اِستحکام مدارس و پاکستان کانفرنس کا التواء

مولانا محمد حنیف جالندھری
ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان

جب سے وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے’’ استحکام مدارس وپاکستان ‘‘کانفرنس کا اعلان کیا اس وقت سے ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں دینِ اسلام ،وطن عزیز پاکستان اور دینی مدارس سے محبت رکھنے والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی ،عجیب قسم کا جوش وخروش دیکھنے میں آیا اور دنیا بھر سے آنے والے فیڈ بیک سے اندازہ ہوا کہ وفاق المدار س العربیہ پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہونے والا یہ اجتماع صرف قومی اور ملک گیر اجتماع ہی نہیں تھا بلکہ اس اجتماع نے عالمی اجتماع کی شکل اختیار کر لی تھی۔اَکابر کی شب وروز دعائیں اور ہدایات ،نوجوانوں کا جوش وخروش ،اربابِ مدارس کی فکر مندی ،مساجد کے ائمہ وخطباء کی جانب سے اجتماع کی کامیابی کی مہم ،ملک بھر کے ہر ضلع اور ہر بستی میں منعقد ہونے والے اجلاس ،ہر چوک وچوراہے میں آویزاں بینر ز،ہر دیوار پر جگماتے ہوئے پینا فلیکس اور سوشل میڈیا پر گردِش کرتے اشتہارات ،پوسٹیں ،مضامین ،مباحثے اور مکالمے اس بات کی نوید ثابت ہوئے کہ پاکستان میں دِینی مدار س کی بساط لپیٹنے اور دینی مدارس کو دیوار سے لگانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ کانفرنس کی تیاریوں کا یہ عمل اس بات کی غمازی تھی کہ پاکستانی قوم دینی مدارس سے کس قدر بے لوث محبت رکھتی ہے ۔

ہمیں اجتماع سے پہلے ملنے والی اطلاعات ،کارگزاریوں ،فیڈ بیک اور رپورٹس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ اجتماع پاکستان کی تاریخ کا سب سے مثالی ،منفرد اور تاریخ ساز اجتماع ثابت ہو گا اور اس میں اندرون وبیرون ملک سے لاکھوں لوگ شرکت کریں گے ۔پہلے دو ماہ تک ملک بھر میں دعوتی اور تشہیری مہم جاری رہی اور اجتماع سے دس دن قبل ہم نے لاہور آکر ڈیرے ڈال لیے ،اپنے جملہ رفقاء کو بھی لاہور بلا لیا ،26مارچ بروز ہفتہ ہم گلشن اقبال پارک لاہور گئے ۔وفاق المدارس کی مجلس عاملہ کے منتخب اراکین ،مقامی مسؤولین اور اجتماع کی تیاریوں اور انتظامات کے لیے تشکیل دی جانے والی مختلف کمیٹیوں کے ذمہ داران اور کارکنان اس پارک میں جمع ہوئے ۔ہم نے عصر اور مغرب کی نمازیں پارک میں باجماعت ادا کیں ،پارک کے داخلی اورخارجی راستوں کا جائزہ لیا ،اسٹیج بنانے کے لیے جگہ کا تعین کیا ،سامعین وحاضرین کے بیٹھنے کی ترتیب سوچی ،وضو اور دیگر ضروریات کی فراہمی کا جائزہ لیا ،اسٹیج پر تشریف لانے والے مہمانوں کی لسٹ بنائی ،سیکیورٹی اور پارکنگ کا خاکہ بنایا بعدازاں ہم گلشن اقبال پارک لاہور کے قریب ہی واقع ایک ادارے جامعۃ الرشید گئے جہاں جا کر مزید امو ر پر مشاورت ہوئی ۔رات اور اگلے دن صبح کانفرنس کی تیاریوں میں لگے رہے ۔