انوکھے فیسٹول

دنیا بھر میں مختلف اقسام کے تہوار منائے جاتے ہیں لیکن چند علاقے ایسے ہیں جہاں ماہی گیری کا فیسٹول منعقد ہوتا ہے جس میں مچھلی پکڑنے کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ اس تہوار کومذہبی اور تاریخی رسومات کا درجہ حاصل ہے اوراسے مخصوص ناموں کے تحت وہاں کے روایتی طریقے سے منایا جاتا ہے۔ افریقی ملک ’’مالی‘‘ میں کئی عشرےسے اس تہوار کو ’’انٹوگو ‘‘ کے نام سے منایا جاتا ہے۔مالی کی ڈوکون کاؤنٹی میں 1500فٹ بلند عجیب و غریب اشکال کی چٹانوں سے گھرا ہوا بامبا نامی گاؤں ہے، جہاں شدید گرمی پڑتی ہے جس کی وجہ سے یہاں کی ہر شے جھلس جاتی ہے۔ لیکن یہاں واقع ایک جھیل اور اس میں موجود آبی مخلوق گرمی کے اثرات سے محفوظ رہتی ہیں، جس کی وجہ سےیہ جھیل مقامی لوگوں کے نزدیک مقدس مقام کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں ہزاروں مچھلیاں تیرتی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن ان کا شکار سال میں ایک صرف ایک دن ’’انٹوگو کے تہوار‘‘ کے موقع پر کیا جاتا ہے اور اس کے لیے شرط ہے کہ پندرہ منٹ کے اندر مذکورہ جھیل کو مچھلیوں سے خالی کرلیا جائے۔ گاؤں کے دیہاتی بڑی تعداد میں اس تہوار میں حصہ لیتے ہوئے ٹوکریاں ہاتھوں میں تھامے جھیل کی جانب ایک ساتھ دوڑ لگاتے ہیں اورمقررہ وقت میںتمام مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مذکورہ تہوار کو یہاں مذہبی حیثیت حاصل ہے اور اسے منانے کے لیے گاؤں کے پروہت کی جانب سے کچھ اصول و ضوابط مرتب کیے گئے ہیں۔ایک محدود وقت میں پکڑی گئی آبی خوراک کا استعمال سارا سال کرنا ہوتا ہےاور یہ دیہات کے باسیوں کے نزدیک سال بھر تک متبرک غذا کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔

اس جھیل میں ماہی گیری کے لیے سال کا ایک دن ہی کیوں مخصوص کیا گیا ہے ؟ اس کے متعلق کچھ روایات مشہور ہیں۔ ماضی میں اس قصبہ کا موسم انتہائی خوش گوار تھا ،سارا سال مینہ برستا تھا، فضا میں تازگی تھی، جس کی وجہ سے پورا قصبہ سر سبز و شاداب تھا، ہر طرف ہرے بھرے جنگلات، لہلہاتے کھیت نظر آتے تھے۔ یہاں ایک شفاف پانی سے لبریز جھیل تھی اور قدرت کی عطا کردہ ان نعمتوں کی وجہ سےیہاں کے باسیوں کی زندگی چین و سکون کے ساتھ گزر رہی تھی۔زرعی فصلوں کی وجہ سے انہیں فکر معاش نہیں تھی، جب کہ جھیل میں مقامی دیہاتیوں کے لیے ٹنوں آبی خوراک، مچھلیوں کی صورت میں موجود تھی۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اس علاقے کا موسم تبدیل ہوکر انتہائی گرم ہوگیا، لوگ آسمان پر بادلوں کی صورت دیکھنے کو ترس گئے، فصلیں تباہ ہوگئیں، سبزئہ زار اور جنگلات جھلس گئے۔ چند ہی دنوں میں پورا علاقہ بنجر اور ریگستان لگنے لگا، جہاں ہر طرف خشک چٹانیں نظر آتی تھیں، جھیل بھی سکڑ کر ایک بڑے جوہڑ یا تالاب میں تبدیل ہوگئی۔

