کیا ہم اک زندہ قوم ہیں ؟؟

پاکستان میں جب کرکٹ کا بخار ہوتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے زندگی و موت کا مسئلہ ہے۔ دل کی دھڑکیں تیز ، میڈیا کے خصوصی پروگرامز ، ماہرین کی آرا ء عوام کی جانب سے اہتمام ، غرض یہ ہے کہ ایسا لگتا ہی نہیں کہ پاکستان کسی مسئلے میں الجھا ہوا ترقی پزیر ملک ہے ۔ ہماری قوم کا مزاج سیمابی ہے ، ان کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ آخر یہ چاہتی کیا ہے ، ایک جانب اسلام کا نام کا جھنڈا لیکر اس قدر جذباتی ہوجاتے ہیں کہ جیسے وائٹ ہاؤس میں نہ سہی ، دہلی کے لال قلعہ میں جھنڈا ضرور گاڑ آئیں گے ۔پھر ایسا لگتا ہے ہے کہ ان پرمغرب کا بھوت سوار ہوگیا ہے اور سرخ گلاب لئے سمندر کنارے بیٹھ کر راہبہ اور اس کے عاشق کا غم بانٹتے نظر آتے ہیں۔ کبھی ایسے ہوجاتے ہیں کہ مغرب کی کوئی حرکت بری لگتی ہے تو بازار بند ، دکانیں بند ، ٹرانسپورٹ بند ہوجاتی ہیں اور جلسے جلوس کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، پھر اچانک یہی قوم مغربی تہواروں کے مواقع پر اخلاقیات کی تمام حدود پھلانگتی ہوئی تمام حدود و قیود کو پامال کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ پاکستانی قوم کامزاج اتنا عجیب ہے کہ سمجھوکوئی مزاج ہی نہیں ہے ۔ بھارت سے دشمنی بھی کرنا چاہتے ہیں اور گھر گھر بھارتی ثقافت کو بھی گلے سے لگایا ہوا ہے۔ ایسا کونسا گھر ہے جہاں کیبل کے ذریعے بھجن اور غیر اسلامی تہواروں کی رنگ بکھرے نہ ہو ۔ آج چودہ سو سال کی اسلامی ثقافت پر فخر کرنے کے بجائے ہم ہزاروں سال پرانی ثقافت پر سینہ چوڑا کرلیتے ہیں ، لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ آثار قدیمہ تو مقام و نشان عبرت ہیں ان سے سبق سیکھو کہ ہزاروں سال پہلے تم سے زیادہ ترقی یافتہ ہونے کے باوجود ، ایسی کیا افتاد پڑی کہ منوں مٹی تلے شہر کے شہر عوام سمیت دب گئے ۔ اگر ان کی تہذیب اس قدر قابل فخر تھی تو قدرت نے انھیں اپنے عتاب کا نشانہ کیوں بنایا ، وہ بھی اس طرح کہ آج بھی ان کے مکانات ، گلیاں چوبارے ، نظام آب رسانی و نکاسی سمیت نظام معیشت اپنی اصل حالت میں سلامت ہیں ۔لیکن ہم اپنے مزاج کے ہاتھوں غلام بنے ہوئے ہیں ۔

ہمارا کوئی مزاج ہی نہیں ملتون مزاج قوم ہیں ، کبھی ایک طرف جھکاؤ تو کبھی دوسری طرف جھکاؤ ، کبھی ایک کی مخالفت ، تو کبھی دوسرے کی حمایت ۔ کبھی ایک کے نعرے تو کبھی دوسرے لیڈر کیلئے نعرے ، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہماری قوم کا اصل میں کوئی مزاج ہی نہیں ہے ۔ بے حسی ، اغیار کی غلامی و نقالی ،جدیدیت کے نام پر اپنے اسلاف کبھی فخر تو کبھی تنقید۔ نہ جانے کیا کیا اور کیا سب ، کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ پاکستانی قوم کا مزاج کس کروٹ بیٹھے گا ۔کبھی تو کسی کو ہیرو بنا کر اتنا سر پر چڑھا لیتے ہیں کہ کھجور کو درخت کو آم کا پیڑ سمجھ لیا جاتا ہے ، کبھی اس کو اتنا نیچے گرا دیتے ہیں کہ نظریں بھی شرم کی وجہ سے اٹھنے کی قابل نہیں ہوتی ۔ من الحیث القوم ہم نے اپنے مزاج اپنے طریقوں اپنے سلیقوں پر کبھی غور ہی نہیں کیا ۔

