لاہور کے اندھیرے

میڈیا اور ٹی وی کے مطابق اندھیروں کے بعدہم روشنی کے سفر کی طرف گامزن ہیں۔یہ روشنی معاشی و ملکی لحاظ سے توہو سکتی ہے لیکن نئی نسل اورعوام کی گمراہی کے لحاظ سے ایک کرن بھی ثابت نہیں ہو سکتی۔پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں رات کے اندھیروں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس قدر بھیانک اور خوفناک ہے کہ اُسکا ذکرکرتے ہوئے بھی میڈیا مالکان ڈرتے ہیں۔یہ بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جس طرح ٹی وی پر اینکر،تجزیہ نگاراور دیگر،سیاستدانوں کے بارہ میں بیانات دیتے ہیں اور نجانے کہاں کہاں سے گرما گرم جاسوسیاں نکال لاتے ہیں عین اُسی طرح کسی بھی ایک شہر میں رات کے اندھیروں میں ہونے والی ڈانس پارٹیوں،مجروں کی محفلوں اور زنا خانوں کے بارہ میں سرعام بولیں تو اِن میں سے کوئی زندہ نہ بچ پائے۔کیونکہ رات کے اندھیروں میں شہر یوں کو جگانے والا مافیا سسٹم اس قدر مضبوطی اختیار کر چکا ہے کہ جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔اعلیٰ قیادتیں،اعلیٰ سیاستدان،اُمرا،تاجران اور اشرفیا تقریباًسبھی اس مافیا سسٹم کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں چیف منسٹر تو کافی ہیں لیکن ہم سب سے زیادہ شور مچانے والے خادم اعلیٰ پنجاب کے شہر لاہور کی بات کرتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ چند ہی سالوں میں خادم اعلیٰ نے پورے شہر کا نقشہ بدل دیا ہے۔بزرگ لوگ لاہور آکر پریشان ہو جاتے ہیں کہ وہ شاید اسلام آباد میں آ گئے ہیں۔نئی عمارتیں،نئے راستے،نئے پُل،نئے نئے نام وغیرہ وغیرہ۔لیکن اب اگر ہم لاہور کے اندھیروں کا ذکر کریں تو کراچی سے اسلام آباد تک لاہور سے غلیظ شہر کوئی بھی نہیں۔پورا پاکستان سوشل میڈیا پر شور مچاتا ہے کہ اسلام آباد بہت زیادہ ماڈرن ہے اور بُرائی کا گھر ہے۔لیکن لاہور کے مقابل بات کریں ،کئی سو اسلام آباد بھی لے آئیں تو کم ہیں۔لاہور میں راتوں کو ہونے والی محفلوں میں جس طرح سرِعام بُرائی اور بے حیائی کی جاتی ہے اُس کی مثال آپکو کہیں نہیں ملے گی۔پورے شہر میں اُمراء نے فارم ہاؤس بنا رکھے ہیں اور بظاہر اپنی آرام گاہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں،لیکن جناب!قصہ کُچھ اور ہی ہے!!!اپنے دوستوں،عزیزو اقارب اور گراہکوں کے لئے عیاشیوں کے اڈے قائم کئے گئے ہیں جن میں نہ صرف عام لوگ آتے ہیں بلکہ بڑے بڑے منسٹر بھی محفلوں کے مزے لوٹنے آتے ہیں۔اُن محفلوں میں ناچ گانے کے علاوہ اہتمامِ شراب اور خاص طور پر تین سے چار افراد ایسے بٹھائے جاتے ہیں جو نئے نوٹ فراہم کرتے ہیں تاکہ مجرا کرنے والی رقاصاؤں پر پھینکے جا سکیں۔پھر جس طرح بابائے قائد اعظم زمین پر پاؤں کے نیچے رُسوا ہوتے ہیں،سوچتے بھی دل شرم سے دھیما ،آنکھیں نم اورجسم لرز جاتا ہے۔پھر اُنہی محفلوں کے اختتام پر اُمراء،منسٹر،تاجراور دیگر عیاش لوگ اپنی پسند کی ڈانسرز کو اپنا بستر گرم کرنے کے لئے ساتھ بھی لے جاتے ہیں۔لاہور کے اندھیروں میں ہونے والی اِن ڈانس پارٹیوں کے علاوہ چھوٹے موٹے فحاشی کے اڈوں پر جو سب سے گھناؤنا فعل سرزد ہوتا ہے وہ ہے نئی نسل کے لئے فحاشی تک بآسانی رسائی۔کم عمر نوجوانوں کو گمراہ کرکے فحاشی کے فعل میں ڈال دیا جاتا ہے،شروع شروع میں بغیر معاوضے کے اُنہیں رقاصاؤں کے چکر میں لایا جاتا ہے اور بعد میں وہ اپنی حسرتیں پوری کرنے کے لئے روپے پیسے چاہے وہ کسی بھی طرح اور کہیں سے بھی حاصل کرنے پڑیں، لے آتے ہیں۔یہ ایسا فعل ہے جس سے آنے والی نئی نسل کو شدید خطرہ ہے۔نئی نسل پہلے ہی انٹر نیٹ اور موبائل فون کی تباہ کاریوں کا شکار ہے۔ اوپر سے برائے راست فحاشی کے اڈے مل جائیں تو یہ نسل تیزی سے گمراہی کی طرف گامزن ہو جائے گی اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ نشہ ہے جس کی خاطر نوجوان کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جائیں گے بھلے وہ بڑے سے بڑا جرم ہی کیوں نہ ہو۔

گذشتہ کئی سالوں سے ہم جمہوریت کا رونا رو رہے ہیں لیکن اگر ہم اپنے جمہوری نمائندوں کی بات کریں تو ہمیں اُدھر بھی لوٹ مار اور فحاشی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔معاملہ پارلیمنٹ لاجز کا ہو یا شراب کی بوتلوں کاہمارے جمہوری نمائندے اندر سے شدید گندے ہو چکے ہیں۔ایسے میں اگر ہمارے وہ علماء جو سیاستدانوں کے حامی ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس وقت اعلیٰ قیادت سنبھال کر معاشرے کو بہتر راستے پر چلا سکتے ہیں تو یہ وہ آستین کے سانپ ہیں جو نہ صرف معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا کریں گے بلکہ عین ممکن ہے کہ یہ لوگ اپنے فحاشی کے اڈے بنا کر معاشرے کو گھسیٹ گھسیٹ کر اُن اڈوں میں لائیں اور ان نام نہاد علماء سے یہ بھی بعید نہیں کہ اپنے فحاشی کے اڈوں کے بارہ میں فتوے جاری کر دیں کہ اُن میں جانا گُناہ نہیں(نعوذباﷲ)۔اس زہریلی بیماری کا علاج صرف یہ ہے کہ جس طرح فوڈ ڈیپارٹمنٹ میں ایماندار افسر بھرتی کرکے پنجاب بھر میں غلیظ خوراک بیچنے والوں کو سیل کیا جا رہا ہے اسی طرح ایماندار افسر بھرتی کرکے فحاشی کے اڈوں کو بند کیا جائے اور شہروں میں بنے ہوئے تمام فارم ہاؤسز سیل کئے جائیں اور اس جرم میں پکڑے جانے والوں کو کڑی سزا دی جائے تاکہ وہ آئندہ اس بد فعلی سے دور رہیں۔
Inam Ul Haq
About the Author: Inam Ul Haq Read More Articles by Inam Ul Haq: 9 Articles with 5447 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.