اسرائیل بھارت دفاعی تعلقات

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

23مارچ 1940کو لاہورکے دامن میں ہندوستان کے مسلمانوں نے جس وقت قراردادپاکستان منظور کی تھی اس کے فوراََبعد ایک اور قرارداد بھی قائداعظم محمدعلی جناح کی سربراہی میں کل ہنداجتماع مسلمانان نے منظور کی تھی اور وہ قرارادفلسطینیوں کے حق میں اسرائیلیوں کے خلاف پیش کی گئی تھی۔اس لحاظ سے پاکستان اور فلسطینی ریاست کی جنم بھونی ایک ہی ہے،اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت اور اسرائیل بھی مسلمان دشمنی میں مشترک ہیں۔قائداعظم رحمۃ اﷲ علیہ نے ایک سے زائدبارفلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کی اور پوری قوم نے ان کا ساتھ دیا۔پس یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کتاب کا اولین ورق فلسطینیوں کی حمایت سے شروع ہوتاہے اوراس صفحے کا آغازگویا پاکستان کے وجود سے سے بھی قدیم ترہے۔جس وقت پوری امۃ آزادی کی انگڑائی لے کر بیدار ہوا چاہتی تھی عین اسی وقت فلسطینی مسلمانوں کی گردن میں ذلت اور مسکنت کی حامل یہودی قوم کی غلامی کا طوق ڈال دیا گیا،لیکن آفرین ہے ایمان وآزادی و حریت کے ان سپوتوں پرجنہوں نے آج تک غلامی کو قبول نہیں کیااور ان کی تیسری نسل کا تسلسل ہے جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں آہنی اسلحہ اٹھا رکھاہے اور اور طاغوت سے مسلسل نبردآزما چلے آ رہے ہیں۔قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے جسے پڑھ پڑھ کراور دیکھ دیکھ کر دوسری دنیاؤں کے لوگ انگشت بدنداں ہیں لیکن بڑے سے بڑا نقصان بھی ان باہمت اہل ایمان فلسطینیوں کے گھٹنے نہیں ٹیک سکا۔

بھارت اور اسرائیل ،دونوں ممالک اسلام دشنی میں قدر مشترک کے حامل ممالک ہیں اور دونوں ملکوں کی قیادت کو امت مسلہ سے اﷲ واسطے کا بیر ہے۔بھارت اوراسرائیل کا اکٹھ جوڑ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ مسمانوں کا گلاکاٹا جائے،ان کا معاشی استحصال کیاجائے،انہیں عالمی تنہائی کا شکارکیاجائے اور بالآخر اس دنیاسے ان کا وجودعنقا کردیاجائے۔بھارت اور اسرائیل دونوں کی باہمی سازشیں اب کسی پردہ راز میں نہیں رہیں اور گیارہ ستمبرکے وقوعے کے بعد توان دونوں فاشسٹ ممالک کے درون خانہ تعلقات نے واضع طور پر مسلمان دشمنی کا رخ اختیار کر لیاہے اوران کی خارجہ و داخلہ پالیسیاں مسلمان کش رنگ اختیار کرتی چلی جا رہی ہیں اور دونوں ممالک کی قیادت عالمی راہنماؤں کو ہر نازیباواقعے کے تناظر میں مسلمانوں کاچہرہ دکھانے اور امت مسلمہ کی خلاف سخت سے سخت اقدامات پر آمادہ خاطر کرنے پر کمربستہ دکھائی دیتی ہے۔بھارت اور اسرائیل کا مسلمانوں کے خلاف یہ خبث باطن چھن چھن کربلآخرپاکستان اور ایران کے خلاف صف آراہواجاتاہے۔ایران اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کی سرحدیں بھارت اوراسرائیل دونوں سے نہیں ملتیں جبکہ پاکستان براہ راست بھارت کی ناک کے نیچے زیرعتاب ہے اور اسرائیل سمیت تمام عالمی طاقتیں بھارت کی پشت پر اس لیے موجود ہیں خالصتاََ اسلام کے نام پر بننے والی زمین کے نقشے پر مسجد کے تقدس کی حامل اس محترم ومقدس ریاست کو نیست و نابود کر دیا جائے ۔

