کیسے کٹے دن

اقتدار سے دوری اور محرومی ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ ایک وہ دن تھے جب سب کچھ جھولی میں آن گرا تھا۔ اب یہ حال ہے کہ بہت سے اڈاری مار چکے ہیں۔اب ان کو کسی کا خوف ولالچ ہی نہیں۔مشرف بھی دور اقتدار بھی دور۔قاف لیگ پر اب تو ایک ہی شعر صادق آتا ہے۔

جتھا سا چلا تھا جانب ”منزل“
’فاصلہ “بڑھتا رہاکارواں گھٹتا گیا

وہ لوگ جو قاف لیگ کے ہم نوالہ، ہم پیالہ تھے۔جن کو عوام الیکشن میں ”بخش “ چکے ہیں۔ان کے اقتدار سے دوری کے بعد شب و روز کیسے گزرتے ہیں۔اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے امریکن سٹلائٹ سے رابطہ کیا گیا۔انہوں نے کورا سا جواب دیا” ہم لوگوں کی نجی زندگی میں نہیں جھانکتے“۔ان کے اس جواب کے بعد ایک کرپٹ ترین ملک کے سٹلائٹ سے رابطہ کیا گیا۔انہوں نے صرف دن کے اوقات میں کوریج کی ہامی بھری۔ان کا مؤقف تھا کہ رات کو ان کے پاس بلیک میلنگ کے لئے بہت سے پراجیکٹ ہیں۔وہی کور ہو جائیں تو غنیمت ہے۔ سیاست دان چونکہ پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں۔اس کے باوجود حد ادب کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔بہرحال آئیے اپنے ”پیاروں“ کی نجی زندگی کا ایک خیالی سٹلائٹی جائزہ لیتے ہیں۔

چودھری شجاعت حسین
انتہائی صبح سویرے اٹھے۔دونوں آنکھوں کو ملتے ہوئے گھبرائے ہوئے سامنے کی جانب دیکھ رہے ہیں۔خود کلامی کے انداز میں یہ تصویر یہاں کون بدل گیا۔مگر جب انہوں نے اپنی آنکھوں کو ٹٹولا تو انہیں احساس ہوا کہ وہ عینک لگانا بھول گئے ہیں۔انہوں نے جلدی سے سیاہ شیشے پہنے۔اب ان کے چہرے پر اطمینان کی ایک لہر تھی۔انہوں نے تصویر کو ایک زبردست فوجی سیلوٹ کیا۔چونکہ سٹلائٹ تصویر کی تصویر جاری نہیں کر سکا اس لئے تصویر کا اندازہ آپ خود کر لیں۔اب وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے لان کی جانب بڑھ گئے۔لان چھوٹے بڑے پودوں سے بھرا ہوا تھا۔ان پودوں پر مختلف سیاستدانوں کے نام نظر آ رہے تھے۔انہوں نے کھرپا اٹھا کر نواز شریف اور شہباز شریف نام پودوں کی جڑوں سے مٹی نکالنی شروع کر دی۔اس کے بعد انہوں نے وہ مٹی پرویز الہی اور مونس الہی اور شجاعت حسین نامی پودوں کی جڑوں میں ڈال کر اپنے ہاتھوں سے پیار سے تھپتھپایا۔اس بات پر بہت مسرور نظر آ رہے تھے۔انہوں نے نواز،شہباز نامی پودوں کو زور سے ”ہلونا “ دیا۔اس کام سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے ناشتہ کیا ۔ باورچی کو بلایا اور کہا”دوپہر کو ان کو بہت سارے لوگ ملنے آ رہے ہیں ان میں میڈیا کے لوگ بھی ہونگے۔اس لئے کھانا اچھا اور ”تھڑنا“ نہیں چاہئے۔اور بندوں سے ملنے کے لئے ڈرائنگ روم میں آ بیٹھے۔بار بار بور ہو کر پہلو بدلتے رہے۔مختلف چیینلز کو گھماتے رہے۔ٹیلی فون اور موبائل کو بار بار” سٹارٹ “کر کے دیکھتے رہے۔مگر دوپہر تک نہ تو ان سے ملنے کوئی آیا اور نہ ہی کسی چینل نے انہیں آن لائن لیا۔پرویز الہی اور مونس الہی کے ”ہاسے “نے انہیں خیالات کی دنیا سے باہر نکالا۔”چودھری صاحب،بندے تو بہت آنے کے لئے تیار تھے۔“چودھری پرویز الہی نے مسکراتے ہوئے کہا۔”ہاں ،ہاں ٹھیک کہتے ہو ۔“چودھری شجاعت نے ویران ڈرائنگ روم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”چودھری صاحب رونقیں پھر لوٹ آئیں گی ذرا مشرف کے آنے کی دیر ہے۔