حسرت موہانی ایک عظیم مجاہد آزادی

حسرت موہانی ۱۸۸۱ء میں یوپی کے قصبہ موہان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم قصبہ موہان میں حاصل کی۔ ۱۸۹۴ء میں مڈل اسکول کا امتحان پاس کیا۔ ۱۸۹۹ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ ۱۸۹۹ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول فتحپور سے امتیازی نمبروں سے انٹر پاس کیا۔ اس کے بعد علی گڑھ گئے۔ یہیں سے ۱۹۰۳ء میں بی اے کی سند حاصل کی۔ ۱۹۰۳ء سے ہی ان کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔

بی اے کے امتحان سے قبل حسرت نے اعلیٰ پیمانے پر ایک محفل شعر کا اہتمام کیا تھا۔ جس کے متعلق مخالفین نے جلی کٹی سنائی۔ دوسرے نے حسرت پر اہانت آمیز سلوک کرتا ہے اور کہا تمہارا مشاعرہ بدتہذیب اور غیراخلاقی تھا۔ حسرت نے جواب دیا کہ ہمارے اخلاقی معیار سے تو مشاعرے میں کوئی بدتہذیبی نہیں ہوئی۔ اس پر انھوں نے کہا کہ کیا اخلاق کے دو معیار ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں ہم لوگوں کا معیار آپ لوگوں سے جدا ہوتا ہے۔ یہ سن کر مدمقابل چراغ پا ہو گئے۔ کالج کے معتدین کی جانب سے ایک میٹنگ طلب کی گئی اور کہا کہ کالج کا نظم و نسق خراب کرنے کی وجہ سے ان کا نام رجسٹر سے خارج کیا جاتا ہے۔ ان میں نواب محسن الملک بھی تھے وہ انھیں جانتے تھے۔ ان کی تائید سے طے پایا کہ کالج سے نکال دیں مگر امتحان میں بیٹھنے دیا جائے۔ پروفیسر مجنوں گورکھپوری وغیرہ اس واقعہ کی تائید کرتے ہیں۔ لیکن پروفیسر ہارون خان اور محترمہ رابعہ بیگم کی روایت کے مطابق حسرت کو کالج سے نہیں بورڈنگ سے نکالاگیا تھا۔ بہرحال انھوں نے ۱۹۰۳ء میں بی اے کی ڈگری لی۔ فکر معاش چھوڑ کر اپنے نصب العین نجات ہند کی تکمیل کا عزم محکم کر لیا۔ اور علی گڑھ میں کرائے کے مکان میں رہنے لگے۔ اور وہیں سے اخبار اردوئے معلی کا اجرا کیا۔ اس کا پہلا شمارہ ۱؍جولائی ۱۹۰۳ء کو منظر عام پر آیا۔ جس میں ادبی سیاسی مذہبی مضامین شائع ہوئے تھے۔

۱۹۰۴ء میں کانگریس کا سالانہ اجلاس ممبئی میں ہوا۔ علی گڑھ کانگریس کے ڈیلی گیٹ کی حیثیت سے حسرت نے اجلاس میں شرکت کی۔ ۱۹۰۵ء میں بنگال کی تقسیم ہوئی۔ اور انگریز سرکار کی مخالفت شروع ہوئی۔ کانگریس کے دو گروپ بن گئے۔ جس میں ایک انتہا پسند گروپ اور دوسرا اعتدال پسند گروپ تھا۔

حسرت نے انتہا پسند گروپ میں شمولیت کی۔ تقسیم بنگال کے خلاف غم و غصہ کی لہر انتہائی شدید ہو چکی تھی۔ انگریزوں کی داداگیری کا سلسلہ شروع تھا۔ حکومت کی نظر ان پر تھی۔ لیکن وہ ان پر کوئی الزام نہ ڈال سکتے تھے۔ اور حکومت بہانہ تلاش کر رہی تھی۔ بہانہ مل گیا۔ اردوئے معلیٰ کے جون ۱۹۰۸ء کے شمارے میں ایک مضمون ’’مصر میں انگریزوں کی حکمت عملی‘‘ شائع ہوا۔ حسرت نے مضمون نگار کا نام نہ بتاتے ہوئے یہ الزام اپنے سر لے لیا۔ جس پر حکومت نے ان پر مقدمہ چلایا۔ سیّد سلیمان ندوی کے مطابق وہ مضمون علی گڑھ کے طالب علم سہیل اقبال کا تھا۔

