نشہ یا ثقافت۔۔؟؟

تحریر،مجیب الرحمن

جیب سے نکال کر بڑی مہارت سے مثلث، بیوی یا گول ہلکی سی پڑی کی آواز کش کش کے ساتھ بنانا شروع کرتے ہوئے اور پھر مزے کے ساتھ بنائی ہوئی چہنڈی ہونٹے کے نیچے رکھ لیتے ہیں۔جو غالباََ6سے10منٹ تک منہ میں پڑھی رہتی ہے لیکن جوں ہی ذائقہ ختم ہو جائے تو نسوار خورا سے پھینک کر نئی چہنڈی کی تیاری پکڑنا شروع کرتے ہیں اسی طرح لوگ دن میں دو پُڑی کئی ایک دن تک استعمال کرتے ہیں لیکن تین سے چار دن میں میں پُڑی خود بخود بیکار ہو جاتی ہے۔ چہنڈی اتنی ٹائٹ اور مضبوط ہوتی ہے اگر زور سے زمین پر دے ماریں تو ٹوٹتی نہیں اگر مساجد کے وضو خانوں، کمروں میں چارپائی یا کارپٹ کے نیچے استعمال شدہ چہنڈیاں آپ کی نظروں میں آتی ہوں گی۔ لیکن اگر کوئی ان کے خلاف بولنے پر آجائے تو عموماََ یہ تذکرہ شروع ہو جاتا ہے کہ ’’بابا تم کیوں جانو نسوار کا مزہ فوراََ فوائد گننا شروع کر دیتے ہیں‘‘ سر درد، دانتوں کے درد اور بڑی وار ہر پریشانی سے چھٹکارہ ۔ ایک شاندار سا لطیفہ نسوار کے حوالے سے بہت مشہور ہے ایک بادشاہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ دنیا میں وہ کونسی چیز ہے جس میں لینے والے کا ہاتھ اوپر اور دینے والے کا نیچے ہو تو ایک نشائی وزیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت وہ نسوار ہی ہے کہ جس میں دینے والے کا ہاتھ نیچے اور لینے والے کا ہاتھ اوپر ہی ہوتا ہے جس میں وہ پُڑی پکڑ کر پیش کرتا ہے ۔ یہ وہ شہ ہے کہ جس سے بلا جھجک بلا تعارف مانگا جا سکتا ہے کچھ لوگ تو اس کے شوق کی بدولت ڈبی میں سنبھال کر رکھتے ہیں بعض رات سوتے وقت بھی منہ میں رکھ کر سو جاتے ہیں اور صبح اٹھ کر ریفریش کرتے ہیں کچھ نسوار خور اپنے فن کا مظاہرہ کر کے اپنے لیے خود تیار کرتے ہیں تمباکو اٹھا کر چونا ملا کر راکھ میں مل کر نسوار جو کہ کالی ،سبز بھورا اور کچھ سرخ رنگ کے قریب اور بعض’’ست‘‘ میں ملا کر جو کہ نسوار کے اثر کو اور تیز کرتا ہے بنانا شروع کر تے ہیں جذباتی لوگ نسوار کے بارے میں اپنی ریسرچ کی وساطت سے بتاتے ہیں یہ کہ انسانی غصہ کو کنٹرول کرتا ہے یعنی دماغ کے حصے برین سٹریم (Brain Stem)پر اثر انداز ہوتے ہیں اگر نسوار خور اس کو استعمال نہ کریں تو وہ جھگڑا لو، غصہ اور ہیبت ناک تصور کیا جاتا ہے جو ہر وقت شارٹ ہو اور ساتھ مثال دیتے ہیں کہ اکثر رمضان المبارک کے مہینے میں آپ نے دیکھا ہو گا نسوار آجکل پوری دنیا میں عام ہے پاکستان اور افغانستان میں جسے قومی پھل کے عنوان سے تصور کیا جاتا ہے ۔ خصوصاََ خیبر پختون خواہ میں شائقین بکثرت ملتے ہیں جس میں ہر عمر کے لوگ بچے، جوان لوگ حتیٰ کہ بعض بوڑھی عورتیں بھی اس نشے میں مبتلا پائی جاتی ہیں اگر کچھ لوگ اپنے دوستوں کے اٹھنے بیٹھنے سے اس کے عادی ہو گئے ہوں تو کچھ لوگ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے اس میں ضرور مشغول ہو ئے ہوں گے، ایک دفعہ ایک شخص سے پوچھا گیا کہ بھائی آپ اس کے عادی کیسے ہوئے تو وہ کہنے لگا کہ میرے دانت میں درد تھا کسی نے کہا کہ نسوار کے ساتھ درد دور ہو جائے گا تو میں نے نسوار رکھ لی عارضی طور پر درد دور ہو ئی جب درد آجاتی ہے تو میں نسوار کی چہنڈی رکھنے پر آجاتا اسی طرح مجھے اس کی عادت ہوئی پاکستان میں نسوار کے لیے اسپیشل تمباکو صوابی سے آتا ہے جس پر حکومت پاکستان سالانہ ٹیکس بھی وصول کرتی ہے یہاں پر کچھ لوکل مشہور نسوار جیسے آلائی نسوار، نیشنل نسوار ، کوہاٹی نسورا، یوسف شاہ نسوار کافی مشہور ہیں خیبر پختوخواہ میں بکثرت استعمال کو دیکھ کر لوگ اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ یہ پٹھانوں کی ثقافت ہے او ر غلط فہمی میں کہتے ہیں کہ اسے پٹھانوں نے ایجاد کیا اور عربی کے مشہور مقولہ لوگوں کے سامنے رکھ دیتے کہ کہ ’’نسوار جنت کی مٹی اور پٹھانوں کی سنت ہے ‘‘ (عربی سے ترجمہ)

تو معزز قارئین یہ تحریر پڑھ کر آپ اس قابل ہو جائیں گے کہ فیصلہ کر سکیں یہ ثقافت نہیں نشہ ہے اور اس سے پٹھانوں نے نہیں بلکہ ایک راہب نے ایجاد کیا ۔ نسوار کی ابتداء امریکہ جو آج کل سُپر پاور تصور کیا جاتا ہے کہ ساتھ ہوئی جب کولمبس امریکہ کا موجد اپنے قافلے کے ساتھ 1493سے 1496میں نکلا تو اس کے قافلے میں ایک راہب ریمن پن نے اپنی ذہنی تھکاوٹ دورکرنے کے لیے تمباکو چونا اور مختلف چیزوں کاآمیز بنا کر اپنے ساتھ کچھ ذخیرہ بھی کیا اور بعض موقعوں پر اس کا استعمال بھی کرتے تھے۔ کچھ لوگ یہ بات بھی کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ دماغ تیز ہو جاتے ہیں تو پھر کولمبس بھی خود اس نشے کا عادی ہوا تھا۔ جس کی دماغ کی تیزی کی بدولت امریکہ دو براعظموں پر مشتمل ہے بہر حال نسوار کی جڑیں یہاں سے شروع ہوئیں ۔1556میں نسوار کی تیاری کا کام کافی زور پکڑتا گیا اور تقریباََ طبقہ اشرافیہ میں کافی حد تک مقبول ہوا کچھ ہونا ہو بس نسوار کے معقولے کو عملی طور پر اسی دور میں اپنا یا گیا نسوار کے کچھ نقائص کے بنیاد پر فرانسیسی سفیر(Lisbon Jean Nicto)نے اسے بیماری کاسبب قرار دیا تو اس کے مخالفت میں تحریکیں اٹھنا شروع ہو گئیں۔ جیسا کہ سترویں صدی میں پوپ اربن(VII)کی جانب سے اس کی خریدو فروخت اور استعمالات اور ہر قسم کی تیاری پر پابندی لگا دی جو کہ تاریخ کے داستانوں میں محفوظ پڑی ہیں۔ 1794میں امریکی حکومت نے اس پر ٹیکس لاگو کر دیا کیونکہ اس کو عیش و عشرت یا پیسے اُڑانے اور فضول خرچی کی نشانی سمجھی جانے لگی اس کے مواد فراہم کرنے والوں کے خلاف کاروائی بھی کی گئیں، اسی طرح اگر روس سے اس کی ابتداء کی بات کی جائے تو وہاں ایک شائق(TSAR MICHEAL)نے اسے ناک کے ذریعے سے نسوار کی استعمال کر دی اور کہا کہ اس کی دشواری کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے بعض دفعہ اس کے ساتھ لوگ بہوش بھی ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے فرانس کے بادشاہ لوئس نے اس پر حد مقرر کر دی اور کہا کہ یہ خود کشی کے ذُمرے میں آتے ہیں جو کہ انسانی اعصاب پر اثر انداز ہونے والا فیکٹر ہے نروسImpulseکی طرح سارے بدن میں پھیل جاتا ہے اور نشائی کچھ وقت کے لیے ہلکی سی اونگھ میں مبتلا ہو جاتا ہے لیکن جوں ہی کوئی نسوار ہاتھ لگے تو بجلی کی طرح ترو تازگی سارے جسم میں پھیل جاتی ہے اٹھارویں صدی میں پرتگال میں Gentle Womenنامی میگزین نے اس پر تبصرے کیے ہیں ان کی اقسام بیان کیے ہیں۔ جو کہ نسوار کے لیے شہرت یافتہ باب شمار کیا جاتا ہے اس کے ساتھ افریقہ کے کچھ علاقوں دیہاتوں میں منہ یا ناک کے ذریعے سے اس کی استعمال شروع ہوئی۔ اگر برصغیر پاک و ہند کی بات کی جائے تو یہاں پر یہ برانڈ غیر ملکی کمپنیوں جیسے East Indian Companyوغیرہ نے متعارف کروائی انیسویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک نسوار کا استعمال برصغیر پاک وہند میں کافی مقبول ہو چکا تھا۔ چونکہ یہاں وسطی ایشیاء کے ممالک قازستان ،کر غیزستان،تاجکستان اور خاص طور پر افغانستان اسپیشل قسم کے تمباکو کو برآمد کر تے آرہے تھے۔ جس کی بدولت نسوار بنانے والوں نے اپنے فن کے مظاہرے کا موقع ضائع نہیں کیا۔ 2004کی عالمی رپورٹ کے متعلق روس میں 60710ٹن یعنی 16500ڈالر تک اس کا استعمال پہنچ گیا تھا جو وسطی ایشیاء سے برآمد کی جاتی رہی اگر ایک طرف سے استعمال کی شہرت پائی تو دوسری طرف نسوار پر لگنے والی پابندیوں نے بھی اس کے استعمال اور مقبولیت میں کافی حد تک اضافہ کیا۔ 2006میں ترکمانستان کے Berdi Muhomedoنے استعمالات پر پابندی لگائی تو دوسری طرف2011اور2013میں بالترتیب قازقستان اور روس کے Duma Stateنے اس کے خلاف اصلاحات پاس کیے ہیں اور اس کو Nicto Addicationکے زمرے میں ڈالا گیا ان تمام صورتحال کو دیکھ کر ہم کہنے کے قابل ہوں گے کہ نسوار عالمی فیشن اور برانڈ ہر طبقہ کے لوگ استعمال کرتے آرہے ہیں ۔ نسوا کے نقائص بہت ہیں مثلاََ منہ کے اعصاب کا کمزور ہو جانا، منہ سے بدبو کا آنا، معدے کی تیزابیت، پپسین کو متاثر کرنا، دانتوں کا سڑ جانا تاہم ہونٹوں کی سرخی میں مدھم پن آجانا وغیرہ لیکن ہمارے معاشرے میں نصیحت اوررہنمائی کا اثر الٹ ہو جاتا ہے کسی کی اچھائی کے لیے نکلو تو وہی آستین کا سانپ بن جاتے ہیں تو پھر ہم اپنی زبان پر تالا لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ دانتوں سے محفوظ رہاکریں کہیں ایسا نہ ہو کہ دانتوں کی تیزی نصیحت کے عوض تمہیں کاٹ نا لیں۔ لہذا زبان خاموش رہیں کیونکہ نسوار نشہ ہے ثقافت نہیں اور نسوار خور کے سامنے نقصانات گنوانا اپنے ساتھ زیادتی ہے ۔ لہذا قلم اپنی رائے کے اظہار سے ڈرتا نہیں کیونکہ جب قلم اٹھتا ہے تو جعل سازی کو فاش کر کے حقیقت اور سچائی کو عیاں کر دیتا ہے ۔بس صرف قلم اٹھنے کا انتظارہی رہتا ہے۔

Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 59253 views Columnist/Writer.. View More