کہانیوں کے مطابق جوہڑ دکھائی دینے والی مذکورہ جھیل پر دیوی دیوتاؤں کا سایہ تھا، جس کی وجہ سے یہ شفاف پانی اور مچھلیوں سے بھری رہتی تھی ۔ یہاں کے لوگ زراعت کے ساتھ ساتھ ماہی بھی کرتے تھے اور ہاتھ سے بنائی ہوئی لکڑی کی چھوٹی سی ڈونگا نما کشتی میں مچھلیاں پکڑنے جایا کرتے تھے۔ یہاں اناٹو نامی شخص بھی رہائش پذیر تھا، جس کے خاندان کی گزراوقات کا ذریعہ ماہی گیری تھا۔ وہ بچپن سے ہی روزانہ اپنے باپ کے ساتھ کشتی میں بیٹھ کر علی الصباح مچھلیاں پکڑنے جاتا تھا ۔ اس کا باپ جھیل کے پانی میں جال ڈالتا جس میں چھوٹی بڑی ڈھیروں مچھلیاںسمٹ کر آ جاتی تھیں۔ وہ بڑی مچھلیوں کو علیحدہ کرکے چھوٹی مچھلیاں واپس پانی میں ڈال دیتا تھا۔معصوم اناٹو جب اپنے والد سے اس کا سبب پوچھتا تو وہ جواب دینے کے بجائے مسکرادیتا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ مچھلی بازار بھی جاتاجہاں وافرمقدار میں مچھلیاں بکنے کے بعد اچھی خاصی تعداد میں بچ بھی جاتیں، جنہیں گھر لے آتے، پھر وہ اگلے کئی دن تک جھیل پر نہیں جاتے اوران مچھلیوں کو بہ طور غذا استعمال کرتے تھے۔ اس کے باوجود بھی اس آبی خوراک کاذخیرہ کم نہ ہوتا۔ اس کی ماںباقی بچنے والی مچھلیوں کو دھوپ میں سکھا کر مٹی کے مرتبانوں میں بھر لیتی تھی اور اکثر پڑوسیوں میں بانٹتی رہتی تھی۔جب کسی کے گھر بچے کی پیدائش ہوتی یا کوئی لڑکی جوانی کی حدود میں داخل ہوتی تو اناٹو کی ماںمذکورہ گھروں میں جاتی اورچنبیلی کے پھولوں اور خشک مچھلیوں کے ہار ان کے گلے میں ڈال دیتی جو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے تیار کیے ہوتےتھے۔ گاؤں کے لوگوں کے عقیدے کے مطابق ، ماں کے بنائے ہوئے ہاروں کے بغیر ان کی زندگی کی خوش حالی کا شگون مکمل نہیں ہوسکتا تھا، اس وجہ سے اسے گاؤں بھر کی خواتین میں ایک نمایاں مقام حاصل تھا اور خوشی اور غم کے موقع پر اسے ہر گھر سے خصوصی بلاوہ آتا تھا۔

