اُردُو کی فریاد

میں دنیا کے ایک عظیم اسلامی ملک ’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ کی قومی زبان ہوں شروع شروع میں مجھے برِصغیر کے مسلمانوں نے بولنا شروع کیا اور میری نشوونما اور ترقی کے لئے بہت زیادہ اہم کردار ادا کیا۔ برصغیر کے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان دوسرے اختلافات کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ زبان کا بھی تھا مسلمان مجھے قومی زبان بنانا چاہتے تھے اور ہندو ہندی کو قومی زبان بنانا چاہتے تھے۔ جب پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا تو مجھے اس کی قومی زبان بنا دیا گیا اور میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اس کے بعد مجھے قومی زبان کے علاوہ سرکاری زبان بنانے کی کاوشیں شروع ہوگئیں کیونکہ دنیا کے تقریبا دوسرے تمام ممالک میں جو قومی زبان ہے وہی ان کی سرکاری زبان بھی ہے اسی لئے میری بھی شدید خواہش ہے کہ مجھے پاکستان کی قومی زبان ہونے کا جو شرف حاصل ہے اسی طرح سرکاری زبان ہونے کا شرف بھی حاصل ہو جائے۔ لیکن پاکستان کو قائم ہوئے تقریبا ستر سال ہونے کو ہیں مگر میں اس عظیم مملکت اور اس عظیم قوم کی سرکاری زبان نہیں بن سکی۔ اور میری خواہش حسرت اور ارمان میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ اب تو مجھے اور زیادہ تکلیف اور درد میں مبتلا کر دیا گیا ہے جب سے مجھے اور انگریزی کو مکس کرنا شروع کر دیا گیا ہے اس سے میری اور زیادہ توہین اور ذلت ہو رہی ہے۔ پاکستان میں تعلیمی اداروں میں انگریزی میڈیم شروع کرنے پر مجھے کو ئی اعتراض اور گلہ شکوہ نہیں ہے کیونکہ جو انگریزی زبان میں پڑھنا اور لکھنا چاہتے ہیں میں ان کے راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتی ہوں لیکن تعلیمی اداروں میں شائع کی گئی جن درسی کتب کو پڑھایا جا رہا ہے اور اب جو نصاب شائع کیا جا رہا ہے اس میں اردو میڈیم کی کتب میں بھی بہت زیادہ نکات اور الفاظ میری بجائے انگریزی میں لکھے گئے ہیں خاص کر پرائمری، مڈل اور ہائی کلاسز کی سائنس کی کتب میں اس کی بہت زیادہ مثالیں موجود ہیں بلکہ تقریبا تمام اصطلاحات کے حوالے سے میرے ساتھ یہی سلوک کیا گیا ہے مثال کے طور پر ’’خلیہ‘‘ کی بجائے ’’سیل ‘‘ ، ’’ نظام انہظام‘‘ کی جگہ ’’ڈائجسٹو سسٹم ‘‘ ، ’’ پِتہ ‘‘ کے لئے ’’ گال بلیڈر ‘‘ ، ’’ اسہال ‘‘ کی جگہ ’’ ڈائریا ‘‘ ، ’’ جڑ ‘‘ کی جگہ ’’ رُوٹ ‘‘ ، ’’ افزائشِ نسل یا عمل تولید ‘‘ کی بجائے ’’ ریپروڈکشن ‘‘ ، ’’ جنسی ‘‘ کی بجائے ’’ سیکسوئل ‘‘ اور ’’ آبادی ‘‘ کی جگہ ’’ پاپولیشن ‘‘ جیسی بہت سی اصطلاحات شامل ہیں جن کی مثالیں یہاں دینا ممکن نہیں ہے۔ میں تسلیم کرتی ہوں کہ مجھ میں دوسری کئی زبانوں کے بہت سے الفاظ شامل ہیں جن میں عربی ، فارسی اور انگریزی کے بہت سے الفاظ شامل ہیں جن کے لئے خالص اردو میں الفاظ بہتر طور پر سمجھے جانے والے موجود نہیں ہیں۔ ایک مثال لفظ کیچ کی لے لیتے ہیں اگر کرکٹ میں لفظ کیچ استعمال کیا جائے تو سمجھ آتا ہے کہ زمین پر لگنے سے پہلے گیند کو پکڑ لیا گیا یعنی کھلاڑی آؤٹ ہے لیکن اگر اردو میں اسے استعمال کیا جا تا کہ پکڑ لیا تو سمجھ نہیں آتی کہ گیندکو کہاں اور کیسے پکڑا۔ باؤنڈری کے پاس ، وکٹوں کے پاس یا کھلاڑی آؤٹ ہوا۔ اس طرح اور کئی الفاظ مجھ میں شامل ہیں جن کا مجھے افسوس نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی قسم کا اعتراض اور گلہ شکوہ کر نے کی پوزیشن میں ہوں لیکن جن الفاظ کے لئے اردو میں خالص اور بہترین الفاظ جن کی اچھی طرح سمجھ آجاتی ہے ان کو استعمال نہ کرنا اور ان کی جگہ انگریزی زبان کے الفاظ استعمال کرنے سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے اور میں بہت زیادہ توہین اور ذلت محسوس کرتی ہوں لیکن یہ صرف میری رسوائی اور ذلت نہیں ہے میں سمجھتی ہوں یہ پوری قوم اور ایک عظیم مملکت کی بھی رسوائی اور ذلت ہے کہ اس کی قومی زبان میں دوسری زبان کے الفاظ شامل ہوتے جا رہے ہیں باوجود اس کے کہ اردو میں ان الفاظ کے لئے واضح ، آسان اور بہترین الفاظ موجود ہیں اس لئے میری مسندِ اقتدار لوگوں ، سرکاری اداروں ، عہدیداروں، عدالتی اداروں اور عوام سب سے میری درخواست بلکہ فریاد ہے کہ اس سلسلے کو ختم کیا جائے اور اپنا پنا کردار ادا کریں اوراس سلسلے کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کریں۔ اول تو مجھے قومی زبان کی طرح سرکاری زبان بھی بنایا جائے لیکن اس میں غیر ضروری اور طویل تا خیر ہو رہی ہے اس پر اتنا دکھ نہیں ہوتا لیکن اگر درج بالا مسئلہ پر اگر تاخیر کی گئی تو مجھے اپنے زوال کا خدشہ ہے اور مجھے ڈر ہے کہ آنے والی نسلیں میرے بہت سے الفاظ سے ناواقف ہوجائیں گی جیسے چند مثالیں اوپر بیان کی گئی ہیں ان کے بارے ابھی سے طلباء اپنے آپ کو انجان ظاہر کرتے ہیں۔
kashif imran
About the Author: kashif imran Read More Articles by kashif imran: 122 Articles with 156184 views I live in Piplan District Miawnali... View More