غالب کی بچوں کے لیے لکھی گئی مثنوی ’’قادر نامہ‘‘ کا تعارف

پیارے بچّو! مرزاغالبؔ کے بارے میں ہم یہی جانتے ہیں کہ وہ اردو کے بہت بڑے اور عظیم شاعر تھے ۔ جنھوں نے غزلیہ شاعری میں اپنا وہ مقام بنایا کہ کوئی دوسرا اُن کا ہم پلّہ دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن اِس بات سے بہت کم لوگوں واقف ہیں کہ غالبؔ بچّوں کے بھی بہت بڑے شاعر تھے ۔ انھوں نے بچّوں کی تعلیم و تربیت اور زبان سکھانے کے لیے صرف ایک کتاب’’قادر نامہ‘‘ کے نام سے لکھی ۔’’ قادر نامہ‘‘ اپنے موضوع ، اسلوب اور پیش کش کے لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے اور ادبِ اطفال میں ایک شاہ کار اور تاریخی مثنوی تصور کی جاتی ہے ۔
غالبؔ کے سات بچّے تھے لیکن افسوس !ان میں سے کوئی بھی پندرہ ماہ سے زائد تک نہ جیا اور غالبؔ لاولد ہی مرے۔ اپنی اسی تنہائی اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر غالبؔ نے اپنے بھانجے زین العابدین خاں عارفؔ کو گود لے لیا تھا جو ان کی بیوی کے بھانجے تھے۔ عارفؔ خوش ذوق شاعر تھے اور انہوں نے غالبؔ کی شاگردی بھی اختیار کر لی تھی لیکن واے رے قسمت ! کہ عین شباب کے عالم، پینتیس سال کی عمر میں، عارف بھی وفات پا گئے، اور عارف کی جواں مرگی پر غالبؔ نے ایک رثائی غزل لکھی جو ان کے دیوان میں موجود ہے ؂
ہاں اے فلکِ پیر، جواں تھا ابھی عارفؔ
کیا تیرا بگڑتا ، جو نہ مرتا کوئی دن اور
انہی عارفؔ کے چھوٹے چھوٹے یتیم بچّوں کے لیے غالبؔ نےمثنوی’’ قادر نامہ‘‘ لکھی تھی۔ دراصل یہ مثنوی ایک طرح کی لغت نامہ ہے جس کے ہر شعر میں غالبؔ نے عام استعمال کے فارسی اور عربی الفاظ کے ہندی یا اردو مترادف بیان کیے ہیں تا کہ پڑھنے والوں کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہو سکے،مثنوی کا بیانیہ کافی دلچسپ بھی ہے اور من موہک بھی۔ غالبؔ نے اس کو جس روانی اور سلاست سے تحریر کیا ہے ۔ طلبہ اس کو یاد کرنے میں مشکل محسو س نہیں کریں گے۔’’ قادر نامہ‘‘ پڑھنے کے بعد فارسی سیکھنے کی بنیادی کتاب ’’آمد نامہ‘‘ پڑھنے اور سمجھنے کے لیے کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی ، اس کا اعتراف و اظہار خود غالبؔ نے یوں کیا ہے ؂
جس نے’’ قادر نامہ‘‘ سارا پڑھ لیا
اُس کو’’ آمد نامہ ‘‘ کچھ مشکل نہیں
غالبؔ سے قبل بچوں کو اردوپڑھانے کے لیے جو بھی کتابیں لکھی جارہی تھیں اُن میں زیادہ تر لغت پر مشتمل ہوتی تھیں ۔ مثلاًخالقِ باری، رازقِ باری اور ایزدِ باری وغیرہ۔ اِن کتابوں میں عربی یافارسی الفاظ کے اردو معانی و مطالب شعری انداز میں لکھے گئے ہیں۔ غالبؔ نے بھی اپنے بھانجے عارفؔ کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کو اردو سکھانے کے لیے ایسی ہی ایک شاہ کار مثنوی لکھی ۔ لیکن غالبؔ کا اسلوب اور انداز اپنے آپ میں نہایت منفرد اور اچھوتا ہے۔ ساتھ ہی موضوع اور خیال میں بھی انفرادیت موجود ہے۔ وہ سیدھے سادے انداز میں کسی لفظ کے معنی نہیں بتاتے بلکہ شعریت کا حُسن بھی پیدا کرتے ہیں ۔ تاکہ شعر کی غنائیت اور نغمگی مفقود نہ ہو۔اور شعر میں نثریت نہ در آئے۔ اس لحاظ سے غالبؔ کا یہ سبق محض سبق نہیں بلکہ ایک شاہ کار ادبی جواہر پارہ بن جاتا ہے۔ مثلاً :
