امریکا.......صدارتی انتخاب میں تہذیب پامال

نیلام ہے شرافت بد نام آدمیت
دنیاکی واحدسپرپاورامریکامیں آئندہ صدارتی انتخاب کیلئے جو مہم چل رہی ہے ،مغربی اخبارات اورتجزیہ نگاروں کے مطابق اس نے ایک حقیقت اظہرمن الشمس کردی ہے کہ اس ملک میں اخلاق وتہذیب نام کی کوئی چیزموجودنہیں۔مختلف جائزہ رپورٹیں اورسروے بتاتے ہیں کہ امریکی عوام کی اکثریت کویقین ہے کہ صدارتی انتخابات پرسرمایہ داروں ،ارب پتی افراداوران کی دیو ہیکل کارپوریشن کاراج ہے۔صدارتی انتخابات کی مہم کے آغاز ہی سے امریکیوں کی اکثریت(84فیصدعوام)چاہے وہ ری پبلکنزکے ووٹرہوں،ڈیموکریٹس کے آزادامیدواروں کے،اس بات پرمتفق ہیںکہ امریکی انتخابات میں دولت کااثرورسوخ بہت زیادہ بڑھ گیاہے اورپیسے کی ریل پیل نے انتخابی مہم کوعجیب رنگ دے دیاہے۔ عوام کی اکثریت نے اس خواہش کااظہار کیاہے کہ امریکی نظام میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے تاکہ سیاست میں پیسے کے اسراف کوروکاجاسکے۔

ایک جائزے کے مطابق امریکی عوام سمجھتے ہیں کہ بالعموم امریکی انتخابات کے تمام مراحل کودولت کی ریل پیل کے ذریعے اپنے حق میں موڑنے کی شرم ناک کوششیں کی جاتی ہیں۔ تمام تجارتی کمپنیاں اپنی مرضی کے امیدواروں کو اقتدارمیں لاکراپنی دولت میں اضافے کیلئے انتخابی مہم کوایک گھناؤنی مشق بنا کررکھ دیتے ہیں۔لوگوں کاکہناہے کہ ایسے کروڑپتی افرادکی کمی نہیں جو صدارتی امیدواروں کی انتخابی مہم کامیاببنانے کیلئے بھاری رقوم کے چیک لکھتے ہیں تاہم یہ عناصرمنظرعام پرکم کم ہی آتے ہیں۔پردے کے پیچھے رہ کر اپناکھیل کھیل جاتے ہیں اوراس وقت بھی اس کھیل میں پوری تندہی سے جیتے ہوئے ہیں۔حالیہ جائزوں کے مطابق امریکی عوام کایہ مطالبہ سامنے آیاہے کہ صدارتی امیدواروں کی مہم چلانے والوں کومنظرعام پرلانے کیلئے مؤثراقدامات کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات میں دولت کے بل پرہونے والی دھاندلی کاسلسلہ ختم کیاجاسکے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق موجودہ صدارتی امیدوارکی انتخابی مہم میں بے پناہ اخراجات کئے جارہے ہیںجس سے یہ اندازہ کیاجارہاہے کہ اس بار انتخابات میں اسراف ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دے گابلکہ ایک تجزیہ نگارنے تویہ کہاہے کہ امریکی صدارتی انتخابات پراٹھنے والی رقوم تیسری دنیاکے نصف درجن ممالک کے بجٹ سے بھی تجاوزکر جائیں گی۔

