رزقِ حلال کی اہمیت اور فضیلت

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
ا س خاکدانِ گیتی پر بسنے والاہر انسان اپنی گھریلو ضروریات پوری کرنے کے لیے شب و روزدوڑ دھوپ کرتا ہے اور بڑی محنت ومشقت سے اپنا اور اپنے گھر والوںکاپیٹ بھرنے کے لیے روزی روٹی کماتا ہے۔ اگر وہ یہ تمام کام احکامِ الٰہیہ اور سنتِ نبویہ علیۃ التحیۃ والثناء کے مطابق انجام دے تو یہ سب عبادت بن جاتے ہیں۔ لیکن اگروہ ان امورمیں اسلامی ضابطوں کی پابندی نہ کرے اور انہیں توڑتے ہوئے ناجائز طریقے اختیارکرتے ہوئے یا معاشی جدوجہد کے نام پر دوسروں کے حقوق مارنا شروع کردیتاہے تو یہی کوشش اس کے لیے آخرت میں رسوائی کا سامان بن سکتی ہے۔ ہماری عام زندگی میں پیٹ ہماری توجہ اور ہماری بنیادی جدوجہد کا مرکز ہوتا ہے۔

اسے بھرنے کے لیے ہم سبھی دن رات کام کرتے ہیں، خوب جدوجہد کرتے ہیں اور ایسی روزی کمانے کی کوشش کرتے ہیں جو اﷲ کے حکم کے مطابق یعنی جائز اور درست ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جائز روزی کمانا کسی بھی انسان کے لیے مشکل یا ناممکن نہیں ہے، کیوں کہ پروردگار عالم نے ایک طرف انسان کو تخلیق فرمایا تو ساتھ ہی اس کی روزی کے وسائل بھی پیدا فرمادیے اور اس کے لیے ایسی سہولیات مہیا کردیں کہ انسان عملی کوشش کرکے اس دنیا میں اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔

راتوں رات دولت مند بن جانے کی دوڑ نے انسان سے اس کا سکون چھین لیا ہے۔ آج آپ دیکھیے کہ اس بے قراری اور دوسروں سے آگے نکل جانے کی خواہ مخواہ کی خواہش نے لوگوں کی آمدنیوں اور ان کی روزیوں میں سے برکت ختم کردی ہے۔ کیا یہ کھلی ناسمجھی نہیں ہے کہ انسان نے اپنی اچھی خاصی اور پرسکون زندگی کو اپنی حرکتوں کی وجہ سے بے سکون کردیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔

آج کل ایساہو رہا ہے کہ دنیا میں رہنے والے بیشتر انسانوں نے اپنی ترقی اور خوش حالی کا پیمانہ یہ مقرر کرلیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح یعنی ناجائز طریقے استعمال کرتے ہوئے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے زیادہ سے زیادہ آسائشیں حاصل کرے، مال و دولت جمع کرے اور اپنے گھر والوں کی گود میں دنیا بھر کے خزانے لاکر ڈال دے، تاکہ اس کے زیر کفالت لوگ خوش ہوجائیں۔

وہ کسی نہ کسی طرح اپنے تمام گھر والوں کی ہر جائز و ناجائز فرمائش پوری کرنے کے لیے تیار رہتا ہے اور اس معاملے میں کبھی پیچھے ہٹتا نظر نہیں آتا۔ اگر دیکھا جائے تو اپنے لیے، اپنے بیوی بچوں یا اپنے ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے روزی کمانا اور ان کے آرام و آسائش کے لیے جدوجہد کرنا ہر انسان کا فرض ہے۔ لیکن اگر یہ ساری جدوجہد اور کوشش ایک حد میں ہو تو ٹھیک ہے۔ ایسا نہ ہو کہ انسان اپنے پیاروں کے لیے دولت کے حصول میں پاگل ہوجائے اور ان کے لیے آسائشیں حاصل کرنے کے لیے ہر حد سے گزر جائے اور اپنی زندگی کو اس دنیا میں بھی جہنم بنالے اور آخرت میں بھی اپنے لیے ناکامی اور رسوائیاں خرید لے۔

قرآن مجید میں صاف صاف بتایا جارہا ہے کہ ہماری یہ اولادیں، یہ بیوی بچے ہمارے لیے آزمائشیں ہیں۔ یعنی پروردگار عالم نے ہمیں ان سے نوازکر ہمارا امتحان لیا ہے۔ اگر ہم اس امتحان میں پورے اترے یعنی ہم نے ان کی صحیح تربیت کی اور انھیں حلال روزی کھلائی تو آخرت میں کامیابی ہوگی، لیکن اگر ہم نے اس اولاد کی تربیت پر توجہ نہیں دی اور اس کے لیے حلال و حرام کی تمیز نہ رکھی تو پھر اپنی اس آزمائش یعنی اہل و عیال کے معاملے میں ہم ناکام ہوں گے اور پھر اس کی سزا سے ہمیں کوئی نہیں بچاسکے گا۔