دعوت ناموں کی ترسیل ،اہم شخصیات سے ملاقاتیں ،مختلف فہرستوں کی تیاری اور دیگر انتظامی امور میں جتے ہوئے تھے کہ اچانک فون آیا کہ گلشن اقبال لاہور میں زود دار دھماکا ہو گیا ہے ،یہ اطلاع ملتے ہی دل دھل گیا ،عین اسی وقت پنڈال اور اسٹیج کی خدمت پر مامور جامعہ دار القرآن اور جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے رفقاء نے پارک میں اجلاس بلا رکھا تھا ،اسٹیج بنانے والوں ،ٹینٹ اور کیٹرنگ والوں کو مدعو کر رکھا تھا ،پہلی اطلاع سے تو یوں لگا کہ خدانخواستہ ہمارے یہ نوجوان رفقاء دھماکے کی زد میں نہ آگئے ہوں۔ بے تابی سے حضرت مولانا قاری محمد یاسین صاحب کے صاحبزادے مولانا قاری عزیزالرحمن کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ اجتماع کے انتظامی امور میں مصروف ساتھی تو الحمد ﷲ محفوظ رہے مگر دھماکا بہت زور دار تھا اور بہت زیادہ جانی نقصان ہو گیا پھر جوں جوں تفصیلات سامنے آتی رہیں تو دکھی کرتی چلی گئیں ،پھول سے بچے ،معصوم عورتیں اور بے گناہ لو گ اس دھماکے کی زد میں آئے تھے ۔ایک طرف دھماکے کا صدمہ ، لہو لہو لاہور کی اذیت،بے گناہ جانوں کے ضیاع کا رنج ،جب یہ اطلاع پھیلی تو دنیا بھر سے فون کالوں کا تانتا بندھ گیا، پورے ملک میں گلشن اقبال پارک کانام’’ استحکام مدارس وپاکستان کا نفرنس‘‘ کی مناسبت سے ہی تو سنائی دیا تھااس لیے لاہور سے باہر بسنے والوں کو شاید یہ اندازہ ہی نہ تھا کہ یہ پبلک پارک ہے بلکہ لوگ اسے ایک گراؤنڈ سمجھ رہے تھے اور دھماکے اور شہادتوں کی اطلاع ملتے ہی سب سے پہلے وفاق المدارس کے رضاکاروں اور ہم خدام کی خیریت وعافیت کے حوالے سے فکر مند ہو رہے تھے ۔رات گئے تک فون کالیں آتی رہیں ،پھر جب ٹوٹے دل اور شکستہ بدن کے ساتھ جاکر بستر پر دراز ہوا تو نیند کیا آتی پوری رات کروٹیں بدلتے اور انتہائی فکر مندی کے عالم میں گزری ،اگلے دن جامعہ اشرفیہ لاہور میں جمع ہوئے ۔دھماکے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ،مختلف آراء سامنے آئیں لیکن ہم کسی حتمی نتیجہ پر نہ پہنچ سکے اور یہ طے پایا کہ وفاق المدارس کی مجلس عاملہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جائے چنانچہ صرف ایک دن کے شارٹ نوٹس پر اجلاس طلب کیا گیا ،ملک بھر سے مجلس عاملہ کے معززاراکین نائب صدر وفاق المدارس مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر ، راقم الحروف مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان،مولانا انوا رالحق نائب صدر وفاق المدارس ،مولانا مشرف علی تھانوی خازن وفاق المدارس العربیہ،مولانا قاضی عبدالرشید ڈپٹی سیکرٹری جنرل وفاق المدارس ، مولانا حافظ فضل الرحیم مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور،مولانا امداداﷲ ، مولانا زبیر احمد صدیقی ،مولانا حسین احمد ، مولانا مفتی محمد نعیم جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی ،مولانا سعید یوسف ،مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی ،مولانا اصلاح الدین حقانی، مولانا ارشاد احمد ،مولانا ظفر احمد قاسم ، مولانا مفتی مطیع اﷲ ،مولانا عبدالقدوس ،مولانا مفتی طاہر مسعود ،مولانا مفتی محمد طیب ،مولانا ضیاء اﷲ اخونزادہ ،مولانا قاری محب اﷲ ،مولانا مفتی خالد محمود،مولانا عبدالمجید ناظم دفتر ،مولانا عبدالمنان ،مولانا قاری محب اﷲ اور دیگر شریک ہوئے ۔طویل غور وخوض اور آراء کا تبادلہ ہوا،ہمارے سامنے لاہور کی سوگوار فضابھی تھی ،ملک بھر میں پائی جانے والی فکر مندی بھی تھی ،اسلام آباد میں عین اس وقت جاری ایک دھرنے ،جلاؤگھیراؤ،توڑ پھوڑ کے بعد مذہبی طبقات کے طرز عمل اور رویوں کے حوالے سے رائے عامہ میں پائی جانے والی تشویش بھی تھی ،اس بات کا احساس بھی کہ وفاق المدارس اﷲ رب العزت کی ایک ایسی نعمت ہے کہ ملک بھر سے بچہ بچہ بے تابانہ وفاق کی کانفرنس میں سعادت جان کر دوڑا چلا آئے گا ،تمام اکابر ایک اسٹیج پر جمع ہو نگے ،تمام تنظیموں کے قائدین ساری دوریاں بھلا کر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے اسٹیج پر ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے آپہنچیں گے ایسے یادگار موقع پر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو کیا ہو گا ؟ دوسری طرف ملک بھر میں ہونے والی محنت ،لوگوں کا جوش وخروش ،شہروں شہروں ہونے والے اخراجات ،وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ذمہ داران اور کارکنان کے احساسات سامنے تھے بلکہ خود میں ذاتی اور ذہنی طور پر کانفرنس کے التواء کو قبول کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا اس لیے دونوں پہلو ملک کے جید اور اکابر علماء کے سامنے رکھے ،دودن سے ہم اﷲم خرلی واخترلی والہمنی رشدی کا ورد کر رہے تھے ،اکابر کی آراء آئیں اور بالآخر اتفاق رائے سے یہ طے پایا کہ موجودہ صورتحال میں کانفرنس کا التواء کانفرنس کے انعقاد سے زیادہ ضروری ، مفید اور نتیجہ خیز رہے گا چنانچہ شہداءِ لاہور کے ورثاء کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے رضاکارانہ طور پر کانفرنس ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہ طے پایا کہ یکم اپریل2016ء جمعہ کو ملک بھر میں یوم دعا منایا جائے گا ،تمام مساجد کے ائمہ وخطباء استحکام مدارس واستحکام پاکستان کے موضوع پر اظہار خیال کریں گے ،سانحہ لاہور کے شہداء کے درجات کی بلندی ،زخمیوں کی صحت یابی اور ملک میں امن وامان کے قیام کے لیے خصوصی دعائیں کی جائیں گی ۔یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آبادمیں استحکام مدارس واستحکام پاکستان کنونشن انعقاد پذیر ہوگا ،اسی طرح یہ بھی طے پایا کہ ملک بھر میں اس سال ختم بخاری ،تکمیل قرآن کریم ،دستار فضیلت اور تقسیم انعامات کے جملہ اجتماعات استحکام مدارس و پاکستان کے عنوان سے کیے جائیں گے یوں اس ایک کانفرنس کو سینکڑوں کانفرنسوں میں تبدیل کر دیا جائے گا ۔مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں تمام اکابر علماء کرام کی معیت میں ان فیصلوں کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ۔نازک ترین صورتحال سے دوچار وطن عزیز میں ا س موقع پر وفاق المدار س العربیہ پاکستان کے قائدین کے اس فیصلے کا ملک بھر میں بھرپور خیر مقدم کیا گیا اور اسے ایک صائب اور دانشمندانہ فیصلہ قراردیا گیا ۔

