نظریۂ پاکستان اور لبرل ازم

پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے،جو ایک نظریہ کے تحت وجود میں آیا،نظریہ پاکستان کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان بحیثیت مسلمان اپنے عقائد،مذہبی عبادات،رہن سہن،رسوم ورواج اور رویوں کی وجہ سے ہندوؤں سے الگ ایک قوم ہیں۔مسلمان اپنی آزاد مملکت صرف اس لئے چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی مذہبی اقدار اور قوانین کے تحت زندگی بسر کر سکیں، پاکستان کے قیام کا اصل مقصد اسلام کا نفاذ تھا، لیکن ہم نے عملا ً ایک مختلف راستہ اختیار کر لیا ہے۔سوشلسٹ ذہن رکھنے والے پاکستان میں ہمیشہ اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے کوشاں رہے اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔وہ عام لوگوں کو اس بات پر تقریباً قائل کر چکے ہیں کہ اسلام کا احاطہ دینی فرائض کی بجاآوری تک محدود ہونا چاہئے،یعنی نماز پڑھ لیں ،روزہ رکھ لیں اور حج کر لیں ،بس دین کو اس حد تک رکھا جائے،حالانکہ اسلام ایک مکمل دین ہے ،یہ سیاسی ،معاشی ،اقتصادی،تہذیبی،اخلاقی،خارجی اور داخلی سطح پر ہر جگہ رہنمائی کرتا ہے، یہاں تک کہ خاندانی زندگی کی بھی مکمل تربیت دیتا ہے ۔اسلام کو صرف عبادات تک محدودکر دینے کا مطلب ہے کہ اسے پورے طور پر قبول نہیں کیا گیا۔

اس نام نہاد لبرل طبقے نے قوم میں تعلیم کی کمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف بیرونی ایجنڈے کومسلط کیا، بلکہ لسانی اور نسلی اختلافات کو ہر ممکن ہوا دی، جس کی وجہ سے صوبائیت پیدا ہوئی ہے، اس کے پیچھے اندرونی اور بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہے ،جو پاکستان کی مسلم قومیت کے ازلی دشمن ہیں۔نظریۂ پاکستان ان کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔وہ ہمیں کسی صورت میں ایک قوم بنتے نہیں دیکھ سکتے،کیونکہ اس طرح اُن کے گھناؤنے مقاصد پورے نہیں ہوں گے۔ِمحب وطن عناصر یہ ہر گز برداشت نہیں کر سکتے کہ قومیت اور نظریۂ پاکستان کمزور ہو جائے، اگر ایسا ہوا توپاکستان کی بنیادوں کے ہل جانے کا خطرہ ہے ،جب بھی یہاں غیر اسلامی اور لبرل سوچوں کا پرچار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو ملک و قوم سے محبت کرنے والوں کو ملک خطروں میں گھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس بیرونی لبرل سوچ سے اسلام کو ہی نہیں بلکہ ملک کی سا لمیت کو بھی خطرہ ہے۔

ہمیں اپنی سوچنے سمجھنے کی تمام ترصلاحیتوں کو بروکار لاتے ہوئے خود کودرست سمت میں گامزن کرنا ہو گا،ہمیں صرف اپنے لئے نہیں، بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کی بہتری کے لئے ایسی منفی سوچ کا مقابلہ کرنا ہو گا،یہ کسی ایک کی نہیں ،بلکہ تمام مکا تب فکر کی ذمہ داری ہے ،کہ وہ یکجان ہوکر ان مغربی رویوں کو ناکام بنائیں۔آج ہم اپنی اصل اقدار اور اسلامی رویوں کو چھوڑ کر دوسروں کی سوچ کے پیچھے چلنے کو ترجیح دیتے ہیں،ہمیں اُن کی سوچ میں آزادنہ خیالات کے ساتھ اپنی نفسانی خوہشات کی تکمیل نظر آتی ہے،ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس آزادانہ سوچ کے نرغے میں آکرنہ صرف یہ کہ اپنا معاشر ہ تباہ کر لیں گے،بلکہ اپنی آخرت کو بھی داؤ پر لگا لیں گے۔ ہم بہت سے فیصلے اُس وقت کرتے ہیں جب وقت گزر جاتا ہے ،ہم کسی بھی مسئلے کا حل نکالتے وقت اُس کی جڑ کو نہیں پتوں کو پکڑتے ہیں،ہمارے قول وفعل میں تضاد کے باعث منافقت ہماری فطرت کا حصہ بن چکی ہے۔

