ہمدردی اور اخلاقیات

ہمدردی اوراخلاقیات بظاہر بہت چھوٹے الفاظ معلوم ہوتے ہیں ،لیکن انہی الفاظ کو جب عملی جامہ پہنادیا جائے تویہ آپکی اور آپکے ارد گرد کی دنیا کو مکمل طور پر تبدیل کرسکتے ہیں ۔ ہر روز بے شمار بار ہمیں یہ مو قع میسر آتا ہے کہ ہم لوگوں اور چیزوں کے بارے میں اپنی پسند اور نا پسند کا انتخاب کریں ،رویوں کے مطابق پسند نا پسند کا یہی انتخاب ہمیں بتاتا ہے کہ ہم کون ہیں اورانسان ہونے کے ناطے اخلاقی لحاظ سے کتنی بلندی پر ہیں ۔Abraham Joshua Haschel کہتا ہے کہ " جب میں چھوٹا تھا تو مجھے چالاک لوگ متاثر کرتے تھے لیکن آج جب میں بوڑھا ہوں تو مجھے ہمدرد لوگ متاثر کرتے ہیں" ۔
Henry James زندگی میں تین آہم چیزوں کے بارے میں بتاتے ہوئے لکھتا ہے کہ "Three things in human life are important ,The first is to be kind,The second is to be kind ,and the third is to be kind. "
دوسروں کے کام آنا ،اپنے دل میں دوسروں کے لیئے ہمدردانہ جذبات رکھنا بھی عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسا ن کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

آج اس افراتفری کے دور میں جہاں ہر شخص اپنی زندگی میں اس حد تک مصروف ہے کہ ہمسائے تو کیا ایک ہی گھر میں دوسرے کمرے میں مقیم فر دکے حالات سے بھی یکسر لا علم ہے،لاعلمی کی یہ سطح انسانی زندگی کیلئے نہائیت نقصاندہ ہے۔دلوں میں ہمدری کے جذبات نہ ہونے کی وجہ سے ہی آج معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے،خود کشیوں کی شرح بڑھتی جا رہی ہے،بچوں کی تربیت میں اس پہلو کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے آج پروان چڑھنے والی نوجون نسل وحشتناک خیالات کی مالک ہے۔دوسری طرف سوشل پلیٹ فارمز نے رشتوں میں کبھی نہ ختم ہونے والی دوری کو جنم دیا ہے،آج ہم ساری دنیا کے مسائل سے آگاہ لیکن اپنے قریب بسنے والوں کے حالات اور مشکلات سے بے خبر ہیں۔انکے مسائل حل کرنے کا ہمارے پاس وقت ہی نہیں ،کھانے کی میز پر ہونے والی چند گھڑیوں کی ملاقات ہی بچوں اور والدین کے درمیان تعلق قائم رہنے کی وجہ رہ گئی ہے۔فیس بک اور ٹوئیٹر پر کسی غریب کی تصویر دیکھ کر دکھی جملے سے اپنی رائے کا اظہار تو کر سکتے ہیں مگر کسی اپنے کی مشکلات دریافت کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں ۔ہر روز ایسے بیشمار موقع آتے ہیں جب ہم اپنی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا اخلاقی فریضہ پورا کر سکتے ہیں ۔والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اخلاقیات کے چھوٹے چھوٹے پہلوؤ ں سے پہچان کروائیں ۔بچوں کو یہ بتائیں کہ دوسروں کی مدد کرنا ،مشکل میں میں دوسروں کے کام آنا ہی زندگی کا اصل مقصد اور انسانیت کی معراج ہے۔۔

کہتے ہیں کہ ہمدردی اور اخلاقیات ایک ایسی زبان ہے جسے بہرے سن سکتے اور بینائی سے محروم افراد دیکھ سکتے ہیں ۔

دقتا فوقتا بچوں کو اخلاقیات کی اہمیت بتائیے،ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں جنہیں وہ اپنے روزمرہ معمولات کا حصہ بنا کر زندگی کو آسان فہم بنا سکیں ،مثلاًاساتذہ کا احترام کرنا ،کسی سے بھی بلند آواز میں بات نہ کرنا، کسی کے لیئے دروازہ کھولنا،کھانے کی دعوت دینا ،لباس یا کام کی تعریف کرنا ،دوسروں کی طرف مسکرا کر دیکھنا ،کلاس میں کسی بچے کی کوئی چیز گم ہونے پر اسکی مدد کرنا،،کسی کی پینسل تراش کرنا،ساتھیوں کیساتھ مل کر کلاس رومز کی صفائی کرنا،نئے آنے والے بچے کو اپنے ساتھ کھیل میں شامل کرنا،پڑھائی میں مدد کرنا،اپنا لنچ باکس بانٹ کر کھانا،راستے میں بزرگوں کو سلام کرنا ،انہیں پہلے راستہ دینا،سڑک عبور کروانا،راستے سے پتھر یا کسی رکاوٹ کو دور کرنا جو دوسروں کے تکلیف کا باعث ہو،کھیلنے اور پڑھنے کی جگہوں کو صاف رکھنا،اس کے علاوہ بچوں کو یہ بھی بتایا جائے کہ گھر میں موجود بزرگ بھی عزت اور محبت کے حقدار ہیں ،بچوں کو انکے ساتھ وقت گزارنے کی تلقین کریں ،بچوں کو مہمانوں سے مہذب انداز میں پیش آنا سکھائیں ،ارد گرد رہنے والوں سے یہ دریافت کرنا کہ انہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ،اور پھر اپنی بساط کے مطابق انکی مدد کرنا، یہ چھوٹے چھوٹے عمل زندگی کو متوازن کرنے اورمثبت شہری بننے میں بچوں کیلئے مفید ثابت ہونگے،روزانہ کیا جانیوالا ایک مختصر سا ہمدردانہ عمل بھی آئندہ آنیوالی زندگی میں درست سمت متعین کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔اسی طرح جو کھانا بچ جائے اسے کوڑا دان کی نذر کرنے کی بجائے کسی بھوکے کو کھلا دینا ،پرانے اور چھوٹے ہونے والے کپڑوں سے کسی کا تن ڈھانپنا زیادہ احسن اقدام ہیں ، اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں درگزر کیجئے تاکہ انہیں صبرو تحمل اور برداشت کا سبق ملے،یہ جاننے کا موقع میسر آئے کہ بدلہ لینا کمزوری ،معاف کرنا اعلیٰ ظرفی اور بہترین عمل ہے۔بچوں سے گفتگو کرتے وقت نرم لہجے اور آسان الفاظ کا چناؤ کیجئے،انہیں پیارے نبی ؐ اور صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کے واقعات بتا کر،مثالیں دے کر اپنی بات سمجھائیں ،اس طرح انکے دلوں میں دین اور دینی شخصیات کیلئے احترام بھی پیدا ہوگا ،اور یہی باتیں اصل میں انکے لیئے مشعل راہ بھی ثابت ہونگی۔شیخ سعدیؒفرماتے ہیں کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمھارے مرنے کے بعد تمھارا نام باقی رہے تو اپنے بچوں کو اچھے اخلاقیات سکھاؤ۔

چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور کسی نہ کسی روپ میں آپ تک واپس لوٹ آتی ہے،اپنے اعمال سے آسانیاں پھیلائیے ،مسکراہٹیں بانٹیے!
asma mughal
About the Author: asma mughal Read More Articles by asma mughal: 5 Articles with 4499 views I am 32 yrs old, like to reveal untold stories and unseen realities..
I'hv master's degree in punjabi literature .i write articles and short stories
.. View More