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کے شرکاء کے تاثرات ،مشاہدات ،تجربات اورملک بھر سے آنے والے فیڈ بیک سے اندازہ ہوا کہ کانفرنس کے انعقاد سے قبل ہی ہم کانفرنس کے اہم اہداف ومقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے، کیونکہ یہ کانفرنس مدارس بارے بے بنیاد پروپیگنڈے کے تو ڑ کے لیے اِنعقاد پذیر ہو رہی تھی اور ملک بھر کے گلی کوچوں میں جس محبت اور خلوص سے دینی مدارس کے کردار وخدمات کے چرچے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ دینی مدارس کو بدنام کرنے کے جتنے جتن کیے گئے وہ سب الٹے پڑے ، مدارس کا میڈیا ٹرائل لوگوں کو مدارس سے متنفر کرنے کے بجائے لوگوں کے دلوں میں مدارس کی محبت میں اضافے کا باعث بنا ۔ بچے بچے کی زبان اس حقیقت کا اعتراف کر رہی تھی کہ’’ آج کے دور میں کسی کی حقانیت جاننے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ دشمن کے تیروں کا ہدف دیکھا جائے جس طرف دشمن کے تیر برس رہے ہوں سمجھ لو کہ حق وہیں ہے‘‘ دینی مدارس کے متعلقین کو تو پہلے بھی اس کا اندازہ تھا لیکن اس کانفرنس کے لیے محنت کرتے ہوئے ادراک ہوا کہ اس ملک کا بچہ بچہ اس حقیقت کو بخوبی جان چکاہے کہ مدارس کے خلاف نفرت انگیز مہم کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں؟۔کانفرنس کے لیے محنت اور ملاقاتیں کرتے ہوئے میری اور وفاق المدارس کے دیگر ذمہ داران کی کئی ایسے لوگوں سے ملاقاتیں ہو ئی ہیں جن کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ دین کے بارے میں اتنے فکر مندا ور مدارس دینیہ سے اس قدر بے پناہ محبت رکھتے ہوں گے لیکن ان سے بات چیت کے بعد اندازہ ہوا کہ مدار س کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے کی وجہ سے انہوں نے از خود مدارس کے کردار وخدمات کا جائزہ لیا ،مدارس کا تنقید ی نگاہوں سے مشاہدہ کیا اور پھر دل وجان سے اس بات کے معترف ہوئے کہ مدارس دینیہ کس طرح اس جبر کے دور میں اخلاص اور بے نفسی کے ساتھ تعلیم کے فروغ اور دین کی ترویج واشاعت میں مصروف عمل ہیں ۔اس لیے ہم نے یہ تہیہ کیا ہے کہ دینی مدارس کے بارے میں ہر پاکستانی مسلمان تک براہ راست پہنچ کر مدارس دینیہ کے ساتھ عوام الناس کے تعلق اور رابطہ مزید مستحکم کرنے کی محنت صرف کانفرنس تک ہی نہیں بلکہ پورا سال جاری رکھیں گے ۔

استحکام مدارس واستحکام پاکستان کانفرنس کی تیاریوں کے دوران لوگوں میں حب الوطنی کے جذبات اجاگر ہوئے ،اس بات کا احساس تازہ ہوا کہ ہمارا مستقبل اور ہمارے دینی مدارس کا استحکام پاکستان کے استحکام سے وابستہ ہے اور اس وطن کی سالمیت اوراستحکام ہمیں مدارس اور دینی اداروں کے استحکام کی طرح عزیز ہے۔