جغرافیائی اور تہذیبی طورپر دونوں ممالک ایک دوسرے سے قرنوں کے فاصلے پر ہیں ،زبان،لباس ،تمدن اور تاریخی طور پر بھی ہندؤں اور یہودیوں میں کوئی مماثلت نہیں اوردونوں کے مذاہب کی تعلیمات میں بھی بعد الشرقین واقع ہوا ہے اس کے باوجود بھی بھارت اوراسرائیل کا اکٹھ جوڑسمجھ سے بالا تر ہے۔تقسیم ہند سے قبل ہندؤں کی مشترکہ قیادت جس میں گاندھی،جواہرلعل نہرواورانڈین نیشنل کانگریس نے متفقہ طورپر اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی تھی،تقسیم ہندکے بعد بھی اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی برائے تقسیم فلسطین نے جب اپنی رپورٹ جنرل اسمبلی میں پیش کی اور29نومبر1947ء کوجب تقسیم فلسطین کے اس فارمولے پر آراء مانگی گئیں تو33ممالک میں سے تیرہ نے مخالفت کی جن میں بھارت نے بھی بھرپور مخالفت کی اور فلسطین کو دو ریاستوں عرب اور اسرائیل میں تقسیم کرنے کافارمولا مسترد کر دیا۔اس کے بعد مئی1949میں جب ایک بار پھر اسرائیل کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کا سوال کھڑا ہوا تو اس موقع پر بھی بھارت میں اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا۔یہ حقائق اسرائیل اور بھارت کی دوری کا باعث ہونے چاہیں تھے لیکن بانیان بھارت کی متفقہ پالیسی کے برعکس یہ صرف مشترکہ دشمن کی عداوت ہے جو ان دونوں ممالک کی قربت کا باعث بنی ہے اور وہ مشترکہ دشمن بالعموم امت مسلمہ ہے اور بالخصوص ممللکت خداداداسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ1980میں بھارت اسرائیل کے درمیان پاکستان میں کہوٹہ ایٹمی پلانٹ پرمشترکہ حملہ کے لیے طویل مشاورت ہوئی تھی اورمحض بھارت پر جوابی حملے کاخطرہ اس سے باز رہنے کا سبب بناجبکہ1999میں کارگل کی جنگ میں پوری دنیاکی مخالفت کے باوجود چوبیس گھنٹے کی مختصر ترین مدت میں آناََ فاناََاسرائیل نے جدیدترین جنگی تیکنالوجی کوہتھیاروں کی مناسب کھیپ کے ہمراہ بھارت پہنچا دیاتھا۔

’’امن پسند‘‘اسرائیل کی معیشیت کا سب سے بڑا انحصارتباہ کن جنگی اسلحے کی فروخت پر ہے۔اسرائیل رقبے کے اعتبار سے بہت ہی چھوٹی سی ریاست ہے جس کا کل رقبہ کم و بیش آٹھ ہزار مربع میل ہی ہے لیکن اس کے باوجود150سے زائدبڑے بڑے کارخانے اس ملک میں ہیں جو صرف اسلحے کی تیاری کاکام کرتے ہیں جبکہ حکومت وقت خود بھی ’’انسانیت‘‘کی خدمت کرتے ہوئے اس ’’کار خیر‘‘میں شریک ہے۔تین بڑے بڑے ادارے تو صرف حکومت کی ملکیت ہیں جن میں اسرائیلی آرم انڈسٹری(IAI)،اسرائیلی ملٹری انڈسڑی(IMI)اوررافیل آرم ڈویلپمنٹ اٹھارٹی شامل ہیں۔سرکاری ،نیم سرکاری اور نجی ادارے روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ جدید تیکنالوجی کے حامل الیکٹرانکس ہتھیار بھی تیار کرتے ہیں اور ان اداروں میں ساٹھ لاکھ اسرائیلی آبادی میں سے ساٹھ ہزار افراد صرف اسلحے کے کاروباراور کارخانوں سے وابسطہ ہیں۔ان تباہ کن جنگی ہتھیاروں کی برآمد کے لیے اسرائیلی حکومت نے SIBATکے نام سے ایک ادارہ قائم کررکھاہے جو وزارت دفاع کے تحت اپنے امور سرانجام دیتاہے اوردیگر اداروں کو لائسنس جاری کرتا ہے تاکہ وہ ادارے اپنے تیارکردہ ہتھیار دوسری دنیاؤں کو فروخت کر سکیں۔اسرائیل میں چھوٹے سے چھوٹے جنگی آلات سے لے کر بڑے بڑے ٹینک،ہوائی جہازاورجنگی کشتیوں تک کی تیاری کاکام کیاجاتاہے۔یہ اور بہت سارے مزید حقائق انسانیت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ اسرائیل کا وجود قبیلہ بنی نوع انسان کے لیے سود مند ہے یا مضرت رساں ہے؟؟؟اور اس ملک کے دوست اور اسکی حمایت کرنے والے ممالک کس حد تک انسانیت کے خیر خواہ ہیں؟؟؟

