خودی

میں جب بھی زندگی میں مایوس ہونے لگتا ہوں ۔جب بھی میرے گرد پریشانیاں گھیرا تنگ کرنے لگتی ہیں۔ جب بھی مجھے اپنے خالق سے گلے شکوے پیدا ہونے لگتے ہیں ۔جب بھی خودساختہ محرومیاں ستانے لگتی ہیں تو میں اپنا موبائل آن کرتاہوں اور بابر علی نامی جوان کا حافظ زاہد نامی نابینا کے بارے میں بنا ہوا شارٹ کلپ دیکھ لیتا ہوں۔یہ کلپ مجھے ازبر ہو چکاہے لیکن ہر دفعہ دیکھنے پر نیا لگتا ہے۔یہ ایک نابینا اخبار فروش کی مختصر سے داستان حیات ہے ۔مختصر جامع مگر اثر انگیز۔ہر دفعہ دیکھنے پر یہ شخص آپ کو زندگی کا نیا سبق دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔اسے دیکھ کر اس کی باتیں سن کر یوں لگتا ہے کہ جیسے پورے ملک میں آنکھوں والا یہ واحد شخص ہے۔اندھا یہ نہیں بلکہ ہم سب اندھے ہیں۔اس کے من کی آنکھ روشن ہے اور ہم سب آنکھوں والے اندر سے تاریکیوں اور اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔آئیے اس کی کہانی اسی کی زبانی سنیں اس کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ انتہائی سادہ مگر پر اثر ہیں اس کے الفاظ میں جادو ہے۔ان الفاظ میں ملاوٹ کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔
"یہ جو بلائنڈ نیس ہے یہ بچپن سے ہے پیدائشی مطلب شروع سے ہی۔والد اور والدہ کی ارینج میرج تھی ۔اس میں بعد میں حالات کچھ ایسے پیدا ہوئے کہ Divorce ہو گئی ۔والد کی بھی شادی خاندان میں دوسری ہو گئی۔والدہ کی بھی ایج کم تھی تو ان کے ماں باپ نے بھی دوسری کر دی۔یہاں سے میری لائف کا ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔یہاں سے مجھے ایک ورک ملا ۔یہاں سے میں نے اپنے ذہن میں چن لیا کہ اس فیلڈ میں کچھ کرنا ہے۔میں جب جاب کے لئے جاتا تھا مختلف فیکٹریوں میں تو کوئی مجھے روپیہ دے رہا ہے کوئی دس روپے دے رہا ہے تو کوئی پانچ روپے دے رہا ہے ۔وہ پیسے میں واپسی ان کے منہ پہ ماروں۔کسی سے تلخی کروں کسی سی غصہ کروں مجھے بہت برا لگتا تھاوہ سب کچھ۔میرا بیس چونکہ اسکول سے اتنا مظبوط بنا دیا گیا تھا کہ جھکنا نہیں ہے ہاتھ پھیلانا نہیں ہے کچھ کرنا ہے۔
ہمت ہے تو پیدا کر فردوس بریں اپنا
مانگی ہوئی جنت سے جہنم کا عذاب اچھا

جب آپ کسی سے ایک بار لو گے تو آپ کے دل میں آئے گا کہ بار بار لو۔مثال کے طور پر اخبار اٹھارہ روپے کا ہے مجھے کوئی بیس دیتا ہے تو میں دو روپے ریٹرن کرتا ہوں۔لوگ اصرار کرتے ہیں کہ ایسا کیوں کرتے ہو۔میں ان کو مثال دیتا ہوں کہ اگر سنڈے کا اخبار ہے اگر دو روپے اس میں سے دیکھ رہے ہو اگر میرے پاس دو سو یا ڈھائی سو اخبار ہے تو میں بولوں گا کہ دو روپے ایک سے آرہے ہیں تو سب سے آئیں۔انسان کے اندر جب لالچ ہوسجاگ جاتا ہے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔بی اے کا ایڈمشن لیا لئکن کمپلیٹ نہیں کر سکا۔پھر میں اس اخباروں کے شعبہ سے وابستہ ہو گیا۔اس شعبے کو میں نے اپنا لیا۔اب یہ ہے کہ لوگ مجھے جانتے ہیں لوگوں کو پتا ہے اگر کوئی انجان بندہ مجھے کچھ دینا چاہ رہا ہوتا ہے تو میں تو نہیں دیکھ رہا ہوتا مگر دوسرے دس لوگ اسے سمجھا رہو ہوتے ہیں کہ یہ غلط ہے یہ ایسا نہیں ہے۔دیکھو اگر آپ کے ساتھ کوئی ٹریجڈی لائف میں ہے نا تو وہ ٹریجڈی تو جو ہے سو ہے اس کے اوپر آپ ایک اور ٹریجڈی نہیں کروکہ آپ اس پہ دکھ اور رونا شروع کر دو یا افسوس میں اپنی زندگی خراب کر دوکہ میرے ساتھ ایسا ہو گیا۔نہیں جو ہو گیا سو ہو گیا آپ اپنے اندر جینے کی خواہش پیدا کرو۔
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے
جس حال میں جینا مشکل ہو اس حال میں جینا لازم ہے۔