’’استحکام مدارس و پاکستان کانفرنس ‘‘کی تیاریوں کے دوران ایک اور بات جو ہمارے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بنی وہ یہ کہ کانفرنس باہمی اتحاد واتفاق اور یکجہتی کے اظہار کا زریعہ بنی۔ ایک ایسے وقت میں جب ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افرادکے درمیان فاصلے ہیں ،جب ایک مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان تقسیم در تقسیم کا لامتناہی سلسلہ ہے،لوگ ایک ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ،مختلف مزاج اور نظریات کے حامل لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا جوئے شیر لانے کے متراد ف ہے لیکن اس کانفرنس کی تیاریوں کے دوران وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ذمہ داران کو جو حوصلہ افزاء فیڈ بیک ملا اس نے پاکستان کے دینی مدارس کے سب سے بڑے اور قدیمی نیٹ ورک کے کارکنان کا مورال بہت بلند کیا کہ لوگوں کے درمیان موجود رویوں اور نفرتوں کی خلیج ’’وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘ کے ذریعے پاٹی جا سکتی ہے اور’’ وفاق المدارس العربیہ پاکستان ‘‘بلاشبہ سب کے نزدیک ایک ایسا سائبان ہے جس کے سائے تلے ہر جماعت اور ہر مزاج کے لوگ سستانے کے لیے آبیٹھتے ہیں ۔

کانفرنس کی تیاریوں کے دوران جو چیز سب سے زیادہ حوصلہ افزاء رہی وہ وفاق المدار س العربیہ پاکستان سے ملحقہ اٹھارہ ہزار دینی مدارس کے ذمہ داران کی اپنائیت اور محبت ،کام کرنے کا بے لوث جذبہ اور اَنتھک محنت تھی ۔صرف مدارس کے ذمہ داران ہی نہیں بلکہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی حفظ سے لے کر درس نظامی تک کی کسی بھی سند کے حامل شخص نے وہ مرد تھا یا عورت ،وہ حافظ تھا یا عالم ،وہ مفتی تھا یا مدرس،وہ اما م تھا یا خطیب اس نے اپنی تمام توانائیاں ’’اِستحکام مدارس وپاکستان کانفرنس‘‘کی کامیابی کے لیے صَرف کر ڈالیں ،بلکہ ایک دلچسپ معاملہ یہ سامنے آیا کہ وفاق المد ارس العربیہ پاکستان کے مدارس سے کسبِ فیض کرنے والے کئی ایسے لوگوں سے رابطہ ہوا جو صرف چند برس مدارس میں زیر تعلیم رہے پھر وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر پائے اور کسی اور شعبے کو اختیار کر لیا ،مدارس سے برسوں سے کوئی رابطہ اور کوئی واسطہ نہیں رہا لیکن اس کانفرنس نے ان کا مدرسہ سے پرانا تعلق تازہ کر دیا اور وہ بھی اس کانفرنس کو اپنی کوئی گھریلوتقریب سمجھ کر اس میں شرکت کی تیاریاں کر نے لگے اور اس کی کامیابی کے لیے مصروف عمل ہو گئے۔ایسے لوگ جو بیرون ملک مقیم ہیں وہ اپنے خرچ پر اس کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لانے کے منصوبے بنا رہے تھے بلکہ دیار غیر میں مقیم کئی لوگ کانفرنس کی وجہ سے پاکستان تشریف بھی لا چکے تھے ، ایسے لوگ جو دور دراز کے دیہاتوں اور قصبوں گوٹھوں میں اپنی دینی مصروفیات میں لگے ہوئے تھے ان کی کارگزاری سن کر سیروں خون بڑھ جاتا تھا۔