“پرویز الہی نے مسکراتے ہوئے کہا۔وہ تینوں کھانے کی جانب بڑھ گئے۔کھانے میں گھر کے تمام ملازمین کو بھی شامل کیا گیا تاکہ کچھ تو کھانے کی رونق بڑھے۔کھانے کے بعد چودھری شجاعت حسین ان کو لے کر لان کی جانب بڑھ گئے۔پودوں کی حالت دیکھ کر وہ ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر ہنستے رہے۔”چودھری صاحب!آپ تو مٹی” پاتے “ہیں یہ خلاف توقع ”کڈ“ رہے ہیں“۔چودھری پرویز الہی نے مسکراتے ہوئے کہا۔”مٹی تو پھر بھی میں ”پا“ رہا۔ان کی جڑوںسے ”کڈ “کر اپنی جڑوں میں ”پا“ کر مضبوط کر رہا ہوں۔مگر یار یہ بڑے مضبوط ہیں ”سوکھنے“ کا نام ہی نہیں لے رہے۔“چودھری صاحب ! آپ انہیں لے بیٹھیں گے۔اب ہمیں اجازت دیں بندے چودھری ہاوس میں جمع ہونگے آج خصوصی میٹنگ تھی۔میں تو آپ کی میٹنگ میں شرکت کے لئے خصوصی طور پر آیا تھا۔“چودھری پرویز الہی نے مسکراتے ہوئے کہا۔”بس یار اپنا جنرل آ جائے۔پھر ستے خیراں ہیں۔“چودھری شجاعت نے انہیں رخصت کرتے ہوئے کہا۔انہیں رخصت کرنے کے بعد وہ دوبارہ ڈرائنگ روم میں آ بیٹھے اور سکریڑی کو یاد فرمایا۔سکریڑی نے ڈائری دیکھتے ہوئے ڈرتے ڈرتے کہا”چودھری! صاحب آج کوئی ملاقات نہیں ہے۔“”اچھا کسی اخبار چینل کے ساتھ انٹرویو۔“چودھری صاحب نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔”نہیں سر! آج کوئی مصروفیت نہیں۔“سکریٹری نے ڈائری کو بند کرتے ہوئے کہا۔”اچھا تو پھر منجی ادھر ڈرائنگ روم میں ہی لے آﺅ کوئی ملنے ہی نہ آ جائے۔“شام تک چودھری صاحب منجی ”توڑتے“ رہے۔سٹلائٹ ان کی منجی کی کوریج کرتا رہا۔

شیخ رشید
سٹلائٹ کے فضول پانچ گھنٹوں کے پیسے ضائع کئے۔شیخ صاحب تقریباً دس بجے اٹھے۔ہاتھ منہ دھوئے بغیر سگار کے ساتھ چائے نوش کی۔اس کے بعد ڈٹ کے ناشتہ کیا۔اپنے سکریٹری کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آ بیٹھے۔”ہاں تو آج کی کیا مصروفیات ہیں۔“انہوں نے اپنے سکریٹری کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”سب سے پہلے تو جناب چونکہ صبح کا وقت ہے اور اس وقت حافظہ بہت تیز کام کرتا ہے۔بادام شیریں سے لطف اندوز ہوئیے اور یونین کونسل 241 کی ووٹر لسٹ آپ نے دو گھنٹوں میں یاد کرنی ہے۔اس یونین کونسل میں 324مرد اور 215خواتین کے ووٹ ہیں ۔آپ نے صرف مرد حضرات کے نام یاد کرنے ہیں۔“”ٹھیک ہے “شیخ صاحب نے باداموں کی مٹھی منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔تقریباً دو گھنٹوں بعد انہوں نے اپنے سکریٹری کو آواز دی۔”میں نے یاد کر لئے ہیں اب نام پوچھو“انہوں نے یونین کونسل کی ووٹر لسٹ اپنے سامنے بچھاتے ہوئے کہا۔”جناب ! زبانی بتانے ہیں دیکھ کر نہیں۔“سکریٹری نے ووٹر لسٹ ان کے سامنے سے اٹھاتے ہوئے کہا۔”میں نے اس یونین کونسل سے پنتیس آدمی بلائے ہیں ۔آپ نے ان کے نام بمعہ ولدیت اور ساتھ ایڈریس بھی بتانے ہیں۔چلیں ایڈریس اور ولدیت چھوڑ دیں نام ضرور بتانے ہیں۔“”ٹھیک ہے بلاﺅ ان کو اندر “شیخ صاحب نے تیاری پکڑتے ہوئے کہا۔سکریڑی کے بلانے پر پنتیس آدمی اندر داخل ہوئے۔شیخ صاحب ان سب کو ناموں سے پکارتے رہے۔آنے والے مسکراتے رہے۔”ٹھیک ہے آپ جائیں “۔سکریٹری نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔”اپنا کرایہ باہر فنانس سکریٹری سے ضرور لیتے جائیں“۔”