یاد گار سفر۔ ۔ ۔ ۔ میری ڈائری کے اوراق سے

آج کا دن میرے لیے انتہائی یادگار تھا، میرے پہلے سفر کا دن۔
دادا جان جب گاؤں کی پیاری پیاری باتیں کرتے، سن کے ہم خواب وخیال میں اڑکر گاؤں کی سیر کو چلے جاتے۔ کتنی عجیب بات ہے، آج جب ہم پہلی مرتبہ گاؤں جارہے ہیں تو دادا ہم میں نہیں ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
ہم پانچ نفر پہ مشتمل یہ گروپ بذریعہ ٹرین پنڈی کزن کی شادی میں شرکت کرنے جارہا ہے۔ ٹرین کا سفر بھی عجب دل فریبی لیے ہوتا ہے، جہاں ٹرین کے اندر ہنسی مزاح کا سلسلہ جاری ہوتا ہے، وہاں باہر بھی قسما قسم کے مناظر نگاہِ دل کھینچنے کا ساماں کرتے ہیں۔

تیاریاں تو ہم نے سفر کا سنتے ہی شروع کردی تھیں، آج 27 ستمبر کو سفر پہ روانگی ہے، میرا سامان پہلے سے تیار رکھا ہوا ہے، بس دل پنڈی اڑنے کو مچل رہاہے۔ لیجیے گاڑی نے نکلنے کا ہارن بجانا شروع کردیا۔
اسٹیشن پہ گھر والے ہمیں الوداع کہنے آئے ہیں، وہ ہمیں رخصت کرکے گھر کی طرف لوٹنے لگے تو اچانک میرے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، اپنے آپ کو سنبھالا دیا۔ تصور ہی تصور میں شادی کی تقریب میں کھوگئی تو کچھ سکون ملا۔

جوں جوں گاڑی آگے بڑھتی گئی، گھر والے پیچھے رہتے گئے۔ کھڑکی سے باہر کے قسما قسم بدلتے مناظر اپنی جانب متوجہ کرتے رہے۔ کہیں ہرے بھرے لہلہاتے کھیت اور اس میں کام کرتے دیہاتی مرد وزن، تو کہیں لق دق صحرا اور اس میں آدم نہ آدم کی زاد۔ جس طرح باہر کے مناظر بدلتے جارہے تھے، میرے ذہن کی اسکرین پہ بھی ایک کے بعد دوسرے خیالات گردش کر رہے تھے۔ کبھی کراچی کا گھر، والدین، بہن بھائی، کزن وغیرہ جن کی جدائی کسی طور اداس کرجاتی، تو کبھی پنڈی پہنچنے اور رشتہ داروں سے ملنے کی مسرت خوش کردیتی، کبھی شادی کی فرضی تقریب کی پٹی چلنے لگ جاتی۔

ٹرین بن قاسم اور باوالا نالے سے آگے دوڑتے دوڑتے اچانک کیا رکی کہ مختلف آوازوں کا شورہنگام امڈ آیا۔ "چائے والا چائے"۔ سخت گرمی میں چائے کی آواز سے مزید گرمی سی بدن میں دوڑ گئی۔ ٹرین آہستہ آہستہ کھیتوں کے پاس سے گزرنے لگی، جہاں چند خواتین اور بچے کھیت کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے، ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلانے لگے، ہم نے بھی اخلاقاً ہاتھ ہلاکر جواب دیا۔

مستقل سفر اور مختلف آوازوں سے سر میں درد سا ہونے لگا ہے۔ ٹرین حضرت علی شیر بابا کے مزار کے پاس سے گزر رہی ہے، اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ کس بزرگ کا مزار ہے۔ ہم نے دل ہی دل میں کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کیا۔ اللہ قبول فرمائے۔

دوپہر کے ڈھائی بج رہے ہیں، کھانے کی خوشبو سے بھوک مزید تیز ہوگئی، خوب سیر ہوکر کھایا۔ مسلسل سفر سے کافی تھکن طاری ہوگئی، لیٹتے ہی نیند نے آدبوچا۔ تقریباً ایک گھنٹے نیند کے مزے لے کر بے دار ہوئے، اپنا جائزہ لیا تو صدمے کے ساتھ ہنسی بھی آئی، دھول مٹی نے عجیب حالت بنادی تھی۔

