حقوق زن تا مرید زن

پنجاب اسمبلی میں حقوق نسواں بل کی منظوری کے بعد ملک بھر کے سیاسی،سماجی وصحافتی حلقوں میں ایک قوی بحث مباحثہ شروع ہوگیا ہے مذہبی جماعتوں خاص کر جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمٰن و دیگر رہنماؤں نے نہ صرف اس بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا بلکہ اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ خواتین بل سے شوہر اور بیوی کے درمیان عزت اور احترام کے رشتے متاثر ہوں گے عورت کی حیاء اور عزت تھانہ کچہری کی نظر ہوگی نفرت اور عدوات کم نہیں بلکہ مزید بڑھے گی یہی نہیں بلکہ طلاق کی شرح میں اضافہ ہوگا شوہر شوہر نہیں بلکہ اپنی زن کا مرید ہوگا باپ ،بیٹی ،شوہر، بیوی اوربھائی، بہن سے جواب طلبی کا مجاذنہ ہوگا ادھر اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی بل کو مسترد کرتے ہوئے کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئے مملکت میں مغربی طرز فکر پر قانون سازی حیران کن ہے خواتین پر تشد د کو جواز بناکرحقوق زن کے بجائے مرد کو مرید زن بنانا اسلامی اقداراور معاشرتی روایات کے منافی ہے مغرب اور ان کے آلہ کار ملک کے اسلامی قوانین میں کسی طرح ترامیم کرنے کا موقع اور بہانہ تلاش کررہے ہیں مذہبی طبقہ کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آنے کے بعد سیکولر قوتیں بل کے حق میں پیش پیش ہیں غور کیا جائے تو مملکت خداد پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام منظم اجتماعی زندگی پر یقین رکھتا ہے اسلامی تعلیمات کے مطابق چند افراد مل کر سفر کریں تو انھیں اپنے میں سے ایک کو امیر مقر کرلینا چاہئے پس خاندان کے نظام کو منظم رکھنے کیلئے مرد کو سربراہی سونپی گئی یہ تاثر بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ اسلام نے خواتین کی آزادی سلف کی ہے اسلام خواتین کو آزادی دیتا ہے مگر جائز حد تک اسلام نے خاوند اور بیوی کے خوشحال اور پر سکون زندگی کے اصول بیان کیے ہے اور اس میں کامیابی پر دنیا وآخرت کی کامیابی ،وانعامات کی بشارت بھی دی ہیں ا ٓزادی زن کا مطلب یہ ہے کہ وہ نیک کردار اور اعمال صالحہ میں خودمختار ہوں عزت وحیاء کی امین اورصبر و عظمت کا پیکر ہوشوہر کی فرمانبردار اور اولاد کی بہتر تربیت کی درشن ہو۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ زندگی مرد اور عورت دونوں ہی کی محتاج ہے جس طرح مرد اپنا ایک مقصد وجود رکھتا ہے اسی طرح عورت کی تخلیق کا بھی ایک غائیت ہے اسلام نے عورت ذات کو ہربھیس میں مقدم رکھا اسکی حیاء،عفت اور پاک دامنی کو اسکا حسن اور مقام اعلیٰ کا درجہ دیا عورت کھبی بیٹی کے روپ میں گھر کی رونق ہوتی ہے تو کھبی بہن کے روپ میں بھائی پر نثار کھبی وہ ماں کی صورت میں قربانی اورایثار کا سایہ دار درخت ہوتی ہے تو کھبی بیوی کے روپ میں ایک خدمت گزار شریک حیات غرض یہ کہ وہ ہر روپ میں اﷲ تعالیٰ کی رحمت اور نعمت سے کم نہیں حضور نبی کریم ؐکی دنیا میں آمد سے عورت کو وہ اعزاز ملا کہ مرد کہ دوش بدوش کھڑی ہوگئی اسلام نے اس کا مقام اتنا بلند کیا کہ وہ بیوی کی حیثیت سے اﷲ تعالیٰ کا سب سے بڑا عطا کردہ خزانہ ہے بیٹی ہے تو رحمت بن کر آتی ہے اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے بہن ہے تو محبت ،شفقت کا انمول خزانہ ہے اسلام ہی کے مرہون منت حقوق نسواں اور عزت نسواں وجود میں آچکے ہیں صرف فکری اور نظری اعتبار سے عورت کا مقام اور مرتبہ بلند نہیں کیا بلکہ قانون کے زریعے بھی عورت کے حقوق کی حفاظت کی گئی ہے اسلام نے مرد اور عورت کو ایک جیسا معاشرتی رتبہ دیا ہے اور دونوں کو بحثیت انسان عزت واحترام کا مستحق قرار دیا ہے جبکہ عورت کی ماضی پر نظر ڈالی جائے تو یہ ماضی اس کیلئے