بھارت اور اسرائیل کے درمیان خفیہ سطح پر1950ء سے ہی تعلقات قائم تھے ،1963میں اسرائیل کے آرمی چیف ’’جنرل شوئل فیل‘‘نے بھارت کا دورہ بھی کیاتھا۔بھارت کی پاکستان اور چین کے ساتھ جنگوں میں اسرائیل نے بھرپور تعاون کیاتھااور 1967کی عرب اسرائیل جنگ میں بھارت نے بھی خفیہ طورپر اسرائیل کی معاونت کی تھی۔ بھارت نے 1970ء کے آغاز میں ہی اس بات کو بھانپ لیاتھا کہ پاکستان کی قوت ایمانی سے تن تنہا مقابلہ ممکن نہیں،چنانچہ تب سے بھارت اسرائیل عسکری تعلقات کا آغاز ہوااور اس وقت کی بھارتی وزیراعظم انداگاندھی نے اپنی خفیہ ایجنسی را کو اجازت دی کی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد سے تعلقات استوار کرے۔ اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارت نے پہلی بار 160ملی میٹر کی تباہ کن اسرائیلی ساختہ مارٹراور اسکا گولہ بارود پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔بعض نامہ نگاروں کے مطابق 1979میں اسرائیلی صدر ’’موشے دایان‘‘نے بھی دہلی کا خفیہ دورہ کیاتھا۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ دفاعی تعلقات کی استواری پہلے ہوئی اور سفارتی تعلقات بعد میں قائم ہوئے جبکہ ایسا دنیا کی تاریخ میں بہت کم ہوا کرتا ہے اور کم از کم معلوم تاریخ تاریخ کی حد تک یہ اپنی نوعیت کے واحد تعلقات ہیں جو بھارت اور اسرائیل کے درمیان قائم ہوئے۔

1986ء میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی نے امریکہ کا دورہ کیاتو امریکی رکن گانگریس سٹیفن سولارز نے راجیوگاندھی کی ملاقات یہودی لابی کے متحرک رکن ’’مورس ابراہام‘‘ سے کرائی ،اس ملاقات کا مقصد بھارت کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کاقیام تھا۔دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے 1992ء میں بلآخرسفارتی تعلقات بھی قائم کر لیے گئے اوراس وقت کے بھارتی وزیراعظم نرسیماراؤ نے جنوری1992ء میں امریکی دورے کے موقع پر ان تعلقات کے قیام کا باقائدہ اعلان کردیا۔امریکہ نے بعد میں بھی ان تعلقات کی مضبوطی میں بہت اہم کردار اداکیااور واشنگٹن میں ’’سنٹرآف سیکورٹی پالیسی ‘‘کے سربراہ ’’فرانک گفنے‘‘اور’’جیوش انسیٹیوٹ آف نیشنل سیکورٹی افئرز‘‘کا بانی ’’مائکل لیڈن‘‘نے بھارت اور اسرائیل کے درمیان عسکری تعلقات میں بڑھوتری کی اپنی کاوشیں مسلسل جاری رکھیں۔امریکہ اس حد تک اس دوستی میں دلچسپی رکھتاتھا کہ 1999ء میں اسرائیل نے جب ’’فالکن اواکس‘‘طیارے چین کو فروخت کرنا چاہے تو امریکہ نے زبردستی اس ڈیل کو رکوادیاجبکہ یہی طیارے 2004میں اسرائیل نے بھارت کو فروخت کیے تو امریکہ کو کوئی اعتراض نہ تھا۔اسرائیلی وفودبہانے بہانے سے دہلی کا دورہ کرتے رہے مثلاََ ایک موقع پر یہ بہانہ یہ تراشا گیا کہ اسرائیلی وفد بھارتی شہر دہلی کا درجہ حرارت معلوم کرنے کے لیے بھارتی دارالحکومت میں آنا چاہتاہے چنانچہ اسرائیلی وزارت خارجہ کے ڈپٹی ڈائرکٹر’’موشے یاگیر‘‘کی قیادت میں اس وفد نے 1992میں بھارت کا پہلا سفارتی دورہ کیا۔اس کے بعد تو تعلقات کا گویاایک سیلاب سا بہ نکلااور معاشی،سائنسی،زرعی اورثقافتی معاہدوں کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے اور کتنے ہی مشترکہ کمشن ہیں جو دونوں حکومتوں کے درمیان قائم ہیں لیکن یہ سب اخباری کاغذات کا پیٹ بھرنے والے دکھانے کے دانت ہیں جبکہ اصل حقائق دفاع سے متعلق ہیں جن کا ذکرگزشتہ سطور میں ہو چکاہے۔