ٹھیک ہو گیا ناں“ شیخ صاحب نے اپنے سکیٹری کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔”شیخ صاحب بادام آپ سارے کھا گئے اور نام صرف گیارہ صیح بتائے ہیں۔یہ علاقہ کے لوگوں کی بے عزتی ہے۔اس دفعہ بھی آپ کو ہارنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔“ ”اوہ اچھا یار اب محنت کروں گا۔وہ انگلش کا استاد آیا کہ نہیں۔“شیخ صاحب نے گھڑی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔”شیخ صاحب ! آپ کی انگریزی پر بھی مختلف لوگ تنقید کر رہے ہیں۔اور تو اور نذیر ناجی نے بھی اپنے ایک کالم میں آپ کی انگریزی کے لتے لئے ہیں۔“”میری اور اس کی انگریزی کی لڑائی سجتی ہے۔“شیخ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔”سر! آپ کے انگریزی کے استاد نے چھٹی کرلی ہے ۔ان کا ایس ایم ایس آیا تھا۔“”اچھا چلو اپنی وزارت کی خبر لیتے ہیں۔“شیخ صاحب نے ایک جہازی سائز کی میز کی جانب بڑھتے ہوئے کہا۔میز پر ایک گولائی میں ایک ریلوئے ٹریک بچھا ہوا تھا۔اس پر ایک ٹرین کوکیں مارتی ہوئی پہاڑوں،میدانوں ،دریاﺅں سے گزرتی جارہی تھی۔شیخ صاحب نے چیخ کر کہا” ٹرین روکو۔“سکریڑی نے فورا ٹرین روک دی ”سر! کیا بات ہے۔؟“”تم دیکھ نہیں رہے اس گاﺅں کے لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔“انہوں نے ریلوئے ٹریک کے ارد گرد کھڑے ”باوے“ دکھاتے ہوئے کہا۔”یہ لوگ جلالپور جٹاں میں ٹرین کا سٹاپ چاہتے ہیں۔ریلوئے انتظامیہ سے بات کرو اور لوگوں کا احتجاج ریکارڈ کراﺅ۔اور چیرمین ریلوئے سے کہنا ہم پر علاقہ کا سیاسی دباﺅ بھی ہے۔“”ٹھیک ہے سر! میں بات کرتا ہوں۔“شیخ صاحب داخلی دروازے کی جانب بڑھ گئے۔باہر سے چکر لگا کے دوبارہ ڈرائنگ روم کی جانب بڑھ آئے۔”سر! ریلوے انتظامیہ سے بات ہو گئی ہے۔وہ آج ہی سٹاپ کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیں گے۔“”اچھا ٹھیک ہے ۔یار آج کل تو کوئی ملاقات کرنے بھی نہیں آتا۔کیا سہانے دن تھے۔جب لوگ گاڑی کے پیچھے یوں بھاگ کے سلام لیتے تھے جیسے ان کی لاٹری نکل آئی ہو۔واہ استاد مشرف کیا گئے ہو سارا میلہ ہی مکا دیا ہے۔“شیخ صاحب نے پرانی بھولی بسری یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا۔”سر! آپ لنچ کر لیں اس کے بعد آپ کی چینلز اور اخبارات کے نمائندوں کے ساتھ پریس کانفرنس ہے۔“”یہ انتظام کب کر لیا میرے ساتھ رہ کر چالاک ہو گئے ہو تم۔“ ”سرجی! جلدی کھانا کھا لیں نمائندوں کی مائیں کافی دفعہ ان کا پوچھ گئی ہیں۔”اوہ اچھا “شیخ صاحب نے کچھ سمجھتے ہوئے جلدی سے اٹھ کر کہا۔کھانے کے بعد شیخ صاحب اپنے سکریڑی کے ساتھ ایک ہال نما کمرے میں داخل ہوئے۔وہاں چھوٹے بڑے بچوں میں ہڑ بونگ مچی ہوئی تھی۔چند چھوٹے بچے تو باقاعدہ رونے کی کوشش میں تھے۔”بس بھئی بس پریس کانفرنس شروع کرتے ہیں ۔خاموش ہو جائیں۔“شیخ صاحب کرسی صدارت کی جانب بڑھ گئے۔”بھئی میں جس سے کہوں وہی سوال پوچھے۔“بچے چپ ہو گئے مگر ان کی کھی کھی بند نہ ہو سکی۔”جی آپ “۔شیخ صاحب نے ایک بچے کی جانب اشارہ کیا۔”آپ تائے مشرف کو تو یاد کرتے ہی ہیں کبھی انہوں نے بھی آپ کو یاد کیا۔“شیخ صاحب نے اپنے سکریڑی کو گھورا”ان کو سوال تم نے خود تو نہیں لکھ کر دیئے۔“”نہیں سر! میں نے تو سمجھا تھا بچے ہیں ماڑے موٹے سوال کریں گے مگر لگتا ہے یہ تو ”کھنے سینکیں“گے۔“”جی آپ۔“انہوں نے ایک سیانے بچے کی جانب اشارہ کیا۔”