اگر ہم اولیائے کرام کے طور طریقوں اورطرزِ زندگی پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے ہر ایک اپنی مشکل میں دوسروں کا حقیقی مرشد تھا۔ اس لئے وہ تقویٰ اور زبردست ارادوں سے کام کرتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اکثر مقامات پر بھی حرام سے محفوظ فرمایا جس کی جانب ان کا خیال بھی نہ گیا۔ ان میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں کہ ا گر ان میں سے ایک شخص نامعلوم حرام کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو ان پر رعشہ طاری ہو جاتا، دھڑکن تیز ہو جاتی جس سے معلوم ہوتا کہ وہ حرام ہے اور وہ فوراً اس سے رک جاتا۔ ایک اور بزرگ نے غلطی سے حرام لقمہ منہ میں رکھ لیا اور بڑی دیر چباتے رہےمگر حلق سے نیچے نہ اتر سکا۔ اسی طرح ایسے بھی لوگ تھےکہ اگر معلوم ہوجاتا کہ حرام لقمہ پیٹ میں بلا ارادہ چلا گیا ہے تو معلوم ہونے پر پیٹ کو فوراً خالی کردیتے اور اس لقمے کو باہر نکال دیتے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے کہ آپ نے اپنے ایک غلام کی اس کمائی سے خریدے کھانے سے کچھ تناول فرمایاجو اسے زمانۂ جاہلیت میں کہانت سے حاصل ہوئی تھی اور آپ کو اس کا علم نہ تھا۔ اسی طرح حضرت عمررضی اللہ عنہ نے دودھ نوش فرمایا جس کے بارے میں معلوم نہ تھا کہ یہ زکوٰۃ کے اونٹوں کا ہے ۔ ان دونوں حضرات کو جونہی حقیقت کا علم ہوا منہ میں انگلی ڈال کر اس طرح قے کردی کہ معدے میں کوئی چیز باقی نہ رہی۔ اس سے معلوم ہوا کہ لقمہ حرام سے فوراً بچنا اور دور بھاگنا اسلام میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

نبی کریم ﷺنے رزقِ حلال کے بے پناہ فضائل بیان فرمائے ہیں اور ساتھ ہی رزقِ حرام کی برائیاں اور ان کے نقصانات سے بھی آگاہ فرمایا ہے۔ذیل میں چنداحادیث پیشِ خدمت ہیں :
صحیح بُخاری شریف میں مقدام بن معدیکر ب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حضور اقدس ﷺنے فرمایا:" اُس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کام کرکے حاصل کیا ہے اور بے شک اللہ کے نبی داؤد علیہ الصلاۃ والسّلام اپنی دستکاری سے کھاتے تھے۔"

صحیح مسلم شریف میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :"اللہ پاک ہے اور پاک ہی کو دوست رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مومنین کو بھی اُسی کاحُکم دیا ہے جس کا رسولوںکو حکم دیا اُس نے رسولوں سے فرمایا ۔ یٰاَیُّھَاالرُّسُلُ کُلُوْمِنَ الطِّیّبٰت ِ وَاعْمَلُوْ صٰلِحًا۔ اے رسولو! پاک چیزوں سے کھاؤ اور اچھے کام کرو۔ اور مؤ منین سے فرمایا۔یٰایُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُلُوْ مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنَکُم!اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تم کو دیا اُ ن میں پاک چیزوں سے کھاؤ۔پھر بیان فرمایا کہ ایک شخص طویل سفر کرتا ہے جس کے بال پریشان ہیں اور بدن گرد آلود ہے ( یعنی اُ س کی حالت ایسی ہے کہ جو دُعا کرے وہ قبول ہو)وہ آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھاکر یارب یارب کہتا ہے ( دُعا کرتا ہے ) مگر حالت یہ ہے کہ اُس کا کھانا حرام پینا حرام لباس حرام اور غذا حرام پھر اُس کی دُعا کیونکر مقبول ہو۔ ( یعنی اگر قبول کی خواہش ہو توکسب حلال اختیار کرو کہ بغیر اس کے قبول دُعا کے اسباب بیکار ہیں)۔"

صحیح بُخاری شریف میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حضور اقدس ﷺ ارشاد فرماتے ہیں لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ آدمی پر واہ بھی نہ کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل کیاہے حلال سے یا حرام سے ۔

ترمذی ونسائی و ابن ماجہ ام المؤمنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے راوی حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جو تم کھاتے ہو اُن میں سب سے زیادہ پاکیزہ وہ ہے جو تمھارے کسب سے حاصل ہے اور تمھاری اولاد بھی منجملہ کسب کے ہے ۔( یعنی بوقت حاجت اولاد کی کمائی سے کھاسکتا ہے ) ابو داؤد و دارمی کی روایت بھی اسی کی مثل ہے ۔

امام احمد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے۔اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لئے اُ س میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم کو جانے کا سامان ہے ( یعنی مال کی تین حالتیں ہیں اور حرام مال کی تینوں حالیتں خراب)اللہ تعالیٰ بُرائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ہاں نیکی سے بُرائی کو محو فرماتا ہے بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔

امام احمد و دارمی و بیہقی جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی ہیں کہ حضورانور ﷺ نے فرمایا جو گوشت حرام سے اُگاہے جنت میں داخل نہ ہوگا( یعنی ابتداء ً) اور جو گوشت حرام سے اُگا ہے اُس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جنت میں وہ گوشت داخل نہیں ہوگا جو حرام کھانے سے بڑھا ہو ا ہو اور ہر وہ گوشت جو حرام خوری سے بڑھا ہو دوزخ اس کے ساتھ زیادہ لائق ہے ۔

ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ
حلال اور حرام کا خیال رکھنا بڑی اہم بات ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے اوامر اور اس کی ذات کی تعظیم کا اظہار کرتی ہے ۔ اس لیے انسان کی ہر وہ کوشش جو وہ حلال کمانے اور حرام سے بچنے کے لیے کرتا ہے وہ ایک خاص رنگ کی عبادت ہے کیونکہ مسلمان کی جانب سے محرمات، مصائب اور آزمائشوں پر صبراور ثبات سے مقابلہ کرنا ’’ سلبی عبادت‘‘ ہے اور رزق حلال کے لئے کوشش بھی بالکل اسی طرح عبادت میں شامل ہے۔اس بات پر اللہ تعالیٰ کے اس مقدس فرمان کی روشنی میں غور فرمائیں: إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (سُورَةُ فَاطِر۱۰)( اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتے ہیں) اس آیت میں اس بات کی صراحت ہے کہ مبارک کلمات جیسے حمد، تسبیح، تکبیر اور درود شریف کو اعمال صالحہ کے علاوہ کوئی شے حق تعالی سبحانہ تک نہیں پہنچاتی۔ اس لیے عبادت کی دونوں قسمیں خواہ وہ نماز ،زکوٰۃ اور روزہ یا ترک ہو جیسے حرام سے پختہ عزم کے ساتھ بچنا، ان میں ایک ایسا پر ہے جس سے پاکیزہ کلمات اللہ تعالیٰ کی طرف بلند ہوتے ہیں۔ اس لیے اس بات کو معمولی نہ سمجھنا چاہیے اور ہم پر لازم ہے کہ حلال کی طلب اور حرام سے بچنے کے لیے پوری پوری سعی اور کوشش کریں۔

کھانے میں حلال حرام کی تمیز اور ناجائز چیزوں کو جائز چیزوں کے ساتھ خلط ملط نہ کرنے اور اس بارے میں حساسیت کے ساتھ کام کرنے میں عبادت جیسا ثواب ہے ۔ مثال کے طور پر انسان کے علاج میں استعمال ہونے والی چیزوں کے اجزا کی حلت کا خیال ، غذائی چیزیں خریدتے وقت حلال کا خیال رکھنا اور قصائی سے گوشت خریدتے وقت شرعی ذبیحے کا یقین کرنا اور کمانے میں حلال کا خیال رکھناانسان کو روحانی ترقی پر پہنچاتاہے۔ جبکہ اس بارے میں اپنے ارادے کا حق ادا نہ کرنے اور ان امور کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے اس کی روحانی زندگی بجھتی چلی جائے گی او راس کے روحانی لطائف مرتے چلے جائیں گے اور اس کی ہلاکت کا سبب بن جائیں گے۔

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ (سُورَةُ الْمَائِدَةِ۴۲)(یہ جھوٹی باتیں بنانے کے لئے جاسوسی کرنے والے اور حرام مال کھانے والے ہیں) میں ایک ایسے طبقے کی تصویر پیش کی گئی ہے جو حرام کھاتا ہے جبکہ بعض احادیث شریفہ میں آیا ہے کہ انسان کی عبادت اور اطاعت بلکہ اس کی دعا بھی اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک اس کی رگوں میں رزق حرام یعنی ’’السحت‘‘ دوڑ رہا ہو جیسے کہ مندرجہ بالاآیت میں ارشاد ہوا ہے ۔ مثلاً ایک حدیث شریف میں ہے آپ ﷺ سے مروی ہے کہ : ’’ جو شخص حرام کا ایک لقمہ کھائے گا اس کی نماز چالیس روز تک قبول نہ ہوگی،چالیس دن تک اس کی دعا قبول نہ ہوگی اور حرام سے بننے والا گوشت آگ ہی کے قابل ہے جبکہ حرام کا ایک لقمہ بھی گوشت بناتا ہے‘‘ ۔ (مسند الدیلمی ۳/۵۹۱)

حرام خور کا انجامِ بد
امام مسلم اور امام ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے جو حرام کے منفی اثرات کو بیان کرتی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حلال چیزیں کھانے کا حکم فرمایا ہے اس کے بعد فرمایا: ’’ ایک آدمی طویل سفر کرتا ہے ، بکھرے بال اور پراگندہ حالت ، آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرتا ہے اور دعا کرتا ہے اے میرے رب ،اے میرے رب ،جبکہ اس کا کھانا حرام ہے اوراس کی نشوونما حرام سے ہوئی ہے تو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی؟ (مسلم ،الزکاۃ۶۵،الترمذی، التفسیر۳)