ہمارے ہاں ہر دور میں حکمرانوں کاانداز شاہانہ رہا ہے ،مگریہ دور ’’سلطانی‘‘ہے، لیکن اسے جمہوری دور کہا جاتاہے ،ہر پل عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے ،اگر کوئی ان سے اختلاف کرتے ہوئے آواز بلند کرتا ہے، تووہ مفاد پرست حواریوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کو بچانے کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں ،اپنی لوٹ مار،غلط انداز حکمرانی اور اپنے حاشیہ برداروں کو کھلی چھوٹ دینے کی وجہ سے کسی دوسرے کا احتساب بھی نہیں کر پاتے،جمہوریت کے استحکام کے نام پرمجرموں کی پشت پناہی کرتے ہیں،اربوں روپے کے سکینڈلز کو نہیں چھیڑتے،لیکن اگر کوئی غریب اور مجبور شخص اپنی تنگ دستی کی وجہ سے چند ہزار کا ڈیفالٹر ہوجائے تو اس کی زندگی کو اجیرن کر دیا جاتا ہے اور شور مچایا جاتا ہے کہ ’’ہم سب کا احتساب کرتے ہیں‘‘کا نعرۂ مستانہ بلند کر دیتے ہیں۔ جمہوریت پٹری سے نہ اتر جائے،ملک دشمنوں کو کیفرِ کردار تک نہیں پہچایا جاتا،کہیں جمہوریت ڈی ریل نہ ہو جائے ،ضروری قانون سازی نہیں کرتے تاکہ جمہوریت کو نقصان نہ ہوجائے،ہم اپنے’’سلطانی ‘‘ انداز سے خوش نہیں ،لیکن جمہوریت کو بچانے کے لئے یہ سب کرنا پڑتا ہے۔ ہم بڑے شہروں میں پلوں ، برجوں،سڑکوں ،اورنج ٹرین،میٹرو ، رکشہ سکیموں ،ٹیکسی سکیموں ،کے لئے تو وسائل ڈھونڈ لیتے ہیں، مگر صحت، تعلیم ،بیروز گاری اور غربت کے خاتمے کے لیے وسائل نہیں ملتے۔ہم سے زیادہ غریب عوام کا دردِ دل رکھنے والا کوئی نہیں ،لیکن انہیں روزگار کے مواقع نہیں دے سکتے ،کیونکہ ہمارے وسائل نہیں ۔ ہم ہر شہری کو گھر دینا چاہتے ہیں،لیکن وسائل نہیں ، ہم عوام سے ملتے نہیں، لیکن عوامی مسائل سے باخوبی واقف ہیں ،ہم عوام کے خادم ہیں ،عوام ہی ہماری حاکم ہے۔یہ تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے اور ان میں کام کرنے والے تمام اہلکار عوام کے خادم ہیں،کیونکہ انہیں عوام کی جیب سے حاصل کئے گئے ٹیکس سے ہی ان سب کی تنخواہیں اور مراعات دی جاتیں ہیں، ملک کا چلنا عوامی پیسے سے ہوتا ہے ،حکمران ہی عوام کے نمائندے ہیں ،اسی لئے عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔

ان جمہوری مداریوں نے عوام کوگزشتہ 68سال سے ’’بچہ جمورا‘‘ بنا رکھاہے،مگر اس کی باوجود عوام کوان کی منافقت سمجھ نہیں آ رہی ، انہیں چند دلائل دے کر کسی بھی جانب کیا جا سکتا ہے۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے حقیقی فرائض کا احساس نہیں ہے۔ہر شخص اپنے مفاد کے لئے ملک و قوم کو تباہ کرنے پر تُلا ہے ، یہ چور بازاری ،سمگلنگ ، رشوت ستانی ، ذخیرہ اندوزی، نا جائز منافع خوری ،قبضہ مافیا وغیرہ اسی لئے مادر پدر آزاد ہیں ،مگر کوئی ہاتھ روکنے والا نہیں ہے، جو لوگ ان کے لئے اور ان کی آڑ میں جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، اگر ان کے خلاف کارروائی ہو تو سفارشیں پہنچ جاتی ہے ،کیونکہ اقتدارپر بیٹھنے والے ایسے ہی لوگوں کی مدد سے الیکشن جیت کر آتے ہیں۔

عوام پاکستان بننے کے بعد سے اب تک ڈکٹیٹرشپ اورجمہوریت کے درمیان پیس رہے ہیں، مارشل لاء میں وقتی طور پر تمام معاملات درست نظر آتے ہیں ،کیونکہ پیچھے ’’ڈنڈا‘‘ ہوتا ہے۔دوسری جانب جمہوریت کے حق میں دلائل دے کر یہ ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کی جاتی ہے کہ ’’بُری سے بُری جمہوریت بھی ڈکٹیٹر شپ سے ہزار درجے بہتر ہے ‘‘……مگر عوام کی بدقسمتی ہے کہ نہ تو ڈکٹیٹر شپ میں ان کی زندگیاں آسان ہوئی ہیں اور نہ ہی جمہوریت میں ان کا بھلا ہوتا ہے، وہ روز بروزپہلے سے بھی زیادہ مجبوریوں اور پریشانیوں کے شکار ہوتے جاتے ہیں……اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دونوں طرز حکمرانی میں اقتدار چند طبقات یا چند خاندانوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنا رہتا ہے، جس سے وہی لوگ اور ان کے چند حواری مستفیض ہوتے ہیں ، جبکہ بھوک ننگ ، بیماری اور پریشانیاں ہی باقی قوم کا مقدر بنی رہتی ہیں۔ اس مسئلے کا اصل حل تو صرف یہی ہے کہ اقتدار جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ،وڈیروں سرداروں ،لغاریوں ، ٹوانوں ، زرداریوں اور اسی طرح کے دیگر خاندانوں اور طبقات سے چھین کر صحیح معنوں میں عوامی طبقات کے ہاتھوں میں منتقل کر دیا جائے ،کیونکہ جمہوریت کا اصل حسن ہی یہ ہے کہ عوام کی بھلائی، عوام کے لئے ہوتی ہے۔ہمارے آباؤ اجداد نے بہت بڑی قربانیاں دے کر ،ہمیں ایک نظریاتی مملکت دی ،لیکن ہم آنے والی نسلوں کو کیا دے رہے ہیں، ہمیں انہیں نہ صرف نظریۂ پاکستان کی اہمیت اور حقیقت سے آشنا کرنا ہو گا، بلکہ اس کی حفاظت کرتے ہوئے،آئندہ نسل میں منتقل بھی کرنا ہو گا، ہماری یہی پختہ سوچ وقت کی ا ہم ضرورت اور ملک و قوم کا مستقبل ہے۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95982 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.