دسمبر1996کے دوران اسرائیلی صدر نے اپنے دورہ بھارت کے دوران اعلان کیا تھا کہ ہم نے بھارت کو میزائیل تیکنالوجی کی فراہمی کی پیشکش کی ہے اور یہ بھی کہ مشترکہ طور پر جنگی ہوائی جہاز مل کر تیار کیے جائیں۔اسرائیلی صدر نے بھارت کو یہ پیشکش بھی کی کہ پرانے جنگی ہتھیاروں کو جدید بنانے میں وہ بھارت کی بھرپور مددکرسکتے ہیں۔جولائی 1997میں اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم کے معاون خصوصی ‘‘بار ایلن‘‘نے بھارتی صحافیوں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہو ئے کہاتھا کہ ’’بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات کی کوئی حدود کار نہیں ہیں یہ اپنی ممکنہ حدود کے آخر تک جا سکتے ہیں‘‘۔دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق جس طرح کی پیشکشیں اسرائیل نے بھارت کو کی ہیں بھارتی تاریخ میں اس پہلے کسی اورملک نے نہیں کیں۔اس کے جواب میں 1998ء کے بعد سے ان دونوں ممالک کے درمیان وفود اور دوروں میں خاصی تیزی آ گئی ۔اس وقت کے بھارتی وزیرداخلہ ایل کے ایڈوانی اور وزیرخارجہ جسونت سنکھ نے سال 2000ء میں اسرائیل کے دورے کیے ۔وزیرداخلہ ایل کے ایڈوانی نے اپنے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے موساد کے ساتھ معاہدے کروائے اوراسلحہ ساز فیکٹریوں کے طویل دورے بھی کیے اوراس کے ساتھ ساتھ وہ وہاں کی خفیہ ایجنسیوں اور سرحدی نگرانی کرنے والے اداروں کے سربراہوں سے بھی طویل دورانیے کی بریفنگ لیتے رہے۔وزیرخارجہ جسونت سنکھ نے متعدد نوعیت کے دفاعی معاہدات پر دستخط کیے ،مشترکہ دفاعی کمشن بنائے گئے،ہر چھ ماہ بعد دفاعی تعلقات کی بڑھوتری کے لیے مزاکرات کی میز سجانا طے کیاگیا،اور اس وقت کے اسرائیلی وزیر خارجہ نے ان معاہدات کے بعد بھارتی قیادت کو یقین دلایا کہ وہ اپنے وعدوں سے ہر گز روگردانی نہ کریں گے۔ہندؤں اور یہودیوں کے معاہدات کس حد تک پورے ہوتے ہیں مورخین کے قلم اس کے گواہ ہیں اور یہ آسمان ان دونوں قوموں کے وعدوں کی حقیقت سے اچھی طرح آشنا ہے جب کہ ان معاہدوں اور وعدوں کی حقیقت وہی ہے جو گزشتہ سطور میں بیان ہو چکی۔

