پرچہ برائے فروخت۔۔۔۔۔

کسی قوم کی نئی نسل ان کے مستقبل کا سرمایہ ہوتا ہے۔ اج اگر ان کی بہتر تربیت کی جائے تو کل وہ اچھے شہری بن کر صحت مند معاشرہ تشکیل دیں گے۔ تعلیم و تربیت حا صل کر کے وہ ملک و قوم کو ترقی کے راہ پر گامزن کریں گے۔

اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو جتنے بھی علوم ہیں ان کو اسلامی ادوار میں ترقی ملی ہے۔ علوم طب و جراحی ہو یا علوم حسابیات و ہندسہ۔ سائنس ہو یا معاشرت۔ معاشیات ہو یا سیاسیات، یہ تمام مسلم معاشرے میں پلے ہیں۔ علوم سماویہ یعنی قرآن و حدیث کی اتنی علم ہر مسلم مرد و عورت پر فرض ہے جس کے ذریعے وہ اپنے رب کو پہچان کر اس کے احکام کی بروقت ادائیگی کرے۔ حلال و حرام کی تمیز کریں۔ اپنے فرائض اور دوسروں کی حقوق کو پہچانے۔

آج دینی طبقہ پر یہ اعتراض کیا جارہا ہے کہ یہ عصری علوم کے مخالف ہے۔ اسلام مسلمان کو دشمن کے مقابلے میں ہمیشہ مضبوط رہنے کا حکم دیتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی ایجادات ہوئی ہیں ان میں مسلم سائنس دانوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ جب دنیا کے اکثر حصے پر مسلمانوں کی حکومت تھی تب علوم سماویہ اور دنیاوی علوم ایک ساتھ ہی سکھائے جاتے تھے۔ لیکن جب مسلمانوں نے اپنا مقصد اصلی چھوڑا اور مادی اشیاء کے پیچھے بھاگنے لگے تو ان کی علم میں بھی کمزوری آنے لگی۔ رفتہ رفتہ عصری علوم پر غیروں نے قبضہ کر لیا۔ ایک طویل مدت تک مسلمان اس دولت سے محروم رہے۔

برصغیر میں مسلمان جب مغلوب ہوگئے تو ان کو اپنی علمی انہتات کا احساس ہوا۔ اس زمانے کے اکابر علماء نے عوام میں علمی شعور اجاگر کرنے میں کردار ادا کیا۔ دار العلوم دیو بند کی بنیاد بھی اس لیے رکھی گئی تھی کہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی دولت دوبارہ حاصل کریں۔ لیکن انگریز کی مکاری نے مسلمانوں کو دو طبقوں میں تقسیم کر دیا۔ عصری علوم کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ اور یہاں سے علوم سماویہ اور عصری علوم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

آج پاکستان میں لارڈ میکالے کا نظام تعلیم رائج ہے۔ ہمارے عصری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دین سے دور کیا جارہا ہے۔ ہمارے تعلیمی نصاب سے رحمت اللعالمین اور خلفائے راشدین سمیت صحابہ کرام اور اکابر علماء کے واقعات کو ختم کرکے مغربی تہذیب و ذہنیت بنانے والے مضامین شامل کیے جا رہے ہیں۔ ہمارے نصاب تعلیم کو اس حد پر لاکھڑا کیا ہے کہ پورے سال کی پڑھائی کا مقصد صرف اور صرف امتحان میں کامیابی ہوتی ہے۔ نئے نسل کو نظام تعلیم سے علاوہ ایک درجے سے دوسرے درجے میں منتقل ہونے کے اور کچھ بھی حاصل نہیں ہورہا۔

آج جیسا کہ وطن عزیز کو اور بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے اس کے ساتھ ہی ہمارے عصری نظام تعلیم کے ذریعے سسٹم میں ایسے نااہل لوگوں کو داخل کیا جارہا ہے جو کچھ بھی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ آج ہمارے امتحانی ہال پیسوں پر خریدے جاتے ہیں۔ آج ہمارے قوم کے معمار نونہالوں کے ہاتھوں بھکتے ہیں۔ آج کا معلم امتحان گاہ میں متعلم سے رشوت لے کر پیپرز حل کراتے ہیں۔ ملک بھر میں امتحانی ہالوں کا جائزہ لیا جائے تو دل ڈوبنے لگتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو کس طرف لے جایا جارہا ہے؟ امتحان گاہوں میں نقل کا تصور کیسے پیدا کیا گیا؟ مارکیٹ میں نقل کے سہولت کار مواد کا نوٹس کیوں نہیں لیا جارہا؟ کہیں پر تعلق کے بنیاد پر نقل کی کھلی عام اجازت تو کہیں باقاعدہ بارگیننگ کرکے نقل کرائی جارہی ہیں۔

حالیہ میٹرک کے سالانہ امتحانات کو سامنے رکھ کر وطن عزیز کے بربادی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سندھ ثانوی بورڈ کے تحت جاری امتحانی ہالوں میں سٹاف باقاعدہ امیدواروں کے ساتھ بارگیننگ کرتے ہیں۔ فی پرچہ پچاس روپے سے ڈھائی سو روپے تک کھلے عام لیے جاتے ہیں۔ کتابیں اور نوٹس لے جانے پر کوئی پابندی نہیں۔ آج نقل کے ذریعے پاس ہونے والے معماران وطن کل ملک کو کس سمت میں لے کر جائیں گے؟ کیا یہی لوگ ہمارے محکموں کو چلا سکیں گے؟ کیا یہ لوگ ملک و قوم کے لیے بہتر پالیسیاں بنا سکیں گے؟ کیا ان لوگوں سے کرپشن کے خاتمے کی توقع کی جاسکے گی؟ آج اگر ہم نے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے اور نقل کا راستہ روک کر اس کا تصور ختم کرنے کے لیے اقدامات نہ کیے تو ہم آنے والے نسلوں کے لیے تاریخ کی ایک بد ترین مثال بن جائیں گے۔

Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 76220 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.