’’ہفت‘‘ ’’ سات‘‘ اور’’ہشت‘‘ ’’آٹھ ‘‘اور’’ بست‘‘ ’’بیس‘‘
’’سی‘‘ اگر کہیے تو ہندی اس کی ’’تیس‘‘
ہے ’’چہل‘‘ ’’چالیس‘‘ اور ’’پنجہ‘‘ ’’پچاس‘‘
’’ناامیدی‘‘ ’’یاس‘‘ اور ’’اُمّید‘‘ ’’آس‘‘
مثنوی کا آغاز اللہ ورسول، صحابہ ،امام بندگی ،روزہ ، نماز، مصلیّٰ، کعبہ ، بیت الحرام ، طواف اور اعتکاف جیسے خالص تقدس مآب الفاظ کے ذکر سے ہوتا ہے ۔ تعلیم و تربیت کا یہ انداز غالبؔ کی مذہب پسند روشن فکر کا آئینہ دار ہے ۔ بچوں کی تربیت کا یہ اسلوب ہر اعتبار سے لائقِ ستایش ہے ؎
’’قادر‘‘ اور ’’اللہ‘‘ اور ’’یزداں‘‘ ، ’’خدا‘‘
ہے ’’نبی‘‘ ’’مُرسل‘‘ ’’پیمبر‘‘ ’’رہنما‘‘
پیشواے دیں کو کہتے ہیں ’’امام‘‘
وہ ’’رسول اللہ‘‘ کا قائم مقام
ہے ’’صحابی‘‘’ ’دوست‘‘ ، ’’خالص‘‘ ’’ ناب‘‘ ہے
جمع اس کی یاد رکھ ’’اصحاب‘‘ ہے
’’بندگی‘‘ کا ہاں ’’عبادت‘‘ نام ہے
’’نیک بختی‘‘ کا ’’سعادت‘‘ نام ہے
’’کھولنا‘‘ ’’افطار‘‘ ہے اور ’’روزہ‘‘ ’’صوم‘‘
’’لیل‘‘ یعنی ’’رات‘‘ ، ’’دن‘‘ اور’’ روز‘‘ ’’یوم‘‘
ہے ’’صلوٰۃ‘‘ اے مہرباں اسمِ ’’نماز‘‘
جس کے پڑھنے سے ہو راضی بے نیاز
غالبؔ جیسے مشکل پسند شاعر نے اس مثنوی میں بَلا کی سیدھی سادی زبان استعمال کی ہے۔ بچوں کی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ انھیں آسان ترین زبان میں سمجھایا جائے ۔ غالبؔ نے اس امر کا بھرپور لحاظ رکھا ۔ سہل پیرایۂ اظہار کے ساتھ انھوں نے مثنوی کے شعروں میں ترنم اور نغمگی کی رعایت بھی رکھی تاکہ طلبہ مثنوی کے اشعار کو بآسانی پڑھتے ہوئے از برکرسکیں بہ طورِ مثال چند شعر ؎
’’دیکھنا‘‘ ’’دیدن‘‘ ، ’’رمیدن‘‘ ’’بھاگنا‘‘
جان لو ، ’’بیدار‘‘ ’’بودن‘‘ ’’جاگنا‘‘
نام ’’گُل‘‘ کا ’’پھول‘‘ ، ’’شبنم‘‘ ’’اوس‘‘ ہے
جس کو ’’نقّارہ‘‘ کہیں وہ ’’کوس‘‘ ہے
’’دشت‘‘ ’’صحرا‘‘ اور ’’جنگل‘‘ ایک ہے
پھر ’’سہ شنبہ‘‘ اور ’’منگل‘‘ ایک ہے
’’قادر نامہ‘‘ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہےکہ غالبؔ کسی لفظ کے معنی بتانے کے ساتھ ساتھ اس کے مفہوم کی وضاحت بھی کرتے چلے جاتے ہیں ۔ اور جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں عمل کی ترغیب بھی دیتے ہیں ؎
خوش رہو ، ’’ہنسنے‘‘ کو ’’خندیدن‘‘ کہو
گر ڈرو ، ’’ڈرنے‘‘ کو ’’ترسیدن‘‘ کہو
غالبؔ ’’خندیدن‘‘ کے معنی بتانے سے قبل ہی بچوں کو خوش رہنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ اس طرح’’ خندیدن‘‘ کا معنی بڑی آسانی سے بچوں کو سمجھ میں آجاتا ہے۔ اسی طرح مصرعِ ثانی میں لفظ ’’گر‘‘ کا استعمال کرکے غالبؔ نے بڑا کمال کیا ہے ۔ ان کے کہنے کامقصد یہ ہے کہ ’’ڈرنا‘‘ کوئی اچھی بات نہیں ۔اگر اتفاق سے ڈر بھی جاؤ تو اُسے ’’ترسیدن‘‘ کہو۔ اب بعد کے شعر میں غالبؔ بچوں کی نفسیات کے ماہر دکھائی دیتے ہیں’’گر‘‘ کااستعمال کرکے انھوں نے بچّوں کی جس کمزوری کو بیان کیا ہے اب اُسے دور کرنا اپنا فرض تصور کرتے ہوئے شعر کہتے ہیں ؎