چند سالوں بعد یہ گاؤں موسمیاتی تغیرات کی زد میں آگیا۔ سورج آگ برسانے لگا، بارش کا دیوتا ان سے روٹھ گیا اور گرمی کی ایسی لہر اٹھی کہ گاؤں کے باسی بلبلا اٹھے۔ فصلیں تباہ ہوگئیں، سر سبز جنگلات چٹیل میدان بن گئے۔آبی ذخائر ختم ہوگئے۔جھیل کا پانی بھی خشک ہوگیا، ان کی کشتیاں اس کے کنارے کھڑی گرد و غبار سے اٹ گئیں۔ پہاڑی چراہ گاہیں سیاہ چٹانوں میں بدل گئیں۔دیہاتیوں کو گزر اوقات کے لیے اپنے مویشی اور مال و اسباب بیچنا پڑا۔ اناٹو کا خاندان بھی خشک سالی سے متاثر ہوا، اس کے باپ کو کھانے پینے کی اشیا کی خریداری کے لیے گاؤں کے دوسرے لوگوں کی طرح اپنے مال مویشی فروخت کرنا پڑے۔ دیہاتی خواتین کے نزدیک اس کے خاندان کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی۔ ماں دوسری عورتوں کے ساتھ لائن میںبالٹیاں لے کر پانی کے ٹینکر کا نتظار کرتی جو ہفتے میں صرف ایک دن آتا تھا۔پھر دیوتا کی مہربانی سے جھیل میں قدرتی طور سے پانی آگیا، حالاں کہ اس کی وسعت پہلے جیسی نہیں رہی تھی اور وہ ایک اولمپک سوئمنگ پول یاجوہڑ نظر آتی تھی لیکن اس میں مچھلیوں کی بہتات ہوتی گئی۔ گاؤں کے پروہت نے ان کے شکار پر پابندی لگادی، بعد ازاں ان ہی کے حکم سے دیوتاؤں کی خوش نودی کے لیے’’ انٹوگو‘‘ نامی تہوار کا انعقاد کیا گیا، جو بعد میں ہر سال منعقد ہونے لگا اور اس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس تہوار میںپاکیزگی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، اس میںہر عمر کے مرد موجود ہوتے ہیں مگرخواتین کو بعض وجوہات کی بنا پر شرکت کی اجازت نہیں ہے، وہ اس دن گھروں میںمحدودرہتی ہیں۔ تہوار میں شریک ہر شخص انتہائی باریک کپڑے کے نیکرزیب تن کرکے، کاندھو ںپر چمڑے کے تھیلے اور ہاتھوں میں بانس کی بنی ہوئی ہلکی جالی نما ٹوکریاں اٹھائے، مخصوص دعائیہ گیت گاتے ہوئے تین اطراف سے جھیل کی جانب بڑھتا ہےجہاں اسےجھیل کے گہرے پانی میں لکڑی کی تین چھڑیاں گڑی ہوئی نظر آتی ہیں جنہیں تہوار کی مقدس علامت ، کہا جاتا ہے۔ تمام شرکاء جھیل کے کنارے جمع ہوکر بگل کے انتظار میں تیار کھڑے ہوجاتےہیں ۔ مذہبی عبادت گاہ کاایک خادم کسی جانور کے سینگ کولیے ہوئے پروہت کی طرف سے اشارے کا منتظر ہوتا ہے۔ جیسے ہی اسے حکم ملتا ہے، وہ سنکھ کو منہ میں دبا کر بجاتا ہے اور تمام لوگ جھیل میں کودجاتے ہیں، ان کے کودنے سے مٹی کے بگولے اٹھنے لگتے ہیں جس سے عجیب وحشت ناک ماحول ہوجاتا ہے۔ اس ہڑبونگ میں لوگ مدہوشی کے عالم میں پانی میں ہاتھ ڈال کر مچھلیاں تلاش کرتے ہیں ، جیسے ہی کوئی مچھلی ہاتھ سے ٹکراتی ہے، وہ برق رفتاری سے ٹوکری کو پانی میں ڈال کر انہیںآگے جانے سے روکتے ہیں اور ہاتھ میں آنے والی مچھلیوں کو منہ سے پکڑتے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے کئی کئی مچھلیاں منہ میں دبائی ہوتی ہیں اور ان کے دانت لگنے سےوہ زخمی ہوجاتی ہیں، خون کے چھینٹے ان کے چہرے پر پھیل جاتے ہیں ، اس پر جھیل کی کیچڑ اور کائی انہیں انتہائی ہیبت ناک بنا تی ہے اور وہ پتھر کے زمانے کے انسان معلوم ہوتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ منہ سے پکڑی جانے والی مچھلیوں کو ٹوکری میں ڈالتے جاتے ہیں۔ پندرہ منٹ گزرتے ہی سنکھ کی آواز دوبارہ گونجتی ہے اورلوگ اپنے ہاتھ روک کر جھیل سے نکل آتے ہیں۔ ہر شخص کے کاندھے پر مچھلیوں سے بھرے ہوئے تھیلے ہوتے ہیںجو سارا سال ان کی غذائی ضرورت پوری کرنے کے علاوہ معاشی ذریعہ بھی بنتی ہیں۔