۲۳؍ جولائی ۱۹۰۸ء کو حسرت پہلی بار گرفتار ہوئے۔ اور ۴؍ اگست کو ان کے مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا۔ اسی دن سے جیل کی زندگی کا آغاز ہوا۔ رہائی کے بعد ان کا طرز عمل سخت اور شدید ہو گیا۔ اور اس چنگاری نےآگ کا کام کیا۔ اور انگریزوں کی دشمنی اخبار اردوئے معلیٰ کے ذریعے عام ہو رہی تھی۔ انگریز بھلا یہ کب برداشت کرتے۔ جنگ عظیم چھڑ گئی۔ آخری مرتبہ ۱۳؍ اپریل ۱۹۱۴ء میں حسرت دوبارہ گرفتار ہوئے۔ ۱۹۱۸ء تک قید رہے۔ ۱۹۲۰ء میں تحریک ترک موالات میں شامل ہو کر سودیشی تحریک میں حصہ لیا۔ دسمبر ۱۹۲۵ء میں ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کی کانفرنس کانپور میں منعقد ہوئی۔ اور جمعیۃ مرکز خلافت کا جلسہ کانپور میں ہوا۔ مولانا دونوں کے صدر مجلس استقبالیہ بنائے گئے۔ مولانا سلامت اللہ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ ۱۹۲۵ء میں کاکوری کیس کا مرکز کانپور تھا۔ مولانا بھی اس میں ملوث تھے۔ مگر واضح دستاویزی ثبوت ان کے معاملے میں نہ تھے۔ ۱۹۲۶ء میں کانگریس سے کنارہ کشی اختیار کی۔ اس علاحدگی کے بعد کمیونزم سے جڑ گئے۔ ۱۹۴۶ء میں وہ مسلم بورڈ کے ٹکٹ پر یو پی اسمبلی کے ممبر نامزد ہوئے۔ ملک تقسیم ہوا تو حسرت لیگ سے الگ ہو گئے۔ سوشلزم کے اصولوں پر ہندوستان کا آئین مرتب کرنا تھا۔ آخری عمر غربت میں گذاری۔ لیکن اپنی غریبی اور تکلیف کا اظہار نہیں کیا۔ آخرکار ۱۳؍ مئی ۱۹۵۱ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔
تصانیف : ان کی وہ تصانیف جو شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔
۱) شرح دیوان (۲) متروکات (۳) مشاہدات زنداں (۴) انتخاب سخن (۵) رسالہ تذکرۃ القراء (۶) اردوئے معلیٰ
(۷) خطبات (۸) مکاتیب (۹) روزنامہ مستقبل کانپور (۱۰) ہمدم لکھنو (۱۱) دیوان حسرت (۱۲) کلیات
(۱۳) خطوط بنام نشاط بیگم

مولانا حسرت موہانی کی گرفتاریاں اور تخلیق شعر
حسرت موہانی ایک مجاہد آزادی تھے۔ مولانا کی طبیعت میں وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ ملک و قوم سے بےپناہ محبت کرتے تھے۔ بی اے پاس کرنے سے قبل سیاست میں حصہ لینے لگے تھے۔ اسی وجہ سے وہ کالج سے نکالے گئے۔ ۱۹۰۳ء میں اردوئے معلیٰ جاری کیا۔۱۹۰۴ء میں کانگریس میں شامل ہوئے بعد ازاں لوک مانیہ تلک کے گرم فریق ہوئے۔ اور آخر تک انگریزوں کی مخالفت کرتے رہے۔ انگریزی سرکار نے انھیں تین بار جیل بھیجا۔ اور انھوں نے تقریباً ۶ سال جیل کی نذر کیے۔
پروفیسر عبدالشکور، عتیق صدیقی اور دیگر حسرت شناسوں کی تحریروں کی روشنی میں ان کی گرفتاریوں کی تفصیل پیش کی جا سکتی ہے۔
پہلی گرفتاری (الٰہ سینٹرل جیل) ۲۳؍ جون ۱۹۰۸ء تا ۱۹؍ جون ۱۹۰۹ ایک سال
دوسری گرفتاری (فیض آباد، میرٹھ وغیرہ) ۱۳؍ اپریل ۱۹۱۶ء تا۲۱؍ دسمبر ۱۹۱۸ء ایک سال ۸؍ مہینے
تیسری گرفتاری (یروڈہ جیل) ۲۲؍ اپریل ۱۹۲۳ء تا ۱۱؍اگست ۱۹۲۴ء سوا دو سال
گرفتاری کی کل مدت : ۱۱؍ سال ۴؍ مہینے

مختصر یہ کہ مولانا حسرت موہانی ایک شاعر کے ساتھ ہی ساتھ ایک عظیم مجاہدآزادی بھی گذرے ہیں۔ حسرت مکمل آزادی کے علمبردار تھے۔ مکمل آزادی کی تجویز پیش کرنے والوں میں اولیت کا شرف حاصل تھا۔ ۱۹۲۱ء کے خطبہ صدارت میں حریت کا مل نام سے اپنا خیال ظاہر کیا۔ یہ خیال ذیل کے شعروں میں بصراحت نظم ہیں۔ اسے ملاحظہ فرمائیں
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
ہر چند ہے دل شیدا حریت کامل کا
منظور دعا لیکن ہے قید محبت بھی

حسرت کی خودداری، غیرت مندی، حق گوئی اور بےباکی ان کی شخصیت کا نمایاں ترین وصف ہے۔ واقعی وہ ایک عظیم المرتبت محب وطن اور ایک عظیم مجاہد آزادی تھے۔

Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 602953 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More