اشعار بھلے ہی غیر متوازن پڑھے مگر عمل سو فیصد۔دو منٹ 54سیکنڈز کی یہ شارٹ سی ڈاکومینٹری کئی تقریروں کئی گھنٹوں کی ڈاکومینٹریز پر بھاری ہے۔کوئی گلہ نہیں زندگی سے ماں باپ سے معاشرے سے حکومت سے لوگوں سے تقدیر سے۔خوش ہے اپنی دھن میں مست ہے۔مانگنے کی بجائے الٹا بھیک دینے والوں سے ناراض ہوتا ہوا خود اپنی محنت سے اپنی ضروریات پوری کرتا ہوا یہ نابینا آدمی نہ صرف حافظ قرآن ہے بلکہ پیدل گھوم پھر کر اخبار بھی بیچتا ہے۔لالچ کے غلیظ بدبودار جزیروں سے دور قناعت کی کشتی پر سوار دوسروں کو بھی ہمت کا درس دیتا ہوا باہمت پاکستانی۔میں نے لنکن کے حالات زندگی پڑھے ہیں اس کی تقریروں کا مطالعہ بھی کیا ہیلیکن حافظ زاہد کی یہ مختصر سے تقریر سب کو مات دیتی ہے۔اگر آپ بھی یہ انمول ڈاکومینٹری دیکھنا چاہتے ہیں تو فیس بک پرpakistan houseofpeace کا پیج کھول کر نہ صرف دیکھ سکتے ہیں بلکہ اس کے خالق کو مزید آیئڈیاز بھی دے سکتے ہیں۔میں نے آج تک معذوری کا فائدہ اٹھا کر مانگنے والے ہزاروں دیکھے ہیں حالات اور بیماریوں کا رونا رو کر کالم نگاروں کے کالمز کا سہارا لے کر مدد کے بھی لاتعداد اشتہار پڑھے ہیں ۔بھیک مانگنے والے چیچڑ بھکاری بھی دیکھے ہیں ذرا سی تکلیف پر رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لینے والے لاڈلے برگر بھی دیکھے ہیں ۔لیکن حافظ زاہد سب سے جدا ہے۔اس نے جو دو انقلابی شعر پڑھے صحیح معنوں میں ان پر عمل کرنے والا مرد آہن وہ خود ہے۔یہ نابینا شخص دو روپے اضافی لینا جرم سمجھتا ہے۔دکھ ہے ان لوگوں پر جو قوم و ملک کے کروڑوں روپے ہڑپ کر گئے پھر بھی دن رات ترقی کے جھوٹے لالی پاپ دیتے رہتے ہیں ۔دکھ ہے ان پر جو دن رات زاہد جیسے لوگوں کی ٹیکس منی پر عیاشی کی روٹیاں توڑ رہے ہیں گلچھڑے اڑا رہے ہیں اور یہ ڈرامہ بازی بھی کر رہے ہیں کہ وہ ملک و قوم کے دکھ میں گھل گھل کر آدھے ہو گئے ہیں۔ایک طرف شاہی عیاشیاں دیکھیں تو دوسری طرف زاہد جیسے لوگوں کے جذبے اور ایمانداری دیکھ کر دل یہ پکار اٹھتا ہے حساب ہو ضرور ہو گا۔ہمیں کام کر کے کمانے والے زندگی کی جنگ مردانہ وار لڑتے ہوئے معذور لوگوں کی دلجوئی کرنی چاہئے۔یہ لوگ جو بھی کام یا کاروبار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ہمیں ان سے شاپنگ کرنے کا ٹرینڈ ڈیولپ کرنا چاہئے۔اس سے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی ہو گی ان کے معاشی حالات سدھریں گے بلکہ دوسرے معذور افراد جنہون نے بھیک مانگنے کے مکروہ پیشے کو اپنا کر خود کو ناکارہ بنایا ہوا ہے ان کی اصطلاح کا پہلو بھی نکلے گا۔وہ لوگ بھی خود کام کرنے کے بارے میں سوچیں گے۔یوں معاشرے سے نہ صرف غربت کا خاتمہ ہو گا بلکہ بھیک مانگنے کا مکروہ پیشہ بھی ختم ہو گا۔بلا ضرورت بھی ایسے افراد سے کچھ خرید لینا ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔وقت آگیا ہے کہ ہم زاہد جیسے لوگوں کو ٹاک شوز میں ہیروز بنا کر پیش کریں تاکہ عوام اصلی ہیروز دیکھ سکیں ۔فی الوقت تو ہمارے ٹاک شوز میں چوریوں اور غداریوں کے قصے ہی ڈسکس ہوتے نظر آتے ہیں جن سے عوام کی اکژریت شدید بور ہو چکی ہے۔اقبال کے درس خودی سے لے کر زاہد کی خودی کی باتوں تک ہماری تاریخ لوٹ مار کرنے والے چندی چوروں اور بھکاریوں سے بھری پڑی ہے۔کاش کوئی خودی کے درس کو سمجھ کر آگے بڑھنے اور ترقی کا نعرہ لگانے والا بھی آئے۔
Muhammad Rizwan Khan
About the Author: Muhammad Rizwan Khan Read More Articles by Muhammad Rizwan Khan: 24 Articles with 18188 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.