سر جی! چودھریوں نے آپ کی چھٹی کروا دی ہے کہ آپ نے خود ان کو چھوڑا ہے۔“انہوں نے اپنے سکریڑی کو گھورتے ہوئے کہا ”کہیں تم سچ مچ کے نمائندے تو نہیں اٹھا لائے۔“”نہیں سر !آپ آگے تو بڑھیں۔“”جی آپ ۔“انہوں نے تیسرا دانہ چکھنے کی کوشش کی۔”یہ شریف برادران آپ کو واپس کیوں نہیں لے رہے۔“”چپ کر اوئے جیو کے بچے۔بند کر اس پریس کانفرنس کو دماغ ماؤف کر کے رکھ دیا۔ان کو ٹافیاں دے اور فارغ کر۔وڈے صحافی۔“سکریڑی بچوں کے اودھم کے دوران ان میں ٹافیاں تقسیم کر رہا تھا اور شیخ صاحب کرسی صدارت پر بیٹھے اسے گھور رہے تھے۔ٹی وی پر لہریں آنا شروع ہو چکی تھیں۔سٹلائٹ کا طے شدہ وقت ختم ہو چکا تھا۔

وصی ظفر
مرغے کی بانگ کے ساتھ ہی ان کی آنکھ کھل گئی۔کچھ دیر لیٹے مرغے کو گھورتے رہے،جب وہ بانگیں دینے سے باز نہ آیا تو بادل نخواستہ اٹھے۔گھر سے باہر نکلے کیکر سے مسواک اتاری ۔نہر کنارے چہل قدمی اور مسواک کرتے رہے۔گھر واپس آئے تو فریش تھے۔نوکر سے پوچھا” کوئی ملنے تو نہیں آیا۔“نوکر نے سر کو دائیں بائیں پھیر دیا۔”اوئے یہ کیا سلام پھیر رہے ہو۔منہ سے پھوٹو۔“ان کا پارہ یک دم چڑھ گیا۔نوکر گھبرا گیا ’نہیں سر! کوئی نہیں آیا۔“”اچھا کبھی تو انہیں دوبارہ آنا پڑے گا۔“تیار ہو کر دفتر پہنچے۔اپنے اسسٹنٹ سے کہنے لگے۔”آج قانون کی ساری کتابیں الماریوں سے نکال کرادھر میز پر رکھو۔“اسسٹنٹ نے حیرانی سے پوچھا ”کیا سارا قانون آج ہی پڑھنا ہے۔“”اوئے نہیں کتابوں کو اچھی طرح صاف کرکے الماریوں میں لگاﺅ۔کتابوں کو صاف کرتے رہنا چاہیے اس طرح ان میں کیڑا نہیں لگتا۔“کرسی پر بیٹھ کر ایک کیس کی ورق گردانی میں مصروف ہو گئے۔اسسٹنٹ نے کتابوں کو نکالنا شروع کر دیا۔”اس کیس کی آج تاریخ ہے۔“انہوں نے کیس کے ورق پلٹتے ہوئے کہا۔”نہیں سر! یہ تو بڑا پرانا کیس ہے ۔میں صفائی کر رہا تھا تو اس کو ویسے ہی آپ کی میز پر رکھ دیا۔“”اچھا کوئی دعوت شاوت کوئی انٹر ویو شنٹرویو“نہیں سر! آپ بالکل فارغ ہیں۔“اسسٹنٹ نے معنی خیز لہجے میں کہا۔دفتر میں تین آدمی داخل ہوئے ان کے ہاتھ میں ایک زخمی مرغا تھا۔حلیے سے وہ دیہاتی معلوم ہوتے تھے۔”جی“اسسٹنٹ نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔وصی ظفر صاحب ان کو دیکھتے ہی ایک فائل میں گم ہو گئے۔”جی ان کو وکیل کرنا تھا۔“ان میں سے ایک دیہاتی نے وصی ظفر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”ان کی فیس ذرا تگڑی ہے۔“”وہ ہم ادا کر دیں گے۔“”اچھا ،کیس کیا ہے۔“اسسٹنٹ نے اچھا کو حیرت کے ساتھ ادا کیا۔”جی ککڑوں کی لڑائی میں ہمارا ککڑ ہار گیا ہے۔اس کو جتوانا ہے فیس آپ جتنی مرضی لے لیں۔یہ ہماری عزت کا معاملہ ہے۔“”مگر لڑائی ختم ہو گئی ہے۔ہار جیت کا فیصلہ ہو گیا ہے۔اب کیا ہو سکتا ہے۔“اسسٹنٹ نے قانونی نقطہ نکالا۔”جناب ! ہو کیوں نہیں سکتا ہمارے پاس سی ڈی ہے۔بس اسے ذرا غور سے دیکھیں ۔قانونی نقاط پر غور کریں اور بس کیس دائر کریں۔“اسسٹنٹ نے کن اکھیوں سے ان کی جانب دیکھا انہوں نے کتاب کے پیچھے سے ہاں میں سر ہلا دیا۔”ٹھیک ہے آپ سی ڈی دے دیں ہم صاحب کو دکھا دیں گے۔اس میں جو کوئی قانونی پوائنٹ ہوئے اس کی بنا پر کیس دائر کر دیں گے۔جیت یقیناً آپ کا مقدر بنے گی صاحب نے آج تک کوئی مقدمہ نہیں ہارا۔“’ٹھیک ہے فی الحال یہ پچاس ہزار روپے ٹوکن رکھ لیں۔باقی فیس بھی ہم آپ کے کیس دائر کرنے سے پہلے پہنچا دیں گے۔“یہ واسع ظفر صاحب ہی ہیں ناں کسی نے ہمیں ان کے پاس بھیجا تھا۔“”ہاں ہاں وہی ہیں “اسسٹنٹ نے پچاس ہزار روپے قابو کرتے ہوئے کہا۔ان کے جانے کے بعد دونوں ہاتھوں پر ہاتھ مار کر مسکراتے رہے۔”سر جی ! آپ وزیر قانون رہے ہیں۔ واسع ظفر کی آپ کے سامنے کیا اہمیت۔“تقریباً چار بجے سٹلائٹ کے نشریاتی رابطے میں کوئی فنی خرابی پیدا ہو گئی۔جس کی وجہ سے ٹی وی لہریں ہی” گناتا“ رہا۔