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ ’’ جب آدمی حلال نفقے سے حج کے ارادے سے نکلتا ہے اور پاؤں رکاب میں رکھتا ہے اور’’ لبیک اللہم لبیک‘‘ کی صدا لگاتا ہے تو آسمان سے ایک منادی اس کو آواز دیتا ہے : ’’لبیک و سعدیک‘‘ ( تیرا آنا مبارک اور قبول ہے) تیرا زادِ راہ حلال ہے ، تیری سواری حلال ہے اور تیرا حج مقبول ہے جس میں کوئی گناہ نہیں اور جب کوئی حرام نفقہ ساتھ سے کر نکلتا ہے اور پاؤں رکاب میں رکھ کر ’’ لبیک‘‘ کی صدا لگاتا ہے تو آسمان سے ایک منادی اس کو آواز دیتا ہے ۔’’ لا لبیک ولا سعدیک‘‘ ( تیرا آنا مبارک ہے نہ قبول)تیرا زادِ راہ حرام ہے ، تیرا خرچہ حرام ہے اور تیرا حج غیر مقبول ہے ‘‘۔ (الطبرانی، العجمل الاوسط۵/۲۵۱)

جی ہاں ! کیا ایسے انسان کی دعا قبول ہوسکتی ہے جس کا کھانا،جس کا پینا، جس کی سواری اور جس کا لباس حرام ہو اور اس کی پرورش حرام سے ہوئی ہو ۔ کیا اس کا حج قبول ہو جائے گا جبکہ وہ سر تا پا حرام میں غرق ہے ؟ اس قدر حرام میں ڈوبا شخص ’’ لبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ!‘‘ ( حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں ،میں حاضر ہوں اور تیرا کوئی شریک نہیں ، میں حاضر ہوں ، ساری حمد ،نعمت اور حکومت تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں ہے) کی صدا کب لگا سکتا ہے ! اور اگر وہ یہ صدا لگا بھی لے تو کیا وہ اعمال گندے چیتھڑے کی طرح اس کے منہ پر نہ ماردیئے جائیں گے ؟ پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رزق حلال سے پرورش اور حلال کے دائرے میں رہ کر زندگی گزارنے کی کس قدر اہمیت ہے تاکہ اس کی وجہ سے ہماری عبادات کو اللہ کے حضور پیش کیا جاسکے۔ اسی جانب سوال میں مذکورہ آیت شریفہ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (سُورَةُ الْمُؤْمِنُونَ۵۱)اے پیغمبرو !پاکیزہ چیزیں کھاؤاور نیک عمل کرو۔ جو عمل تم کرتے ہو میں اس سے میں واقف ہوں) میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ رزق حلال سے انسان کی پرورش اس کی عبادت اور اطاعت کے قبول ہونے میں زبردست اور حقیقی ا ثر رکھتی ہے ۔

ایک اور بات یہ ہے کہ : رزق حلال کھانے کا حکم کئی آیات میں آیا ہے ۔ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے حلال کو تلاش کرنے کی کوشش کرے کیونکہ ہر حلال اپنے جیسی دوسری چیزوں کی طرف لے کر جاتا ہے اور ہر حرام اپنے جیسے دیگر حرام کاموں کی طرف لے کر جانے کا سبب بنتا ہے ۔ اس لیے ہر شے اپنی جیسی دیگر چیزوں کی طالب ہوتی ہے جو اسی جیسی ہوں اور اس کی صفات سے متصف اور اس کے لیے لازمہ کی حیثیت رکھتی ہوں۔ اسی طرح ہمارے تصرفات اور اعمال اور حرکتیں بھی اپنی جیسی چیزوں کے پیچھے چلتی ہیں۔ ایک آیت کریمہ بتاتی ہے کہ گندے لوگ اپنے مزاج کی وجہ سے گندی چیزوں کو تلاش کرتے ہیں جبکہ پاکیزہ لوگ اپنی فطرت کی وجہ سے اچھی چیزوں کے پیچھے جاتے ہیں۔ ( سورۃ النور۲۶)پس آپ کہہ سکتے ہیں : صفائی، طہارت، خوبصورتی اور اچھائی ، دیگر اچھی چیزوں کی جانب لے جاتی ہیں جبکہ برائیاں، میل کچیل اور خباثت، ہمیشہ بری چیزوں کو ہی تلاش کرتی ہیں ۔ اس لیے جب انسان حلال کو تلاش کرتا اور اس بارے میں سعی کرتا ہے تو وقت گزرنے ساتھ ایک ایسا دائرہ وجود میں آتا ہے جس کا ماحول خیر کا ہوتا ہے اور انسان اس ماحول میں اپنی زندگی گزارتا چلا جاتا ہے ۔ اس لئے آغاز سے ہی حلال ا ور حرام میں باریک بینی کے ساتھ تمیز کرنا بہت ضروری ہے۔

حرام کا پھیلاؤ اسے قطعاً جائز نہیں بناتا
افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اس زمانے میں حلال اور حرام کا کا اختلاط اور عام طور پر اس سے نہ بچنا ایک حقیقت ہے جبکہ انسان پر لازم ہے کہ وہ یہ بات جان لے کہ اس بارے دوسروں کی سستی سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا جیسا کہ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی اپنے نفس سے فرماتے ہیں: ’’اگر تم دوسروں کی معیت اور تمہارے ساتھ مبتوس میں شرکت سے تسلی کی خواہش رکھتے ہو تو قبرکے بعد آنے والے زمانے میں یہ ایک قطعی بے بنیاد وہم ہے ۔‘‘ اس لئے لوگوں کا حرام کھانا ، حرام دیکھنا اس کے بارے میں بات کرنا اور اس بارے میں زیادہ بولنا ،اگرچہ بظاہر ایک طرح کی تسلی اور سہارا محسوس ہوتا ہے مگر یہ آخرت میں انسان کو کچھ فائدہ نہ دے گا کیونکہ انسان کا دنیا میں کسی کی مصیبت میں شرکت سے آخرت کی مصیبت میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔ پس مسلمان پر لازم ہے کہ ہ اچھی طرح حساب لگائے کہ وہ لقمہ کہاں سے آتا ہے جو وہ اپنے منہ میں رکھتا ہے اور وہ کہاں جائے گا اور اس کا ا نجام کیا ہوگا۔

یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اس بارے انسان کی غفلت اور زندگی میں اس کی پروا نہ کرنے کا آخرت میں برا نتیجہ ہے کیونکہ وہاں انسان سے جو کے ایک دانے کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا بلکہ قرآن کریم کہتا ہے : فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ * وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ (الزلزال۷/۸)جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا) اس لئے اس بارے میں ایک ذرے کے وزن کا بھی خیال رکھا ہے ۔ اسی بنا پر جس طرح ذرہ بھر نیکی کرنے والے کو ثواب ملے گا،اسی طرح ذرہ بھر برائی کرنے والے کو اس کی سزا بھی ملے گی۔جی ہاں، قیامت کے دن اس ایک ایک لفظ کا حساب لیا جائے گا جو اس نے کہایا سنا ہوگا ،جو منظر اس نے دیکھا ہوگا اور ہر لقمے اور گھونٹ کا حساب ہوگا جو اس کے معدے میں پہنچا ہوگا۔۔۔ اس لئے اگر انسان دنیا میں باریک بینی کے ساتھ اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کرے گا تو قیامت میں شدت سے اس کا حساب ہوگا۔ اسے وہاں چڑھائی پر چڑھا چڑھا کر تھکایا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ فرمائے۔ اس لئے جو لوگ حلال حرام کے بارے میں احساس گم کر بیٹھتے ہیں وہ نئے سرے سے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے کھانے، پینے، کمائی اور اخراجات کے بارے میں اپنے نفس کا محاسبہ کریں۔

اس موقع پریہ عرض کروں گا کہ اس بارے میں لاپرواہی اور عدم احساس کا شکار لوگوں کی سستی سے ہمارے اندر بدشگونی پیدا نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس بارے میں پہل کرنے والے لوگ تقویٰ کی مہار تھام کر اپنی زندگی گزارنے پر آجائیں تو ان کی یہ حالت ان کے ماحول میں موجوں کی طرح پھیل جائے گی اور بے شک سارا معاشرہ رفتہ رفتہ اس سوچ کو قبول کر لے گا بشرطیکہ ہم اللہ کی جانب سفر کا آغاز خود اپنی ذات سے کریں اور اس بات کی نیت ، عزم اور پختہ ارادہ کرلیں کہ ہم چیزوں میں فرق کریں گے، یعنی اچھے کو برے سے ، خوبصورت کو بدصورت سے اور حلال کو حرام سے،سوچ ، غور و فکر اور وسیع گہرائیوں میں غوطہ زن ہو کر الگ الگ کریں گے۔

روزی کا طلب گار بننا ضروری ہے
روزی فضل خداوندی ہے اس لئے اللہ کے فضل کو تلاش کرنا عین سعادت مندی ہے۔ مگر اللہ کو چھوڑ کر مال و دولت کے حصول کا غلام بن جانا سب سے بڑی بد قسمتی اور ذلت ہے ۔لہٰذا حلال روزی کمانا انسان پر فرض عین ہے مگر ایسے درویش اور فقرا جو حالت جذب میں ہوں یا فنافی اللہ کے مقام پر ہوں وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ انہیں اللہ خود رزق پہنچاتا ہے ۔یا اللہ کوئی ان کا ایسا وسیلہ بنادیتا ہے جس سے و ہ دنیا وی دھندوں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ انسانی معیشت فضل خداوندی کی مرہون منت ہے ۔کیونکہ معاش کے تمام ذرائع جن سے کسب حلال میسر آتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے پیدا کر دہ ہیں۔ زمین کے چھپے ہوئے معدنی خزانے یعنی تیل کوئلہ لوہا چاندی سونا اور لاتعداد عناصر جن سے انسانی زندگی مستفید ہوتی ہے اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ خشکی تری سمندر اور اس کے نادرجو اہرات اللہ ہی کی تخلیق ہیں ۔سورج کی گرمی لہلاتی ہوئی نباتات بہتے ہوئے دریا چھما چھم برستی ہوئی بارش جس سے انسانی کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں پہاڑوں کے چھپے ہوئے نادرخزانے گویا کہ کائنات کی ہر چیز جس سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے سب کے سب اللہ ہی کے پیدا کردہ ہیں اور پھر اس نظام کائنات کو اس طرح اللہ نے مربوط کیا ہے کہ جس سے انسان فائدہ اٹھا ئے اور پھر حضرت انسان کو عقل دی ہے تاکہ اس سے ارض و سما کی اشیا کو اپنے استعمال میں لا سکے۔
ھو الذی خلق لکم مافی الارض جمیعا۔’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے زمین میں سب کچھ پیدا کیا ہے ۔‘‘(البقرہ۲۹)اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ زمین کی سطح کے اوپر یا زمین کے اندر جتنے بھی خزانے ہیں جن سے انسان اپنے لئے روزی پیدا کر سکتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں اور انسان کے لئے بنائے ہیں ۔اسی طرحہواللّٰہ الذی سخر لکم البحر لتجری الفلک فیہ بامرہ ولتبتغو ا من فضلہ و لعلکم تشکرون۔’’اور وہ ہے جس نے سمندر کو تمہارے لئے مسخر کر دیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو۔‘‘(پارہ۲۵ 25الجاثیہ۱۲)