ارب پتی امریکی شخصیات اپنی اپنی کمپنیوں اورنمائندوں کے ذریعے سے من پسندانتخابی نتائج حاصل کرنے کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہارہی ہیں اور درجنوں بینکارمستقبل میں مرضی کی معاشی پالیسیوں کے حصول کیلئے اپنے امیدواروں پردولت لٹارہے ہیںجسے امریکی سیاسی پنڈتوں نے بے حد خطرناک رحجان قرار دیاہے۔ایک صدارتی امیدوارمارکوروبیو نے جو ری پبلکن امیدوارہیں،ارب پتی پال سنگرکی حمائت حاصل کی ہے۔پال سنگرفلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آباد کاری کا نہ صرف پرجوش حامی ہے بلکہ انہیں کھلم کھلامالی اعانت بھی فراہم کرتاہے۔ہرمذاکرے،ہرپلیٹ فارم پراسرائیلیوں کی اعلانیہ حمائت کرتاہے۔ مارکوروبیواپنے مالی مربی پال سنگرکی ہاں میں ہاں ملانے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اس طرح اس صدارتی امیدوارکی کامیابی سے امریکاکی باگ ڈورسنبھالنے والے صہیونی مزیددندنانے لگیں گے اورمظلوم فلسطینیوں کیلئے عرصۂ حیات تنگ ہوگااورعدل وانصاف کے خواہاں ہرفردوبشرکے دل پرضرب لگے گی۔پال سنگرکے علاوہ مار کورو بیوکا بڑامالی معاون نارمن برامیہ ہے۔بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک وہ پال سنگرسے زیادہ مال خرچ کر رہا ہے اوراس نے اپنے تجوریوں کے منہ اس صہیونیت نوازامیدوارکیلئے کھول رکھے ہیں۔ایک جائزے کے مطابق یہ دونوں سرمایہ داراب تک مارکوروبیو کی انتخابی مہم پرپندرہ ملین ڈالر سے زائدخرچ کرچکے ہیں جبکہ دنیاکی پانچویں امیرترین شخصیت لیری ایلی سن اب تک مارکوروبیوکی انتخابی مہم پرملین ڈالر لٹاچکی ہے۔

ٹیڈکروزنامی ایک اورصدارتی امیدوارنے ارب پتی افرادکی حمایت و تعاون حاصل کرلیاہے جواپنے اس امیدوارکوآگے بڑھانے کیلئے روپیہ پیسہ کے ساتھ ساتھ ذاتی اثرورسوخ بھی استعمال میں لارہے ہیں۔ایک اہم نام روبرٹ مرکرکابھی ہے جس نے مختلف امریکی قوانین میں تبدیلیوں کیلئے آوازاٹھائی ہے۔اس کے علاوہ ارب پتی بینکرٹوبی نیوگبربھی ہے جس نے اپنی دولت کاوزن ٹیڈکروزکے پلڑے میں ڈال دیاہے تاکہ وائٹ ہاوس کااگلامکین ٹیڈکروزہواورپھراس کے ذریعے وہ اپنے مفادات حاصل کر سکے۔یہ دونوں سرمایہ داراب تک ٹیڈکروزکی انتخابی مہم پرقریبااکیس ملین ڈالرسے زائدخرچ کرچکے ہیں۔ٹیڈ کروز کواس انوسٹمنٹ بینک نے بھی بھاری مالیت کا قرض انتہائی آسان شرائط پرانتخابی مہم کیلئے فراہم کیاہے جہاں اس کی اہلیہ بطورمینیجنگ ڈائریکٹرکام کر رہی ہے،اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اپنامن پسندصدرمنتخب کرنے کیلئے امریکاکے ارب پتی کس اندازمیں کوشاں ہیں۔

جیب بش اگرچہ اب انتخابی مہم سے باہرہوچکے ہیں مگروہ بھی انتخابی مہم میں بڑے سرمایہ داروں کی چیرہ دستیوں کی علامت ثابت ہوچکے ہیں۔عام خیال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں زیادہ ترپیسہ اپنی اوراپنی فیملی کی ذاتی سرمایہ کاری سے لیاتاہم ان کے دولت منددوستوں نے بھی مستقبل میں اپنے مفادات محفوظ کرنے کیلئے اس کے ساتھ بھرپورمالی تعاون کیا۔ان کے دوستوں کے امدادی پیکج کی مالیت تقریباایک سوبیس ملین ڈالرتک پہنچ گئی ہے۔امریکی انشورنش گروپ کے سابق چیئرمین بینک گرین برگ بھی جیب بش کے مالی معاونین میں سے ایک ہیں۔اس ذات شریف نے جیب بش کوایک تقریب میںدس ملین ڈالرکاایک چیک جاری کیا۔سابق صدرکلنٹن کی اہلیہ اورسابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کوبھی سرمایہ داردوستوں کی بھرپورمالی معاونت حاصل ہے۔ان میں ایک اہم نام جارج سوروس ہے جس نے ہیلری کلنٹن کیلئے گزشتہ سال ساڑھے آٹھ ملین ڈالر جاری کئے۔اس کے علاوہ بھی مختلف افراد اورادارے اپنی اپنی سطح پرہیلری کی کامیابی کیلئے دولت خرچ کررہے ہیں۔اس کے علاوہ بھی مختلف افراداورادارے اپنی اپنی سطح پرہیلری کی کامیابی کیلئے دولت خرچ کررہے ہیں ۔بل کلنٹن اورہیلری کلنٹن دونوں کے پاس مختلف کتابوں کی رائلٹی کے معاہدے ہیں جن کی مالیت لاکھوں ڈالرتک پہنچ جاتی ہے۔جنوری تک کے ایک جائزے کے مطابق ہیلری کی انتخابی مہم پرایک سوپندرہ ملین ڈالرخرچ کئے جاچکے تھے۔

