آسکر ایوارڈ موضوع ہم سے لے لیں

ایک کے بعدڈاکومینٹری۔ہر ڈاکومیٹری کی پذیرائی اور وہ بھی اس لیول کی کہ آسکر کے لئے نامزدگی۔نامزدگی تو بعد میں ہوئی میں نے پہلے ہی دوست کو کہہ دیا تھا میاں موضوع تگڑا ہے آسکر کا ٹیگ لگا کر ہماری رسوائی کا یہ نادر موقع گورے کبھی ضائع نہیں کریں گے۔ اتنی وسیع دنیا اتنے موضوعات روز کے نت نئے مظالم وہ بھی ایسے کہ رونگھٹے کھڑے کر دینے والے۔ڈاکومینٹری بنانے کی بھی ضرورت نہیں ریڈی میڈ ویڈیوز آن لائن دستیاب ہیں۔ایک مووی اپنے گھر کی بنا لینے کے بعد میرا خیال تھا کہ دوسری ڈاکومینٹری تالیا ں بجانے والوں کے ذرخیز کلچر کے بارے میں بھی بنائی جائے گی۔کیا ہم غلام اور کیا ہماری اوقات۔ہماری ہیروئنز کے تو بارڈر پار جا کر کپڑے اتر جاتے ہیں کجا آسکر ایوارڈ امریکا اوباما کی پذیرائی۔واہ اپنے منہ پر آپ کالک مل کر جشن منانے والے شاندار لوگ ۔ایک لڑکی کی کہانی کو روتی معصومیت کا لبادہ اوڑھے شریر شرمیں عبید کو کیا رونا روئیں۔زوال کے دور میں قوموں کا ہر انڈہ ہی خراب نکلا کرتا ہے۔دہشت گردی کے موضوع پر کون بات چھیڑے گا۔جہاں کروز میزائل گرتا ہے وہاں کیا حشر ہوتا ہے ۔کیا کروز میزائل بے گناہ کو دیکھ کر اپنی سمت بدل لیتا ہے۔اس ممی ڈیڈی برگر عورت کوکیا پتا یہ بیشاری تو چکا چوند کی ہوس کا شکار ہے۔یہ اب قصور واقعہ پر ڈاکومینٹری بنا کر ایک اور آسکر لینے کی تیاری کرے گی۔اس کیا معلوم کہ اسے ہواؤں میں چڑھانے والے اتنے بھی میرٹ اور انصاف پسند نہیں جتنا یہ اور اس جیسے کئی نام نہاد ترقی پسند سمجھ رہے ہیں۔اس معصوم عورت نے کبھی امریکا اور یورپ میں آباد فیملیز سے انٹرویو نہیں لئیجن کی اولاد جوں جوں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے توں توں ان کی نیندیں حرام ہوتی جاتی ہیں۔بنانی ہے تو جا کر اس ماں کے درد پر ڈاکومینٹری بنائے کہ جو برسوں پہلے امریکا جا بسی جس کی بیٹی کو ایک کالے سے محبت ہو گئی۔اس نے محبت میں نہ صرف مذہب تبدیل کر لیا بلکہ ماں کو یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ اب وہ پوری زندگی اپنے من کے کالے راجہ کے ساتھ رکھیل یعنی بوائے فرینڈ کے روپ میں رہنے کو تیار ہے۔ماں اگر سمجھانے کی کوشش کرے تو بیٹی اور اس کے من پسند فرینڈ کے ٹارچر کا سامنا مقدر ۔یہ کہانی شاید محترمہ کے اسٹینڈرڈ کی نہیں ۔موضوع ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں جو معاشرے ماں باپ بہن بیٹی کی تمیز بھول چکے ہوں وہ شرمین کو آنر کلنگ پر آسکر نہ دیں تو اور کیا کریں۔ظلم خالی ہماری دھرتی پر ہی نہیں ہوتا یا ہم کوئی رجسٹرڈ ظالم نہیں ہیں۔یہ ہر اس جگہ پر ہوتا ہے جہاں حضرت انسان بستا ہے۔کچھ لوگوں کو اپنے کپڑے خود اتار کر مہذب بننے خود کو انصاف پسند اور شوخا شو کرنے کا عارضہ لا حق ہوتا ہے۔آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھیں اور بتائیں کہ یورپی معاشرے میں جو انسانیت کی تذلیل کی داستانیں بکھری پڑی ہیں وہ تو اسے بڑے فخر سے نیشنل جیوگرافک پر چلا رہے ہیں ۔ یورپ میں جاری عورتوں کی جسم فروشی جسے ہیومن ٹریفکنگ کہتے ہیں کی کوئی ڈاکومینٹری آسکر نہ جیت پائی۔انصاف کے متوالیہمارے معاشرے کی تاریکیاں شرمیں جیسے لوگوں لوگوں کو کیمروں کی چکا چوند میں ایوارڈ دے کر اجاگر تو کرتے ہیں مگر اپنے معاشرے کے گندے بدبودار سڑاہند کا شکار گوشے دنیا سے چھپا کر رکھتے ہیں ۔