بعدِ اڑان تھی اک نئی دنیا!

ایئر پورٹ پر چیکنگ کے تمام تر مراحل سے گزرنے کے بعد جب جہاز میں سوار ہوئی تب دل کو یقیں آیا کہ میں واقعی ہی جدہ جا رہی ہوں ۔پھر یک دم ہوائی سفر کا خوف طاری ہونے لگا۔مگر بہن کے ساتھ ہونے پرخود کو سنبھالا دئے رکھا۔جب جہاز نے رن وے پراپنی سمت تبدیل کرتے ہوئے آسماں کی طرف رخ کرکے کسی پرندے کی طرح پر پھیلائے اڑان بھری تو یہ دلچسپ نظارہ دیکھتے ہوئے میرے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل گئی۔یہ میری زندگی کا پہلا اوربہت مختلف تجربہ تھا۔کوئی چار پانچ سیکنڈز میں ہی تمام عمارات اور گھر کسی آرکیٹیکٹ کے بنائے ہوئے ہاؤسنگ سوسائٹی کاماڈل لگنے لگے۔جوں جوں جہاز نے بلندی کی حدوں کو چھونا شروع کیا توں توں طبیعت میں تھوڑا فرق آیا۔مگر پھر کچھ دیر بعد سنبھل گئی۔جب ہم بادلوں کے سنگ محوِ پرواز تھے تو موسم کی خرابی کی وجہ سے جھٹکے محسوس ہوتے جس سے آرام کرتے لوگوں کا سکون اڑ ساجاتا۔مگر جن لوگوں نے ریل گاڑی میں سفر کر رکھا ہے تو ان کے لئے یہ چیز پریشانی والی نہیں ۔کیونکہ آپ محسوس کریں کہ آپ ٹرین میں بیٹھے ہیں۔جب جب کھڑکی کھول کر باہر کا نظارہ کیا تو عجب مناظر دیکھے۔کبھی بادل،کبھی قدیم زمانے کی تصویروں میں دکھنے والے عجیب و غریب سیاہ پہاڑ تو کبھی وسیع و عریض سمندر۔جن بادلوں کو میں زمین سے میلوں دور سے دیکھا کرتی تھی ، کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن ان کے درمیان آ بیٹھوں گی۔ان سے باتیں کر سکوں گی۔یہ بادل روئی کے گالوں کی مانند لگ رہے تھے تو کہیں منفی درجہ حرارت کی وجہ سے جمی ہوئی برف کی طرح۔جب کچھ گھنٹوں کے بعد ٹمٹماتی روشنیوں کا دیدار ہوا تو دل مسرت سے جھوم اٹھااور جب جہاز نے لینڈنگ کے لئے زمین پر نہایت دھیمے سے قدم رکھے تو ہمارے ساتھ ساتھ تمام مسافروں نے اﷲ کا شکر ادا کیا۔گھر تک کے راستے میں جا بجا سڑک کنارے لگی لائٹس بھی ہمارے ساتھ ساتھ سفر کرتی رہیں اور ہاں یہاں کی خاص سوغات، کجھور کے ان گنت درخت بھی۔

یہ علاقہ کاؤسٹ (KAUST)کہلاتا ہے مطلب کنگ عبد اﷲ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی۔یہ ایک بہت صاف ستھرا،پر سکون،محفوظ اور آلودگی سے پاک علاقہ ہے۔یونیورسٹی کی یہ رہائشی کالونی کسی ماہر آرکیٹیکٹ کے ذہن سے کریدا گیا ایک بہت ہی بہترین ڈیزائن ہے۔یونیورسٹی کے ورکرز کو ان کی فیملی کے افراد کو مد نظر رکھتے ہوئے گھر الاٹ کئے جاتے ہیں مطلب چھوٹی فیملی تو نسبتا چھوٹا گھر اور بڑی فیملی کے لئے قدرے بڑا گھر۔گھروں کے باہر بنے کھلے گیراجوں میں کھڑی گاڑیاں ،سکوٹیز،سائیکلیں اور موٹر سائیکلیں تمام چیزیں بالکل محفوظ ہوتی ہیں۔پورے گھر کے اندر اے سی لگے ہوتے ہیں جو انڈر گراؤنڈ ہیں۔گھر کے باہر سارا وقت ہوا چلتی رہتی ہے جس سے کھجور کے درخت جھومتے رہتے ہیں۔اس علاقے میں گورے بھی ہیں اور کالے بھی،چینی بھی تو پاکستانی بھی۔مگر سب زیادہ تر انگریزی زبان بولتے ہیں۔دوسرے سے خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں ۔بچے ہوں یا بڑے سب لوگ خود کو تمیز کے خول میں رکھتے ہیں۔کوئی خام مخواہ کسی کو تنگ نہیں کرتا اور نہ دوسرے کے کام میں دخل اندازی کرتا ہے۔ اگر کوئی بھی خاتون یہاں پارک میں شام میں چہل قدمی کر رہی ہے تو قریبی سڑک سے گزرنے والی موٹر سائیکل یا گاڑی وہاں سے چپ چاپ اپنا راستہ لئے گزر جائے گی نہ کہ کوئی اس گاڑی میں سے منہ باہر نکالے اس لیڈی پر آوازیں کستا ہوا گزرے گا۔سب اپنے کام سے کام رکھتے ہیں ۔کوئی کسی کے لباس پر تنقید نہیں کرتا۔جس کا جو مذہب ہے وہ اس کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔اگر کسی کو آفیشل کام ہے تو متعلقہ دفتر کے لوگ اس کے کام کو بخوبی کرتے ہیں اور ساتھ میں اچھے اخلاق کے تو کیا کہنے۔ یہاں باہر گھومتے پھرتے کوئی کسی کو رک کر دیکھنے کھڑا نہیں ہو جاتا۔سب کی اپنی زندگیاں اور مصروفیات ہیں کہ جن کے مطابق سب روزمرہ کے کام کرتے ہیں۔یہاں ایک اور بات مجھے بہت ہی عمدہ لگی کہ لوگ خالی و ویران سڑکوں پر بھی بغیر کسی وارڈن کی موجودگی کے دن ہو یا رات سگنل کی پابندی کرتے ہیں ۔ یہاں جس چھوٹے بڑے ریسٹورانٹ چلے جائیں ہر جگہ خالص اور اچھے طریقے سے پکایا گیا کھانا ملے گا۔یہ کھانے پکانے کے دوران صفائی کے اصولوں پر بخوبی عمل پیرا ہوتے ہیں ۔