ڈونلڈٹرمپ اخلاق کے حوالے سے امریکی انتخابی مہم کابدترین امیدوارہے،جس کااپنادعوی ہے کہ اس کی مجموعی آمدنی دس بلین ڈالرسالانہ سے زیادہ ہے اور وہ ہرٹی وی شوکی میزبانی کے عوض تین ملین ڈالرلیتاہے۔اس طرح ٹرمپ کواپنی انتخابی مہم چلانے میں کوئی دشواری نہیں۔اعتدال اورمیانہ روی کی صفت سے متصف مبصرین کے مطابق متوقع ری پبلکن امیدوارانتہاپسندانہ مزاج کے حامل ڈونلڈٹرمپ اخلاق وشائستگی کے ساتھ ساتھ جمہوریت کیلئے بھی بہت بڑاخطرہ ہے۔بعض اسے خطرے کے ساتھ ساتھ بہت بڑاالمیہ بھی قراردے رہے ہیں۔ اگر امریکی ذمہ داروں میں فی الواقع احساس ذمہ داری کی کوئی رمق بھی موجود ہوتی توڈونلڈٹرمپ کوتواسی وقت ری پبلک پارٹی سے نکال باہرکرنا چاہئے تھا جب اس نے پہلی بارآئین کی خلاف ورزی کاعندیہ دیاتھا اوراعلانیہ آئین توڑنے کے عزم کااظہارکیاتھا ۔ ڈونلڈٹرمپ نے اپنی انتخابی ریلیوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں پر حملے کی بات کی،تشددکا پرچارکیا۔ مذہبی عبادت گاہیں بند کرکے بالخصوص مسلمانوں اوراسلام پررکیک حملے کرکے تہذیب وشرافت کامنہ چڑایاگیامگراس کے باوجود امریکی میڈیا اسے آسمان تک پہنچارہا ہے۔ امریکی ٹی وی انڈسٹری کی اہم شخصیات اورچینلوں نے بھی ٹرمپ کی یاوہ گوئی کوبہت برداشت کیا۔ماضی میں جس چینل کی باسکٹ بال کے کھلاڑیوں کیلئے غلط زبان استعمال کرنے پرپابندی کاسامناکرناپڑااس نے بھی انتہائی معیوب باتیں کرنے والے ٹرمپ کوکھلی آزادی دی۔ ایتھلیٹکس کے بارے میں جانبدارانہ بیان دینے پرایک ٹی وی پروگرام کے ملازم کوملازمت سے ہاتھ دھوناپڑے تھے لیکن ٹرمپ میکسیکوکے غیراندراج شدہ شہریوں کوچور،منشیات فروش قراردے چکا ہے،اس کے باوجودیہ امریکی ٹی وی کی مقبول شخصیت ہے۔امریکی سیاسی و انتخابی تاریخ کاایک مشہور واقعہ ہے کہ آئینی کنونشن کے بعدجب بینجمن فرینکلن سے کسی خاتون نے سوال کیاکہ امریکامیں کس قسم کی حکومت ہوگی توفرینکلن نے جواب دیا:وہ ایک جمہوریہ ہوگی اگرآپ لوگ اسے سنبھال سکیں۔ اب دونلڈٹرمپ جیسوں کی صدارتی مہم دیکھ کرجس(شکاگوکے جلسے)میں حامیوں اورمخالفین کی جنگ میں مکوں ، لاتوں ،ڈنڈوں کاآزادانہ استعمال کیاگیا حتی کہ پولیس کومداخلت کرکے گرفتاریاں عمل میں لاناپڑیں۔انتخابی جلسہ بھی منسوخ کرناپڑا۔ امریکی سوچ رہے ہیں کہ کیاہم اس کے نتیجے میں آنے والی جمہوریہ کوسنبھال لیں گے؟