قصورر واقعہ پر فلم بنانے سے پہلے کوئی جا کر آسکر دینے والوں کو یہ بھی بتائے کہ عورت کا متضاد مرد ہے۔لڑکا کا متضاد لڑکی ہوتا ہے۔امریکی اور یورپی معاشروں کو متضاد جنس کا یہ فرق سمجھانے کے لئے بھی ایک ڈاکومیٹری کی ضرورت ہے جو غلطی سے مرد کے مرد کے ساتھ اور عورت کے عورت کے ساتھ ان نیچرل تعلق کو جائز سمجھ بیٹھے ہیں ۔ہو سکتا ہے ہماری ہونہار محترمہ یہ جواز پیش کرے کہ بھلا کوئی پورا امریکا تھوڑا ہی اس ترتیب کے الٹے پن کا شکار ہے۔تو عرض ہے کہ چند جاہلوں کے سوا پورا پاکستان بھی آنر کلنگ میں ملوث نہیں۔محترمہ کے ہاتھ دکھ جائیں گے اگر وہ عبدالستار ایدھی پر کچھ بنا دیں گی۔بھلا ہو چالاکی کا کیونکہ وہ جانتی ہیں اس پر ایوارڈ ملنا تو دور کی بات ان کی فلم کو معیار پر پورا نہ اترنے کا ٹیگ لگا کر ڈبے میں پھینک دیا جائے گا۔نہ تو ہم بھولے ہیں نہ ہی اغیار زیادہ چالاک ہیں۔ہر کوئی اپنے اپنے مطلب کے لئے ضرورت سے زیادہ تیز اور ہوشیار ہے۔لگے ہاتھوں خواتین کے تحفظ کے بل پر بھی تبصرہ کر لیتے ہیں۔مار پیٹ کی نہ مذہبی طور پر اجازت ہے نہ اخلاقی طور پر۔یہ بتانے یا تحفظ دلانے کے لئے کسی بل کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔باقی اگر کوئی ایک عورت کی گواہی دو مردوں کے برابر قرار دلوانے یا ایک عورت کی گواہی ایک مرد کے برابر قرار دلوانے کے چکر میں ہے تاکہ آقاؤں کو بتا سکے کہ کہ ہم نے یہ قانون پاس کر کے آپ کی تقلید کا ثبوت دینے کی کوشش کی ہے تو اس ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ اس کے بعد وراثت کے قانون کو بھی ایک بل کے ذریعے عورتوں کے حق میں برابر کر دیا جائے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے کیونکہ فیصلہ اسلام کا ہے ۔عورتوں کے حقوق کے وکیل دیہاتوں میں جا کر دیکھیں جہاں میاں بیوی ملکر تمام دن مٹی گوندھ کر کچی اینٹیں سانچوں میں ڈھال کر بھی زندگی کی ضروریات احاطہ نہیں کر پاتے۔ان کے بچے کو کیمرے کے سامنے پیار کر کے جذباتی پن میں بل پاس کرنے سے کہیں بہتر تھا کہ ان کو ریلیف دیا جاتا۔کم سے کم اجرتکے قانون پر عملدرامد کروایا جاتا۔خود کو ان کے لیول کے طرز زندگی پر لا کر سوچا جائے کہ جون کی گرمی اور اگست کا حبس کس قدر جان لیوا ہوتا ہے۔مسائل ہر جگہ ہر معاشرے میں ہیں۔صبا کی کہانی ضرور منظر عام پر لائیں ۔اگر ایک ہی معاشرے کے مسائل اجاگر کریں کے عالمی سطح پر تو لوگ آپ پر انگلیاں بھی اٹھائیں گے آپ کو جانبدار بھی کہیں گے۔آپ کو مغرب زدہ بھی پکاریں گے۔اس عوامی تاثر کو مٹانے کے لئے مگربی معاشرے کے کسی تاریک گوشے پر مشرقی کیمرے کی روشنی ڈال کر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔قوم دیکھنا چاہتی ہے کہ کسی مغربی مسئلے خاص کر امریکی معاشرے پر ہٹ کر کے محترمہ شرمین آسکر کی ہیٹرک مکمل کر پائیں گی۔اگر نہیں کر پاتیں تو پہلے دو ایوارڈ واپس کر دینا ہی میرٹ ہو گا۔آہ کہاں ہم کہاں میرٹ ۔لوگ فلمیں بنا کر ہمارا قومی مورال گرانے کی کوششکر کے تھک جائیں گے اگر ہم نے چرچل کی بات پر عمل کیا ۔You will never reach your destination if you stop and throw stones at every dog that barks.
Muhammad Rizwan Khan
About the Author: Muhammad Rizwan Khan Read More Articles by Muhammad Rizwan Khan: 24 Articles with 18185 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.