع و انکساری:انسان کو چاہیے کہ وہ خدا کو ہر جگہ ،ہر حال اور باطن میں حاضر و ناطر جانے اس کی دید سے آنکھ اُٹھانے میں خسارے ہیں۔ اُس کی رضا سے پھرنے میں نقصان ہے ۔بندہ حق کے مشاہدہ میں اس طرح مستغرق رہے کہ اُس کی نظر یں متواضع اور با اَدب شخص کی طرح اپنے پاؤں کی طرف جھکی رہیں ۔اِدھر اُدھر دائیں بائیں نہ دیکھے اور غیروں کی طرف التفات نہ کرے۔‘‘اُس کے سلوک کا قدم ’’صراط مستقیم‘‘ کی حد سے لڑکھڑا کر باہر نہ آجائے ۔ تواضع و انکساری کا مطلب ہے کہ بندہ جب کسی راستہ میں قدم رکھے تو نظر قدم پر رکھے اور چشم باطن سے ذرہ بھر بھی غیر کی طرف نہ دیکھے کیونکہ اگر کسی غیر سے کچھ بھی تعلق ہو گیا تو اُس کی منزل رہ جائے گا۔ خواہ اُسے دونوں جہان کی کرامتیں اور مقامات حاصل ہوں ۔سب اُس کے راستہ میں حجاب ہو جائیں گے ۔‘‘ اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ سے فرماتا ہے :مَا ذَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغیٰ ط۔یعنی نظر رسول اﷲ ﷺ نے دوسری طرف نگاہ بھی نہ کی ۔دائیں بائیں نہ دیکھا اور جو حد دیکھنے کے واسطے مقرر کردی تھی ۔اُس سے نظر آگے نہ بڑھائی ۔

تواضع و انکساری کا یہ بھی مفہوم لیا جاتا ہے کہ بندہ اپنے شیخ کے نقش قدم پر چلے اور اُس کی پیروی و متابعت کرے اور پھر اس بات میں کوئی کسر نہ چھوڑے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : ترجمہ’’پہلے پیغمبر وہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کو راستہ دکھایا پس اُن کی ہدایت کی پیروی کرو۔‘‘اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرید کو اپنے شیخ کی پیروی کرنے سے چارہ نہیں بلکہ اس کے لئے اپنے پیر و مرشد کے نقش قدم پر چلنا ضروری اور لازمی ہے ۔‘‘

اصحاب کہف کا قصہ قرآن مجید میں موجود ہے اور بہت ہی مشہور ہے کہ اُن کے ساتھ ایک کتا بھی ہو لیا تھا ۔چونکہ اصحاب کہف اولیاء اﷲ میں سے تھے ۔کُتے کو بھی مرتبہ اعلیٰ ملا اور اُس کا حشر بھی اُن ہی حضرات کے ساتھ ہو گا۔

حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ نے تواضع و انکساری کے اصول کو اپنی زندگی کا مشن بنایا ۔ جب چلتے تو تیز چلتے مگر نظر ہمیشہ قدم پر ہوتی ۔ غرور ،تکبر نام کی کوئی چیز آپ کی چال ڈھال سے نظر نہ آتی ۔پر وقار قدم اُٹھاتے ۔اصطلاح صوفیاء کے مطابق تواضع و انکساری کا معنیٰ اپنے شیخ کے نقش قدم پر چلنا ہے اس پر بھی حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ زبر دست عامل تھے ۔جیسے آپ کے پیر و مرشد حضرت خواجہ زندہ پیر رحمۃ اﷲ علیہ تاجدار گھمکول شریف بیٹھتے ویسے ہی آپ بیٹھتے ۔جیسے شیخ کا چلنا ویسا مرید کا چلنا ۔لباس اور کردار میں عاجزی و انکساری کمال درجہ رکھتی تھی ۔

لوگوں کی پردہ پوشی:پردہ پوشی اس کو کہتے ہیں ۔کہ لوگوں کے عیوب سے آنکھ بچا ئے گناہگاروں کو ظاہرنہ کرے بلکہ اُن کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے ۔ پردہ پوشی کی تین اقسام ہیں : (1) کسی کی عیب جوئی نہ کرنا۔ (2) کسی کے عیب کو جانتے ہوئے اس کو ظاہر نہ کرنا۔
(3) کسی کا عیب ظاہر ہوجانے پر اس کو ڈھانپنا اور کوشش کرنا کہ یہ عیب اس سے جاتا رہے اور لوگ اس کو اس عیب سے پاک سمجھیں اور یہ قسم پہلی دونوں اقسام سے افضل ہے ۔اولیاء اﷲ کا ہمیشہ یہی وطیرہ رہا ہے کہ خود تکلیفیں اُٹھا کر بھی لوگوں کے عیب و قصور ظاہر نہ کئے۔

