ویٹ ہے یا عوام کی “ واٹ “ لگائی جارہی ہے؟

آج کل ملک میں جہاں سیاسی گرما گرمی اور ہلچل مچی ہوئی ہے وہیں تجارتی حلقوں میں بھی ایک ہلچل اور تشویش پائی جاتی ہے۔ اور یہ حکومت کی جانب سے ایک مجوزہ ٹیکس VAT یعنی ویلیو ایڈڈ ٹیکس یا ویٹ کے باعث ہے۔ ہم کوئی ماہر معیشت یا عالمی بینک کے نمائندے نہیں ہیں اس لئے ہمیں نہیں پتہ کہ اس کے کیا مضر اثرات ہونگے اور یہ کیسے نافذ ہوگا اور پھر عوام کو اس سے کیا نقصان ہوگا لیکن تیز رفتار میڈیا کے اس دور میں اِدھر اُدھر سے سن گن لینے اور بیسیوں لوگوں کے تبصرے سننے کے بعد ہم کچھ کچھ اس لائق ہوگئے ہیں کہ اس کے بارے میں آپ کو بتا سکیں۔ اور ویسے بھی موجودہ حکومت کا اعزاز ہے کہ آپ کو چاہے کوئی کام آتا ہو یا نہ آتا ہو، چاہے آپ کے پاس وزارت کے لئے کسی مضمون کی “ ڈگری “ ہو یا نہ ہو لیکن اگر آپ یہ ظاہر کردیں کہ آپ اس کام کے ماہر ہیں یا آپ کے پاس (جعلی) ڈگری ہے تو پھر آپ کے وارے نیارے ہیں۔ خیر یہ تو بات بلا وجہ کہیں اور نکل گئی۔

نہ جانے کیوں جب ہم دیکھتے ہیں کہ VAT کو ویٹ کہا جارہا ہے تو ہمیں غلط لگتا اور ہمیں لگتا ہے کہ اس کا مخفف ویٹ کے بجائے “ واٹ “ ہونا چاہئے۔ اللہ بھلا کرے ہمارے کامیڈٰین بالخصوص عمر شریف صاحب وغیرہ کا کہ ان لوگوں نے اردو زبان میں چند ایسے الفاظ متعارف کرائے ہیں جو کہ لغت میں تو موجود نہیں ہیں لیکن ان کے معنی اور مفہوم سے پورا پاکستان اور ہندوستان واقف ہے ان میں دو الفاظ تو بہت مشہور ہیں ایک “ پنگا “ اور ایک “ واٹ “ عوامی اصطلاح میں واٹ کا مطلب ہوتا ہے بدحال کرنا، بے حال کرنا، حشر نشر کرنا، حلیہ بگاڑ دینا، ایسی تیسی کرنا اور یہ لفظ کئی جگہ استعمال ہوتا ہے کسی کی پٹائی لگا دی جائے تو کہا جاتا ہے کہ آج تو میں مار مار کر اس کی واٹ لگا دی، کسی میچ کے دوران کہا جاسکتا ہے کہ آج تو کامران اکمل نے چھکے مار مار کر بھارت کی واٹ لگا دی، یا آج ہم نے اچھو بھائی کی دعوت میں ان کے پیسوں کی واٹ لگا دی۔ اس لفظ یعنی واٹ کے معنی و مفہوم کی وضاحت کیوں ضروری ہے یہ آپ کو کالم کے آخر میں پتہ چلے گا۔

ہم بات کر رہے تھے ویٹ کی۔ کہا جارہا ہے کہ VAT کو یکم جون سے نافذ کردیا جائے گا اور اگر یہ ٹیکس نافذ نہ کیا گیا تو عالمی IMF سے ہمیں قرضے کی نئی قسط نہیں ملے گی اور حکومت کے ذمہ داران کو یہ پریشانی ہے کہ اگر IMF سے قرضے کی نئی قسط نہیں ملے گی تو ہم غریب حکومتی ارکان اپنا خرچہ کیسے چلائیں گے؟ بےچارے وزیروں مشیروں کی تنخواہ کیسے پوری ہوگی؟ رہے عوام تو وہ تو بس ایسے ہی چیختے چلاتے رہتے ہیں ان کی تو خیر ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ کیا کرلیں گے یہی نہ کہ سپریم کورٹ میں چلے جائیں گے تو جناب من حکومت نے پہلے سپریم کورٹ کی کونسی بات مانی ہے جو VAT کے معاملے پر مان لے گی۔ ہونہہ یہ غریب عوام سمجھتے ہیں کہ حکومت کو ہلا دیں گے۔( قارئین کرام یہ حکومت کے خیالات ہیں ہمارے نہیں )۔

کہا جارہا ہے کہ VAT کے نفاذ کے بعد ملک میں مہنگائی کا ایک اور طوفان آئے گا کیونکہ ابھی تو ہر چیز پر GST یعنی جنرل سیلز ٹیکس نافذ ہے اور وہ سولہ فیصد ہے یعنی اگر ایک چیز دکان دار کو سو روپے میں بیچنی ہے تو وہ اس کو ایک سو سولہ روپے میں بیچتا ہے لیکن VAT کے بعد جنرل سیلز ٹیکس کے ساتھ ساتھ VAT بھی ادا کرنا ہوگا اور یوں جو چیز اس وقت ایک سو سولہ روپے کی مل رہی ہے وہ ایک سو بتیس روپے میں ملے گی۔

