"ایمان کےبعد اہمیت ِاستقامت "

 
اقرار باللسان و تصدیق قلبی کا نام ایمان ہے اسی کے ما بعد باری آتی ہے استقامت کی جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا
" عن سفيان بن عبد الله رضي الله عنه ، قال : قلت : يا رسول الله ﷺ ، قل لي في الإسلام قولا لا أسأل عنه أحدا غيرك ، قال : قل آمنت بالله ، ثم استقم : رواه مسلم"
حضرت سفیان بن عبداللہ رب العزت نے عرض کیا یا رسول اللہ رب العزت ﷺ مجھے اسلام کی ایسی بات بتائیں کہ پھر آپ کے سوا کسی سے نہ پوچھوں ؟ ارشاد فرمایا کہہ میں ایمان لایا اللہ رب العزت پر پھر اس پر (استقامت) خوب مضبوطی سے قائم رہ (مسلم شریف)
"استقامت" یہ لفظ اگر چہ ہماری سماعتوں کے لئے نیا نہیں مگر ہماری عملی زندگی میں اس کا نشاں بھی نہیں کسی سے بحث و مباحثہ کے بغیر ہم اپنے آپ کو بحیثیت مسلمان اپنے سامنے کھڑا کریں اور حساب لیں جس سختی و شدت سے محکمہ پولیس مجرم کو پوچھتے ہیں اسی طرح کہ اے نفس تجھ میں استقامت کہاں اور کن چیزوں میں ہے؟ کس عمل صالح پر مضبوطی سے جما ہے ؟ جان ،مال ، آل ، کی آزمائش پر استقامت ہے ؟ جواب نہیں اور صرف نہیں میں ملے گا ..... عمل کرنا اور ہے اور اس پر استقامت یعنی ڈٹے رہنا اور ہے محبت و جذبات میں ایک دو مرتبہ کرلینے کا نام ہرگز استقامت نہیں نہ ایک دو قطرے آنسو بہانے کا نام ہے .... اسی وجہ اسلاف فرائض کے علاوہ نوافل کے زبردست پابند بلکہ شب زندہ دار تھے ..... یہ استقامت ہی تو تھی ..... کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ فقط فرض سے ایمان ہی متصور ہو اور اس کی اگلی منزل استقامت نہ ملے .....نہیں ......بلکہ اسی عمل کو نوافل کی شکل میں مضبوط کیا ..... کہ ایمان....استقامت.....کرامت ......ولایت و مابعدها ساری منزلوں کو پار کرتے چلے گئے ..... اور وصل حق کا جام پیا .....
ہم اسلاف کی زندگی کے واقعات سے ضمنی طور پر سمجھتے چلیں....
جان کی آزمائش پر استقامت :
حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ السلام کو آگ میں ڈالے جانے کا واقعہ ہر عام و خاص کو معلوم ہے اشارہ صرف اس طرف ہے کہ جب طائر سدرہ نے دریافت فرمایا کہ کوئی حاجت ہو تو بیان فرمائیں ؟ آپ نے فرمایا : تم سے ؟ تم سے تو کوئی حاجت نہیں ، سید الملائکہ سمجھ گئے کہ کس جناب میں کھڑے ہیں کہ جو اسباب پر نہیں مسبب الأسباب پر یقین و اعتماد رکھتے ہیں اور یقینا ایسا ہی تھا کیونکہ بخوبی جانتے تھے کہ ذرہ ذرہ کی حرکت رب کی مرضی پر منحصر ہے تو اتنا بڑا آتش کدہ اس کی مرضی کے بغیر کیسے جل سکتا ہے
عرض کی اے اللہ رب العزت کے نبی جس سے حاجت ہو اسی سے بیان کیجئے .... حضرت ابرہیم علیہ السلام بہت اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ یہ میرے استقامت کی آزمائش ہے ، نبی تھے چاہتے تو دعا فرماتے بارش ہوجاتی، ہوا چلتی آگ بجھ جاتی، بلکہ آتش کدہ خود ٹھنڈا ہوجاتا ، مگر استقامت تو دیکھیں ! اللہ اللہ اللہ
فرمایا جبرئیل ! تو عرض کی فرمائیے میرے آقا !
یہ بتاؤ کہ کیا اللہ رب العزت نہیں جانتا کہ اس کے نبی کو کفار آگ میں ڈالنا چاہتے ہیں ؟ عرض کی ضرور جانتا ہے ، فرمایا پھر کسے بتاؤں ؟ اسے جو سب کچھ جان رہا ہے دیکھ رہا ہے .....
جانتا ہے سب وہ رب جلیل
آگ میں پڑتا ہے اب اس کا خلیل
آگ میں پہنچے ارشاد ربانی ہوا اے آگ ٹھنڈی و سلامتی والی ہو جا ابراہیم پر !
اللہ اکبر .... یہاں معجزہ کا ظہور بعد میں ہوا پہلے استقامت کی آزمائش ہوئی جب کھرے اترے تو معجزے کا ظہور ہوا
.... یہ کیا تھا ؟ ایمان ، استقامت ، پھر معجزہ کا ظہور ...... انعام و اکرام .... خلت کا جوڑا .....ابو الانبیاء کا خطاب ....سبحان اللہ سبحان اللہ ....
 
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 320522 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.