ہے ’’ہراسیدن‘‘ بھی ’’ڈرنا‘‘ ، کیوں ڈرو؟
اور ’’جنگیدن‘‘ ہے ’’لڑنا‘‘ ، کیوں لڑو؟
’’گر‘‘ کے مقابلے میں ’’کیوں‘‘ کا استعمال کرکے غالبؔ نے بچّوں کے ذہن سے ڈر اور خوف دور کرنے کا بڑا بہترین طریقہ اپنایا ہے ۔ اور ’’جنگیدن ‘‘ ہے ’’لڑنا‘‘ ، کیوں لڑو؟ کہہ کر غالبؔ نے لڑائی سے گریز کرنے کی تلقین کی ہے۔
غالبؔ نہایت مخلص اور کشادہ دل انسان تھے۔ ہر ایک سے بڑی خندہ پیشانی سے ملتے ۔ وہ تعلیم و تربیت کے اصولوں سے بھی کماحقہٗ واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ تدریس کے دوران بے جا سختی اور مار پیٹ بچّوں کے لیے سمِ قاتل ہے۔ لہٰذا انھوں نے بچّوں کو پڑھانے کے لیے مسرت بخش ، پُرلطف اور محبت و شفقت بھرا انداز اختیار کیا ۔ غالبؔ کے اِس رویّے کااندازہ ذیل کے اشعار سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے ؎
ہے ’’صلوٰۃ‘‘ اے مہرباں اسمِ ’’نماز‘‘
جس کے پڑھنے سے ہو راضی بے نیاز
’’انگبیں‘‘ ’’شہد‘‘ اور ’’عسل‘‘ یہ اے عزیز
نام کو ہیں تین ، پر ہے ایک چیز
’’زیستن‘‘ کو جانِ من ’’جینا‘‘ کہو
اور ’’نوشیدن‘‘ کو تم ’’پینا‘‘ کہو
ان اشعار میں غالبؔ نے بچّوں کو’’اے مہرباں‘‘۔’’اے عزیز‘‘ اور’’جانِ من‘‘ کہہ کر خطاب کیا ہے جس سے غالبؔ کی بے پناہ شفقت ومحبت کا اظہار ہوتا ہے ۔ اور یہی ایک اچھے استاذ کا فرض ہے کہ وہ اپنے طلبہ کو جہاں تک ہو سکے پیار و محبت سے پڑھائے ۔ کہ بے جاسختی نقصان دہ چیزہے۔
’’قادر نامہ‘‘ کی ایک انفرادیت ایسی بھی ہے جو اُس زمانے میں یا غالبؔ سےقبل لکھی گئی بچوں کی کتابوںمیں نہیں ملتی ۔غالبؔ ایک ماہرِ تعلیم کی طرح بچوں کی نفسیات سے بہ خوبی واقف تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ بچے مسلسل ایک جیسی چیزپڑھتے پڑھتے اکتا جاتے ہیں۔بچوں کو ہر لمحہ نئی نئی چیزوں کی تلاش اور جستجو رہتی ہے۔ آج دورِ جدید میں تدریس کے دوران مسرت بخش اور طفلِ مرکوز طریقۂ تعلیم کا استعمال کرتے ہوئے تفریح کے نئے نئے طریقے اپنائے جارہے ہیں ۔ جن میں کھیل کود، ورزش، مصوری ، فلم، ڈرامے ، سیرئیل وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ غالبؔ ان طریقوں کو استعمال تو نہ کرسکے لیکن بچوں کی تھکن دور کرنے کے لیے انھوں نے ایک دوسری روش اختیار کی ۔ وہ مثنوی پڑھتے پڑھتے ذائقہ بدلنے کے لیے غزل سرائی کرنے لگتے ہیں ؎
کس کو کہتے ہیں غزل؟ ارشاد ہو
ہاں! غزل پڑھیے سبق گریاد ہو
بہ قول ڈاکٹرمحمودالرحمٰن :" بچوں کے لیے غزل ؟غالبؔ کا یہ طریقہ تو بڑا مخربِ اخلاق دکھائی دیتا ہے ، لیکن جدت پسند غالبؔ نے غزل کی پامالی پر بھی غلبہ پالیا اور آج سے سوا سو سال پہلے اسے ظرافت کے رنگ میں رنگ کر بچوں کے لائق بناڈالا ۔ ان کی یہ غزلیں محض تُک بندی کا نمونہ نہیں بلکہ ان میں غالبؔ کی شوخی اور ندرتِ بیان نمایاں ہے ۔"