پردہ پوشی کی خصلت ایسی عمدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرمایا ہے :ترجمہ ’’اﷲ تعالیٰ کے بندے ایسے ہوتے ہیں کہ جب کسی برے اور ناپسند یدہ راستہ سے گزرتے ہیں تو نہایت ہی بردباری سے گزرجاتے ہیں اور جو شخص لوگوں کی خطاؤں اور قصوروں پر درگزر کرتا ہے اور ان کے عیب وخطا سے چشم پوشی کرتا ہے تو وہ شخص صفات ستاری ،غفاری،رحیمی اور غفوری سے متصف ہوجاتا ہے ۔پردہ پوشی کے اس اصول کو حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ نے مضبوطی سے اپنائے رکھا ۔آپ نہ خود کسی کی عیب جوئی فرماتے اور نہ کسی کو عیب گوئی کرنے دیتے بلکہ فرماتے بندے کو اﷲ تعالیٰ کی صفت ستار کا مظہر ہونا چاہیے ۔آپ اگر کسی کا عیب دیکھتے تو اُس کی بغیر نام لئے اصلاح کی کوشش فرماتے ۔

حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ نے کبھی خادمین و عقیدت مندوں کو غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ نہ فرمائی بلکہ پیکر شفقت و محبت بن کر اُن کی غلطی کی اصلاح فرماتے رہے ۔کسی کے عیب کا پتہ چلنا یا آپ کے سامنے کسی شخص نے دوسرے کی عیب جوئی کرنی تو آپ نے اُس شخص کی خوبیوں کا تذکرہ فرمانا شروع کر دینایا خاموش رہنا جس سے موجود افراد نے حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کی صفت پردہ پوشی سے متاثر ہو کر آئندہ عیب جوئی سے توبہ کرلینی۔آپ فرمایا کرتے کہ اپنے مسلمان بھائی کی نیکیوں کو یاد کرو تاکہ فرشتے اُسے نیک شمار کریں ۔

حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ جہاں عظیم صوفی ،پایۂ کے ولی ، علم دوست ،مخلص عابد و زاہد اور عظیم مبلغ و راہنما تھے وہاں عوام کی پریشانیوں سے نجات کے لئے بھی کوشاں رہتے ۔دکھی انسانیت کی خدمت اور اُن کے دکھوں کا مداوا کرنا اپنا فرض منصبی خیال فرماتے تھے ۔روزانہ صبح نماز چاشت کے بعد اپنے حجرۂ میں تشریف فرماہوتے تو پریشان اور مصائب و آلام کے گھر ے لوگ حاضر خدمت ہوتے ۔آپ ہر شخص کے دل کی سنتے اور اپنی میٹھی میٹھی مگر پرُ تاثیر باتوں سے ان کے دلوں کے زخموں پر مرحم رکھتے ۔کسی کی داستان غم سننے سے نہ اکتاتے نہ بات کاٹتے ۔کسی کو دعا۔ کسی کو دم و پھونک اور کسی کو تعویز عطا فرماتے ۔ہر شخص کو اس کے حسب حال پندو نصائح سے نوازتے اور ذکر الہٰی کی ترغیب فرماتے ۔ کتنا ہی آزردہ خاطر انسان حاضر خدمت ہوتا چند لمحے آپ کی صحبت فیض میں گزارنے کے بعد یوں محسوس کرتا کہ گویا افکار و آلام کے پہاڑ اس کے سر سے اتر گئے ہیں اور وہ خوش و خرم اپنے گھر لوٹتا۔

حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ ﷲ علیہ کی ایک خاص صفت بھوکوں کو کھانا کھلانا تھی ۔آستانہ پاک پر کوئی بھی آتا لنگر نقشبندیہ ہر خاص و عام پر کھلا رہتا۔ مخلوق خدا کو کھانا کھلا کر خوش ہوتے ۔عرس مبارک کے موقعہ پر ہزاروں عقیدت مند جمع ہوتے مگر لنگر شریف ختم ہونے کا نام نہ لیتا ۔
حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ نے خانقاہ کو مرکز تجارت و نفع بخش کاروبار نہ بنایا بلکہ خانقاہ کو دکھی انسانیت کے لئے پناہ گاہ بنایا۔اصلاح و تربیت کا مرکز گردانا ۔آپ روایتی پیری و مریدی کو مناسب خیال نہ فرماتے تھے بلکہ قرآن و سنت کے احیاء کے لئے پیری مریدی کا عمل فرماتے رہے ۔لیکن انسان لاکھوں کام کرے ۔اصلاح نفس کے ساتھ ساتھ اصلاح و فلاح انسانیت کا فریضہ بھی سر انجام دے ،تصوف و راہبانیت میں فرق اور ولایت کی درست تصویر بھی عوام کے سامنے لائے مگرپھر بھی اُسے ایک دن اس دنیا سے جانا ہے ۔جس سے کسی کو انکار نہیں ۔بڑے بڑے نامور افراد دنیا میں آئے لیکن ایک دن انہیں بھی کوچ کرنا پڑا۔روز مرہ کے روحانی ،مذہبی ،سماجی اور فکری و اصلاحی فرائض سر انجام دیتے ہوئے آخر کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتْ کے تحت ہمارے پیر و مرشد مرکز محبتاں ،سلسلہ نقشبندیہ کے نیر تاباں رہبر عاشقاں ،اولیاء جن پر قرباں ،صوفیاء جن پہ نازاں ،طریقہ اصلاح و تربیت جن سے درخشاں حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ 20اکتوبر 2015ء بروز منگل کو شہر خاموشاں کی طرف رختِ سفر باندھ گئے ۔