نائیجریا کی شمال مغربی ریاست کبی کے قصبے میں آرگنگا فشنگ فیسٹول منایا جاتا ہے۔ اس چار روزہ تہوارکا انعقاد دریائی علاقوں مٹان فاڈا، مالا اور گامجی میں کیا جاتا ہے۔ اس کا سلسلہ 1934میں شروع ہوا تھا جو آج تک جاری ہے۔ 2005میں فائنل مقابلے میں 75کلوگرام وزنی مچھلی پکڑی گئی تھی جسے ترازو تک لے جانے کے لیے چار افراد کی ضرورت پڑی تھی۔ 2006میں دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے یہ تہوار منانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جو بعد میں اٹھا لی گئی۔ آرگنگا فیسٹول کے فائنل مقابلے میں ہزاروں خواتین و مرد شریک ہوتے ہیں جو دریا کے کنارے قطار بنا کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس تہوار کے موقع پر مچھلی پکڑنے کے لیے ایک گھنٹے کا وقت دیا جاتا ہے۔ بندوق کے فائر کی آواز سنتے ہی تمام شرکاء دریا میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ انہیں معینہ وقت کے اندر سب سے وزنی مچھلی پکڑنا ہوتی ہے۔ اس مقابلے کے فاتح کو 7500امریکی ڈالر کی رقم انعام میں دی جاتی ہے۔ تہوار کے منتظمین کی طرف سے اس میں شریک ماہی گیروں کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ وہ ممنوعہ جال کی بجائے مچھلی پکڑنے کا روایتی کانٹا استعمال کریں لیکن بیشتر شرکاء اس کی بجائے ہاتھ سے مچھلی پکڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد تماشائیوں پر اپنی بہادری اور مہارت کی دھاک بٹھانا ہوتا ہے۔ آرگنگا کے تہوار کے موقع پر ماہی گیری کا مذکورہ طریقہ، امریکی عوام میں بہت مقبول ہے اور اسے وہاں ’’نوڈنگ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

جنوبی کوریا کے سرد ترین علاقے ہاوے چیون کاؤنٹی میں ہر سال آئس فشنگ فیسٹول منایا جاتا ہے۔ یہ بیس روزہ تہوارہر سال 9سے 31جنوری تک جاری رہتا ہے ۔ ہاوے چیون کا قصبہ، سیول سے 120کلومیٹر کے فاصلے پر ایک برف زار میں واقع ہے۔ خون کوجمادینے والی سردی میں اس فیسٹول کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں ملکی و غیرملکی عورتیں، مرد اور بچوں سمیت تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد حصہ لیتے ہیں۔ برف باری شروع ہونے کے ساتھ ہی ہاوے چیون میں اس تہوار کا آغاز ہوجاتا ہے۔ فیسٹول کے شرکاء یہاں واقع جھیل میں جمی برف کی موٹی تہہ میں چھوٹے چھوٹے سوراخ کرکے، ان میں کانٹے ڈالتے ہیںاورجس کے کانٹے میں مچھلی پھنستی ہے وہ خود کو خوش نصیب سمجھتا ہے۔ اس فیسٹول میںبڑے افراد کے ساتھ ساتھ بچے بھی ڈوراور کانٹا پکڑے مچھلی تلاش کرتے ہیں۔جن افراد کے لیے ’’برفانی ماہی گیری‘‘ مشکل ہوتی ہے، ان کے لیے یخ بستہ پانی کے تالاب بنے ہوئے ہیں جن کے اندر ہاتھ ڈال کر وہ مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں اور اس تہوار کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

چین کےصوبے جِلن کے ایک گاؤں میں واقع جھیل پر ماؤایتھنک گروپ کی طرف سے15اپریل کو ایک فشنگ فیسٹول کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میںہر سال تقریباً ایک لاکھ غیر شادی شدہ افراد شرکت کرتے ہیں۔ ویسے تو اس تہوار کی روایت ہزاروں سال پرانی ہے لیکن 2001ء میں اسے باقاعدہ میلے کی شکل دی گئی۔ اس میں رشتہ ازواج میں منسلک ہونے کے متمنی افراد کو منہ سے مچھلیاں پکڑنے کے فن کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے، جو امیدوار بغیر ہاتھ لگائے، منہ سے مچھلیاں پکڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، انہیں فوراً شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔مچھلی کو ہاتھ لگائے بغیراسےپکڑنے کا اپنی نوعیت کا یہ انوکھا مقابلہ ہے۔ ہیں نا دل چسپ اور انوکھی روایات؟
RAFI ABBASI
About the Author: RAFI ABBASI Read More Articles by RAFI ABBASI: 212 Articles with 197727 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.