اب زرا سوچیں کہ ایک تو ویسے ہی ہر چیز یعنی ایک روپے والی ماچس کی ڈبیہ سے لیکر لاکھوں روپے کے الیکٹرونکس آئٹمز پر پہلے ہی سولہ فیصد ٹیکس لاگو ہے اور جب یہ ٹیکس بڑھ کر بتیس فیصد ہوجائے تو مہنگائی کا کیا عالم ہوگا۔ ہر چیز کے ریٹ ایک دم آسمان کی جانب رخ کریں گے اور پھر جس کے پاس زر ہوگا یعنی جو زردار ہوگا وہیں زندگی کے مزے لوٹے گا اور عوام جو کہ پہلے ہی جسم و جان کا رشتہ بمشکل برقرار رکھتے ہوئے روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر رہے ہیں اس ٹیکس کے بعد وہ مزید مشکلات کا شکار ہونگے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اول تو غریب اپنے بچوں کو جو سرکاری اسکول میں ایک واجبی سی تعلیم دلاتا ہے، اس کا سلسلہ بھی منقطع ہوجائے گا اور لاکھوں بچے اسکول جانے سے رہ جائیں گے دوسری جانب والدین انہی بچوں کو کسی نہ کسی فیکٹری، کارخانے، گیراج، یا کسی بنگلے پر محنت مزدوری کے لئے بھیجیں گے اور اس طرح چائلڈ لیبر میں بھی اضافہ ہوجائے گا ( لیکن حکمرانوں کو اس سے کیا ان کے بے نظیر فیصلوں سے کسی کے اوپر کیا گزرتی ہے ان کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہے ) گداگروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوجائے گا اور چونکہ ہر فرد تو اپنی خود داری اور عزت نفس کو قربان کر کے ہاتھ نہیں پھیلا سکتا اس لئے کئی لوگ اپنی جانیں قربان کردیں گے اور ملک میں خودکشیوں کا رجحان بھی بڑھ جائے گا۔

اچھا یہاں ایک چیز کی وضاحت کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ تاجر طبقہ اس ٹیکس کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے اور اس کا مؤقف ہے کہ وہ پہلے ہی سولہ فیصد سیلز ٹیکس ادا کر رہا ہے اس لئے اب دہرے ٹیکس کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی بات بالکل درست ہے کہ ایک ٹیکس کی موجودگی میں دوسرے ٹیکس کی ضرورت نہیں ہے لیکن ان کا یہ کہنا کہ وہ جنرل سیلز ٹیکس ادا کر رہے ہیں بالکل غلط ہے۔ اس لئے کہ جنرل سیلز ٹیکس تاجر نہیں بلکہ عوام یعنی میں اور آپ اور ہم سب ادا کرتے ہیں تاجر اس میں ایک پیسہ بھی ادا نہیں کرتا۔

شائد میری بات آپ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئی۔ دیکھیں ہم جب مارکیٹ سے کوئی بھی چیز خریدتے ہیں تو اس کے اوپر قیمت لکھی ہوتی ہے مثلاً اگر ہم گھی کا پانج کلو کا پیکٹ خریدنے جائیں اور اس کی قیمت کا لیبل چیک کریں تو وہ کچھ یوں ہوگا۔
قیمت 600 روپیہ
سیلز ٹیکس ٪16 96 +
کل قیمت 696= روپے صرف

یعنی اس گھی کے پیکٹ کی اصل قیمت تو چھے سو روپیہ تھی لیکن تاجر نے گھی کی اس فروخت پر حکومت کو جو سیلز ٹیکس دینا تھا وہ اس نے اپنی جیب سے دینے کے بجائے ہماری جیب سے نکال لئے اور گھی کا پیکٹ ہمیں چھے سو چھیانوے روپے میں خریدنا پڑا۔ اس کا حاصل یہ ہوا کہ تاجر کو تو کوئی نقصان نہیں ہوا البتہ جو سیلز ٹیکس نافذ کیا گیا تھا وہ میں نے اور آپ نے حکومت کو ادا کیا۔ محترم بھائیوں اور بہنوں ہم ایک روپے کی جو ماچس خریدتے ہیں اس پر بھی ہم اپنی جیب سے ٹیکس ادا کرتے ہیں تاجر، صنعت کار، یا سرمایہ کار اس میں سولہ پیسے بھی ادا نہیں کرتا۔( اور حکومت اور عوام پر رعب بھی جماتا ہے کہ میں ٹیکس ادا کرتا ہوں) اب اس چیز کو سامنے رکھیں تو پھر ہم اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ VAT کے نفاذ کے بعد بھی یہی کچھ ہوگا کہ یہ سرمایہ کار و صنعت کار و تاجر برادری کی جیب سے تو ایک پیسہ بھی نہیں جائے گا بلکہ یہ ٹیکس بھی ہمیں ہی بھرنا پڑے گا۔

ان سب باتوں کو سامنے رکھیں تو پھر آپ بھی یہیں کہیں گے کہ واقعی یہ VAT ویٹ نہیں VAT واٹ ہے یعنی حکومت کی جانب سے عوام کی “ واٹ “ لگائی گئی ہے۔

نوٹ :ہم معذرت خواہ ہیں کہ اس مضمون کو ادب و مزاح کے شعبے میں پیش کررہے ہیں حالانکہ اس میں ہمارے حساب سے کوئی ادبی بات نہیں ہے بلکہ یہ طنز و مزاح کی ایک کوشش ہے لیکن چونکہ طنز و مزاح کا کوئی الگ شعبہ نہیں ہے اس لئے اس کو ادب و مزاح کے زمرے میں پیش کرنا پڑا۔ امید ہے کہ اس مضمون کے بعد ہماری ویب کے منتظمین طنز و مزاح کو الگ کردیں گے اور ادب کا ایک الگ شعبہ قائم کریں گے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1460397 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More