پاکستان ، بھارت کے کرکٹ میچ کی ہار میں اس قدر بیمار ذہینیت ہے کہ جیسے بھارت کو ہرانے کے بعد کشمیر انھیں مل جائے گا ۔ بھارت تو جذبات کا کاروبار کرتا ہے لیکن ہم بھی اس کے ساتھ شیئرز ہولڈر ہیں ۔ عوام کا پارہ اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ اشتہاری کمپنیاں مہنگے نرخوں پر الیکڑونک میڈیا میں جگہ حاصل کرنے کی جنگ میں جت جاتی ہیں ، پاکستان سے نہ کھیلنے والی بچے والی ضد کرتی بھارتی عوام پانچ سو روپے کا ٹکٹ پانچ ہزار روپے میں خریدنے پر تیار ہوجاتی ہے ، اسٹیڈیم کھچا کھچ بھر جاتے ہیں ۔سب نفرتیں آناََ فاناََ ختم ہوجاتی ہیں اور اربوں کھربوں روپیہ عوام کی جیب سے آرام سے نکال لیا جاتا ہے وہ جلسے جلوس ریلیاں دعوے سب دھرے رہ جاتے ہیں۔

لسانیت ، صوبائیت کے گہرے بادلوں میں ہم بھی اس قدر گم ہوجاتے ہیں کہ ہمیں گھور اندھیرے کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ۔فرقہ واریت اور تعصب میں اس قدر اندھے ہوجاتے ہیں کہ کوئی روشنی بھی سیدھے راستے پر نہیں لا سکتی ، کچھ سمجھ نہیں آتا ہے کہ کس راستے پر چلنا ہے اور کس راستے پر رکنا ہے۔اس مزاج کے ساتھ ہم کس راستے پر ترقی کریں گے کم از کم میں تو اس سے نا بلد ہوں ۔ اغیار کی غلامی کے لئے پیروں میں کڑے اور زنجیریں ڈالنا ضروری نہیں ہیں بلکہ ان کی سوچ ان کی ثقافت اپنا لینا ہی کافی ہیں ۔ ہم نے کبھی ایک ہونے کی کوشش تک نہیں کی ، کرکٹ ایک کھیل ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں پانچ گھنٹے ، کان ، آنکھیں ایک جانب مبذول ہوجاتی ہیں اور پھر کسی نشئی کی طرح دنیا سے بے خبر ہونے کا نام زندگی کی خوشی حاصل کرنے کا جھوٹا بہانہ تراش لیتے ہیں۔ہم اگر مشینی زندگی بھی گزار رہے ہوتے تو بھی ہمارے پرزوں میں زنگ لگ چکے ہوتے کیونکہ ہم اپنی نقل و حرکت کے لئے بھی دوسروں کے اشاروں پر چلنے کی عادی ہوچکے ہیں۔دعو وں میں جان ہی نہیں بچی کہ اس کو کس پیرایئے میں اپنی پاکستانی قوم کیلئے اثر انگیز بنایا جاسکے ، مردہ دل کے ساتھ قوم کے مزاج کا نوحہ بھی نہیں پڑھا جاتا ، سینہ کوبی بھی نہیں کی جاتی ، گریبان بھی چاک نہیں کئے جاسکتے کیونکہ اس کیلئے بھی احساس کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمارے سامنے زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ آبی ذخائر کی کمی ہے ، لیکن کوئی تحریک کوئی ریلی اس کے لئے نہیں نکلتی کہ پہلے زندگی کی حیات کیلئے آب ذخائر کا بندوبست کیا جائے ، کچھ عرصے بعد زیر زمین پانی بھی ختم ہوجائے گا کیونکہ آر او پلانٹس اور بورنگ کے ذریعے زمین کو قتل کیا جا رہا ہے۔ ہماری سیاست کا محور ایک سے کرسی چھین کر خود اس پر بیٹھ جانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔روز بہ روز بڑھتی لوڈ شیڈنگ کے اب اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ وقت معلوم کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ، اس کمال مہارت کے ساتھ بجلی جاتی اور ٓاتی ہے کہ ایک سینکڈ کا فرق بھی نہیں ہوتا ۔ہم حقوق نسواں بل کے پیچھے مرے جا رہے ہیں ، پہلے حقوق انساں تو پورے کرلو ، حقوق نسواں خود بخود ملنا شروع ہوجائیں گے ۔ ہم نے حقوق انساں کو ہی چھوڑ رکھا ہے کہ انسان ہونے کے ناطے انسان کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔لاقانونیت کا دور دورہ ہے ، رشوت حلال سمجھ لی گئی ہے ، کمیشن حق سمجھ لیا گیا ہے ، چوری ایمان بنا لیا گیا ہے ،کام چوری فیشن بن چکا ہے۔ہم پھر بھی زندہ قوم ہیں ۔ ہزاروں سال کی ثقافت پر ناز کرنے سے کیا ہوگا ، ہم ہزاروں سال سے مردہ ثقافت کو آج بھی زندہ کر نے میں لگے ہوئے ہیں لیکن پہلے خود بھی جینے کے لائق ہیں کہ نہیں اس کا تو فیصلہ کرلیں ۔ہمارا شمار تو ان قوموں میں ہوسکتا ہے جن کا ذکر بھی کتابوں میں نہ ہوگا۔لاکھوں قومیں پیدا ہوئیں فنا ہوگئیں ، لاکھوں پیدا ہونگی اور فنا ہوجائیں گی ہم سب سمجھتے ہیں لیکن گونگے ، بہرے اور اندھے بنے ہوئے ہیں۔کس کا کیا منشور ہے کس کا کیا منشور ہے ، انسانیت کی فلاح کے راستے میں کون ناسور ہے ۔ ہم نہیں جانتے کیونکہ ہم جاننا ہی نہیں چاہتے۔اک قوم بننے کے دعوے کرنے سے پہلے اپنی ذات ، نسل ، عصبیت کو تو ایک طرف رکھ دو ، پھر مسلک اور فرقوں کی جنگ عظیم سے اپنا حصہ کم کرو اور ایک امت واحدہ بننے کی کوشش میں اغیار کی غلامی کا طوق اپنی گردن سے اتار نے کی کوشش تو کرو۔

