زندہ لاشیں

 وہ آج کافی عرصے بعد ایک مرتبہ پهر امی کے پاس کسی ہارے جواری کی طرح بیٹهی نظر آئی اداسی چہرے سے صاف عیاں تهی ایک مرتبہ پهر کہانی کچہ روپ بدل کے اس کے پاس ہی آئی تهی اس کہانی اور کہانی کے بدلتے کرداروں کو" زینت" بہت بها جو گئی تهی تب ہی اس کی مجبوریوں اور محرومیوں کے خاتمے کے نام پر اسے بار بار پیوقوف بنایا جا رہا تها یا ایسا کہہ لیں کہ شاید وہ خود بیوقوف بن رہی تهی اسے سراب کے دریا پار اپنی منزل پوری شدت سے اپنا نام پکارتی بار بار نظر آتی اور وہ سراب کا دریا پار کر کے خالی ہاته لوٹ آتی میں نے زینت کا چہرہ دیکهتے ہی اندازہ لگا لیا تها کہ وہ کس کرب سے گذر رہی هے اور میں اپنے ذہن میں اس کی تسلی کے لئے الفاظ ترتیب دینے لگی -

زینت کہنے کو ایک کردار هے مگر ہم سب ارد گرد نظر دوڑایئں تو ایسے لا تعداد کردار نظر آئیں گے زینت ایک پچاس پچپن سالہ عمر کی ایک بیوہ خاتون ہے میٹرک کرنے کے بعد اچهے وقتوں میں سرکاری اسکول میں استانی بن گئی جبکہ آج تو ایم اے والے بهی سرکاری اسکول میں دهکے کهاتے نظر آتے ہیں زینت متوسط طبقے سے تعلق رکهتی هے چار بہنوں اور دو بهایئوں میں چوتها نمبر رکهنے والی زینت کو اس سے پوجهے بغیر ایک دوپہر اسکول سے واپسی پر بوڑهے آدمی سےرشتہ پکا کردیا گیا اور رخصتی چه ماہ بعد رکهی گئی اس کے آنسو اور احتجاج سب دم توڑ گئے اور زینت نے اس رخصتی کو اپنی قسمت کا لکها سمجه کے قبول تو کر لیا مگر احتجاج کے طور پر رخصتی کے بعد گهر والوں سے ملنا بند کر کے بیاہ کے دوسرے شہر آ بسی یہاں آکے اس پر انکشاف ہوا کہ بوڑہے کی چه جوان اولادیں بهی سنبهالنی ہوں گی جو کہ اسے کسی صورت ماں کے روپ میں برداشت کرنے کو تیار نہیں تهے اور شادی کے کچه عرصے بعد ہی معلوم ہوا وہ بوڑها بیمار تها اور اس کے دن گنے جا چکے تهے مگر پهر بهی زینت نے دیکه بهال میں کوئی کسر نہ چهوڑی اور ایک اچهی بیوی کی طرح گهرپورے تین سال سنبهالا جس کا صلہ بوڑهے آدمی کی آنکه بند ہوتے ہی جوان اولاد نے یہ کہہ کردیا کہ اب تمهارا ہم سے کوئی تعلق نہیں اور اس گهر کے دروازے تم پہ ہمیشہ کے لئے بند ہیں البتہ تهوڑی سی رقم مالی مدد کے لئے بهی ان بچوں نے اس شرط پر دی کہ وہ آئندہ اس گهر میں نہ آئے اسکول ملازمت اور تهوڑی بہت پس انداز کی گئی رقم سے اپنے دور پار کے مقیم رشتے داروں کے قریب ایک چهوٹا سا آشیانہ خرید کے زندگی کا آغاز کیا زینت کے ہاں کوئی اولاد بهی نہ ہو سکی تهی بهائی اور بہنیں اپنی شادیاں کر کے اپنی زندگی میں مگن تهے گهر والوں کی خیر خبر دور پار کے رشتے داروں کے ذریعے مل جاتی تهی مگر زینت غصے کی وجہ سے گهر واپسی کا نہیں سوچتی تهی باپ تو اس کی رخصتی سے پہلے ہی فوت ہو چکا تها اور ماں کے بیمار ہونے کی اطلاع پہ وہ اسکول سے چٹهیاں لے کر اپنے آبائی گهر لوٹ گئی اور بیمار ماں کی خوب خدمت کی مگر ایک ماہ کے اندر ماں بهی فوت ہو گئی اور بہن بهائیوں نے منہ پهیر لئے اور وہ اپنے آشیانے میں لوٹ آئی اسکول سے گهر گهر کے کام اور اپنے خدا کو یاد کرنے کے علاوہ کوئی کام نہ تها-

