جیسی رعایا ویسے حکمران

دبلا پتلا سمارٹ کوتاہ لڑکا روز چوک میں آتا تھا، گاڑی کھڑی کرتا اور زورداز انداز میں چیخ چیخ کر روزانہ کی بنیاد پر ٹریفک وارڈنز کو برا بھلا کہتا تھا اور عین چوک میں گاڑی لگاتا اور کبھی راشی کہتا اور کبھی حرام کی اولاد کہتا اور کبھی ماں بہن کے بارے میں بھی برے الفا ظ کہتا ۔ دیکھنے میں انتہائی شریف النفس یہ لڑکا ہر ٹریفک وارڈن والے کو تنگ کرتا اور پنجاب کانسٹیبلری کے ہر اہلکار اور ہر آفیسر کو برا بھلا کہتا پھرتا تھا اور اپنے گاؤں کی بہادری کے قصے سنا سنا کربیچارے پولیس افسران اور اہلکاروں کو ستاتا اور ڈراتا دھمکاتا تھا۔ معمول کے مطابق آج بھی اس نے شرمناک انداز میں اونچا اونچا قانون کے محافظوں کو ناپاک و نامراد کہنا شروع کردیا اور للکارپہ للکار ایسی کہ خدا کی پناہ جیسے پورے لاؤ لشکر کیساتھ ٹریفک اہلکاروں پہ ٹوٹ پڑے گا ۔یہ بد مزاج لڑکا راجہ بازار سے چراہ روٹ کی ترپال والی سوزوکی چلاتا تھا، یہ سوزوکی ڈرائیور تھا، ہڈ حرام اتنا کہ ر وزانہ کوئی نہ کوئی ٹریفک رول توڑتا، اور کبھی چالان نہ بھر تا اور ٹس سے مس نہ ہوتا۔کہاوت ہے بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی یا پھر کہا جائے کہ " پولیس والوں کی قربت اور باالخصوص پنجاب پولیس کی چھترول سے بچو" ۔ قسمت کا مارا بیچارا لڑکا ایک دن پھر سے شیر بن کر گرجا اورچوک میں پہنچ کر پولیس والوں کو غلیظ گالیاں دینے کیساتھ ساتھ انتہائی نازیبا اورناشاستہ باتیں کرنے لگا ، میں جیسے ہی صادق آباد چوک پہنچا ،کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نوجوان ہاتھ میں ڈنڈا لیے ٹریفک پولیس والوں کو اپنی سوزوکی کے ساتھ لٹک کر پریشر ڈال رہا ہے اسی دوران ایک اور ٹریفک وارڈن آتا ہے اپنا بائیک سائیڈ پر لگاتا ہے اور کہتا ہے ہاں جی "کیڑا بدمعاش ہے " یہ بات کہنے کی دیر تھی کہ اس لڑکے نے آوازیں کسنا شروع کر دیں بس پھر وہ تھا اور صادق آباد چوک میں کھڑی عوام ، ٹریفک واڑدن نے لاتیں مکوں گھونسوں سے وہ درگت بنائی کہ اسکے منہ سے خون کا فوارہ چھوٹ گیا لیکن وہ لڑکا تھا کہ مار کھا رہا تھا اور گالیاں دے رہا تھا ،اسی دوران اسکی قمیض بھی اتر گئی اور برابرمیں واقع تھانہ صادق آبادکی گاڑی فٹ سے آئی او ر اس میں سے پنجاب پولیس کے دوچاق و چوبندگھبرو اہلکار نکلے اور خوب برس کر ہاتھ صاف کیے اور لڑکے کو لاد کر لے گئے ۔نتیجتاََ لڑکا ذلیل و رسوا ہوا جیل کی ہوابھی کھائی اور چوراہے کی بیچ و بیچ کی پولیس کاروائی سے پولیس والوں کی غنڈا گردی بھی عوام نے بڑے شوق سے موبائیل کیمروں میں عکسبند کی۔

"مثال جیسی رعایا ویسے حکمران ا" اور" جیسا دیس ویسا بیس "صدفیصدعملاََ درست محاورے ہیں جنکا مطلب ہے جیسی عوام ہوگی ویسے ہی حکمران ان پر مسلط ہونگے،تاریخ کے اوراق کو کھنگالا جائے تو ہر ورقہ حکمرانوں کے کالے کارتوتوں سے کالا نظر آئیگا ، انکے گناہوں سے لبریز ہر ورق عوامی چناؤ کو کوس کوس کر کہہ رہا ہو گا کہ اس سے بد ترین حکمران نہیں ملے تمہیں چناؤ کے لیے؟بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ہر کتاب کے پہلے دو یا تین اوراق میں پیش لفظ، دیباچہ، تعارف، مقدمہ وغیر ہ بھی جھانک جھانک کر صدائے حق بلند کرنے کی جسارت کر رہے ہوتے ہیں کہ خدارا ان ظالموں کی داستانیں پڑھنے کے بعد معاشرے کے بے حس کرداروں کو ووٹ دینے سے توبہ تائب ہو جاؤاور اپنے لیے ایسے جمہوریت پسند افراد کا انتخاب کرو جن میں خوفِ خدا اور انسانیت سے پیار کا جذبہ موجزن ہو۔زندگی میں ایک بار اپنے ہوش و حواس میں اردو کے رحمان بابااور شاعری کو بامِ عروج بخشنے والے عشق مجازی کے عظیم شاعر فراز احمدؒ سے ملاقات کا موقع ملا جب وہ بھاروہ کہو میں کچھ عرصے کے لیے مقیم تھے اور میں اپنے کچھ اساتذہ کیساتھ وفد کی شکل میں ان سے ملنے چلا گیا، اس وقت میری عمر بمشکل سولہ سترہ سال تھی ،موقع غنیمت جان کر میں نے بھی ایک سوال احمد فراز ؒ سے داغ دیا کہ عوام میں مایوسی ہے اور آپ عجب و غریب شاعری کرتے ہیں جو دلوں پر اثر کیساتھ ساتھ محبتیں بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہے، مجھے اب ایگزیکٹ الفاظ تو یاد نہیں کہ انکے جواب کے الفاظ کیا تھے لیکن اسکا مفہوم مجھے یاد ہے انہوں نے کچھ توقف کے ساتھ جواب دیا " دیکھو بیٹا ہمارے حکمران تو خود نہیں آئے انہیں اسمبلیوں اور ایوانوں میں بیٹھانے والی طاقت کا سرچشمہ تو عوام ہے" ۔