بات ہورہی تھی انتخابی اخرجات کہ اب تک کے اسراف سے یہ اندازہ نہیں کیاجا سکتاکہ اخراجات کاکل تخمینہ کیاہوگا،تاہم انتہائی محتاط اندازوں کے مطابق دس سے پندرہ ارب ڈالر تک خرچ ہوجائیں گے۔اخلاقی اورتہذیبی پہلو سے امریکی انتخابات پرایک طائرانہ نظرڈالیں تواس نام نہادفرعونی سپرپاورکامحل دھڑام سے زمین بوس ہوجاتاہے مگرامریکی حکمرانوں کوشائدتہذیب واخلاق سے کوئی سروکارہی نہیں ہے۔امریکاکی جمہوریت کایہ عالم ہے کہ وہاں ووٹنگ کی شرح جمہوری ممالک کے حساب سے انتہائی کم ہے۔ایک مستندامریکی سروے کے مطابق چھ نومبرکوہونے والے انتخابات کا نتیجہ دراصل امریکاکی ایک تہائی آبادی ہی طے کرے گی کیونکہ28 فیصدسے زائدووٹرکے پاس ووٹ ڈالنے کاوقت ہی نہیں اوراس کی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ امریکا میں صدارتی انتخاب کو اختتامِ ہفتہ پر منعقد کروانے کی تمام کوششیں اب تک ناکام ہوگئی ہیں۔ صدارتی انتخاب ہر چارسال کے بعد ہمیشہ نومبر کے پہلے منگل کو منعقد ہوتا ہے۔دراصل اس رسم کا آغاز 1845میں ہوا تھا اور تب سے یہ سلسلہ جاری ہے۔درحقیقت انیسویں صدی میں امریکا ایک زرعی ملک تھا اور کسانوں کو اپنی گھوڑا گاڑیوں پر بیٹھ کر قریبی پولنگ بوتھ تک پہنچنے میں بھی کافی وقت لگتا تھا۔ہفتہ کو وہ کام کر رہے ہوتے تھے اور اتوار کو چل کر پیر کو ووٹ دینے کے لیے پہنچنا ممکن نہیں تھا۔بدھ کو مارکیٹ میں اناج بیچنے کا دن ہوتا تھا اور پھر کسانوں کو واپس لوٹنا ہوتا تھا۔ایسے میں ایک ہی دن منگل بچتا تھا ، اسی لیے اس دن پولنگ کی روایت قائم ہوئی ہے۔ امریکی ریاست نیواڈا میں ووٹرز کے پاس دونوں امیدواروں میں سے کسی ایک کو بھی نہیں ووٹ دینے کا اختیار موجود ہے۔وہاں ووٹر بیلٹ پیپرپردیے گئے ناموں میں سے اگرکسی کوبھی پسند نہ کریں تووہ نن آف دی کینڈیڈیٹس یعنی کسی امیدوار کیلئے نہیں کی آپشن منتخب کر سکتے ہیں۔بیلٹ پیپر پر یہ آپشن1976 سے رائج ہے۔

امریکاکی جمہوریت میںایک دلچسپ بات یہ بھی ہے امریکی تاریخ میں چار صدوراپنے مدمقابل امیدوار سے کم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود صدر بنے ہیں۔ امریکامیں صدر بننے کیلئے الیکٹورل ووٹ کاحصول لازم ہے۔ہر امریکی ریاست کے اس کی آبادی کے حساب سے الیکٹورل ووٹ طے ہیں اور یہ سارے کے سارے اسی امیدوار کو دیے جاتے ہیں جو ریاست میں عام انتخاب میں برتری حاصل کرتا ہے اورصدربننے کیلئے دوسوسترالیکٹورل ووٹ حاصل کرنالازم ہے ۔اسی لئے ماضی قریب کے صدارتی انتخاب میں الگورنے جارج بش جونیئرسے پانچ لاکھ ووٹ زائدحاصل کئے تھے لیکن الیکٹورل ووٹ بش جونیئرسے کم تھے ،اس لئے امریکی صدرنہ بن سکے ۔انتخابی ماہرین اورتجزیہ نگارکے مطابق اس مرتبہ ایک بارپھرایساہوسکتاہے۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 354102 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.