رات تین بجے کا وقت ہے۔ اسٹیشن ملتان پہنچنے کی خبر دے رہا ہے، سوہن حلوہ والوں کا مقابلہ جاری ہے، تیز آواز میں چلاکر اپنی دکان کی طرف مسافروں کو متوجہ کر رہے ہیں۔ ٹرین کسی اسٹیشن پہ رکتی ہے تو آوازوں کا ریلا بھی ساتھ میں طوفان کی طرح ساتھ لے آتی ہے۔ بریانی والے، چائے والے، فروٹ والے، بچوں کے کھلونے والے اور نہلے پہ دہلا بھکاریوں کی آمد۔ غرض اتنی قسما قسم کی آوازیں ٹرین میں ایک ساتھ سننے کو ملتی ہیں کہ پہلے کبھی اس لے میں نہ سنی گئی ہوں۔

بریانی کی آواز پہ کان کھڑے ہوگئے، لیکن قریب سے بریانی کی شکل سے ہی ارادہ بدلنا پڑا۔ یہ بریانی نہیں بریانی کے نام پہ مزاح تھا، سفید چاول پہ چولے انڈیلے گئے تھے، بریانی کے عاشقوں کو اس پہ مقدمہ کرنا چاہیے تھا:)
اب سردی نے اپنے پر پرزے نکالنے شروع کردیے تھے. سندھ میں گرمی تھی، پنجاب شروع ہوتے ہی سردی کا احساس ہوا، شال بھی ناکافی پڑ رہی تھی۔ ہمارے پیارے ملک کو اللہ تعالیٰ نے جہاں بیش بہا خزانوں سے مالامال کر رکھا ہے، وہاں ایک ہی وقت میں مختلف شہروں کو متنوع درجہ حرارت سے نواز رکھا ہے۔ پنجاب میں اگر آپ سخت گرمی محسوس کر رہے ہیں تو چند گھنٹوں کی مسافت پہ مری، کاغان، ناران وغیرہ میں آپ ٹھنڈ کے مارے کپکپا رہے ہوں گے۔

صبح کے نو بج رہے ہیں، ٹرین چلتے چلتے اچانک رُک گئی، شاید کوئی مسئلہ ہوگیا ہے، باہر اسکول یونیفارم میں دو بچے خراماں خراماں چل رہے ہیں، ہم نے انہیں پاس بلاکر ٹافیاں دیں اور اسکول جانے کوکہا، ٹافیاں تو ہنستے مسکراتے لے لیں، لیکن اسکول جانے کا ارادہ مگر پھر بھی دکھائی نہ دیا، پاگلوں کی طرح ادھر ادھر دیکھنے لگے، اتنے میں ٹرین چل پڑی۔

شکر ہے خدا کا خیرخیریت سے راولپنڈی پہنچ گئے، رشتہ دار اسٹیشن لینے کے لیے آئے تھے۔ کزن کی شادی کے بعد ہم نے ماموں جان کو گھومنے پھرنے کے لیے آمادہ کیا۔ مارگلہ پہاڑی کی سیر کی، وہاں غیر ملکی سیاح بھی کافی تعداد میں آئے ہوئے تھے۔ شاہ فیصل مسجد گئے، وہاں چینی فیملی بھی آئی ہوئی تھی، ان کے پاس خوبصورت گول مٹول بچہ تھا، ہم نے اس کی تصویر لینے کی اجازت مانگی، انہوں نے فراخی سے بچہ ہمارے حوالہ کردیا۔ ہم نے انگلش میں بات کرنے کی کوشش کی، وہ اردو سے نابلد تھے اور ہمیں چینی نہیں آتی تھی، یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم والی کیفیت تھی، اشاروں سے ہی کام چلایا، چین والوں کی محبت کے قصے سے تو کافی سنے تھے، آج خود مشاہدہ کرکے عین الیقین ہوگیا۔

کچھ دنوں بعد اپنے گاؤں ایبٹ آباد کوکل، برسین کی سیر کو گئے، گاؤں کے صاف دل لوگوں کے پیار کو سمیٹا، چشموں کے صاف پانی سے سیراب ہوئے، آلودگی سے پاک ہوا سے تازگی ملی، تازہ فروٹ نوش جان کئے اور پھر سوئے پنڈی۔

آج کافی دنوں بعد میں ڈائری کی ورق گردانی کرتے پنڈی میں کزن کی شادی، مارگلہ پہاڑوں کی ٹھنڈی ہواؤں، شاہ فیصل مسجد کے وسیع صحن اور اس میں چینی فیملی سے باتیں اور گاؤں کے سیدھے سادے پیارے رشتہ داروں میں کھوگئی۔ اس سب کے باوجود اپنا کراچی تو اپنا کراچی ہے، کیا ہی کہنے سوپنے کراچی کے۔
(مجھے استاذجی کے اعزاز سے معنون کرنے والی آسیہ تبسم کی تحریر
Ibnul Hussain Abidi
About the Author: Ibnul Hussain Abidi Read More Articles by Ibnul Hussain Abidi: 60 Articles with 57948 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.