اپنے وصال سے ایک دن قبل پیر شریف کو اپنے مرشد خانہ گھمکول شریف حضرت پیر حبیب اﷲ شاہ سرکار جی صاحب کو خط لکھا کہ میری ڈیوٹی مکمل ہو گئی ہے۔عرس مبارک میں حاضری کیلئے تیاری بھی مکمل ہے ۔بڑی محبت سے خط حوالہ ڈاک کروایا ۔ یہی ولایت ہے کہ جس میں ولی کو پتہ چل جاتا ہے کہ میرے وصال کا وقت آگیا ہے ۔کام مکمل ہو گئے ہیں ۔صاحبزادگان کو بھی فرمایا کہ چاول جو عرس مبارک کے لنگر کیلئے ہیں زیادہ ہی لانا ضرورت پڑنی ہے ۔تمام معاملات مکمل کر کے رات معمولات میں بسر فرمائی ۔بروز منگل دن کے پہلے پہر تمام زائرین کو زیارت کروائی اور مخلوق خدا کی اصلاح و فلاح فرماتے رہے ۔ نماز ظہر کی تیاری کیلئے وضو فرمایا اور خادم کو آواز دے کر فرمایا کوئی ملاقات کیلئے ہے تو بھیج دو! خادم نے عرض کیا حضور اس وقت کوئی نہیں ہے !فرمایا پھر ذکر شروع کرو۔ خادم نے دروازے پر ذکر شروع کیا۔ حالتِ روزہ میں شاہکار و خلیفہ حضور زندہ پیر تاجدار گھمکول شریف رحمۃ اﷲ علیہ اپنے حجرہ میں ذکر کرتے ہوئے اور سنتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ خدام انتظار ہی کرتے رہے کہ ان کے دلوں کا چین اور ولایت کا نور العین آفتاب کب اپنے حجرہ مبارک سے طلوع ہوتا ہے ۔مگر یہ انتظار اب تا قیامت جاری رہے گا۔ جب حجرہ مبارک میں دیکھا تو قبلہ پیر سید توحید شاہ گوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ وصال فرما چکے تھے۔وصال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی ۔عوام الناس اور عقیدتمندان آنکھوں میں آنسو لئے دربار عالیہ توحید آباد شریف کی طرف لپک پڑے۔ بندہ ناچیز (محمد تبسم بشیر اویسی )کو بھی بذریعہ ٹیلی فون اطلاع ہوئی یکدم سکتہ طاری ہو ا مگر موت ایک حقیقت ہے جس کو تسلیم کرنا ہر مسلمان کے ایمان میں شامل ہے ۔دربار عالیہ توحید آباد شریف حاضر ہوا ۔عوام اپنے مرشد اور ولایت کے آفتاب کو آنسوؤں کا خراج پیش کر رہے تھے ۔زیارت کیلئے حجرہ مبارک میں حاضر ہوا تو دیکھا چہرہ مبارک نورانی اور لبوں پر تبسم ۔ ساری رات عوام و خواص زیارت کرتے رہے ۔ 21اکتوبر 2015ء بروز بدھ دن 11بجے نماز جنازہ کا اعلان ہوا ۔ دربار عالیہ گھمکول شریف کے سجادہ نشین حضرت پیر حبیب اﷲ شاہ سرکار جی صاحب خود نماز جنازہ کیلئے توحید آباد شریف تشریف لائے ۔مرید با وفا کے جنازہ پر پیر صادق کی جلوہ گری سے رقت کے مناظر میں اضافہ ہوا ۔ نماز جنازہ کی امامت خلیفہ مجاز دربار عالیہ موہڑہ شریف حضرت پیر فخر نذیر قاسمی صاحب نے فرمائی اور تاجدار گھمکول شریف پیر جی سرکار نے دعا فرمائی ۔حضرت پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ کو آستانہ عالیہ پر نئی تعمیر ہونے والی عظیم الشان مسجد کے شمالی طرف دفن کیا گیا ۔جنازہ تاریخ سیالکوٹ کامثالی جنازہ تھا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور اپنی مغفرت کا سامان بنایا ۔آپ کے سوگواران میں 4صاحبزادے پیر سید وحید شاہ ،پیر سید توفیق شاہ ، پیر سید فرخ شاہ اور پیر سید ہارون شاہ ہیں ۔آپ کے وصال کے بعد آپ کی مسند مبارک پر تیسرے صاحبزادے حضرت پیر سید فرخ شاہ صاحب کو بٹھایا گیا ہے جن کی تربیت حضرت قبلہ پیر سید توحید شاہ کوہاٹی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی حیات ظاہری میں فرمائی تھی ۔اب تو بس بقول پیرسید نصیر الدین نصیر شاہ رحمۃ اﷲ علیہ یہی کہا جا سکتا ہے۔
سنے کون قصۂ دردِ دل میرا غم گسار چلا گیا
جسے آشناؤں کا پاس تھا وہ وفا شعار چلا گیا
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس میرے پیر کی جو تہے مزار چلا گیا
وہ سخن شناس وہ دوربیں وہ گدا نواز وہ مہ جبیں
وہ حسیں وہ بحر علوم دیں میرا تاجدار چلا گیا
کہاں اب سخن میں وہ گرمیاں کہ نہیں رہا کوئی قدر داں
کہاں اب وہ شوق میں مستیاں کہ وہ پر وقار چلا گیا
جسے میں سناتا تھا دردِ دل وہ جو پوچھتا تھا غمِ دروں
وہ گدا نواز بچھڑ گیا وہ عطا شعار چلا گیا
بہے کیوں نصیرؔ نہ اشک غم رہے کیوں نہ لب پہ میرے فغاں مجھے بے قرار وہ چھوڑ کر سرِ راہ گزار چلا گیا

آپ کا عرس مبارک 17-16-15اپریل بروز جمعہ ،ہفتہ اور اتوار آستانہ عالیہ توحید آباد شریف سیالکوٹ منعقد ہو رہا ہے جس کی صدارت پیر سید فرخ شاہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ توحید آباد شریف فرمائیں گے جبکہ نگرانی پیر سید حافظ ہارون شاہ اور سرپرستی پیر سید توفیق شاہ اور پیر سید وحید شاہ فرمائیں گے ۔جبکہ 17اپریل بروز اتوار بعد نماز ظہر عرس مبارک کی خصوصی تقریب ہو گی جس میں سجادہ نشین پیر سید فرخ شاہ ملک و ملت کے لئے خصوصی دعا کریں گے ۔ عرس مبارک میں ملک و بیرون ملک سے وابستگان توحید آباد شریف شرکت کریں گے ۔

آپ کا عرس مبارک 17-16-15اپریل بروز جمعہ ،ہفتہ اور اتوار آستانہ عالیہ توحید آباد شریف سیالکوٹ منعقد ہو رہا ہے
 
Peer Muhammad Tabasm
About the Author: Peer Muhammad Tabasm Read More Articles by Peer Muhammad Tabasm: 40 Articles with 62063 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.