قسمت کا لکھا ہی ملتا ہے اور کچھ نہیں: (حصہ اول)

شیخ سعدی رحمتہ اﷲ کی ایک حکایت ہے کہ :
ایک پہلوان کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ناموافق حالات کے ہاتھوں سخت لاچار ہو گیا، کیونکہ وہ بڑے پیٹ والا اور ااس پر اضافہ یہ کہ مفلوک الحال تھا۔ اس نے اپنے حال کی شکایت اپنے باپ سے کی اور اس کے ساتھ اجازت مانگی کہ میرا ارادہ کہیں اور کا ہے ، شاید میرا نصیب میرا ساتھ دے تو ہو سکتا ہے کہ میں اپنی قوت ِ بازو سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤں۔ کیونکہ بزرگوں نے کہا ہیکہ مقام و منزلت پانے کے لیے اپنی ہنر مندی اور بزرگی کا اظہار ضروری ہے ۔ کیونکہ اگر کوئی اگر بتی رکھتا ہو تو اس کو آگ دے اور مستفید ہو جب کہ مشک کو کسی جسم پر لگانے سے آگاہی ملتی ہے۔ یہ بات سن کر والد نے کہا اے بیٹا۔۔۔!ناممکن بات کو خیال سے نکال دے۔ قناعت سے کام لے ۔ صبر سے سلامتی کی جگہ پر گزر بسر کر تا رہ کیونکہ عقل مندوں نے کہا ہے کہ دولت کوشش سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کی تدبیر صبر کرنا ہے۔ دولت سے طاقت حاصل نہیں ہوسکتی اندھے کے ابرو پر اچھانہیں لگتا ۔ کسی نے اس حال کو کیا خوب بیان کیا ہے کہ اگر تیرے ہر بال میں دو سو ہنر ہوں ۔ پھر بھی تیرا ایک ہنر تیرے کام نہ آئے گا جب تک قسمت یاوری نہ کرے۔ بد بخت شہ زور کیا طاقت دکھا سکتا ہے۔ کیونکہ طاقتور بازو سے بلند نصیبہ کی مدد بہتر ہے۔ یہ سن کر لڑکے نے کہا اے ابا۔۔۔! سفر کے بڑے فوائد ہیں اس سے طبع خوش ہو جاتی ہے ، نفع حاصل ہو تا ہے، دنیا کے عجائبات دیکھنے کا موقع میسر آجاتا ہے، عجیب و غریب واردات سننے میں آتی ہے۔ مال حاصل ہوتا ہے اور کمائی کا معقول ذریعہ سفر ہے، سفر سے دوستوں کی پہچان ہو جاتی ہے، زمانے کے نشیب و فراز کا پتہ چلتا ہے، سفرکی کیفیت کو صاحب حال لوگوں نے اس طرح بیان کیا ہے کہ اے انسان۔۔۔!!!جب تک تو گھر کی چار دیواری میں رہے گا تو تجربہ کار انسان نہیں ہو سکتا ، گھر سے باہر جا اور دنیا کی سیر کر اور یہ موت سے پہلے پہل کر لے۔
باپ نے بیٹے کی باتیں سن کر کہا کہ تو نے سفر کے فوائد تو بہت گنوائے ہیں ، لیکن سفر صرف پانچ قسم کے لوگوں کو مفید رہتا ہے۔
اول: اس تاجر کے لیے جس کے پاس سرمایا اور ملازم کافی ہوں اور وہ ملازم بھی بڑے چست و ہوشیار ہوں ۔ وہ دن ایک شہر میں بسر کریں تو رات اگلے شہر چلے جائیں ، اور ہر دم سوچ و فکر سے ہوں۔ اس طرح وہ تاجر ہردم نفع ہی نفع کماتا رہتا ہے، کیونکہ بزرگوں نے کہا ہے کہ دولت مند پہاڑ، جنگل اور بیابان میں بھی مسافر نہیں ہوتا، وہ جہاں جاتا ہے اپنا دربار سجاکر اور محفل سجا کر رہ سکتا ہے اور وہ شخص جس کے پاس پونجی نہیں ہے وہ اپنے وطن میں بھی مسافر اور اجنبی گردانا جاتا ہے۔
دوم: وہ آدمی فائدہ اٹھاتا ہے جو عالم ہو ، جس کی گفتار میں مٹھاس ، زبان میں فصاحت و بلاغت ہو، اس کی وجہ سے وہ جہاں بھی جاتا ہے ، لوگ اس کی پیش قدمی کے لیے جھکتے اور عزت و تکریم سے پیش آتے ہیں ۔ کسی نے اس کی حالت کو یوں بیاں کیا ہے کہ عقل مند کی ذات خالص سونے کی مثل ہے کہ جہاں کہیں بھی پہنچتا ہے ، عزت و قدر پاتا ہے اور بے عقل بزرگ زادہ بھی ہو تو بھی وہ اپنے شہر میں بے قدری کا شکار ہو جاتا ہے ، ایسے لوگ پردیس میں کوڑی کے برابر بھی قیمت نہیں پاتے ہیں۔
سوم: اس حسین و جمیل شخص کے لئے جس کو دیکھ کر صاحب دل لوگ اس کی طرف مائل ہو کر رہ جائیں ، اس حال کو ایک صاحب حال نے یوں کہا ہے کہ تھوڑا سا حسن بھی مال کے انبار سے بہتر ہے۔ کیونکہ حسین چہرہ ٹوٹے دلو ں کا مرہم ہے اور بند دروازوں کی چابی ہے۔ حسین لوگوں کی صحبت کو ہر جگہ غنیمت سمجھا جاتا ہے اور حسین لوگوں کی خدمت کرنا اپنے اوپر ان کا احسان دھرنا ہے۔ حسن والوں کا حال کسی نے کتنے قیمتی ہیروں سے رقم کیا ہے کہ معشوق جہاں بھی جائے عزت و قدر سے دیکھا جا تا ہے، اگرچہ اس کے والدین اس سے ناراض ہو کر اسے گھر سے نکال دیں۔
(جاری۔۔۔۔حصہ دوئم)
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 182370 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More