اعجازالحق
افراتفری میں اٹھے ملازم کو آواز دی۔”اوئے جلدی کر آج پھر لیٹ ہو گئے ہیں۔“ میں تو تیار ہوں سر! آپ ہی لیٹ اٹھیں ہیں۔“ملازم نے گاڑی میں سامان رکھتے ہوئے کہا۔”کوچی ضرور رکھ لینا کل بھی بھول گیا تھا۔“اعجازالحق نے پانی کے چھینٹے منہ پر مارتے ہوئے کہا۔ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی وہ بھاگم بھاگ لال مسجد پہنچے۔ماحول پر ابھی صبح کی سپیدی غالب نہیں آئی تھی۔انہوں نے گاڑی لال مسجد کے پچھلی جانب کھڑی کی۔ملازم کوچی اور رنگ کی بالٹی اٹھائے ان کے ساتھ تھا۔”رنگ تو لال ہی تھا ناں “۔”جی جی سر! رات کو تازہ بنایا تھا۔“”بس یہاں جلدی سے کوچی پھیر دو۔“انہوں نے ایک جانب اشارہ کیا۔ابھی ملازم نے تھوڑا ہی رنگ پھیرا تھا کہ دور سے سیٹی کی آواز سنائی دی۔شائد انہیں کسی نے دیکھ لیا تھا۔وہ فورا گاڑی کی جانب دوڑے اور ڈرائیور نے جلدی سے گاڑی آگے بڑھا دی۔ابھی اعجازالحق ناشتے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ملازم نے اطلاع دی بیس پچیس آدمیوں کا وفد آپ سے ملنا چاہتا ہے۔”میرے حلقہ انتخاب سے آئے ہوں گے۔”یہ میں نے نہیں پوچھا ۔میں نے سوچا کافی دنوں بعد رونق لگی ہے پوچھ کر کیا منہ کا ذائقہ خراب کرنا ہے۔“”ٹھیک ہے ان کی خاطر تواضع کرو۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے کندھوں پر بیٹھ کر ہم اسمبلی میں پہنچتے ہیں ۔ان کی بہت عزت کرنی چاہیے۔“اعجاز الحق کے اندر داخل ہونے پر وہ سب تعظیماً کھڑے ہو گئے۔اعجازالحق نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔”جی بزرگوں! آپ مجھے وہاں بلا لیتے میں وہیں حاضر ہو جاتا چلو اسی بہانے حلقہ کے دوسرے لوگوں سے بھی ملاقات ہو جاتی۔“جناب ! ہم وہ لوگ ہیں جن کی بچیاں جامعہ حفصہ میں پڑھتی تھیں۔“ایک بزرگ نے نم ہوتی ہوئی آنکھوں سے کہا۔”آپ جہاں ،جس پلیٹ فارم پر کہیں میں جانے کے لئے تیار ہوں لیکن اس وقت میں بے اثر ہوں۔“ ”آپریشن سائلنس کے وقت آپ کونسا بااثر تھے۔“”بس ہو گیا ناں ۔اس آمر نے اپنی مرضی کر لی۔آئیں ان کی روح کے ایصال و ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کریں۔“اعجازالحق کی آنکوں سے آنسووﺅں کی رم جھم جاری تھی۔وہ سب اعجازالحق کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے۔انہوں نے مل کر فاتحہ خوانی کی اور چپ چاپ ان سے مصافحہ کرکے رخصت ہو گئے۔ان کے جانے کے بعد انہوں نے اپنے ملازم کو آواز دی ۔”اگر کوئی ملنے آئے اس سے کم از کم علاقہ اور کام ضرور پوچھ لیا کرو۔“’ٹھیک ہے سر! “نوکر نے گردن جھکا دی۔نماز ظہر انہوں نے لان میں بنی ہوئی مسجد میں ادا کی جس پر لال رنگ اور لال رنگ سے لکھا ہوا لال مسجد چمک رہا تھا۔نماز کے بعد انہوں نے گھریلو ملازمین کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا ۔انہوں نے اپنے سکریڑی کو آواز دی ۔”