بدترین گناہ اور اس کی سزا

قرآن مجید کا واضح اعلان ہے :’’بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے ذلت آمیز عذاب تیار کیا ہے ‘‘:دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اور وہ لوگ جو اللہ کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔ اسی سلسلے میں قرآن کریم نے گستاخی رسالت کرنے والے بدبخت لوگوں کی سزا بتلاتے ہوئے واشگاف الفاظ میں حکم دیا:یہ لوگ ملعون ہیں جہاں ملیں انہیں پکڑا جائے اور اچھی طرح قتل کیا جائے ‘‘اور فرمایایہ ان کی دنیا کی ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ان کیلئے بڑا عذاب ہے‘‘۔

قرآن کریم کی ان آیات سے صاف واضح ہے گستاخی رسالت انتہائی بھیانک اور ناقابل معافی جرم ہے۔ دیانت وشرافت ہی کیا انسانیت واخلاق سے بھی حد درجہ گری ہوئی حرکت ہے۔ ایسے لوگ دائرہ انسانیت سے خارج ہو کر زندگی کے حق سے محروم قرار پاتے ہیں۔ مقام رسالت کا ادب تو یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کو عام انسان کی طرح خطاب کرنے اور عام لب ولہجے میں پکارنے سے منع کیا گیا اور اللہ کے رسول کو عام انسان کی طرح خطاب کرنا اگرچہ غیر شعوری طور پر ہی ہو تمام اعمال وکردار انسانی کے ضائع ہو جانے اور تمام اعمال تباہ وبرباد ہو جانے کا باعث ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’اللہ کے رسول کو اس طرح مت بلاؤ جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو، ہو سکتا ہے کہ اس طرح تمہارے اعمال غارت ہو جائیں اور تمہیں شعور ہی نہ ہو‘‘ تمام آسمانی ادیان اور اخلاقی قواعد وضوابط کے لحاظ سے تمام انبیاء کرام علیہم السلام ہر شخص کیلئے قابل احترام ہیں کسی دین ومذہب نے بھی اپنے پیروکاروں کو اس حرکت بد کی اجازت نہ دی ہے اور یہی دین اسلام اور قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ اس حرکت بد کا ارتکاب کرنے والے اسی لیے ناقابل معافی قرار پاتے ہیں اور ان کیلئے قتل کی سزا متعین کی گئی ہے تاکہ اگر کوئی بدبخت اس حرکت کا ارتکاب کر بیٹھے تو اس کو ایسی سزا دی جائے جس سے دوسروں کو عبرت ہو اور دوسرے لوگ غلیظ حرکت سے باز رہیں۔

سیرت نبویﷺ کا مطالعہ کرنے والوں پر مخفی نہیں کہ اُس دور میں بھی جب بعض لعنت زدہ افراد نے ایسی غلیظ حرکت کا ارتکاب کیا خواہ وہ مرد تھا یا عورت تو خود رسول اکرمﷺ نے اس کے قتل کا حکم دیا اور پھر خدائی قانون بھی اس موقع پر اس انداز سے حرکت میں آتا ہے کہ ایسا شخص اپنے انجام بد کو پہنچ کر رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرتے ہیں ۔ نبی کریمﷺ کے دور میں ایسے متعدد واقعات ہوئے مثلاً کعب بن اشرف یہودی گستاخی رسالت کا ارتکاب کرنے میں پیش پیش تھا نبی کریمﷺ نے اعلان فرمایا :’’کعب بن اشرف اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتا ہے تو کوئی ہے جو اس کا کام تمام کرے؟۔ یہ سن کر ایک جانثار وخوش نصیب صحابئ رسول حضرت محمد بن مسلمہؓ اس کا کام تمام کرنے نکلے اور اس ملعون کو انجام تک پہنچا کر واپس آئے اور رسول اللہﷺ سے رضا مندی وفلاح کی خوشخبری حاصل کی‘‘ اور کیو ں نہ ہو جب کہ پیغمبر کی توہین اور بے حرمتی ساری امت کی توہین اور بے حرمتی ہے لہٰذا ہرامتی کا فرض ہے کہ جب آپﷺ کی شان میں گستاخی سنے تو فوراً اس گستاخ کی جان لے لے یا اپنی جان قربان کر دے ۔ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ میں نقل کیا ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید نے جب امام مالکؒ سے نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کا حکم دریافت کیا تو امام مالکؒ نے جواب دیا: مابقاء الامۃ بعد شتم نبیہا
’’اس امت کی کیا زندگی ہے جس کے نبی کو(معاذ اللہ)گالیاں دی جائیں‘‘۔