’’وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی عظیم الشان ’’استحکام مدارس وپاکستان کانفرنس ‘‘کے انعقاد کا فیصلہ ایک ایسے وقت ہوا تھا جب پاکستان کے دینی طبقات میں مایوسی کا عالم تھا ،جب خوف وہراس کی کیفیت تھی ،جب لبرل ازم کو رواج دینے کے خواب دیکھے جا رہے تھے اور جب مدارس دینیہ کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی تھی ایسے میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے قائدین کی طرف سے پہلے ڈویژنز کی سطح پر کنونشنز کے انعقاد نے بیداری کی لہر پیدا کی اور پھر ملک گیر اجتماع کی کال سے ملک بھر کے مذہبی طبقات اور جذبات نے انگڑائی لی ، وفاق المدارس کے قائدین نے سطحی ذہن اور جذباتی سوچ رکھنے والے لوگوں کی طرح نہیں بلکہ کمال دانشمندی سے ان جذبات کو دائمی اور سدابہار بنانے کا فیصلہ کیا امید ہے کہ اس کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے ۔

یہاں اس بات کی وضاحت بھی از حد ضروری ہے کہ ایک عرصے سے یہ کوشش کی جاتی رہی کہ مدارس کو اشتعال دلا کر تشدد کے راستے پر ڈالا جائے ،مدارس اور قومی اداروں کے مابین تصادم اور کشمکش کی فضا ء پیدا کی جائے اور مدارس کو پاکستان میں ایک اچھوت کی حیثیت دے دی جائے جبکہ دوسری طرف سے گاہے یہ بھی کہا جانے لگا کہ پاکستانی مدارس کے ساتھ ترکی جیسا تجربہ دہرایا جا سکتا ہے ، ان مدارس کو دیوار کے ساتھ لگا یا جاسکتا ہے یا تھوڑی سی محنت کے بعد ختم کیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر’’ وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘ کے قائدین نے پرامن انداز سے مدارس دینیہ کے متعلقین ومحبین کی پرامن افرادی قوت کے اظہار کا فیصلہ کیا،اس کی بھرپور تحریک چلائی،اس کے لیے سر توڑ محنت کی اور جب مناسب سمجھا اس کے التواء کا اعلان کر کے اپنوں میں ایک تشنگی اور دشمن پر رعب ودبدبہ کی کیفیت برقرار رکھی ہم سمجھتے ہیں کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران ملک بھر میں منعقد ہونے والے اجتماعات اور مرکزی اجتماع کی تیاری کے لیے چلائی جانے والی مہم جہاں دکھی دل اسلام پسند جوانوں،ارباب مدارس اورمذہبی طبقات کے لیے حوصلے اورعزم کی تقویت کا باعث بنی وہیں دینی مدار س کے خاتمے کے خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے بھی کافی ہے ۔اس لیے توقع کی جانی چاہیے کہ اب مدارس بارے غلط اندازے لگانے ،غیر دانشمندانہ فیصلے کرنے اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کرنے سے گریز کیا جائے گا ۔

آخر میں اس کانفرنس کے لیے محنت کرنے والے احباب کا تذکرہ نہ کرنا یقینا ناانصافی ہوگی ۔کانفرنس کے انعقاد کے فیصلے کے بعد اکابر نے جس طرح دعائیں دیں،شفقتوں سے نوازا،کانفرنس کے انتظامات میں قیمتی مشوروں سے نوازاوہ ہمارے لیے سب سے قیمتی سرمایہ تھا ۔مجھے ذاتی طور پر اﷲ کی رحمت سے ہر پہلو پر بھرپور محنت کی توفیق ملی جس پر اﷲ رب العزت کی بارگا ہ میں سجدہ شکر بجا لاتا ہوں کہ یہ سب محض اس کا کرم تھا ۔کانفرنس کی کامیابی کے لیے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے قائدین نے شبانہ روز محنت کی ،تمام صوبائی ناظمین نے تن من دھن کی بازی لگائی ،تمام مسؤولین (ضلعی ذمہ داران )نے دن رات ایک کر دیا ۔