دہشت گردی کی نشانی

طلحہ السیف
آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گرد کی سب سے بڑی علامت کیا ہے؟
جی ہاں بالکل! داڑھی.
اور اس کی دلیل بالکل واضح ہے۔
کہ آج تک جتنے لوگوں نے بھی ایسی کاروائیاں کی ہیں، ان کے دوران قتل ہوئے یا پکڑے گئے ہیں سب کی داڑھی. نہیں تھی۔

اب آپ کہیں گے کہ یہ کیا دلیل ہے؟ جب ان کی ڈاڑھیاں نہیں تھیں تو پھر ڈاڑھی علامت کیسے بن گئی، تو جناب!
انیائے پور یا بے انصافی آباد میں دلائل اسی طرح کے ہوا کرتے ہیں۔

آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ شہر میں کوئی واردات ہوئی ہو اور خوش قسمتی سے آپ باریش ہوں تو موٹر سائیکل یا گاڑی پر شہر کی سڑکوں پر نکل جائیں۔ جا بجا لگے ناکوں پر متعین جوان جونہی دور سے آپ کو دیکھیں گے ان کی آنکھوں میں چمک آ جائے گی۔ وہ جتھے بنا کر آپ کی طرف بڑھیں گے، زور سے ہاتھ ہلا ہلا کر آپ کو روکیں گے۔ زبردست طریقے سے تلاشی لیں گے، تمام کارڈز چیک کریں گے، اُلٹے سیدھے سوالات کریں گے، اور پھر مایوس ہو کر اگلے ناکوں والوں کے لئے چھوڑ دیں گے، یوں آپ ہر ناکے پر ناک کٹوا کر واپس گھر آ گھسیں گے اور خود کو اس وقت باہر نکلنے پر کوسنے دیں گے۔

جمعہ کے دن ہم اپنے ہندوستان سے رہا ہو کر آنے والے ساتھیوں کے استقبال کے لئے لاہور میں تھے، سارا دن واہگہ بارڈر پر گزر گیا، شام کو جب شہر میں داخل ہوئے تو ہر جگہ یہی سلوک ہوا اور اگلے دن صبح بھی، اور دوپہر 2 بجے لاہور کو الوداع کہنے تک ہم ہر جگہ اسی حسن سلوک سے نوازے جاتے رہے۔ وجہ یہ تھی گاڑی میں سوار ہم دونوں بھائی نہ صرف الحمد للہ’’دہشت گردوں‘‘ کی اس علامت سے مزین تھے جس کا ذکر گزرا بلکہ ایک ایک اضافی علامت بھی بونس میں اٹھائے پھر رہے تھے، عزیزم مولانا عمار صاحب کے سر پر فلسطینی رومال سوار تھا جبکہ بندہ راقم الحروف کے بال کندھوں کو چھو رہے تھے۔ یوں پورا دن ہم ہر جگہ روکے جاتے رہے اور ایک ہی مرحلے سے گزرتے رہے۔ شہر سے نکلنے کی کوشش میں آخری بار جہاں روکے گئے وہاں خوب تلاشی ہوئی اور بیگ بھی چیک کئے گئے۔ بندہ نے اپنا صحافتی کارڈ آخری حربے کے طور پر پیش کیا تو صاحب مسکرا کر بولے: ’’جناب! آپ اپنا حلیہ دیکھ کر خود بتائیں کہ کہاں سے صحافی لگتے ہیں؟‘‘

ان کی اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اتنا عرصہ یہ کام کرتے ہوئے ہو گیا مگر الحمد للہ ہم ابھی تک صحافی لگتے نہیں، اللہ جانے وہ کیا علامات ہوتی ہیں جو صحافت کی وجہ سے چہرے پر آ جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ آگے بھی حفاظت فرمائیں۔ اتنے میں ایک اور گاڑی آئی جس میں چند غیر دہشت گرد یعنی بے ریش نوجوان سوار تھے، افسر نے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا، جونہی ان کے حلیے نظر آئے جوان کو کہا کہ جانے دو، اس موقع پر مولانا عمار صاحب خاموش نہ رہ سکے اور جوان کو زور سے آواز لگائی۔ ’’جانے دو بھائی انکی داڑھیاں نہیں ہیں‘‘۔