فتح مکہ کے موقع پر جب نبی کریمﷺ نے عام معافی کا اعلان فرما دیا تھا مگر اس موقع پر بھی چند اشخاص ایسے بھی جن کے قتل کا حکم صادر تھا اگرچہ وہ غلاف کعبہ سے لپٹے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں ان میں سے بعض نے نبی کریمﷺ کے دربار میں حاضر ہو کر اگرچہ سچی توبہ کرکے جان بخشی کرا گئے جبکہ بعض بدبخت اپنے انجام کو پہنچائے گئے ان میں ایک عبداللہ بن خطل تھا یہ پہلے مسلمان ہوگیا تھا رسول اللہﷺ نے عامل بنا کر صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا ایک غلام اور ایک انصاری ساتھ تھے ایک منزل پر پہنچ کر ابن خطل نے غلام کو کھانا تیار کرنے کے لئے کہا غلام کسی وجہ سے سو گیا جب بیدار ہوا تو ابن خطل نے دیکھا کہ اس نے ابھی تک کھانا تیار نہیں کیا غصہ میں آکراس غلام کو قتل کر ڈالا بعد میں خیال آیا کہ آنحضرتﷺ ضرور مجھ کو اس کے قصاص میں قتل کریں گے مرتد ہو کر مکہ چلا آیا اور مشرکین میں جا ملا اور صدقات کے اونٹ بھی ساتھ لے گیا، آپ کی ہجو میں شعر کہتا تھا اور باندیوں کو ان اشعار کے گانے کا حکم دیتا۔ ابن خطل فتح مکہ کے دن خانہ کعبہ کے پردوں سے جا کر لپٹ گیا آپﷺ سے عرض کیا گیا کہ ابن خطل بیت اللہ کے پردہ کو پکڑے ہوئے ہے آپ نے فرمایا وہیں قتل کر ڈالو چنانچہ ابوبزرہ اسلمی اور سعد بن حریث نے وہیں جا کر قتل کیا اور حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اس کی گردن اڑائی گئی ۔

حویر ث بن نقیدیہ شاعر تھا اور رسول اللہﷺ کی ہجو میں شعر کہتا تھا اس لئے اس کا خون بھی حلال ہوا اور حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اس کو قتل کیا۔

حارث بن طلاطل یہ شخض آنحضرت ﷺ کی ہجو کیا کرتا تھا فتح مکہ کے دن حضرت علیؓ نے اس کو قتل کیا۔
شاتمین رسول میں ایک نام ابو عفک یہودی کا ہے۔رسول اللہﷺ نے سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ کو ابو عفک یہودی کے قتل کے لئے روانہ فرمایا۔ابو عفک مذہباً یہودی تھا بوڑھا تھا ایک سو بیس سال کی عمر تھی رسول اللہﷺ کی ہجو میں شعر کہتا تھا اور لوگوں کو آپ کی عداوت پر برانگیختہ کرتا تھا جب اس کی دریدہ دہنی حد سے گزر گئی تو یہ ارشاد فرمایا:من لی بہذا الخبیث کون ہے جو میرے لئے یعنی محض میری عزت وحرمت کے لئے اس خبیث کا کام تمام کرے۔ سالم بن عمیر نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میں نے پہلے ہی منت مانی ہوئی ہے کہ ابو عفک کو قتل کردوں گا یا خود مر جاؤں گا یہ سنتے ہی سالم تلوار لے کر روانہ ہوئے گرمی کی رات تھی کہ ابو عفک غفلت کی نیند سو رہا تھا پہنچتے ہی تلوار اس کے جگر پر رکھی اور اس زور سے دبایا کہ پار ہو کر بستر تک پہنچ گئی گستاخ رسول ابو عفک نے ایک چیخ ماری لوگ دوڑے مگر کام تمام ہو چکا تھا۔

