چڑیاں کہاں جائیں؟

 ہمارے گھر کے باہر کی چھوٹی دیوار پر بوگن بیل نے اپنے قدم جما رکھے ہیں، بیل پرانی ہونے کی بنا پر اسے زیادہ پھیلنے سے کاٹنا پڑتا ہے، یوں سردیوں میں اس کی حالت یہ ہو جاتی ہے، جیسے صدیوں پرانی خشک شاخیں ہیں، تاہم ان کے کسی کونے میں کچھ شگوفے بھی پھوٹتے رہتے ہیں، خزاں کی رخصتی پر بہار نے اُن خشک ٹہنیوں میں بھی رنگ بھر دیا ہے، اب وہاں سے بھی نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔ ان بیلوں کے قریب ہی شیشم کے دو درخت ہیں، جو ہیں تو کافی پرانے، مگر بس زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں،سڑک سے پار بھی درخت ہیں، یوں گرمیوں میں کچھ سائے اور ٹھنڈک کا احساس ضرور رہتا ہے۔ نماز فجر سے واپس پہنچتا ہوں تو یہاں چڑیوں نے خوب رونق لگا رکھی ہوتی ہے، بوگن بیل کی خشک شاخوں کا رنگ بھی چڑیوں جیسا ہی ہے، وہ ایک شاخ سے دوسری پر پھدکتی، اچھلتی اور چھوٹی چھوٹی اڑانیں بھرتی شور کرتی ہیں۔ ان کی چوں چوں کا شور کانوں کو بہت بھاتا ہے، میں چند لمحے وہاں رک جاتا ہوں، اور اﷲ تعالیٰ کی اس خوبصورت نعمت اور تحفے سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔

بوگن بیل کی ویران شاخوں پر چڑیوں کا پھدکنا اس وجہ سے بھی ہے کہ خاتونِ اول نے روز کا معمول بنا رکھا ہے، کہ وہ صبح ناشتے کے بعد چڑیوں کو کچھ نہ کچھ خوراک ڈالتی ہے، بعض اوقات تو اپنے حصے کی روٹی میں سے ہی کچھ بچا کر باہر روانہ ہو جاتی ہے۔ دن میں یہ کاروائی دو سے تین مرتبہ ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ خاتون ابھی باہر صحن میں نکلی، چڑیوں نے درجہ بدرجہ درخت یا بیل سے نیچے آنا شروع کیا۔ اس نے خوراک ڈالی اور چڑیاں اس کے قدموں کے قریب ہی زمین پر اترآئیں، یہی منظر اسے سکون دیتا ہے، وہ اﷲ کی اس مخلوق کی خوشی کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ کبھی مجھے بھی یہ فریضہ سرانجام دینے کا حکم مل جاتا ہے، اور میں بھی ثوابِ دارین کی غرض سے چڑیوں کو دانہ ڈالنے چلا جاتا ہوں، مگر یہ دلچسپ واقعہ ہوتا ہے کہ مجھے دیکھ کر چڑیاں شاخوں سے نیچے نہیں آتیں، حتیٰ کہ نیچے کی طرف سفر بھی شروع نہیں کرتیں، میں دانہ وغیرہ ڈال کر واپس آتا ہوں تو وہ بعد میں اپنا کام کرتی ہیں۔ خاتونِ خانہ چونکہ روزانہ ان کی خدمت کرتی ہے، اس لئے وہ دونوں ایک دوسرے سے مانوس ہو چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں صرف چڑیاں ہی نہیں آتیں، ایک دو بلبل نما پرندے بھی اتر آتے ہیں، اور اپنی قسمت کا دانہ دنکا چُگ لیتے ہیں، اس کے علاوہ کئی لالیاں بھی وہاں آجاتی ہیں۔ ساتھ والے گھر کی طرف سے ایک بلی بھی گھات لگا کر بیٹھی ہوتی ہے، جو زمین پر رینگنے کے انداز میں چڑیوں کی طرف بڑھتی ہے، مگر اسے کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں سب سے بڑی رکاوٹ ہم لوگ ہوتے ہیں۔
 
اگر عام اور سرسری نگاہ سے دیکھا جائے تو ان مناظر میں کچھ بھی دکھائی نہیں دے گا، مگر غور کیا جائے تو ایک طرف ان پرندوں کی خوراک کی کہانی ہے تو دوسری طرف ان کی اپنی زبان سے شکریے کی داستان ہے، یہ صبح اﷲ تعالیٰ کی تسبیح پڑھتی اور اس کی دی ہوئی خوراک پر ا س کا شکر ادا کرتی ہیں، اور ہم لوگ اس سارے منظر سے سکون حاصل کرتے اور ذہنی آسودگی پاتے ہیں۔ ہماری گلی کے کونے پر ہی ایک پارک ہے، جس کے گیٹ سے داخل ہوتے ہی سڑک (راستہ) مکمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، کچھ ہی عرصہ قبل یہاں ٹف ٹائل سے خوبصورت راستہ بنایا گیا تھا، نہ جانے وہ ٹائیلیں کہاں گئیں ۔ پارک اگرچہ چھوٹا ہے، اور سابق نظامت دور میں یہاں کے ناظم نے ناجائز قابضین سے جگہ خالی کروا کے یہاں پارک بنا دیا تھا، اس میں واک کرنے کے لئے ٹریک بھی تھے، (نام کی حد تک اب بھی ہیں) تین طرف سے راستہ تھا، درمیان میں فوارہ تھا، روشنیوں کا بندوبست تھا، بیٹھنے کے لئے جگہ جگہ مضبوط بنچ پڑے تھے، مگر اب درمیان والے راستوں، بنچوں، گیٹوں اور بجلی کے کھمبوں کے علاوہ یہاں کچھ بھی نہیں۔ شام کو بچے کھیلتے ہیں تو گردو غبار آسمان سے باتیں کررہا ہوتا ہے، روشنی کا تصور قصہ پارینہ بن چکا ہے، گھاس نامی چیز کا یہاں تصور نہیں، پارک کا بیرونی ٹریک مٹی سے اور کھڈوں سے اٹا ہوا ہے، جہاں مٹی والے خراب راستوں والی موٹر سائیکل ریلی منعقد کی جاسکتی ہے۔ پانی کا عمل دخل یہاں نہیں ۔ چڑیاں کہاں جائیں، بلبل کہاں بولے، لوگوں کو تازہ ہوا کہاں سے دستیاب ہو، مقامی حکومتوں کے ذمہ داران کو خوابِ خرگوش سے کون جگائے؟
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 432684 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.