بالخصوص مولانا قاضی عبدالرشد نے پنچاب کا قریہ قریہ چھان مارا ،علالت کے باوجود پے درپے سفر کرتے رہے ،جنوبی پنجاب میں مولانا زبیر صدیقی نے ہر بستی کا دورہ کیا ،خیبر پختونخواہ میں مولانا انوار الحق ،مولانا حسین احمد اورمولانا اصلاح الدین حقانی اور ان کے رفقاء نے ایسے اندازسے محنت کی کہ قیام پاکستان کے وقت ہونے والے ریفرنڈم کے لیے اکابر کی محنت کی یادیں تازہ کر دیں ،بلوچستان میں مولانا مفتی صلاح الدین ،مولانا مفتی مطیع اﷲ نے دن رات ایک کئے رکھا اور بلوچستان کے کٹھن ماحول میں بیداری پیدا کی ،کراچی میں اکابر کی سرپرستی میں مولانا امداداﷲ نے اور اندرون سندھ میں مولاناقاری عبدالرشید صاحب نے ہلچل مچا دی ،آزادکشمیر میں مولانا سعید یوسف اور مولانا قاضی محمو دالحسن اشرف نے تمام مدارس کے ذمہ داران سے رابطے کیے اور دو سو سے زائد گاڑیوں کا قافلہ تیار کیا ،ہماری میڈیا کمیٹی کے اراکین بالخصو ص مولانا عبدالقدوس محمدی ،مولانا مجیب الرحمن انقلابی ،مولانا محمد ابراہیم سکرگاہی،عزیزم احمد حنیف جالندھری اور مولانا مفتی سراج الحسن نے جس طرح محنت کی ،مسلسل خبریں چلائی جاتی رہیں ،مضامین شائع ہوتے رہے ،اسلام آباد ،لاہور ،کراچی ، پشاور اور ملتان میں اخبار نویسوں سے رابطہ مہم جاری رہی ،میں نے خود میڈیا کمیٹی کے اراکین کے ہمراہ تمام اہم میڈیا ہاؤسز کا دورہ کیا ،اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں ،سب نے کھلے دل سے خیر مقدم کیا ،خصوصی کوریج کا وعدہ کیا ،پرنٹ میڈیا نے کانفرنس کے موقع پر ایڈیشن اور مفت اشتہارات چھاپنے کے وعدے کیے ،ہمارے میڈیا سنٹر نے پندرہ اخبارات کے لیے پورے پورے ایڈیشن کا مواد ترتیب دیا ،ان پیچ کی فائلیں اور فولڈر تیار کیے ،سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلائی ،ایسی ایسی دیدہ زیب ،دلکش ،سبق آموز پوسٹیں تیارہوئیں کہ دل باغ باغ ہو گیا ،میڈیا سنٹر نے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کے لیے نیٹ ورکنگ کا اہتمام کیا ،بنوریہ میڈیا نے وڈیوز تیار کیں ،ملک بھر میں مسلسل ٹیلی فون کالیں چلائی جاتی رہیں ،وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مرکزی دفتر میں مولانا عبدالمجید،چوہدری ریاض عابد،مولانااحمدعماص،مولانامحمدسیف اﷲ ابرار اور ان کے رفقاء پوری محنت کے لیے بنیاد کا پتھر ثابت ہوئے،فیصل آباد کے دارالقرآن اور جامعہ امدادیہ کے اساتذہ وذمہ داران نے انتظامات اپنے ذمہ لیے رکھے ،سرگودھا کے مولانا مفتی طاہر مسعود نے سیکیورٹی کی ذمہ داری سنبھالی اور اس کی ترتیب بنائی ،جامعہ اشرفیہ لاہور کے احباب بالخصوص حضرت مولانا حافظ فضل الرحیم اورحافظ اسعدعبیدصاحب نے جس خلوص و محبت اور فیاضی سے کانفرنس کی میزبانی قبول کی ،مہمانوں کی خاطر تواضع کی ، لاہور ڈویژن کے مسؤولین مولانا مفتی خرم یوسف اور مولانا مفتی عزیز الرحمن نے خود کو کانفرنس کے لیے وقف کیے رکھا الغرض ہر کسی نے اپنی بساط سے بڑھ کر محنت کی جس کا اﷲ رب العز ت سب کو اپنی شان کے مطابق اجر عطا فرمائیں ۔آمین
 
Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 130179 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.