اسی طرح عصمآء ایک یہودی عورت تھی جو رسول اللہﷺ کی ہجو میں اشعار کہا کرتی تھی اور طرح طرح سے آپ کو ایذا پہنچاتی تھی۔ لوگوں کو آپ سے اور اسلام سے برگشتہ کرتی بدر کے موقع پر نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کے اشعار کہے، عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ کو سنتے ہی جوش آگیا اور یہ منت مانی اگر اللہ کے فضل سے رسول اللہﷺ بدر سے صحیح سالم واپس آگئے تو اس کو ضرور قتل کروں گا۔

رسول اللہﷺ جب بدر سے مظفر ومنصور صحیح وسالم تشریف لائے تو حضرت عمیرؓ شب کے وقت تلوار لے کر روانہ ہوئے اور اس کے گھر میں داخل ہوئے چونکہ نابینا تھے اس لئے عصمآ کو ہاتھ سے ٹٹولا اور بچے جو اس کے اردگرد تھے ان کو ہٹایا اور تلوار کو سینہ پر رکھ کر اس زور سے دبایا کہ پشت سے پار ہو گئی ۔ نذر پوری کرکے واپس ہوئے اور صبح کی نماز رسول اللہﷺ کے ساتھ ادا فرمائی اور واقعہ کی اطلاع دی اور عرض کیا یا رسول اللہ مجھ پر اس بارے میں کچھ مواخذہ تو نہ ہوگا آپ نے فرمایا نہیں اس بارے میں دو بھیڑیں بھی سر نہ ٹکرائیں گی۔ یعنی یہ ایسا فعل ہی نہیں کہ جس میں کوئی کسی قسم کا اختلاف اور نزاع کر سکے انسان تو درکنار بھیڑ اور بکریاں بھی اس میں اپنے سینگ نہ ٹکرائیں گی۔ پیغمبر برحق کی شان میں گستاخی کرنے والے کا قتل کہاں قابل مواخذہ ہو سکتا ہے بلکہ یہ تو اعظم قربات اور افضل عبادات میں سے ہے جس میں کوئی نزاع ہی نہیں کر سکتا جانور بھی اس کو حق سمجھتے ہیں ۔خود رسول اللہﷺ حضرت عمیرؓ کے اس فعل سے بیحد مسرور ہوئے اور صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: اذا احببتم ان تنظرواالی رجل نصر اللہ ورسولہ بالغیب فانظروا الی عمیر بن عدی اگر ایسے شخص کو دیکھنا چاہتے ہو جس نے اللہ اور اس کے رسول کی غائبانہ مدد کی ہو تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو۔ جی ہاں حرمت رسول ﷺ کاتحفظ تیر و تلوار سے ہوتا ہے کعب بن اشرف یہودی،ابو عفک یہودی کے قتل سے لے کر یوسف کذاب کے انجام بدتک پوری تاریخ کا نقشہ ہمارے سامنے ہے۔

تاریخ کے اوراق گواہ ہیں جب بھی کسی گستاخ نے ایسی حرکت کی تو جانثاران رسالت نے اپنی جان پر کھیل کر انہیں جہنم واصل کیا اور یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ آج بھی اس سلسلے میں اگرچہ دیگر متعدد اقدامات بھی ضروری ہیں مگر اصل پہلو یہ ہے کہ اس قسم کی حرکتیں کرنے والے بدبختوں، اُن کے سرپرستوں، حامیوں اور انہیں اس بیہودہ حرکت کیلئے پلیٹ فارم مہیا کرنے والوں کو مسلمان اپنی جان پر کھیل کر اُن کی گردنیں تن سے جدا کر پھینکیں اور ان کے مقابلے کیلئے اور ان کی شان وشوکت کے خاتمے کیلئے دیوانہ وار جہاد پر نکل کھڑے ہوں تاکہ اجتماعی حیثیت سے ان کے دماغ کا وہ خناس ہی نکال دیا جائے جو آج ہماری کمزوری اور بزدلی کیوجہ سے انہیں بار بار اس حرکت بد پر جرأت دلا رہا ہے۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 344609 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.