خاندانی اور ازدواجی ہر قسم کے حق سے خالی نظر آتا ہے آج ازدواجی زندگی کی کامیابی کا دارومدار آپس میں رحمت اور محبت کے جذبات پر منحصر ہوتا ہے جبکہ ماضی میں ایسا نہ تھاحضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر اس کی ماں کا ہے شوہر کی اطاعت سے حضور نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ وہ عورت جو پنج وقتہ نماز ادا کرے ،رمضان کے روزے رکھے ،اپنی عزت کی حفاظت اور شوہر کی اطاعت کرے تو وہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا جو عورت اﷲ کی اطاعت کرے، شوہر کے حقوق ادا کرے اپنی عصمت کی حفاظت کرے اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرے تو اس کے اور شہیدوں کے درمیان جنت میں ایک درجے کا فاصلہ ہوگا عورت پر یہ بھی فرض ہے کہ خاوند جو کچھ بھی اپنے خون پسینے اور محنت ومشقت سے کماکر گھر لائے اسے قبول کرے اور اس کی ناشکری نہ کرے بلکہ احسان مندی کے ساتھ اسے قبول کرتے ہوئے اپنے شوہر کا شکریہ ادا کرے جائز ضروریات کے علاوہ کوئی دوسرا مطالبہ نہ کرے اور خاوند کو ناجائز مطالبات منوانے کی خاطر ناجائز اور حرام کمائی پر مجبور نہ کرے اسی طرح اسلام نے عورت پربے جا اور ناجائز تشدد کو حرام اور بزدلانہ عمل قرار دیا ہے ،ریپ کے الزام کو ثابت کرنے کیلئے چار گواہوں کی گوائی کو لازمی قرار دیا، وراثت میں ان کے حقوق متعین کیے ،ظلم و تشد اور شرعی عذر کی بنیاد پر عورت کو خلع کا اختیار دیا بیوہ اور طلاق یافتہ عورتوں کے حقوق سے لیکر یتیم بیٹیوں تک سب کے حقوق متعین کئے اسی طرح بیوی بچوں کا نان نفقہ سے لیکر ہر جائز شرعی حاجت پوری کرنا مرد کے زمہ کئے ہے تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے عورت کو معاشرے میں اعلیٰ مقام سے نوازا جبکہ کل کے جہالانہ رسوم کی پوجاری اور آج کے نا م نہاد د روشن خیالوں نے وجود زن کو صرف اور صرف خواہشات نفسانی کی تسکین اور کمرشل و سائن بورڈوں کی تذہین و آرائش کا زریعہ سمجھامغرب نے جب عورتوں کو آزادی زن کے نام پر گھروں سے نکالا تو اس کے بعد وہاں نہ صرف وجود زن کی عصمت غیر محفوظ اور صرف شوپیس بن کر رہ گئیں بلکہ خونی رشتے بھی بے قدر وقیمت بن کر رہ گئیں انکی نظر میں والدین پر بچوں اور بچوں پر والدین کی کوئی زمہ داری نہیں ہوتی جس سے سماج میں بے شمار برائیاں پھیل گئیں سوال یہ کہ کیا ہم خود کو بھی ایسے ہی تباہ کرلیں ؟ نہیں ہر گز نہیں مغربی قوانین اختیا کرنے کی بجائے اسلام نے ان سب مسائل کا حل ہمیں بھیجا ہے ریاست کی زمہ داری ہے کی وہ اپنی رعایا کو اسلامی قوانین کا پابند بنائیں قانون سازی کیلئے آئینی ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے ان سے سفارشات مرتب کرلیں اور انکی روشنی میں قانون سازی بہتر اور ملک کی نظریاتی اسا س کے عین مطابق ہوگی نہ کے این جی اوز کے موم بتی مافیا و ان حکمرانوں سے جنہیں بد قسمتی سے سورۃ اخلاص پڑھنا نہیں آتا خواتین کے ساتھ زیادتیوں اور ناانصافیوں کو مغربی قوانین سے روکنے کے بجائے اسلامی قانون سازی میں کیا حرج ہے؟ اگر نہیں تو پھر مسئلہ کیا ہے کہ حکمران، سیاستدان ا ور چندصحافی حضرات اسلام اور اسلامی تعلیمات سے بھاگ رہے ہیں حقوق نسواں بل کی خامیوں کا سب کو علم ہے مگر نہ جانے کس کی خوشنودی کیلئے حق کے بجائے باطل کا ساتھ دے رہے ہیں بات اگر حقوق زن کی ہے تو دنیا کے کونسے قانون اورمذہب نے اسلام سے زیادہ حقوق دئیے ہے ؟اور اگر مسئلہ کسی کی خوشنودی کا ہے تو خدرا ملک کی نظریاتی اساس کو غیر کی خوشنودی کیلئے قربان نہ کیا جائے
Abdul Samad Haqyar
About the Author: Abdul Samad Haqyar Read More Articles by Abdul Samad Haqyar: 2 Articles with 1319 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.