ارض و سما میں مختلف اشیا کا تخلیق کرنا اور مادی اسباب کا پیدا کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ نے رزق پھیلادیا ہے جسے محنت سے تصرف میں لانا انسان کی کوشش پر چھوڑ دیا گیا ہے اس سے پتہ چلا حلال روزی کے لئے جدو جہد کرنا انسان کے لئے لازم ٹھہرا ہے ۔ایک مقام پر ارشاد بار ی تعالیٰ ہے کہ : فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللّٰہ واذکرو ا اللّٰہ کثیرا لعلکم تفلحونoپھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کروتا کہ تم فلاح پا جاؤ۔‘‘(سورۃ جمعہ آیت۱۰)

اس حکم خداوندی سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر ایک کھانے والے فرد کے لئے حکم ہے کہ نماز سے فارغ ہو کر روزی کی تلاش میں لگ جائے اگر چہ آیت بالا کا حکم نماز جمعہ کے بعد کا ہے لیکن اس آیت سے روزی کمانے اور کسب حلال کا عام اصول اخذ کیا جاتا ہے اور یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ رزق حلال کمانے سے قبل صلوٰۃ کا قائم کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ نماز سے انسان میں بے شمار خوبیاں پیدا ہوتی ہیں اور صالح طبیعت رزق کمانے میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔نماز سے یہ بھی اثر پڑتا ہے کہ انسان یاد الہٰی سے غافل نہیں ہوتا ۔لطف اسی بات میں ہے کہ انسان روزی بھی کمائے اور یادِ الہٰی بھی جاری رکھے۔ یاد رہے کہ انسانی بنیادی ضروریات رہائش لباس خوراک تعلیم اور سامان زیست جائز حد تک حاصل کرنے کے لئے مال و دولت درکار ہوتا ہے جسے حاصل کرنا عین ثواب اور اطاعت الہٰی ہے ۔اس لئے کسب حلال کے لئے جائز کوشش اور دوڑ دھوپ کرنا عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے ۔

بعض فقرا اور صوفیا کا خیال ہے کہ قرب قیامت رزق حلال کا ملنا ناپید ہو جائے گا اور جس کے پیٹ میں لقمہ حلال جائے گا ۔اس کا شمار اولیا میں ہوگا ۔یہ بات درست ہے کہ جب برائی پورے عروج پر ہو ماحول فاجر انہ اور فاسقانہ بن جائے ۔نفسا نفسی کا عالم ہو گیا ہو طمع اور لالچ کے روپ میں شیطان پوری طرح پنجے گاڑچکا ہو تو انسان کے لئے حلال روزی کمانا ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔ کیونکہ وہ جس کسب معاش کی طرف جاتا ہے اس میں تھوڑی بہت بے ایمانی کی آمیزش ضرور نظر آتی ہے ۔مگر افراتفری کے عالم میں اللہ کی خاص رحمت ہی سے پاک روزی حاصل ہو سکتی ہے اس لئے ناگوار حالات میں اللہ کے خاص بندے اس سے پاک روزی حاصل کرنے کی دعا مانگتے رہتے ہیں تو ان مانگنے والوں کے لئے اللہ ایسے حالات پیدا کردیتا ہے جس سے وہ حلال روزی کمالیتے ہیں اور ایسا ہونا اللہ کی خاص رحمت اور مدد کے بغیر ممکن نہیں ۔

