یہ قوم

آج کل اخبار اٹھا کر دیکھیں، کالم اور مضامین پڑھیں تو ایسا لگتا ہے کہ مسائل کا ایک انبار ہے جس کے نیچے یہ قوم دبی ہوئی ہے۔ کہیں حکومت کے بے تحاشہ اخراجات ہوش اڑا دیتے ہیں کہیں بے شمار وزارتوں اور وزیروں کے محکمے۔ کبھی فاٹا اور صوبہ سرحد کے جلتے ہوئے سبزہ زار دل دکھی کر دیتے ہیں کہیں بلوچستان کا مسئلہ فکرمندی کے آزار میں مبتلا کر دیتا ہے۔ میرے سمیت ہر لکھنے والا اِن مسائل سے پریشان ہو کر بلبلا رہا ہے اِن کا دکھ بجا ہے لیکن کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو نہ صرف اِن حالات کو لکھتے ہیں بلکہ ایسا مایوس کن تجزیہ کرتے ہیں کہ ہر بیماری لاعلاج ہر درد لادوا محسوس ہونے لگتا ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے خدانخواستہ بس کچھ دم کی بات ہے کہ یہ ملک ہاتھوں سے گیا۔ میں یہ نہیں کہتی کہ حالات اچھے ہیں کبوتر کی طرح حالات سے آنکھیں بند کر لینا مسائل کا حل نہیں لیکن مایوسی خود ایک لاعلاج بیماری ہے اور کبھی کبھی تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے قصداً یا ارادتاً ایسا کیا جا رہا ہو۔ شکر ہے ان خبروں کی پاپولیرٹی (Popularity) تو کچھ کم ہوئی کہ لوگ بچے برائے فروخت کے ٹیگ لگا کر انہیں سڑک کنارے لابٹھاتے اور خوب شہرت پاتے۔ ایک دور آیا کہ غربت ﴿بھوک نہیں﴾ کے ہاتھوں خودکشیوں کو خوب اچھالا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک ملک نہیں بلکہ کھچڑی ہے کہ جس نے جیسے چاہا چمچہ ہلا دیا۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ہم اِن حالات سے خبردار نہ رہیں یا انہیں بہتر بنانے کی کوشش نہ کریں لیکن ان کا رونا رو رو کر مایوسی پھیلانے سے مجھے اختلاف ہے ٹھیک ہے حکومت مسائل کے حل میں ناکام ہے یہ بھی درست ہے کہ مسائل کا انبار ہے یہ بھی بجا کہ عوام بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں لیکن کچھ ایسا بھی تو ہوگا جو اچھا ہوگا اور میں سمجھتی ہوں کہ جو سب سے اچھی سب سے مثبت بات ہے وہ ہے اس قوم کی ہمت اسکا حوصلہ۔

1947 سے لیکر اب تک یعنی باسٹھ سالوں میں اس قوم پر بے شمار مشکل گھڑیاں آئیں لیکن ہر بار یہ سرخرو ہو کر نکلی اور اب تو جو حالات ہیں انشا اﷲ پاکستانی قوم اس میں سے کندن بن کر نکلے گی۔ پاکستان بنا تو سال بھی نہ ہوا تھا کہ اس پر جنگ مسلط کردی گئی جو اس نے بہادری اور فتح مندی سے لڑی۔اور چھ ستمبر 1965 کی وہ رات کسے بھولے گی جس کی تاریکی نے اس قوم کو ڈرایا نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ اس کی کوکھ سے ایک شفق رنگ سویرا پھوٹا۔16 دسمبر 1971 کا وہ اعصاب شکن حادثہ بھی اس قوم نے برداشت کیا جب یہ ملک دو لخت ہوا۔ لیکن جب آنسو خشک ہوئے تو اس قوم نے قسم کھالی کہ گھاس کھالے گی لیکن خود کو ناقابل تسخیر بنائے گی اور یہی ہوا کہ پاکستان نے ایٹم بم بنانے کو اپنی بقا کا مسئلہ بنا لیا اور خدا کا شکر ہے کہ یہ معرکہ بھی سر ہوا صرف قوم کی ہمت سے ورنہ کیا کیا پابندیاں نہ لگائی گئیں پاکستان پر لیکن ظاہر ہے کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے اور خدا کا شکر ہے ہم نے کھویا کم اور پایا زیادہ۔

