’باغ وبہار‘ کی ادبی اہمیت

اردو کی لازوال کتابوں کی جب فہرست بنائی جاتی ہے، اس وقت نثر کی پہلی کتاب کے بہ طور ’باغ وبہار‘ کا بلا استثنا انتخاب ہوگا۔ اس کتاب کے مصنف کی شہرت اور حیثیت اپنے زمانے میں کچھ زیادہ نہیں تھی۔ دہلی، لکھنؤ اور عظیم آباد کے قیام کے بعد ملازمت کی تلاش میں بُڑھاپے کے دَور میں میرامّن جب کلکتّہ پہنچ کر بہادر علی حسینی کی وساطت سے فورٹ ولیم کالج کے شعبۂ ہندستانی میں مامور ہوتے ہیں، اُس وقت بھی اُن کی تنخواہ محض چالیس روپے طے ہوتی ہے جب کہ اردو کے دوسرے اہلِ قلم اُن سے پانچ گنی ماہانہ تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔ اِسے اتّفاق کے علاوہ اور کیا کہاجائے کہ میرامن کو جو پہلی کتاب ترجمہ کے لیے ملی، اس کی زبان منتقلی کا کام انھوں نے اس طرح دل لگا کر کیا جس کے سبب’ باغ وبہار‘ جیسی بے مثال کتاب سامنے آئی۔ آج باغ وبہار کے فارسی اور اردو ماخذات تاریخ کے نہاں خانے میں گم ہوگئے لیکن دوصدیوں سے زیادہ گزر جانے کے باوجود وقت کی گرد سے باغ وبہار نہ صرف محفوظ رہی بلکہ اس کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا۔
فارسی میں شہرت رکھنے والے قصّے ’چہار درویش ‘کے اردو ترجمے’ نوطرزِ مرصّع‘ (از عطاحسین خاں تحسین) کو میرامّن نے جان گل کرسٹ کی ہدایت پر ’’ٹھیٹھ ہندستانی گفتگو میں جو اردو کے لوگ، ہندومسلمان، عورت مرد، لڑکے بالے، خاص وعام آپس میں بولتے چالتے ہیں‘‘ ترجمہ کیا۔ میرامّن نے ایک اور ہدایت کو نشانِ راہ بنایا او ر ’’اسی محاورے سے لکھنا شروع کیا جیسے کوئی باتیں کرتا ہے ۔‘‘ فورٹ ولیم کالج کا قیام انگریز ملازمین کو ہندستانی زبان اور تہذیب وثقافت سے آشنا کرنا تھا۔ اسی لیے ابتداء ً ایسی ہدایات دی گئیں اور نتیجے کے طور پر شعر و ادب کے عوامی مزاج واسلوب کی طرف جھکاو کے امکانات بڑھے۔ یہ کم دل چسپ بات نہیں کہ میرامّن نے ترجمے کے لیے فارسی کتاب کے بجاے اردو نسخے کو تختۂ مشق بنایا۔ شاید آج بھی ادبِ اطفال کے علاوہ کہیں اس کرتب کی گنجایش نہیں کہ اصل اور ترجمہ دونوں کی زبان ایک ہی ہو۔
لیکن میرامّن نَو عمروں کے لیے کوئی کتاب نہیں لکھ رہے تھے۔ یہ ضرور کہ اس کتاب کے اوّل مخاطبین ایسی جماعت پر مشتمل تھے جو اردو کے لسانی اور تہذیبی ماحول سے بہت کم واقفیت رکھتے تھے۔ میرامّن نے اگر Reproduction کا کام کیا ہوتا تو ’نوطرزِ مرصّع ‘کی اہمیت اور مقبولیت میں اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ اصل کتاب بہر حال اصل ہوتی ہے اور نقل یا ترجمہ کا ذکر یقینی طور پر بعد میں آئے گا۔آج ہمارے پاس’ نوطرزِمرصّع‘ اور ’باغ وبہار‘ دونوں کتابیں موجود ہیں۔ ان کے متون کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرامن نے اپنی کتاب پر’ نوطرزِمرصع ‘کی ایک ذرا پرچھائیں بھی نہیں پڑنے دی۔ اس طرح ’باغ وبہار‘ ترجمہ تو ہے لیکن اصل کتاب کے انکار کے ساتھ۔ محقّقین نے فارسی قصے کی تلاش میں کافی مشقّت کی ہے، اس کے باوجود پورے طور پر ’باغ وبہار‘سے مِلتی جُلتی ایک بھی کتاب نہیں۔ قصۂ چہار درویش کے الگ الگ نسخوں سے دوچند واقعات اور عبارتیں موجود ہیں۔ اس لیے ’باغ وبہار‘ کو زبان اور قصّے کی ترتیبِ نو کی وجہ سے میرامن کی طبع زاد کتاب مان لینے کو بے جا عقیدت مندی نہیں کہنا چاہیے۔
فورٹ ولیم کالج کے ہندستانی شعبے میں میرامّن تیسرے درجے (ماتحت منشی)کے ملازم بنائے گئے تھے۔ اس کالج سے پہلے وہ کیا تھے اور ان کی علمی فتو حات کی تفصیل کیا ہے، اس کے بارے میں اردو کی ادبی تاریخ خاموش ہے۔ ہم عصر تذکروں میں بھی میرامن کے متعلّق اطّلاعات براے نام ہیں، حالاں کہ وہاں چھوٹے بڑے سیکڑوں اہلِ قلم کا گوشوارہ درج ہے۔ فورٹ ولیم کالج سے چند برس کی وابستگی کے بعد جب میرامّن کالج سے الگ ہوئے، اس کے بعد ان کی زندگی کیسے گزری، وہ کہاں گئے اور ان کی کب موت ہوئی، اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں۔ اسی کالج میں انھوں نے ’گنجِ خوبی‘ کے نام سے ایک دوسری کتاب کا فارسی سے ترجمہ کیا لیکن اردو کی ادبی تاریخ میں اس کا صرف اس لیے ذکر ملتا ہے کہ وہ مصنفِ ’باغ وبہار‘ کی ایک دوسری تصنیف ہے۔ ۱۸۰۱ء میں ’باغ بہار‘ کی تالیف ایک ایسا ادبی واقعہ ہے جس نے ایک گم نام، بالکل معمولی علمی استعداد کے ہنرور کو آسمان کی بلندی عطا کردی۔ ۱۸۰۲ء میں کالج کی طرف سے اس کتاب پر پانچ سو روپے کا انعام عطا ہونا یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اُس زمانے میں اس کتاب کا کیسا اثر ہوگا۔
’باغ وبہار‘ کی اہمیت اردو کے ادبی اور علمی حلقے میں یوں اچانک کیوں قائم ہوئی، اس کے اسباب کی تلاش میں ہمیں اردو نثر کی روایت سے واقف ہونا ہوگا۔ بہت تلاش اور تحقیق کے بعد بھی اردو میں ’باغ وبہار‘ سے پہلے نصف درجن سے زیادہ ادبی نثر کی کتابیں حاصل نہیں کی جاسکی ہیں۔ ’سب رس‘،’ قصۂ مہرافروزو دلبر‘، ’ نوطرزِمرصع‘ اور’ عجائب القصص‘ جیسی داستانوں کے علاوہ اردو نثر کے پاس کوئی ایسی جاگیر نہیں جس کے بَل پر وہ اِترائے۔ اس دور کے مسلّم الثبوت شعرا نثر نویسی کے لیے فارسی کو ہی جاے پناہ تصور کررہے تھے ورنہ کیا ضرورت تھی کہ میرؔ، میرحسنؔ اور مصحفیؔ کے تذکرے فارسی میں لکھے جائیں اور دردؔ کے مذہبی رسائل کی زبان اردو کے بجاے فارسی ہو۔