قادر نامہ کے مزید چند شعر دیکھیں تاکہ بادی النظر میں یہ بات سمجھ میں آجائے کہ مثنوی کا اسلوب اور رنگ و آہنگ کیسا ہے ۔ یقیناً غالبؔ کی یہ مثنوی نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں کے لیے بھی معلومات افزا اور مفید ہے ؎
’’سقف‘‘ ’’چھت ‘‘ ہے ، ’’سنگ‘‘ ’’پتھّر‘‘ ، ’’اینٹ‘‘ ’’خشت‘‘
جو ’’بُرا‘‘ ہے اس کو ہم کہتے ہیں ’’زشت‘‘
فارسی ’’آئینہ‘‘ ، ہندی ’’آرسی‘‘
اور ہے ’’کنگھے‘‘ کی ’’شانہ‘‘ فارسی
’’سینہ‘‘ ’’چھاتی‘‘، ’’دست‘‘ ’’ہاتھ‘‘ اور ’’پاے‘‘ ’’پاؤں‘‘
’’شاخ‘‘ ’’ٹہنی‘‘ ، ’’برگ‘‘ ’’پتّا‘‘ ، ’’سایہ‘‘ ’’چھاؤں‘‘
’’ماہ‘‘ ’’چاند‘‘ ، ’’اختر‘‘ ہیں ’’تارے‘‘ ، ’’رات‘‘ ’’شب‘‘
’’دانت‘‘ ’’دنداں‘‘ ، ’’ہونٹ‘‘ کو کہتے ہیں ’’لب‘‘
اس مثنوی کے محاسن تو اہلِ نظر ہی دیکھیں گے ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ اولاد کی طرف سے انتہائی بدقسمت غالبؔ، اپنے لے پالک کے یتیم بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں تو اس میں کیا کیا محبت اور کیسی کیسی شفقت شامل نہیں ہوگی اور غالبؔ کا دل کس طرح کے جذبات سے لبریز ہوگا جب انہوں نے یہ مثنوی کہی ہوگی۔ جس کی ہلکی سی جھلک ’’مثنوی قادر نامہ‘‘ کے درج بالامختصر تجزیے میں راقم نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
رام پور کے شاہی کتب خانے میں اس مثنوی کا ایک مطبوعہ نسخہ موجود ہے جو ۱۸۶۴ء میں یعنی غالب کے انتقال سے پانچ سال قبل مجلس پریس دہلی میں شائع ہوا تھا۔ علاوہ ازیں اس مثنوی کوغلام رسول مہرؔ نے اپنے مرتب کردہ ’’دیوانِ غالبؔ ‘‘ میں تیسرے ضمیمے کے طور پر شامل کیا ہے، لیکن دیوانِ غالبؔ کی مشہور و معروف شرح ’’نواے سروش ‘‘میں اسے شامل نہیں کیا، نہ جانے کیوں؟ ہم یہ مثنوی اسی مذکورہ دیوان سےاخذ کرکے پیش کررہے ہیں۔واضح ہوکہ پہلی بار یہ مثنوی ۱۸۵۶ء میں غالب کی حیات ہی میں شائع ہوئی تھی ۔علاوہ ازیں جیلانی پبلی کیشنز ، نئی دہلی سے۱۹۹۷ء میں ڈاکٹر محمود الرحمٰن کی مرتبہ قادر نامہ اشاعت پذیر ہوئی ۔ لیکن نہ جانے کیوں اس میں ڈاکٹر صاحب نے بہت سارے اشعار کم کردئیے ۔ جیلانی پبلی کیشنز کی شائع کردہ قادر نامہ میں کل ۱۹۳؍اشعار ہیں ۔ جب کہ غلام رسول مہرؔ کے مرتبہ دیوانِ غالبؔ اور رام پور کے شاہی کتب خانے میں موجود مثنوی قادر نامہ میں کل ۱۳۹؍اشعار ہیں ۔غالبؔکی یہ مثنوی اُن کی بے پناہ ذہنی صلاحیت ، قوتِ فکر ، جذبۂ تخیل اور جدت پسندی کی آئینہ دار ہے۔غالبؔ کی قادر نامہ ادبِ اطفال کے لیے ایک نعمتِ غیرمترقبہ سے کم نہیں ۔بچوں کے لیے لکھی گئی یہ مثنوی بڑوں کے لیے بھی بڑے کام کی چیز، یقین نہ آئے تو پڑھ کے دیکھیے اور سر دُھنیے:
(ڈاکٹر) محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
 
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 597856 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More