آج کوئی ملاقات ،کوئی پریس کانفرنس“”نہیں سر! آپ کی آج کوئی مصروفیت نہیں۔“انہوں نے ڈرائنگ روم میں ہی پاﺅں پسار لئے مبادا کوئی ملنے نہ آ جائے۔عصر کی نماز بھی انہوں نے ”لال مسجد“ میں ادا کی۔نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے ڈرائیور سے کہا ”گاڑی نکالو۔آج ذرا آنکھیں دکھائیں“۔”سر! کس کو دکھانی ہیں۔“ ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔”جب ہم وزارت میں تھے تب نہ دکھا سکے اب ”بے اثرے“ ہو کر کس کو دکھانی ہیں۔ذرا ڈاکٹر سے چیک اپ کروانا ہے۔ڈرائیور کے ساتھ وہ گاڑی میں آنکھوں کے سپیشلسٹ کے پاس پہنچے ۔ڈاکٹر صاحب نے ان کی آنکھوں کا اچھی طرح معائنہ کیا۔”سر! آپ گلیسرین نہ استعمال کیا کریں ۔اس سے آنکھیں خراب ہو رہی ہیں۔“”ٹھیک کوشش کروں گا اب نہ استعمال کروں۔“اعجازالحق نے کمپیوٹر مشین سے ٹھوڑی اٹھاتے ہوئے کہا۔”یہ میں دوا لکھ رہا ہوں اسے پابندی سے استعمال کریں۔“ڈاکٹر نے ان کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔گاڑی میں بیٹھتے ہوئے انہوں نے ڈرائیور سے گارٰ ی کسی ای این ٹی سپیشلسٹ کی جانب موڑنے کے لئے کہا۔مگر اسی لمحے ٹی وی کی شاں شاں شروع ہو گئی۔نہ جانے وہ ای این ٹی سپیشلسٹ سے کیا چیک کروانا چاہتے تھے۔گلا ،ناک یا کان۔ویسے ہمارا ”تکا“ کان ہیں۔مظلوموں کی آہیں، چیخیں کب کانوں میں رس گھولتی ہیں۔

ڈاکٹر شیر افگن
تکیے کو پکڑے چلا رہے تھے۔نہیںچھوڑوں گا ۔نہیںچھوڑوں گا۔ملازم بھاگے ہوئے آئے کے ہاتھوں سے بمشکل تکیہ چھڑایا۔ملازم سے پوچھا ”کیا ہوا تھا ؟“۔وہی سر! جو روزانہ ہوتا ہے۔آپ شائد خواب میں ڈر گئے تھے۔“”ہاں ،ہاں شائد “انہوں نے خوف ذدہ سے لہجے میں کہا۔خوب ڈٹ کر ناشتہ کیا۔ملاقات کے لئے ڈرائنگ روم میں آبیٹھے۔ڈرائنگ روم میں ہر جانب جنرل مشرف کی تصویروں کے مختلف پوز تھے۔لائٹ کو مدہم کیا ۔سی ڈی پلیئر سے مدھر سی موسیقی ہر جانب خوشبو بکھیر گئی۔
جس طرف آنکھ اٹھاﺅں تیری تصویراں ہیں
نہیں معلوم کہ یہ خواباں ہیں کہ تعبیراں ہیں

دروازے پر دستک ہونے پر ان کی محویت کا عالم ٹوٹا ۔انگوٹھوں سے آنکھوں کے کونوں کو صاف کیا۔منہ ہی منہ گویا ہوئے ۔جنرل تیری یاد بہت آ تی ہے۔دروازہ کھولنے پر ملازم نے انہیں بتایا کہ کلینک کا ٹائم ہو گیا ہے۔الیکشن میں ہارنے پر دل برداشتہ ہو کر کلینک گھر میں اٹھا لائے تھے۔دوکان کے شیشے پر روزانہ کوئی لکھ جاتا تھا ۔تو نے ہرا دیا۔ہاں،ہاں تو نے ہرا دیا۔قاف لیگ کو مکا دیا۔صدر بھگا دیا۔کلینک میں ملازم سے کہا۔”سب کتابیں تم نے گڈ مڈ کر دی ہیں۔ڈاکٹری اور قانون ان کو الگ کرو۔“”سر جی! میں تو ان پڑھ ہوں کیا فارمولہ لگاﺅں“۔”بہت ہی آسان سا فارمولہ ہے۔جو کتاب آنکھیں بند کرکے اٹھاﺅ گے۔وہ قانون ہو گا۔جو آنکھیں کھول کر اٹھاﺅ گے وہ ڈاکڑی ہوگی۔“”سرجی! یہ تو بہت آسان فارمولہ ہے۔“ بےوقوف! قانون کا استعمال ہمیشہ آنکھیں بند کرکے کرنا چاہیے ۔صرف اس وقت جب تم اقتدار میں ہو ۔اگر حزب اقتدار ہو تو آنکھیں بند کرنا تمہارے لئے خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ “انہوں نے کتابوں کو خود سیٹ کرتے ہوئے کہا۔”جاﺅ سکریڑی کو بلا کر لاﺅ۔“تھوڑی دیر بعد میڈیا سکریڑی نے آ کر سلام کیا۔”آج کوئی میٹنگ،پریس کانفرنس،کوئی آن لائن بکنگ۔“”نہیں سر! ایک بکنگ تھی۔کسی دور افتادہ گاﺅں میں پرائمری سکول کے بچوں کو آئین پاکستان سے رو شناس کروانا تھا۔