یہاں کے تفریحی مقامات بہت پر سکون ،پر امن اور خوبصورت ہیں ۔خاص کر سمندر کے کنارے سورج کو پیلی و سرخی مائل روشنیاں پھیلاتے ڈوبتے دیکھنا کیا ہی سحر انگیز نظارہ ہوتا ہے۔لوگ اپنا اپنا سامان لئے گاڑیوں میں آتے ہیں اور سمندر کنارے براجمان ہو جاتے ہیں ۔کھاتے پیتے ہیں ،بچے کھیلتے کودتے ہیں ،پتنگ اڑاتے ہیں،سمندر کی لہروں کے شور سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور سورج کو اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ غروب ہوتا دیکھنے کے بعد گھر چلے جاتے ہیں۔میں نے یہاں کے بچوں کوشور مچائے بغیر ایک حد تک آواز میں بات کرتے اور کھیلتے دیکھا ۔سمندر کے کنارے کچھ بچے چھوٹی مچھلیاں بوتل میں جمع کر رہے تھے اور غور سے کچھ جائزہ بھی لے رہے تھے کہ جیسے کوئی ریسرچ ورک چل رہا ہو۔یہاں بڑی بڑی مارکیٹس اور شاپنگ مالز ہیں جہاں انوا ع و اقسام کی چیزیں ایک ہی چھت تلے بآسانی دستیاب ہیں۔

کچھ گھنٹوں کی اڑان بھرنے کے بعد میں نے یکسر مختلف دنیا میں قدم رکھا ہے ۔یہ ایک خوشگوار تجربہ ہے۔
میں نے کئی رائٹرز کو مختلف ممالک کے سفر کا حال سناتے پڑھا ہے ۔ انھوں نے ان ممالک کی تمام تر خصوصیات بیان کیں اور پھر تقابلہ کر ڈالا پاکستان سے۔اپنے وطن کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا ۔ ہر کسی کی اپنی سوچ ہوتی ہے جس کے مطابق وہ کہتا اور لکھتا ہے ۔میرے خیال میں ہر ملک کی ایک اپنی خاص پہچان ہے۔رہن سہن،لباس،مذہب،روایات،زبان ،کلچر اور آب و ہوا یہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ۔ہر ملک کے لوگوں کی پہچان بھی انہی خصوصیات کی بنا پر ہوتی ہے۔اگر یہاں کے انداز عجب ہیں تو ہمارے ملک پاکستان کے بھی تو رنگ ڈھنگ نرالے اور اپنائیت بھرے ہیں ۔اس کی اپنی ایک پہچان ہے ۔ پاکستانی لوگ زندہ دل،جفاکش اور ذہین ہیں ۔خوبصورت اور خوش لباس ہیں ۔میزبانی میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔ہاں مگر کچھ عادات ہیں کہ جن کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ان عادات کے بارے میں ہر آدمی خوب جانتا ہے بس تبدیلی لانے میں ذرا نکما ثابت ہوتا ہے ۔اخلاقیات کا دامن ہی تو تھامنا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنا کام ایمانداری سے کرنا ہے ۔اپنی روایات سے نظریں نہیں چرانیں ۔قوانین کا احترام ملحوظ ِ خاطر رکھنا ہے۔اور ہاں اپنے پیاروں کی صحت کے لئے اورانسانیت کی خاطرماحول کو صاف رکھنے کے لئے صفائی پر توجہ دینا ہے ۔باقی انفرادی طور پر آپ کی شخصیت جن جن تبدیلیوں کی متقاضی ہے اور آپ کے اردگرد جو بدلاؤ لانا ناگزیر ہے اس کے آپ کوشاں ہو جائیں ۔تو ہمارا معاشرہ بھی مہذبانہ طور پر پھلے پھولے گا ۔
shaistabid
About the Author: shaistabid Read More Articles by shaistabid: 30 Articles with 23088 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.