ہاں! یہ عوام ہی ہے جو حکمرانوں کو ہیرو سے زیرو اور زیرو سے ہیر و بناتی ہے ، مشرف صاحب جب تھے تو میرے سمیت سب راگ الاپتے تھے اور گن گاتے تھے کہ جنرل صاحب نے بلدیانی انتخابات کرا کر اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کر کے بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے اور تعمیر وترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔گاؤں گاؤں ، قریہ قریہ ، گلی گلی پکی ہوئی اور راستے بنے اور اسلام آباد کو دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک بنایا اور سابق چیئرمین سی ڈے اے کامران لاشاری نے مشرف دور میں ہی ایف نائن پارک، انقرہ پارک، لیک وی پارک اور بے شمار پارکس، ہائیکنگ ٹریکس، منال ریسٹورنٹ وغیرہ بنائے لیکن جس دن جنرل مشرف نے اپنے دونوں اقتداروں کو خیر آباد کہا تو عوام نے انہیں نہ صرف برا بھلا کہنا شروع کردیا بلکہ لال مسجد ، بگٹی قتل، مسنگ پرسنز،امریکہ سے قرضے لے لیکر عوام کو سبسٹدی دینے ، امریکہ کو اڈے دینے کے علاوہ نا جانے کون کونسے سے الزامات بھی انہی کے سر ڈال دیے۔ ایک بار پھر نا سمجھ بھولی بھالی عوام نے پانچ سال کے لیے زرداری کو ٹائم دیا کہ وہ آئیں اور پھر سے اپنے محلات بنائیں اور عوام کا خون چوسیں ۔ میرے مطابق اگر عوام یا ووٹر کی تعریف کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ" پاکستانی عوام کی روح میں ہر وہ اسم مذکر یا مونث جو بے دل و دماغ، بے حس، ناسمجھ ،کم فہم، جذباتی، سوچ وسمجھ سے عاری ہو، داخل ہے"
ہماری یہ پیاری پیاری عوام ہی ہے جو سانحہ صفورہ کے پیچھے کھڑی نظر آتے ہیں اور مجرموں کو بے نقاب کرنے سے روکتے ہیں ، یہ عوام ہی ہے جو راستے اور روڈبلاک کر کے املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، یہی عوام ہے جو ہمیں ہر بار کبھی عمران خان دھرنے کی شکل میں توڑ پھوڑ کرتی نظر آتے ہیں ، کبھی بے نظیر کی شہادت پر ملک میں جلاؤ گھراؤ کا علم بلند کرتے ہیں، کبھی فتنہ و فساد کی صورت کیصورت میں کشت و خون کرنے کو دوڑتے ہیں ، کبھی مسلکی و فروعی اختلافات میں باہم دست و گریباں ہو جاتے ہیں، کبھی مذہبی منافرت کی بو پھیلا کر ایک دوسرے کو زندہ جلا ڈالتے ہیں، یہی عوام ہیں جو دھوکہ دہی، جھوٹ، غیبت، چغل خوری، لعن طعن، زیادتی ، حقوق العباد پر ڈاکہ ، قتل و غارت گری ، زنا ، رشوت خوری اور اجتماعی طور پر ہر اس گناہ میں ملوث نظر آتے ہیں جس سے اﷲ اور اسکے رسول ﷺنے منع فرمایا ہے۔

ہمیں اپنے انفرادی اعمال و افعال کی سوچ سے آگے نکل کر اجتماعی سوچ اور فکر کو پروان چڑھانا ہو گا جوکہ ایک مثبت معاشرے کی تعمیر اور اسکے اہداف کی تکمیل کی جانب پہلا قدم ہو گا ۔ ہمیں اپنے اخلاقیات میں برتری لانا ہو گی، اخلاقی بشری تقاضے پورے کرنے ہونگے تب کہیں جاکر دنیا بھر کی اقوام میں ہمار ا بھی کوئی پرسان حال ہو گا ، نہیں تو معاشی ، معاشرتی برائیوں کیساتھ ساتھ اخلاقی رویوں میں بھی ہم بد ترین قوموں میں شمار ہونے لگیں گے ۔ میں نے چند دن پہلے ایک ورکشاپ اٹنڈ کی جسمیں ہر قسم کے موضوعات زیرِ بحث آئے لیکن ہر موضوع کا نتیجہ اور ٹارگٹ حاصل کر نے کا ذریعہ اور کامیابی کا راز صر ف اور صرف " اچھے اخلاق " بتایا گیا۔
Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 99752 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.