افسر صاحب اس بات پر کھسیانی سی ہنسی ہنسے، علما کرام کی قدرومنزلت پر مختصر الفاظ میں روشنی ڈالی، ہمیں روکنے کی وجہ شک نہیں محبت بتائی اور چائے پانی کی دعوت دی اور ہمارے انکار پر ہمیں جانے کی اجازت مرحمت فرما دی۔

پولیس اور حکام بالا کو اس بات کا قطعی ادراک نہیں یا ہے اور جان بوجھ کر صرف نظر کر رہے ہیں کہ ان کے اس طرز عمل نے ایسی کاروائیوں کو مشکل بنانے کی بجائے آسان کر دیا ہے۔ اب کوئی بھی شخص شیو کرا کے پینٹ پہن لے اور گاڑی میں ایٹم بم لے کر کسی شہر میں بھی جائے تو باآسانی اپنے ہدف تک پہنچ سکتا ہے جبکہ باریش آدمی کے لئے پھلوں کی پیٹی گاڑی میں رکھ کر گھر پہنچنا عذاب بنا دیا گیا ہے۔ اللہ پاک رحم فرمائیں۔

کچھ عرصہ پہلے حکومت پاکستان نے ٹی وی پر عوام کی رہنمائی کے لئے ایک کلپ بہت چلایا۔ اس میں لوگوں کو بتایا گیا کہ خود کش حملہ آور کی شکل کیسی ہوگی؟ کس طرح چل رہا ہوگا؟ دھماکہ کرنے سے پہلے اس کے ہونٹ آہستہ سے ہل رہے ہوں گے اور آنکھوں میں خمار سا ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ انہی دنوں ایک باریش دوست کے ساتھ اسلام آباد جانا ہوا، خلاف توقع اور خلاف معمول ہمیں کسی ناکے پر روکا نہیں گیا اور ہم بغیر تعطل کے اپنی منزل تک جا پہنچے۔ ہم نے اس امر پر ان کے سامنے حیرانی کا اظہار کیا تو ان پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ جب کچھ افاقہ ہوا تو انہوں نے بتایاکہ ان کے ہاتھ تلاشی سے بچنے کا گر آ گیا ہے۔ ہم نے حیران ہو کر پوچھا جناب وہ کیا؟

تو بولے کہ ناکے کے قریب پہنچ کر درود شریف پڑھنا یا تلاوت کرنا شروع کر دیتا ہوں، پولیس کے جوان ہونٹ ہلتے دیکھتے ہیں تو انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ میں ’’خود کش حملہ آور‘‘ ہوں۔ اپنی جان بچانے کے لئے وہ مجھے نہیں روکتے اور منزل تک پہنچنے کی دعا دے کر آگے سے ہٹ جاتے ہیں، آپ بھی کبھی تجربہ کر کے دیکھ لیں۔

قارئین کرام میں سے اگر کسی کا گاڑی پر اسلام آباد آنا جانا ہوتا ہو تو تجربہ کر کے دیکھ لیں ممکن ہے فائدہ ہو۔ لیکن اگر نقصان ہوا تو ہماری ذمہ داری نہیں، کالم نگار کا اس تجربے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ باریش حضرات کو اس مشکل سے چھٹکارا کیسے ملے؟
اس کے دو طریقے ہیں۔

﴿۱﴾. دعا کی جائے کہ اللہ تعالیٰ نیک و ایماندار اور اگر ہمارے اعمال اس قابل نہیں تو محض عقلمند حکمران ہمیں عطا فرما دیں،جنہیں اتنی سمجھ ضرور ہو کہ بدامنی کے اسباب جان سکیں اور ان کا ازالہ کر سکیں۔

﴿۲﴾. خوب محنت کی جائے کہ داڑھی عام ہو جائے، ہر مسلمان کی شکل و صورت اس حسین سنت کے رنگ میں رنگ جائے اور پورا معاشرہ داڑھی سے منور ہو جائے، ایسے میں پولیس والے عاجز آ کر تھک کر باریش حضرات کو روکنا چھوڑ دیں گے اور اقلیت یعنی بے ریش لوگوں کو روکا کریں گے۔ تب ہم اور آپ انشا اللہ آزادی سے گھوم پھر سکیں گے۔ اور جب تک یہ منزل نہیں آتی اس وقت تک صبر کریں، استقامت اختیار کریں اور دعا کو اپنا معمول بنائیں، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 198149 views A Simple Person, Nothing Special.. View More