اب تک بھارت اسرائیل سے درج ذیل ہتھیارخرید چکاہے یا مشترکہ طور پر تیار کر چکاہے:
۱۔130mmکی توپیں جو155-mmتک بڑھائی جا سکتی ہیں۔
۲۔میدان جنگ میں استعمال ہو نے والے(Battlefield surveillance)ریڈارز(انفنٹری اور آرٹلری دونوں کے لیے)۔
۳۔بحریہ کے زیراستعمال تیزرفتار طیارے(Super Davora )۔
۴۔ہوائی جہازوں کے قابل استعمال اینٹی وارفئرنظام۔
۵۔ایریل گاڑیاں(UAVs)۔
۶۔روسی ہیلی کاپٹر MI35کی صلاحیت کار میں اضافہ۔
۷۔آبدوز میں نصب کیے جانے والاکروزمیزائل سسٹم ۔
۸۔جاسوسی نظام کا حامل خلائی سیارہ جو ہوائی جہاز یا میزائیل کے ذریعے مدار تک پہنچایا جاسکتاہے۔
۹۔لیزرگائڈڈسسٹم،اینٹی بلاسٹک میزائیل سسٹم اوتمام طرح کے ریڈار سسٹمز۔
۱۰۔روسی اسلحہ کو جدیدتر بنانے کی تکنالوجی۔
۱۱۔باراک نیول اینٹی میزائیل ڈیفنس سسٹم۔
۱۲۔فالکن ایڈوانسڈائربورن ارلی وارننگ سسٹم۔
۱۳۔گرین پائن ارلی وارننگ اینڈ فائر کنٹرول ریڈارز۔
۱۴۔سپر ڈروواMKIIفاسٹ اٹیک کرافٹ۔
۱۵۔رات کے اندھیرے میں دیکھنے والے آلات۔
۱۶۔زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلز۔وغیرہ

اسرائیل نے جو جنگی ہتھیار اور تیکنالوجی بھارت کو فروخت کی ہے ان میں سے بیشتر کی فروخت پر ’’عالمی برادری‘‘نے پابندی عائد کی ہوئی ہے لیکن امریکہ اور برطانیہ سمیت کل عالمی برادری کو بھارت اسرائیل جنگی ہتھیاروں کی ڈیل پر کوئی اعتراض نہیں۔ ان تفصیلات کے بعد یہ بات درجہ حقیقت تک پہنچ چکی ہے کہ روس کے بعد اسرائیل دوسرابڑا ملک ہے جو بھارت کو جنگی اسلحہ فراہم کررہاہے اور عسکری معاہدات کی تکمیل کے بعد اگلے چند سالوں میں ہی اسرائیل روس سے بھی بازی لے جائے گااور بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔جس قوت سے روس کو خطرہ تھااوربلآخر اسی قوت سے ٹکرا کرUSSRپاش پاش ہوگیا،اسرائیل اور بھارت کا مشترکہ دشمن بھی وہی ہے اور جس طرح روس کااسلحہ ہی اسی کی تباہی کا باعث بنااﷲ تعالی نے چاہا توبھارت اور اسرائیل کا انجام بھی اس سے مختلف نہ ہوگا۔بھارت اچھی طرح جانتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ پینگیں بڑھانے سے عرب ممالک اور ایران کے ساتھ اس کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں لیکن بھارت کو اس کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں اور پاکستان دشمنی میں کسی بھی حد سے گزر جانا اس کے لیے آسان تر ہے۔

اس وقت بھارت کی’’ امن پسندجمہوریہ‘‘اسرائیلی جنگی ہتھیاروں کی سب سے بڑی خریدار ہے اور ایک اندازے کے مطابق اسرائیلی میں تیارہونے والے جنگی ہتھیاروں کی نصف کھیپ بھارت میں ارسال کر دی جاتی ہے اور یوں یہ دونوں ممالک امریکہ اور یورپ کی سرپرستی میں ’’امن اور انسانیت‘‘کی خدمت بجالارہے ہیں۔ہزاروں کی تعدادمیں بھارتی فوجی اسرائیل میں جاکر فوجی تربیت حاصل کر چکے ہیں۔ماضی قریب میں بھارتی اعلی عہدیدار’’برجیش مشرا‘‘نے امریکہ کا دورہ کیااور ’’امریکن جیوش کمیٹی‘‘کے ایک اجتماع سے خطاب بھی کیااور یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اس نوعیت کے اجتماع میں کسی ہندوستانی نے شرکت کی ہو جبکہ ’’امریکن جیوش کمیٹی‘‘صہیونیت کی دست راست سمجھی جاتی ہے۔’’برجیش مشرا‘‘نے اپنی خطاب میں واضع طور کہا کہ ’’دہشت گردوں کا نشانہ امریکہ،اسرائیل اور بھارت ہیں ‘‘اس نے اپنے خطاب میں زور دیاکہ’’ یہ دہشت گرد چونکہ ایک مذہب کی کوکھ سے نکل رہے ہیں اس لیے انہیں کچل دیا جائے‘‘۔یہ مذہب کونسا ہے ؟؟اس سوال کا جواب نوشتہ دیوار ہے۔’’امریکن جیوش کونسل‘‘اپنے حلیف کے خطاب پر اس قدر خوش ہوئی کہ انہوں نے بہت جلد دہلی میں اپنا دفتر کھولنے کا اعلان کر دیا۔کیایہ آسمان ششدر نہیں رہ جائے گا جب اپنے ایمان اورملک و قوم کا تحفظ کرنے والے دہشت گرد کہلائیں گے اور جن کی افواج دوسرے ملکوں مین جاکر آگ اور خون کاکھیل رہی ہیں وہ امن پسند ہو جائیں گے۔محسن انسانیت ﷺ نے سچ فرمایا کہ قرب قیامت میں نیکی اور بدی کے معیارات تبدیل ہو جائیں گے۔