میرامّن نے تاریخ کے اِسی موڑ پر اردو نثر کو نہ صرف اپنی داستان میں وسیلۂ اظہار بنایا بلکہ اس کے نئے اجزا بھی مقرّر کردیے۔ اب نثر قصۂ طولانی نہیں بلکہ لوگوں کی گفتگو اور رہن سہن کا اشاریہ ہے۔ یعنی نثر نے ’باغ وبہار‘میں پہلی بار وہ کام شروع کیاجس کے لیے وہ بنی تھی۔شاعری کو اشرافیت سے نکال کر ہم عصر زندگی کے مسائل اورلسانی گفتگومیں بدل دینے کا انقلابی کام میرؔ نے ابھی حال ہی میں آزمایا تھا۔ میرامّن جب’ باغ وبہار‘ لکھ رہے ہیں، اس وقت محمد تقی میرؔ شہرِ لکھنؤ میں مصنوعی زبان کے سرخیلوں کے مقابلے عام لوگوں کی ایک فطری زبان کو اعتبار بخشنے کی مہم پر بڑھاپے کے باوجود کاربند تھے۔ فورٹ ولیم کالج نے بھی میرؔ کے دیوان کو شائع کرکے یہ بتا دیا تھا کہ جس نئی نثر کا خاکا یہاں تیار ہورہا ہے، میر ؔاپنی شاعری میں اُس کا پہلے سے ہی استعمال کر رہے تھے۔ لیکن میرؔ کو ہی جب نثر کی ضرورت درکار ہوتی ہے، اس وقت انھیں ایک اَن گڑھ زبان کے مقابلے فارسی کی آزمائی ہوئی دنیا زیادہ کار آمد معلوم ہوتی ہے اور ہندوی راندۂ درگاہ قرار پاتی ہے۔
یہ سوال اپنے آپ میں بہت اہم ہے کہ کس چیز نے ’باغ وبہار‘ کو ایک چھلانگ میں وہ مقامِ بلند عطا کیا جس سے اس کی آج تک واپسی نہیں ہوئی۔ بعد کے دَور میں غالبؔ جیسے غیر تقلیدی ذہن کو بھی میرامن کی کتاب میں ہی روشنی اور چمک دکھائی دی اور اسی کتاب کی نثر کو بنیاد بنا کر انھوں نے اردو کی جدید نثر کا اپنے خطوط کے ذریعہ ایک نیا کارخانہ قائم کیا۔ بقیہ انیسویں صدی اور تمام وکمال بیسویں صدی میرامن کے انداز واسلوب سے بہت کم کسی الگ راستے کی طرف بڑھی۔
میرامن کے پاس کوئی نیا قصّہ نہیں تھا۔اُس دور اور اس کے بعد کی داستانوں کو بھی بہ غور دیکھیے تو سب کے قصّے اور انداز ایک دوسرے سے ملتے جلتے دکھائی دیتے ہیں۔ کلیم الدین احمد نے مختلف داستانوں کے آغاز، انجام اور درمیان کے اہم پڑاؤں سے اقتباسات جمع کرکے تقریباً یہ فیصلہ کردیا ہے کہ اکثر وبیش تریکسانیت قائم رہتی ہے۔ قصّہ شروع بھی ویسے ہی ہوگا اور اس کا اختتام بھی مختلف نہیں ہوگا۔ درمیان میں کوئی مسئلہ پیدا ہوا تو اُس کا حل بھی مختلف داستانوں میں ایک ہی طرح سے تجویز کیا جائے گا۔ ایسے میں کسی داستان کی انفرادیت بھلا کیسے طے ہوگی؟
باغ وبہار ہماری زبان میں قصہ گوئی کی روایت کا نقطۂ عروج ہے۔ زبانی قصوں کی روایت شاید انسانی تہذیب وثقافت کے متوازی چلتی رہی ہے۔ میرامنؔ نے تحریری داستان کی بنیاد ’’گفتگو‘‘ پر رکھی۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ سب رس سے لے کر نوطرزِمرصع تک مختلف داستانوں میں مکالمے تو بہت ہیں لیکن ان کتابوں کی اساس ’’گفتگو‘‘ نہیں۔ قصّے کو بات چیت میں بدل دینا اور بیانیہ کو تحریری آداب سے دور پہنچا دینا اور اس طرح بے اَثر کردینا کہ اس کی اہمیت ہی باقی نہ رہے، میرامّن کی’ باغ وبہار‘کی یہی صنفی حکمتِ عملی ہے۔ اک جھٹکے کے ساتھ میرامّن نے اپنے قصّے کو عوامی لاشعور میں موجود زبانی داستانوں کی روایت سے جوڑ کرا پنے مخاطبین کا وسیع دائرہ اپنے حلقے میں سمیٹ لیا۔ زبانی قصّوں کی تربیت نسل درنسل ہندستانی سماج میں موجود تھی۔ اس لیے میرامّن کو تحریر میں زبانی قصّے کی لذّت عطا کرنے کے لیے چہارطرف سے داد ملی اور پھر اردو نثر ایک نئی اور آزاد فضا میں پہنچ گئی جس کے بعد اُس نے وسعت اور بلندی کے کئی مینار دیکھے۔ میرامنؔ نے نثر کے جو آداب ایجاد کیے، اُسے ہی ردوبدل کے ساتھ تمام نثری اصناف میں پوری اردو آبادی آج تک کامیابی کے ساتھ آزمارہی ہے۔
ایسا نہیں کہ باغ بہار میں گفتگو اور مکالمہ سازی کا کوئی ایک مخصوص پیمانہ بنالیا گیا ہے اور اسی پر تحریر کا مکمّل ڈھانچہ قائم کرلیا گیاہے۔ میرامّن نے گفتگو کی جتنی جہتیں ہو سکتی تھیں، اُن کے اسالیب یہاں دریافت کرلیے ہیں۔ پہلی بات تو یہی کہ انھیں مختلف طبقات کی زبان آتی ہے۔ بادشاہ، امرا، رئیس زادے کے ساتھ ساتھ اندھے، بھیک مانگنے والے اور مصیبت زدہ افراد ’باغ و بہار‘میں زبان وبیان اور گفتگو کے ڈھب میں الگ الگ دکھائی دیتے ہیں۔ میرامّن عورتوں کی گفتگو اور اُن کے درجات کو بھی اسی مہارت کے ساتھ انفرادی رنگ میں پیش کرسکتے ہیں۔کیسی کیسی راز ونیاز کی باتیں، ایسے جذبے جن پر حکومت کے ایوان ڈگمگانے لگیں، انھیں بھی سادگی اور وضاحت سے میرامّن نے گھر آنگن میں اس طرح آراستہ کیا ہے جیسے اس کی انھیں طویل مشق ہے۔ کٹنیوں کی گفتگو بھی نہ صرف اپنے فطری رنگ میں ہے بلکہ’ باغ وبہار‘ میں زندگی کی ایک سحرطراز کیفیت اس سے بھی پیدا ہوتی ہے۔
قصّہ گوئی کے تمام روایتی ہنر چُن چُن کر میرامّن نے باغ وبہار کے صفحات پر آزمالیے ہیں۔ اکثر مافوق فطری عناصر آج کے زمانے میں قصّے کو بے مزہ کردیں گے لیکن میرامّن نے ذیلی قصّوں میں ان عناصر کو اس طرح سے تھوڑا تھوڑا کرکے شامل کیا ہے کہ بے یقینی اعتماد کے حصار میں چلی آتی ہے۔ دوسرے درویش کی کہانی میں نوفل اور حاتم کا ذکر کرتے ہوئے بوڑھے اور بُڑھیا کا جو پورا واقعہ ہے، اس کے کچھ کردار سچّے ہوسکتے ہیں لیکن وہاں ایسے اشخاص کی بھی موجودگی ہے جو اپنے غیر معمولی افعال کی وجہ سے مافوق فطری رنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔ اس کے باوجود قصّہ مکمل مستعدی سے اور فطری انداز میں ہمیں قبضے میں لیے رہتا ہے جس سے ہمارا ذہن حقائق کی تلاش کے لیے آزادانہ طور پر سرگرم نہیں ہوپاتا۔
چوتھے درویش کی کہانی میں جہاں ایک اندھے ہندستانی فقیر کا ذکر آتا ہے، قصّہ ایک نازک موڑ پرپہنچ کر غیر فطری رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ ایک ہی قصّے کے بعض اجزا فطری اور بعض غیر فطری ہوجائیں تو پڑھنے والے کے لیے مرحلۂ امتحان آجاتا ہے۔ راجندرسنگھ بیدی نے اپنے مشہور افسانے ’ہاتھ ہمارے قلم ہوے‘ میں افسانہ نگاری کو’ جھوٹ سچ ‘سے تشبیہہ دی ہے یعنی جب سچ کا بیان کیجیے تو جھوٹ کا گمان ہو اور جب جھوٹی کہانی کہیے تو لوگ اُسے سچ سمجھنے پر مجبور ہوجائیں۔ مافوق فطری عناصر کے ساتھ ’باغ وبہار‘کے مصنّف کا یہ ہوش وہنر کا برتاو اردو کی کسی داستان میں دکھائی نہیں دیتا ۔ قصّے اور کرداروں پر میرامن کی گرفت اتنی پختہ ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنی دسترس سے بہت دوٗر نہیں جانے دیتے۔ چاروں درویش اور خود آزاد بخت سب کی زندگی ایک خاص ناپ تول کے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہے۔ سب اپنے اپنے طریقے سے جبرِ مشیّت کی کہانی کہتے نظر آتے ہیں۔ کوئی ایسا نہیں جس کا گذشتہ آسایشوں سے بھرا نہیں تھالیکن صبرآزما موجود سے سب ہراساں ہیں۔ اسی لیے ہر درویش، یہاں تک کہ بادشاہ آزاد بخت بھی اپنے گذشتہ کااعادہ کرتا ہے اور ماضی کی سیر کر خوش وقتی حاصل کرلیتا ہے۔
’باغ وبہار‘ کے قصّے ہندستان سے متعلّق نہیں ہیں۔عرب وایران کی فضاؤں میں اُن کی گہری جڑیں ہیں۔ ایک قصّے کا سِراچین سے جا ملتا ہے۔ عرب وایران کی اسلامی فضا کے ساتھ چین کے قصّے میں بھی کردار غیر اسلامی نہیں ہیں۔ کہنا چاہیے کہ باغ وبہارکی دنیا مذہبِ اسلام سے متعلّق ہے لیکن اس قصّے کا لکھنے والا ہندستان کا باشندہ ہے۔ حالاں کہ وہ کلکتّے کے ایک نئے معاشرے کا حصّہ ہے لیکن اس کا ماضی دہلی کی مرکزیت کا پرستار ہے۔ وہ خود کو بھی ’’دلّی والا‘‘ موسوم کرتا ہے۔ دلّی کی تہذیب اور زبان وبیان کی مہارت کا تذکرہ وہ اس طرح کرتا ہے : ’’جو شخص سب آفتیں سہہ کر دلّی کا روڑا ہو کر رہا اور دس پانچ پشتیں اسی شہر میں گزریں اور اُس نے دربار امراؤں کے اور میلے ٹھیلے، عرس، چَھڑیاں، سیرتماشا اور کوچہ گردی اس شہر کی مدّت تلک کی ہوگی اور وہاں سے نکلنے کے بعد اپنی زبان کو لحاظ میں رکھّا ہوگا، اس کا بولنا البتّہ ٹھیک ہے۔‘‘
میرامّن زبان اور تہذیب وثقافت کو الگ الگ نہیں مانتے۔ اسی لیے کلکتے میں بیٹھ کر انگریزوں کی ہدایت اور مشورے سے بھی جب وہ قصّہ گوئی کرتے ہیں، اس وقت وہ دلّی کی زبان اور تہذیب کی ہی عکّاسی کرتے نظر آتے ہیں۔ آج کے زمانے میں ناول نگاری کے پیچھے ایک ڈیٹا بیس (Data-base) یا تحقیقی اور تاریخی شعور کی موجودگی ضروری بات مان لی گئی ہے۔ قرۃ العین حیدر یا وکرم سیٹھ اپنے نئے ناول کے مواد کے لیے مختلف شہروں اور ممالک کی لائبریریوں میں کئی کئی برس وقت صَرف کرتے ہیں؛ اس اطلاع پر حیرت اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ فکشن نے علم وفن کے مختلف غیر روایتی اسالیب بھی اپنے تن بدن میں سمیٹ لیے ہیں۔ میرامن کے زمانے میں داستان نویسی کے شعبے میں تحقیق کی ایسی کسی روایت کا پتا نہیں چلتا۔ علم کا پھیلاو بھی محدود تھا۔ میرامنؔ کی عام معلومات کا یہ حال ہے کہ وہ فارس اور ایران کو دومُلک سمجھتے ہیں۔ اب اس آدمی سے کون امید کرے گا کہ بصرہ، آذربائجان، قسطنطنیہ، یمن اور چین جیسے دوٗر کے مقامات کے افراد اور اُن کی معاشرت کے بارے میں وہ ٹھوس اطّلاعات دے سکتے ہیں۔