اس کے لئے آپ کو چنا گیا تھا۔لا ہوری واقعے کے بعد آپ لمبا سفر کرتے ہی نہیں۔“”یہ تم نے اچھا کیا اب تو میں ہر قدم بہت پھونک پھونک کر رکھتا ہوں۔“”سرجی! ایک مریض آیا ہے۔“ملازم نے آ کر خاش خبری سنائی۔” ٹھیک ہے بھیجو“وہ جھٹ ڈاکٹر بن کر بیٹھ گئے۔مریض نے ان کے ساتھ آ کر مصافحہ کیا۔”جی کیا بیماری ہے آپ کو۔“”کیا مطلب ؟“ آنے والے نے حیرانی سے کہا۔”دیکھو بھئی میرا ایک اصول ہے میں اس وقت تک علاج شروع نہیں کرتا جب تک سارے ٹسٹ نہ کروا لوں۔اگر ٹسٹ ٹھیک ہو ں گے تو علاج کروں گا اور اگر ٹسٹ میں کوئی گڑ بڑ نکل آئے تو پھر ہماری جانب سے کھلی چھٹی ہے کہ وہ ٹھیک ہو ں گے تو علاج کروں گا اور اگر ٹسٹ میں کوئی گڑ بڑ نکل آئے تو پھر ہماری جانب سے کھلی چھٹی ہے کہ وہ اپنا علاج کسی اور ڈاکٹر سے کروا لے۔“انہوں نے صاف صاف کہہ دیا۔”جی میں علاج کے لئے نہیں ایک قانون مشورے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔“اس نے گھبراتے ہوئے کہا۔”تو پہلے بتاتے ناںیہ کیس چیمبر کا ہے ۔میرے ساتھ آﺅ۔“وہ اٹھ کر شیشے کے بنے ایک کیبن میں چلے گئے۔”جی اب بتائیں۔“انہوں نے بیٹھتے ہوئے کہا۔”سر جی! ہمارے حلقے کا ایم پی اے اللہ کو پیارا ہو گیا ہے۔میںالیکشن لڑنا چاہتا ہوں ۔لیکن حلقے میں میری شہرت اچھی نہیں ہے۔اس لئے میں آپ سے آئین کے مطابق قانونی مدد چاہتا ہوں۔“”اچھا ادھر کان میں اپنی شہرت کی چیدہ چیدہ وجوہات بیان کرو ۔دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔“انہوں نے دوسرے کان پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔”سر جی! یہ آپ دوسرے کان پر ہاتھ کیوں ہاتھ رکھ رہے ہیں۔“”بھئی بات کہیں دوسری طرف نہ نکل جائے۔“اور آنے والے ساری باتیں ان کے کان میں انڈیل دیں۔”ٹھیک ہے بیٹھو“۔انہوں نے اس کی ساری بات سن کر کہا۔انہوں نے آئین کی بہت ساری کتابوں سے استفادہ کیا۔”بات یہ ہے برخوردار !اگر ہم آئین کی شق 62کی بلائی شقوں کو 63 کی زیریں شقوں کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو نتیجہ تمہارے نااہل ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔اس لئے انتخابی مہم میں پیسے ضائع نہ کرو۔دوپہر کے کھانے میں گھریلو ملازمین کے ساتھ اس نوجوان کو بھی شامل کیا۔کھانے کے بعد وہ نوجوان رخصت ہوا تو ٹی وی دیکھتے رہے۔سہانے منظر ان کی آنکھوں کے سامنے گھومتے رہے۔جب ہر چینل پر وہی نظرآتے تھے۔تھوڑی دیر سستاتے رہے۔اس کے بعد ملازمین کو تیاری کا حکم دیا۔انہوں نے خود بھی ڈندا اٹھایا ہوا تھا ۔دہشت ذیادہ کرنے کے لئے ماتھ پر پٹی باندھی ہوئی تھی۔ملازمین کے ساتھ لان میں پہنچے تو وہاں ایک کھٹارہ سے گاڑی کھڑی تھی۔جس میں چند ”باوے“ مختلف شبیہوں کے نظر آ رہے تھے۔ملازمین کے ساتھ گاڑی پر پل پڑے۔وہ بار بار ایک ہی باوے کو کھینچتے رہے۔وہ منہ سے عجیب و غریب آوازیں بھی نکال رہے تھے۔اس کے ساتھ ہی سٹلائٹ کی کوریج آوٹ آف رینج ہو گئی۔شائد ٹائم ختم ہو چکا تھا۔

محمد علی درانی