اس دوران کئی بار اس کی امید بنتی اور بنتے بنتے ٹوٹتی رہی جب کوئی مرد اپنے آپ کو کنوارہ یا پہلی بیوی سے علیحدگی کا کہہ کر اس سے شادی کا خواہش مند ہوا تو چهان بین پہ معلوم ہوتا کہ موصوف نے پہلی بیوی کو میکے بهیجا ہوتا یا پهر خود کو کنوارہ ظاہر کر کے اس سے کاروبار سیٹ کرانے کی شرط پہ شادی کے خواہاں ہوتے اور یہ چهان بین بهی دور پار کے قابل اعتماد رشتے دار ہی کرتے اور زینت کو حقیقت سے آگاہ کرتے رہے مگر مسلسل تنہائی احساس محرومی نے زینت کو ایسا جکڑا کہ وہ الٹا اپنے "خیر خواہ"رشتے داروں سے ہی متنفر ہو گئی اور اس کے دل میں یہ بات بیٹه گئی کہ یہ نام نہاد رشتے دار بهی اس کی جمع پونجی ہڑپ کرنے کے چکر میں اس کا رشتہ نہیں کروارہے اور وہ لوگوں سے مزید دور ہو گئی لوگ بهی اس کا رویئہ دیکه کر پیچهے ہٹ گئے اب وہ آس پڑوس میں اپنا دل ہلکا کرتی هے اور اس کے ساته اب بهی کئی اور سہیلیاں اسے اکیلا سمجه کر کئی مرتبہ رشتہ ہونے کے نام پہ لوٹ چکی ہیں مگر اسے نہ جانے کیوں اس بے حس معاشرے سے اتنی امید هے کہ رشتہ کے دهوکے میں وہ ہر دو دن بعد پارلر جا پہنچتی هے اور حتی کہ آس پڑوس میں سب کو اپنی شادی کے لئے ایڈوانس میں "تیاری کر کے رکهو" کا نعرہ لگا کے بوجهل دل کو اور بهی بوجهل کر جاتی هے اس کے بقول بی بی خدیجہ رضی اللہ کی بهی ادهیڑ عمری میں بهی شادی ہوئی تهی اور ہم مسلمان ہیں میں پنج وقتہ نمازی اور حلال کمائی کهانے والی غیرت مند عورت ہوں مجهے بهی کوئی معقول دوسرا شادی والا مرد مل جائے گا مگر زینت کو کیا معلوم مسلمان اب صرف نام کے ہی ہیں باقی تو ہم اپنی مرضی کا طرز زندگی اپنا کے زور دار خالی مسلمان ہونے کے نعرے لگانے والی قوم ہیں سمجه نہیں آتا اس کی معصومیت پہ ہنس دے بندہ کہ رو دے

کبهی سوچتی هوں کہ ایسا اگر ممکن ہوتا کہ مٹی کے بت بنا کے رکهے ہوئے اگلے دن زندہ چلتے پهرتے ہو سکتے تو زینت اور باقی زینتوں کے لئے ان سے پوچه کر من بهاتے مٹی کے زندہ مادهو تیار کرتی جو ان زندہ لاشوں کی بقیہ سانسوں میں اک نئی روح پهونک دیتے جینے کی وجہ بنتے مگر مجهے معلوم هے کہ یہ کتابی باتیں ہیں جو دل بہلانے کو اچهی ہیں اللہ تعالی ایسی تمام زینتوں کی زندگی میں خوشیاں بهر دے اور اگر یہ خوشیاں ان کے لئے شجر ممنوعہ هے تو ان کو بہت عمدہ صبر عطا کردے جس سے کم سے کم وہ روز جینے اور روز مرنے کی کیفیت سے آزاد هو سکیں ثم آمین-
Anum Ahmed
About the Author: Anum Ahmed Read More Articles by Anum Ahmed: 7 Articles with 6004 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.