یہ حقیقت تو تسلیم شدہ ہے کہ اسلام میں رہبا نیت نہیں اور نہ ہی کسی عاقل بالغ قوی اور جری مرد کے شایانِ شان ہے کہ وہ کسب حلال کو ترک کر کے جنگلوں کی راہ لے مگر صوفیا اور فقرا پر ایک منزل ایسی ضرور آتی ہے جس وقت ان پر عشق الہٰی کا غلبہ ہوجاتا ہے اور وہ جذب و مستی میں اتنا آگے پہنچ جاتے ہیں کہ وہ دنیا کے دھندوں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اس حالت میں ان پر کسب حلال کی فرضیت عائد نہیں رہتی ۔مگر پھر جب ان سے یہ دورختم ہو جاتا ہے ۔تو وہ دنیا میں آکر کچھ نہ کچھ اپنے روزگار کا سلسلہ اختیار کرلیتے ہیں ۔ بڑھاپے میں جب انسان کسب معاش کے قابل نہیں رہتا یا ایسے علمائے حق جنہوں نے اپنی زندگیاں دین اسلام کی خدمت ہی کے لئے وقف کی ہوئی ہوں اگر وہ کوئی روزگار نہ بھی کریں تو ان کے ذمے فرض کی کوتاہی نہ ہو گی بلکہ اہل ثروت اور حکومت کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کے روزگار کاکوئی نہ کوئی ذریعہ بنادیں ۔تاکہ وہ پریشانی کا شکار نہ ہوں ۔اس حقیقت کے بر عکس ایک اور رسم جو چل نکلتی ہے ۔وہ یہ ہے کہ ایسے لوگ جو کام چور ہوتے ہیں جن کا دل محنت مشقت پر نہیں لگتا اور وہ طاقت خرچ ہونے والے کام سے دور بھاگتے ہیں ۔وہ آسان ذریعہ ڈھونڈ لیتے ہیں کہ گھر بار چھوڑ کر نام نہاد ملنگ یا درویش بن جاتے ہیں اور ایسے گرو ہوں میں شامل ہو جاتے ہیں جو شعبدہ بازی پر گزارہ کرتے ہیں ۔میلوں ٹھیلوں پر ایسے لوگوں کا مستقبل ٹھکانا ہوتا ہے وہ لوگ تندرست بھی ہوتے ہیں ۔مگر کام نہیں کرتے کئی ایک برائیوں میں ملوث ہوتے ہیں ایسا کرنا خلاف شرع ہے کہ انسان جسم میں روزی کمانے کی طاقت رکھتا ہو اور پھر کسب معاش نہ کرے ۔

بعض لوگ کسب معاش ترک کر کے خانقاہوں یا مساجد میں ڈیرہ لگالیتے ہیں تعویزگنڈوں کی کمائی کھانا شروع کردیتے ہیں ۔یاد رکھو اللہ کے نیک ولی اللہ ایسا نہیں کرتے بلکہ ایسے لوگوں سے بچو تا کہ وہ کہیں نقصان نہ پہنچائیں۔یہ سڑکوں پر فال نکالنے والے،قسمت بدلنے کے دعویدار سب مکاری ہے۔

مختصر کہ افضل ترین نظریہ یہی ہے کہ خود حلال کمائی کی جائے اور اس سے اپنی جائز ضروریات کو پورا کیا جائے ۔کیونکہ یہی فقراء حق کا معمول رہا ہے شرع اسلامی بھی ہر مسلمان سے یہی تقاضا کرتی ہے ۔کہ وہ نہ دنیا کی کمائی میں اتنا مگن ہو جائے کہ آخرت کو بھول جائے اور نہ بالکل کسب حلال کو ترک کرکے اپنے ظاہر کو خراب کرے چنانچہ ہر عاقل بالغ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حلال ذرائع معاش اختیار کرے ۔

بہترین کسب معاش ہاتھ کی کمائی ہے :ہاتھ کی کمائی رزق حلال حاصل کرنے کا سب سے اعلیٰ اور بلند ذریعہ ہے اور اس کے متعلق نبی اکرم ﷺ نے بہت تاکید فرمائی ہے ۔
’’حضرت مقدام بن معد ی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :کسی نے اس سے بہتر کھانا نہیں کھایا جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائے اور بیشک اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی کمائی کھایا کرتے تھے ۔‘‘(بخاری )

حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ عرض کی گئی : یا رسول اللہ !(ﷺ)کونسا ذریعہ معاش پاکیزہ ہے ؟ فرما یا کہ آدمی کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہر جائز تجارت ۔(مسند احمد)

پیشے اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں ۔کسی میں ہاتھ کی محنت زیادہ درکار ہے اور کسی میں جسم کے دوسرے اعضاء یعنی دماغ آنکھ پاؤں وغیرہ کی قوت صرف ہوتی ہے ۔تو ایسے سارے پیشے جس میں محنت اور مشقت صرف ہو وہ ہاتھ کی کمائی میں شمار کیے جاتے ہیں اور ایسی کمائی اس کمائی سے افضل ہے جو بیٹھے بیٹھا ئے بغیر محنت کے حاصل ہو کیونکہ جو مال انسان کو محنت کے بغیر مل جاتا ہے انسان اس کی قدر نہیں پاتا اور خرچ کرتے وقت اسے ایسے کاموں پر خرچ کرڈالتا ہے جن کا شمار اسراف میں ہوتا ہے اس کے بر عکس اپنے ہاتھوں سے محنت کی کمائی کو خرچ کرتے وقت انسان کو بڑا احساس اور درد ہوتا ہے کہ اسے از حد ضرورت کے کاموں پر خرچ کیا جائے چونکہ مال بڑی تکلیف اور مشقت اٹھا کر حاصل ہوتا ہے ۔اس احساس کے پیش نظر اللہ نے اسے افضل قرار دیا ہے ۔ہاتھ کی کمائی کے بعض کام ایسے ہیں جنہیں دوسرے لوگ حقیر اور ذلیل تصور کرتے ہیں اور ایسا پیشہ اختیار کرنے سے نفرت کی جاتی ہے مثلاً ہاتھ سے جوتیاں بنانا کپڑوں کی سلائی کرنا تنورمیں روٹیاں لگانا عمارتی کام میں اینٹیں اٹھانا سر پرریت سیمنٹ اٹھانا راجگیری کرنا لکڑی کا کام کرنا سر پر اشیاء اٹھا کر گلی کو چوں میں فروخت کرنا اپنے ہاتھوں سے لوگوں کے کپڑے دھونا کھیتوں میں زراعت کا کام کرنا لوہار کا کام نائی کا کام وغیر ہ حتیٰ کہ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے کام ایسے ہیں جنہیں مال دار لوگ اختیار کرنا پسند نہیں کرتے لیکن ہر وہ کام جس میں محنت درکار ہو اس سے نفرت کرنے سے منع کرتا ہے کیونکہ کسی پیشے کو حقیر جاننا کم عقلی اور بیو قوفی ہے ۔لہٰذا اللہ کے رسولﷺ کے اس فرمان سے صرف یہ خیال نہ کریں کہ ہاتھ کے علاوہ کسی اور طرح سے جو کمائی حاصل ہو وہ حلال نہیں ۔بلکہ جو مال بھی اپنے جسم کی قوت صرف کر کے کمایا جائے گا ۔وہی حلال ہاتھ کی کمائی کی طرح ہے ۔اس لئے سکولوں کالجوں میں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہیں دفتری اہل کاروں کی تنخواہیں طبیبوں اور ڈاکٹری کی کمائی ہاتھ کی کمائی جیسا ہی درجہ رکھتی ہیں ۔ ایسے ہی تجارت سے جائز نفع کمانا حلال کے زمرے میں شامل ہے ۔