آج ہم پُر اعتماد ہیں کیونکہ دشمن جانتا ہے کہ ہم اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں صرف ایٹم بم ہی نہیں آزمائش کے وقت تو اس قوم کا ہر فرد اور اس کی فوج کا ہر سپاہی ناقابل تسخیر ہوجاتا ہے اور اس زمین کے ایک ایک انچ پر اپنی سو سو زندگیاں قربان کرنا اپنا فخر سمجھتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس قوم نے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ جوانمردی سے کیا انسانوں سے مقابلہ تو خیر اس نے جان پر کھیل کر بھی کیا، قدرتی آفات میں بھی اس نے ہمت نہ ہاری، سیلاب، طوفان، زلزلے سب کچھ آئے لیکن اس نے ہر مشکل پر قابو پایا اور ہر مصیبت کا مقابلہ صبر و استقامت سے کیا۔ 1992 میں جب سیلاب آیا تو مجھے لاہور سے بذریعہ ٹرین حیدرآباد تک سفر کرنے کا اتفاق ہوا کہیں کہیں تو ایسا تھا کہ پٹری کے نیچے ریت کی بوریاں رکھی ہوئی تھیں اور ٹرین چلتی رہی اسی عزم و حوصلے سے سیلاب زدہ علاقوں کے لوگ اس مشکل سے نبردآزما نظر آئے۔ آٹھ اکتوبر 2005 تو خیر ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے زلزلہ کشمیر اور صوبہ سرحد میں آیا لیکن میں نے امدادی سامان کے ڈھیر اس بلوچستان میں دیکھے جسے آج بارود کا ڈھیر بنایا جا رہا ہے بالکل اسی جذبے کے ساتھ جس طرح پنجاب کے لوگوں نے سن 2000 کی قحط سالی میں پانی کے ٹینکر بھر بھر کر بلوچستان بھیجے تھے۔ یوں یہ قوم کبھی کسی محاذ پر پیچھے نہیں ہٹی۔بڑی سے بڑی مصیبت اور آفت سے بھی اﷲ کے فضل سے کامیاب و کامران ہو کر نکلی بڑی سے بڑی دنیاوی طاقت کے مقابلے میں بھی ڈٹ گئی چاہے روس تھا اسے شکست سے دوچار کیا چاہے بھارت تھا اُس سے نہیں دبا اور چاہے امریکہ ہے یا اس کی پھیلائی ہوئی دہشت گردی کی آگ اُسے بھی انشا اﷲ یہ قوم اپنی ہمت سے بجھا ڈالے گی آج کل بھی اسے جن حالات سے گزارا جا رہا ہے میں انتہائی یقین سے کہتی ہوں کہ خود کو بڑی سمجھنے والی یہ قومیں چند ایک بھی ایسے جھٹکے کھا لے تو برداشت نہ کر سکے جبکہ پاکستان کے بڑے سے لیکر چھوٹے شہروں تک کو ہلا دیا گیا ہے اور خودکش حملوں سے یہاں خون کی ندیاں بہا دی گئی ہیں اور اس کو ایک ایسے خوف میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پوری قوم گھروں سے نکلنا چھوڑ دے اور ہاتھ پاؤں چھوڑ کر بیٹھ جائیں ساتھ ہی ساتھ اِن حملوں کے ذریعے دین اور مذہب کو بھی بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستانی مسلمان کو ہر جگہ مشکوک بنا دیا گیا۔ لیکن آفرین ہے اس قوم پر کہ ہر جھٹکا اپنے اندر جذب کرلیا اور پھر اُسی عزم و ہمت سے ہر صبح کا آغاز کیا جو زندہ قوموں کا خاصہ ہے۔ لیکن جس انداز میں نفسیاتی وار کر کے اس قوم کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ قابل غور ہے۔ ہر چند مہینوں بعد مغرب اور خاص کر امریکہ کا کوئی تھنک ٹینک ناکام ریاستوں کی ایک فہرست جاری کردیتا ہے جس میں پاکستان کو بڑے زور و شور سے دس ناکام ترین ریاستوں میں شامل کردیا جاتا ہے اور پھر اس فہرست کو خوب مشتہر کیا جاتا ہے تاکہ اس قوم کا ہر شخص باور کر لے اور خود کو مزید غیر محفوظ سمجھ لے کہ خدانخواستہ یہ ملک ختم ہوجائے گا۔ کبھی یہ شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کے قوی امکانات ہیں یعنی اِن ٌجاہلوںٌ کے خیال میں ہم نے ایٹم بم کو ایک شو کیس میں سجا کر رکھا ہوا ہے اور اُس پر ایک سادہ بندوق والا چوکیدار کھڑا ہے وہ جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے لیکن ایسا اس قوم کا اپنی قوت پر یقین متزلزل کرنے کی ایک سازش ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تخصیص اس قوم کے لیے کیوں؟ کیوں اسی کو بہت اہتمام کے ساتھ سازشوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کی کئی وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ پاکستان مدینہ کے بعد اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا پہلا ملک ہے اور کچھ بھی کہہ دیا جائے حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور کفر دنیا میں دو ہی ملتیں ہیں اور دوسرا یہ کہ یہ پہلی مسلمان ایٹمی قوت ہے اور دنیا جانتی ہے کہ جب اس نے ایٹم بم نہیں بھی بنایا تھا تو بھی یہ قوم کسی طاقت کے سامنے نہ دبی تھی بلکہ اس کی فوج اپنے عام روایتی ہتھیاروں ہی کے بل بوتے پر اور اپنی قوم کی عظیم پشت پناہی پر ہر طاقت کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوئی تھی۔ اور انہیں اپنے سامنے بے بس کر دیا تھا۔ یہ قوم واقعی عظیم ہے کہ ابھی ہی کے واقعات دیکھ لیجئے کے کیسے لاکھوں آئی ڈی پیز کے جھٹکے کو برداشت کیا اور بفضل خدا یہ لوگ پھر اپنی جنت نظیر وادی سوات کی طرف پلٹنا شروع ہوگئے ہیں ﴿خدا اس امن کو پائیدار کرے﴾ اس مسئلے کے وقت بھی اس قوم نے اپنی بھرپور زندگی کا ثبوت دیا۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سازش کا مقابلہ کیا جائے اور اس قوم کی کامیابیاں مشتہر کی جائیں میں یہ نہیں کہتی کہ مسائل اجاگر نہ کیے جائیں ضرور ہوں کیوں کہ اس کے بغیر ان کا علاج ممکن ہی نہیں لیکن مایوسی نہ پھیلائی جائے قوم کو یہ بتایا جائے کہ مشکل گھڑیاں اور سخت وقت قوموں پر آتے ہی رہتے ہیں۔ دنیا میں کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں مسائل نہ ہوں دنیا کی واحد سپر پاور اور ترقی یافتہ ترین ملک امریکہ میں چھ ملین لوگ دوپہر کا کھانا کھا لیں تو نہیں جانتے کہ شام کو کچھ کھانے کو ملے گا یا نہیں اور شام کو کھا لیں تو صبح کی خبر نہیں ہوتی۔ بھارت میں علیحدگی کی ایک درجن سے زیادہ تحریکیں چل رہی ہیں اور شاید اسی لیے اب بلوچستان میں یہ گھناؤنا کھیل شروع کیا جا رہا ہے۔ نسلی فسادات تو یورپ بلکہ برطانیہ جیسے ملک میں بھی ہوتے ہیں اور پروٹسٹنٹ اور کیتھولک کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات بھی۔

پس جو بات اس وقت انتہائی ضروری ہے کہ قوم کا اعتماد بحال ہو وہ یہ ہے کہ مسائل کو سامنے لاتے رہنا چاہیے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہر قومی کامیابی کو نہ صرف سامنے لایا جائے بلکہ اسے منایا جائے جس طرح ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ ورلڈ کپ میں کامیابی کو جوش و خروش سے منایا گیا تاکہ ہر موقع پر یہ ثبوت ملتا رہے کہ یہ ملک ناکام ریاست نہیں بلکہ ایک زندہ قوم ہے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 508712 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.