ہم ثقافتوں کے امین اس وقت ہی بن سکتے ہیں کب ثقافت کو اس کے اصل رنگ میں دیکھ سکیں ، لیکن جب اپنی ثقافت کو ہم جانتے ہی نہیں تو ہزاروں سال نرگس اپنے بے نوری پر جتنا بھی رو لے ، چمن میں کوئی بھی دیدہ ور پیدا نہیں ہوگا۔فرق پڑے گا تو صرف اس بات سے کہ ہم سب سے پہلے یہ جان لیں کہ ہمارا مقصد حیات کیا ہے ، لاکھوں کیڑے مکوڑوں کی طرح کھانا پینا مرجانا ، یا پھر کسی مقصد کے تحت بھیجے گئے ہیں۔پاکستان کا نام صرف پاکستان نہیں تھا بلکہ یہ ایک استعارہ تھا کہ کس مقصد کے لئے حاصل کیا گیا ہے۔ہم نے اُس مقصد کو فراموش کردیا ہے اور اب ہم نہ سیکولر ہیں نہ لبرل ہیں ، نہ مسلم معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں ، ایک مرتبان میں مختلف اجزا ڈال کر سڑنے والے جز کو اَچار کا نام دے کر اسے چینی کی طرح استعمال نہیں کیا جاسکتا بلکہ ترش کسیلے انداز میں صرف چکھا جا سکتا ہے جس کا ذائقہ صرف چند لمحوں تک رہتا ہے۔ہماری روش ، ہمارے اقدار ہمارے رویئے سب اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ، ثقافتوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ، لیکن بنیادی اصولوں سے عاری قوم جس کا مزاج ہی سیمابی ہو وہ ان سرحدوں کی نگہبان کیسے بن سکتی ہے، جیسے تابندہ پائندہ شاد و آباد کے ترانے بھی درست نہ پڑھ سکتے ہوں اور جو اپنے ترانے کی طرح پاکستان بننے کے مقصد کو بھول چکی ہو۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 662141 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.