ایک حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے کتابت کی کمائی کو رزقِ حلال قرار دیا ہے ۔’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کتابت قرآن مجید کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا :کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ وہ الفاظ کی صورتیں بناتے ہیں اور بے شک وہ اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے ہیں ۔

رزق حلال کی برکات
رزق حلال کمانے اور کھانے میں بہت برکت ہے اس کے بارے میں فرمان رسول اللہﷺ حسب ذیل ہے:رزق حلال سے انسان مستجاب الدعوات بن جاتا ہے اس کے متعلق حضرت سعد بن ابی وقاص نے کھڑے ہو کر عرض کیا ۔یا رسول اللہ ﷺ آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لئے دعا فرمادیجئے ۔کہ وہ مجھے مستجاب الدعوات بنا دے ،یعنی دعا قبول فرما لیا کرے آپ ﷺنے فرمایا:اے سعد ! حلال کی کمائی کھاؤ !تم مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے ،یعنی تمہاری دعا قبول ہو گی ۔خدا کی قسم جب بندہ حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے ،تو چالیس روز تک اس کا عمل قبو ل نہیں کیا جاتا اور جس بندہ کا گوشت حرام سے پلاہوا ہو تو جہنم کی آگ اس کے بہت لائق ہے ۔‘‘(ترغیب)

حلال کی کمائی کھانا رسول اللہ ﷺ کی سنت پر چلنا اور لوگوں کو ایذا رسانی سے بچانا جنت میں لے جانے والے اعمال سے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے پاکیزہ کمائی کھائی اور سنت کے مطابق کام کیا اور لوگوں کو اپنی ایذارسانی سے امن میں رکھا وہ جنت میں داخل ہو گا۔(ترمذی، ترغیب)

پاکیزہ روزی کھانے والے کو دنیا سے جانے کا کوئی فکر نہیں ہوتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب تم میں یہ چار باتیں موجود ہوں گی تو دنیا کے چھوٹ جانے سے کوئی حرج نہیں ہے ،امانت کی حفاظت بات کی سچائی اور سچ گوئی اچھی عادت اور کھانے پینے میں پاکیزگی یعنی پاکیزہ روزی۔‘‘(احمد)

رزق حلال کا استعمال انسان میں اخلاق حسنہ پیدا کرتا ہے ۔حلال روزی لڑکے لڑکیوں کو شرم و حیاء کے انمول موتی بنا دیتی ہے ۔ان کی آنکھوں میں شرم ،چال میں شرافت اور سوچ میں تدبر ہوتا ہے نیک اور شریف انسان ہمیشہ انسانوں کا ہمدرد مہمان نواز بڑوں کا مؤدب اور بچوں اور چھوٹوں پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والا ہو گا۔ گویا رزق حلال انسان کو دوسروں سے ممتاز کر دیتا ہے اور معاشرے میں حقیقی عزت کا باعث بنتا ہے ۔

رزق حلال کا سب سے بڑا ثمر آخرت میں کامیابی ہے ۔قیامت میں وہ انبیاء صدیقین شہداء صوفیاء اولیاء اور فقرائے حق کے گروہ میں اٹھایا جائے گا ۔کیونکہ رزقِ حلال صرف وہی شخص کھاتا ہے جو انبیاء اور بزرگانِ دین کے نقشِ قدم پر چلتا ہے۔قیامت کے دن ان کے چہرے روشن ہوں گے۔ وہ خالقِ حقیقی سے اس روز حلال روزی کے کمانے کے سلسلہ کی وجہ سے دنیا میں مصائب برداشت کرنے کا انعام پائیں گے جنت میں داخل کئے جائیں گے اور یہ سب کچھ انہیں دنیا میں حلال و حرام کی تمیز کرنے اور حلال روزی کماکر کھانے کی بدولت ہی حاصل ہو گا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حلال روزی کمانے اور کھانے کی توفیق دے ۔آمین۔
 
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 602970 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More