2006ء میں انڈین ڈیفنس ریسرچ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن(DRDO)اوراسرائیلی ایرواسکوپ انڈسٹریزفار میزائل ڈویلپمنٹ(IAI)کے درمیان پانچ سالہ دفاعی معاہدہ ہواہے جس کی مالیت 480ملین ڈالرز سے متجاوز ہے ۔آج کل اسرائیل اور بھارت پہلے سے موجود میزائیل پروگرام دفاعی معاہدوں میں وسعت پر کمربستہ ہیں اور اس پروگرام کو مزید وسعت دینے کے لیے سفارتی سرگرمیاں تیزسے تیزتر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی طرف سے اس پروگرام میں وسعت پر کچھ رکاوٹیں حائل ہیں چنانچہ یوایس انڈیاپولیٹیکل ایکشن کمیٹی (USINPAC)،امریکہ اسرائیل پولیٹیکل ایکشن کمیٹی(AIPAC)اور امریکن جیوئش کمیٹی(AJC)مل کر ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے سازشیں کر رہے ہیں۔کچھ ہی عرصہ پہلے اسرائیلی وزارت دفاع کے ادارے SIBATکے سربراہ میجرجنرل یوسع بن حنان نے اعتراف کیا ہے کہ بھارت ان کے اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔2002سے2005کے دوران بھارت نے اسرائیل سے اسلحہ خریدنے پر 2.76بلین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی،2006میں ریکارڈ اسلحہ خریدا گیااور اس ایک سال میں صرف اسرائیل کواسلحے کی مد میں 1.6بلین ڈالرکی ادائیگی کی گئی۔

اسرائیل اور بھارت کے درمیان فوجی معاہدوں اور مشترکہ کمنشنزکی بھی ایک بہت بڑی تعدادموجود ہے اور کثرت سے ایک دوسرے کے ممالک کے دورے بھی جاری و ساری ہیں۔2006میں دو بڑی اہمیت کے حامل وفود نے اسرائیل کا دورہ کیاان میں ایک کی سربراہی اس وقت کے چیف آف ائر اسٹاف ،ائر چیف مارشل ایس پی تیاگی نے کی جبکہ دوسرے وفد کی سربراہی وایس چیف آف نیوی،وائس ایڈمرل ونکٹ بھاراتان نے کی ۔بھارت کے آرمی چیف جنرل جے جے سنکھ نے بھی اپنے زمانے میں اسرائیل کا دس روزہ طویل دورہ کیا۔اور اس کے بعد بھی تینوں سروسز چیف کئی بار اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں۔2009میں اسرائیلی گراؤنڈ فورسزکمانڈ کے چیف آف کمانڈ بریگیڈئرجنرل اے مزراہی نے بھارت کا دورہ کیااور خفیہ اداروں کے مشترکہ منصوبوں اورمشترکہ دفاعی مشقوں کی نگرانی کی۔اسرائیلی ڈپٹی چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل موشے کپلنکے نے بھی بھارت کا دورہ کیااورخاص طور وہ اپنے وفد کے ہمراہ کشمیر کیاجہاں اس نے اور اس کے وفد نے بھارتی فوجی افسروں سے مزاکرات کیے۔اسرائیلی وزارت دفاع کے نگران بریگیڈئر جنرل (ریٹائرڈ )پنچاس بچرس نے جنوری2008میں بھارت کا دورہ کیااوربھارت کے نیشنل اسکورٹی ایڈوائزرایم کے نریانہ،سیکریٹری دفاع وجے سنکھ،آرمی چیف جنرل دیپاک کپور،نیول چیف ایڈمرل سوریش مٹھااورائر چیف فلی ہومی میجر سے ملاقاتیں کیں اور یہ ملاقاتیں زیادہ تر خفیہ اداروں کی معلومات کے باہمی تبادلے پر منحصر تھیں۔