ایسے موڑ پر میرامن نے قصّہ گوئی کا ایک نیا راستہ ڈھونڈ لیا۔ میرامن دلّی والے تھے اور یہاں دس پانچ پشتوں سے رہنے کا فخر بھی اُن میں تھا۔ اس لیے قصّہ وہ جہاں اور جس مقام کا لکھ رہے ہوں، اُس کے متن میں ہندستانی امور اپنے آپ داخل کرتے چلتے ہیں۔ اسی وجہ سے’ باغ وبہار‘ ہنداسلامی معاشرت کی بہترین ترجمان بن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ قصے میں روم کا ذکر ہورہا ہے، کئی کئی صفحات کے بعد دوسرے ممالک کے الفاظ بھی داخل کیے جارہے ہیں لیکن پڑھنے والا اُسے قلعۂ معلّٰی سے وابستہ کرکے بہ آسانی آگے بڑھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اخترنے آزاد بخت کو تو مکمّل ایک مغل بادشاہ کی طرح دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔’ باغ وبہار‘ کی شہزادیاں بھی مغلوں جیسی دکھائی دیتی ہیں۔ تعویذ اور گنڈا بنوانا، شبھ لگن کا خیال رکھنا، جنم کنڈلی بنوانا اکبر کے دَور سے ہی محل سَرا میں یہ باتیں موجود ہیں۔ میرامن ’باغ وبہار‘ میں قصّے کے بیچ بیچ میں ان امور کو بکھیر دیتے ہیں۔
محل اور کھنڈروں کی تفصیل، پرانی شاندار عمارتوں کا بیان اور سخاوت وشجاعت کے ساتھ مہمان نوازی کے اعمال کی تان ایسے ٹوٹتی ہے جیسے محسوس ہو کہ مغلوں کا دورِ عروج ابھی ابھی ختم ہوا ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کا شاید ہی کوئی اردو ادیب ہو جس کے لاشعور میں مغلوں کے زوال کا کرب موجود نہ ہو۔ میرسے لے کر غالب تک اس کا ایک سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔ میرامّن ان دونوں کے درمیان میں آتے ہیں لیکن وقت کے عتابات وہ اِن دونوں سے شاید زیادہ ہی جھیلتے رہے۔ دربدری کا عذاب میرصاحب سے کم میرامّن کے حصّے میں نہیں آیا۔ اس لیے میرامن کی یادوں میں بھی مغلوں کی تاراجی اور شکست وریخت ایک ایسا زخم ہے جسے ایّام ِگذشتہ کے پھول اور خوشبو ہی مرہم لگا سکتے ہیں۔ باغ وبہارکے قصّے کا مواد اصل میں میرامن کے ذاتی زخم کا مداوا بھی ہے۔ اسی لیے شہزادوں کے نام اور مقامات کے علاوہ اس قصّے کی پوری دنیا ہندستانی ہے۔ ہنداسلامی فضا اور مشترکہ کلچر پرایسا یقین اور طمانیتِ قلبی اس سے پہلے اردو کی کسی تحریر میں موجود نہیں۔