صبح سویرے اٹھے۔خوب ڈٹ کر ناشتہ کیا۔خوبصورت سا سوٹ زیب تن کیا۔ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا کہا۔ہاتھ میں بریف کیس پکڑا اور باہر جانے کے لئے لپکے۔ملازم نے ان کا راستہ روکا ”سرجی! کہاں جا رہے ہیں۔“”کیا مطلب دیکھ نہیں رہے۔دفتر جا رہا ہوں ۔وزیر اطلاعات کی پوسٹ ایک اہم پوسٹ ہے۔پتہ ہے شیخ صاحب کو جنرل نے کیوں فارغ کیا۔وہ ایک غیر ذمہ دار آدمی تھے۔پیچھے ہٹ جاﺅ کیوں دیر کروا رہے ہو۔“”مگر سر جی! گھڑی تو دیکھیں“ملازم نے گھڑی انکے آگے کرتے ہوئے کہا ”تو اسی وقت تو جانا ہے۔آج جنرل کے ساتھ خصوصی بریفنگ ہے۔چینلز والے بار بار مجھے فون کر رہے ہوں گے۔“”مگر سرجی! مہینہ اور سال تو دیکھ لیں۔“کیا ہو مہینے اور سال کو۔“انہوں نے چونک کر کہا ۔”اچھا مہینہ اور سال نہ دیکھیں ذرا ٹی وی ہی دیکھ لیں۔“”اچھا لگاﺅ ٹی وی “انہوں نے زچ ہو کے کہا۔ٹی وی پر قمر الزمان کائرہ کی پریس کانفرنس چل رہی تھی۔”یہ مجھے کب بدل دیا۔“انہوں نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔”سرجی! صرف آپ ہی نہیں بدلے سارا ملک بدل گیاہے۔یہ سب کچھ روزانہ آپ کو بتانا پڑتا ہے۔کسی ماہر نفسیات سے رابطہ کریں۔“”ہاں ،ہاں یا آ گیا یہ 2009 ہے اور جنرل سمیت ہم سب فارغ ہو چکے ہیں۔“انہوں نے بریف کیس کو رکھتے اور ٹائی کی ناٹ کو ڈھیلی کرتے ہوئے کہا۔سامنے جنرل مشرف کی فوجی وردی میں قد آدم تصویر مسکرا رہی تھی۔ان کی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔انہیں یوں لگا جیسے جنرل ان سے کہہ رہے ہوں۔
میں اک دن لوٹ کے آﺅں گا
یہ مت بھول جانا تم
مجھے تم یاد کرنا اور مجھ کو یا آنا تم

”جنرل لوٹ آﺅ،چلے بھی آﺅ کہ گلشن کا کاروبار چلے۔“ان کہ ہچکی بندھ گئی۔ملازم نے آگے بڑھ کر انہیں گلے سے لگا لیا۔”درانی صاحب وقت پھر آئےگا جیسے موسم بدل کر آتے ہیں۔“انہوں نے آنسو صاف کرتے ہوئے اپنے سکریڑی کو آواز دی۔اس نے آکر فرشی سلام کیا”آج کوئی کسی کے ساتھ میٹنگ،کسی چینل کے ساتھ آن لائن ٹاک شاک۔“”نہیں سر! تمام چینلز نے آپ کو بین کر رکھا ہے۔آپ نے اپنے دور وزارت میں ان کے ساتھ کیتی تھوڑی ہے۔“”بات تو تمہاری ٹھیک ہے مگر ہم تو پتلیاں تھیں دھاگے تو کسی اور کے ہاتھ میںتھے۔ بہر حال چھوڑو حلقے سے کوئی ملنے تو نہیں آیا۔“”نہیں سر! میں نے کل ہی ڈرائنگ روم کی صفائی کروائی ہے ۔جھالے اتروائے ہیں ۔آنا جانا لگا رہے تو جھالے بھی نہیں لگتے۔“”اچھا وہ میرا سی ڈی والا بیگ لادو۔“ملازم نے سی ڈی والا بیگ ان کے حوالے کیا۔انہوں نے اپنی وزارت کے دور کی تمام سی ڈی سنبھال کر رکھی تھیں۔کافی دیر ان کو لگاتے اور نکالتے رہے۔جب دل بھر گیا تو وہیںصوفے پر ہی لیٹ گئے۔کافی دیر سوئے رہے ۔ملازم نے بھی جگانا مناسب خیال نہ کیا۔خود ہے نیند سے بیدار ہوئے۔ملازمین کے ساتھ کھانا کھایا ۔کھانے کے بعد انہوں نے اپنے ملازمین سے کہا ’یار ذرا مجھے میری وزارت کا دور تو یاد کروا دو۔“”ٹھیک ہے سر! “سبھی نے اقرار میں سر ہلا دیا۔ان کے ملازم ان سے پہلے ہی ایک ہال نما کمرے میں داخل ہوئے۔ان کے داخل ہونے سے پہلے ڈندے سوٹے چل چکے تھے۔وہاں شیشے کے ٹوٹے ہوئے کیبن پڑے ہوئے تھے جن پر مختلف چینلز کے نام لکھے ہوئے تھے۔مختلف شباہت کے باوے چینل کے دروازوں کے پاس کھڑے تھے۔وہ خود ہاتھ پیچھے باندھے ان ”باووں“سے پوچھتے رہے ”ہوا کیا ہے؟“۔انہوں نے چینل کے ایک ”باوے“ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”حکومت ان غنڈہ گرد عناصر کے خلاف سخت ایکشن لے گی۔“اسی لمحے شاں شاں شروع ہو گئی اور ٹی وی بند ہوتا چلا گیا۔
Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 32566 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.