بھارت اور اسرائیل کی دوستیاں اور ان کی پشت پر امریکہ کی آشیر بادآخر کس کے گرد گھیراتنگ کرنے کی تیاری ہو سکتی ہے؟؟اس سوال کا جواب کم از کم اب کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ان تینوں ممالک نے دنیائے انسانیت کا جینا دوبھر کررکھا ہے،ایک طرف گولہ اور بارود کے انبار،گھن گرج اورآگ و خون کی بارش ہے اور سمندروں کے اندر اورفضاؤں پر نارواقبضے اور نقل و حرکت پر بے پناہ پابندیاں ہیں تو دوسری طرف معاشی میدان میں سودی نظام نے آدمیت کاگلا گھونٹ رکھاہے۔ان تینوں ممالک کی چیرہ دستیاں اب اس زمین کے باسیوں کے ناک تک آن پہنچی ہیں۔غربت ،جہالت اوربیماریاں اور ذہنی و جسمانی پسماندگی وہ ثمرات بد ہیں جو ان ممالک کی پالیسیوں کے نتیجے میں انسانوں کی بستیوں میں آسیب کی طرح اپنے پنجے گاڑتے چلے جا رہے ہیں ۔یہودوہنود نے ایک طرف تو استحصال کایہ بازار گرم کررکھاہے تو دوسری طرف حقائق سے نظریں ہٹانے کے لیے عریانیت و فحاشی کے پردے چاک کررکھے ہیں اور حواکی بیٹی کوحرص و حوس کا نشانہ بناکر نسل آدم کو ہی اپنے نشانے پر تاک رکھاہے۔ایک گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے جو ان تینوں ممالک کی کمین گاہوں سے نکل کرکرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیاچاہتاہے ۔

تاریخ گواہ ہے کہ ہندؤں نے ایک ہزار سال مسلمانوں کی چھتری کے نیچے گزارے،وہ خود بھی ان اچھے دنوں کو آج تک یاد رکھے ہوئے ہیں اس دوران ان سے کسی کو شکایت کاموقع نہیں ملااور نہ انہوں نے اپنے مسلمان حکمرانوں سے کوئی گزند اور تکلیف پائی۔اور اسی طرح یہودیوں کی کم و بیش چار ہزار سالہ تاریخ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد یہودیہ اور اسرائیل جیسی ریاستوں کی باہمی جنگوں سے ہولو کاسٹ تک اس قوم نے تباہی و بربادی وغریب الدیاری ہی دیکھی ہے سوائے مسلمانوں کے دورانیہ اقتدار کے جس دوران یہودیوں نے بے پناہ آرام و آسائش اور سہولتوں و آسودگیوں کادور دیکھا۔اب جب کہ یہ دونوں قومیں آزادی کا سانس لے رہی ہیں تو پوری انسانیت سمیت ان دونوں اقوام کے بھی زیریں طبقات بے پناہ عقوبتوں و سختیوں کا شکار ہیں اور انہیں کسی پل چین و سکون اور اطمنان میسر نہیں ہے۔کل انسانیت اور ان دونوں اقوام کی اکثریت کی فلاح وکامیابی اسی میں ہے کہ یہودوہنود کسی مسلمان اقتدارکے زیرسایہ باجگذار قوم کی حیثیت سے زندگی گزاریں اور جزیہ دے کر اسلامی قوانین کے تحت ذمیوں کے حقوق کے امین و وارث بن جائیں۔یہ دونوں قومیں چاہیں یا نہ چاہیں آسمانی کتابوں میں یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ اس زمین کا مستقبل محسن انسانیت محمد عربی ﷺکی تعلیمات سے نتھی ہے،امت مسلمہ کو ختم کرنے والوں کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو گا یہاں تک کہ وہ اس خواب کو دیکھتے ہوئے ابدی نیند سو جائیں گے اوراس امت کی کوکھ شہداکو جنم دیتی رہے گی ار اسکی گود جرات مند قیادت سے ہمیشہ ہری رہے گی اوریہ امت نورتوحیدکااتمام کرے گی اور اس دنیا کے آخری کونے تک خاتم الانبیاﷺکا نظام نافذہوکررہے گا،انشاء اﷲ تعالی العزیز۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 527252 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.