ناقدین نے باغ وبہار کو ’زندہ نثر‘ کی کتاب کہا ہے۔ گذشتہ دو سو برسوں میں باغ وبہارکے تعلق سے جس قدر بھی لکھا گیا ہے، اس کا نقطۂ عروج باغ وبہار کی زبان اور اسلوب کی تعریف ہے۔ اس موضوع پر کوئی تنازعہ نہیں کہ پڑھنے والے کو یہاں ایک نئی زبان میسّر آتی ہے۔ بیان کا یہ نیا لہجہ نہ صرف ہمیں چونکاتا ہے بلکہ اس بات کے لیے بھی داد طلب ہوتا ہے کہ ایسی نثر نہ کسی پُرانی کتاب میں ہے اور نہ آج تک دوصدیوں کے بعد کسی کو ایسی قدرتِ کلام حاصل ہوئی۔ صنف کی حیثیت سے داستان تاریخ کے دفینے میں سمٹ گئی۔ ’باغ وبہار‘ کا قصّہ اب نہ ہمیں چونکاتا ہے اور نہ اس کے سچ ہونے کا التباس پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ کتاب جس ادارے کے لیے لکھی گئی، اس ادارے کا بھی سیکڑوں سال پہلے زوال ہو چکا۔ جس مقصد کے تحت’ باغ وبہار‘ کی تالیف ہوئی، اس کی کوئی ضرورت اور افادیت اب باقی نہیں۔ اس کے باوجود، اردو نثر کی ایک بھی کتاب شاید ہی باغ وبہار جیسی مقبولیت حاصل کرسکی ہو۔ ہر دور میں ’باغ وبہار‘ کے دائرۂ اثر میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
’باغ وبہار‘ میں عام لوگوں کی بول چال کو اہمیت دی گئی ہے۔ میرامّن کا یہ پہلا اصولی اجتہاد ہے۔ پیشِ لفظ میں ہی وہ وضاحت کردیتے ہیں کہ اس کتاب کا ترجمہ وہ اُس زبان میں کررہے ہیں جس میں تمام قومیت اور جمیعت محوِ گفتگو ہوتی ہے۔ اس وجہ سے میرامن نے فارسی اور عربی روایات سے گریز اور ہندوی لہجے کی طرف کشش کی حکمتِ عملی اپنائی۔ میرامن نے اس تجربے کو اُس آدھے ادھورے طریقے سے استعمال نہیں کیا جس طرح اُس زمانے کے بعض بڑے شعرا کررہے تھے۔ اس کے برعکس میرامّن کے یہاں ایک منضبط طریقۂ کار دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے اُن کا پہلا ٹکراو قواعد نویسوں سے ہوا۔ میرامن کی تحریر میں بعض ناقدین نے قواعد اور صرف ونحو کے تسامحات پہلی نظر میں تلاش کر لیے۔کیا اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ میرامن قواعد وانشا کے معمولی ضابطے بھی نہیں جانتے تھے؟ ایسا نہیں ہے۔ میرامّن چاہتے تو انھیں درست کرکے رواجِ عام کے مطابق کرلیتے اور اپنے معاصرین سے داد وصول کرلیتے لیکن میرامن اپنی کتاب کے آغاز میں بتا چکے ہیں کہ وہ ’’گفتگو کی زبان‘‘ لکھ رہے ہیں۔ بات چیت اور تحریر کے آداب میں فرق ہوتا ہے۔ صرف بعد کے دنوں میں غالب کو یہ ہنر آیا کہ دونوں اسالیب باہم ہو جائیں۔ اس لیے میرامن نے گفتگو کو انشا کے قواعد پر فوقیت دی۔ جملے میں مختلف ٹکڑے الگ الگ ترتیب سے تحریر وتقریر کا حصہ بنتے ہیں۔ میرامن گفتگو کو ’’لکھنے‘‘ میں کیسی قدرت رکھتے ہیں، ملاحظہ کیجیے : ’اس وزیر کی ایک بیٹی تھی، برس چودہ پندرہ کی، نہایت خوب صورت اور قابل، نوشت و خواندمیں درست۔‘ (آزاد بخت کا بیان)۔ ملکہ کی تلاش کا ایک منظر اس طرح ہمارے سامنے آتا ہے۔ ’ایک مکان سے آواز میرے کان میں پڑی جیسے کوئی مناجات کررہا ہے۔ آگے جا کر دیکھوں تو ملکہ ہے کہ عجیب حالت سے روتی ہے‘۔ ان جملوں کو دیکھنے سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ گفتگو کے انداز پر تحریر کے قاعدوں کو قربان کردیا گیا ہے۔
رشیدحسن خاں نے بڑی تفصیل سے میرامن کے خلافِ قاعدہ استعمالات کی فہرست پیش کر دی ہے۔ واحد کو جمع اور جمع کو واحد، مذکر کو مونث اور مونث کو مذکر، ’نے‘ اور ’کو‘ کے استعمال کا مناسب ڈھب انھیں معلوم نہیں، بے وجہ جمع الجمع بنا نے اور تکرارِ الفاظ کے کرتب کی عادت، فارسی اور ہندوی کے الفاظ کا بے جوڑ ارتکاز؛میرامن کی نثر کے یہ سب مخصوصات ہیں ۔ آخر اس سے کون سا نتیجہ اخذ کیا جائے؟ ایک نظر میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ میرامن نے غلط عبارت لکھی، قواعد کی انھیں معمولی شدبُد نہیں،علم وفن کے وہ کچّے بھی ہیں۔ تذکیروتانیث کی درجنوں غلطیاں بھلا کیوں کرمعاف ہوں؟
مسلّمہ روایت سے اس بے پروائی کے باوجود’ باغ وبہار ‘کی نثر شہرت اور مقبولیت میں آسمان تک کیسے پہنچ گئی؟ آخر وہ کون سا جادو ہے جس نے’ باغ وبہار ‘کو قواعد وضوابط سے پَرے جاکر عظمت کا تاج عطا کیا۔ یہیں اس سوال کا جواب بھی پوشیدہ ہے کہ ’یہ زندہ نثر کی کتاب ‘ہے۔ یہ بھی خوب کہ نثر اور شاعری بھی ’زندہ‘ اور’ مردہ‘ ہونے لگی۔ لیکن سچّائی یہی ہے کہ زندہ کتاب تو ’باغ وبہار‘ ہی ہے۔ دوسو سال سے زیادہ اُس کی اپنی عمر ہوگئی۔ اس سے الگ، غالب، سرسیّد، محمد حسین آزاد، شبلی اور پریم چند سے لے کر دورِ جدید کے اہلِ قلم تک ؛کون ایسا لکھنے والا ہے جس نے میرامن کی اس کتاب سے زندگی اور روشنی لیے بغیر اپنا سفر شروع نہ کیاہو۔ اپنی اہمیت کے باوجود’ فسانۂ عجائب ‘کی نثر کو قابلِ اتّباع تصور نہیں کیا جا سکا جب کہ ’باغ وبہار‘ کے زیرِ سایہ گذشتہ دو صدیوں کی اردو آبادی اپنی بہترین نسلیں سامنے لا چکی ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ آگے بھی اسی نثر کا سلسلہ قائم رہنے والا ہے۔
’باغ وبہار‘ کا طریقۂ استعمال غلط ہو، عبارتیں بے سلیقہ معلوم ہوں، قواعد نویسوں کی جبینیں شکن آلود ہوجائیں بھاری پڑ جائیں لیکن میرامنؔ نے یہ ادا اپنے وقت کے ’’ہندومسلمان، عورت مرد، لڑکے بالے، خاص وعام‘‘ کے اندازِ گفتگو سے اخذ کی ہے۔ زندہ روایتوں پر انحصار کرنا اور قواعد کی مردہ کتابوں سے بے پروا ہوجانا میرامن کی ادبی اورتاریخی دور اندیشی ہے۔ وقت نے دیکھا کہ میرامن کی اُسی ’’غلط‘‘ زبان کو سب نے سراہا، انھی استعمالات کو ادیبوں اور شاعروں نے سکّۂ رائج الوقت سمجھا۔ میرامن نے اردو نثر میں جو جادو نگاری کی تھی، اُس کا سِحر روز بہ روز بڑھتا گیا اور آج ایک مختصر سی کتاب جس کے قصّے، مواد اور صنف کسی کی اہمیت باقی نہیں رہی، اس کے باوجود اردو کی ادبی تاریخ میں واقعتا باغ وبہار ہے۔

Safdar Imam Qadri
About the Author: Safdar Imam Qadri Read More Articles by Safdar Imam Qadri: 50 Articles with 139709 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.