کُتّا مار مہم !

 آوارہ کتے اور کیا کریں۔ ان کا نہ کوئی گھر ہوتا ہے نہ ٹھکانا، نہ ان کا کوئی مالک ہوتا ہے اور نہ کسی سے وفاداری کے تقاضے نبھانے پڑتے ہیں۔ یاروں دوستوں کے ساتھ گلیوں میں پھرا کرتے ہیں، پارکوں میں گھومتے ہیں، سردیوں میں کھلی دھوپ کے مزے لیتے ہیں، اور گرمیوں میں پارکوں کے اندر ہی گہرے سائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ موسم خوشگوار ہوتا ہے تو یہ باہر نکل آتے ہیں۔ ٹولیوں کی صورت میں گھومتے ہیں، اٹھکیلیاں کرتے ہیں، ایک دوسرے سے الجھتے اور کشتیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں، بعض اوقات گراؤنڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگتے چلے جاتے ہیں، اورکبھی آرام سے لیٹ جاتے ہیں۔ یہ کتے بہت موٹے تازے اور صحت مند ہوتے ہیں، شاید اس لئے کہ انہیں کوئی غم نہیں ہوتا، نہ کسی کی حفاظت کی ذمہ داری اور نہ کھانے پینے کے لئے کسی کی محتاجی اور انتظار، نہ کسی کی پابندی اور نہ کوئی مجبوری۔ بھاگتے، کھیلتے، اچھلتے کودتے کتوں کے پاس سے کوئی مسافر پیدل یاسواری پر گزرتا ہے تو یہی کتے ازراہِ مذاق ان کے پیچھے بھی بھاگ لیتے ہیں، ظاہر ہے ایسے میں مسافر بہت ہی گھبراہٹ کا شکار ہوجاتا ہے، اور کتوں کا مذاق کئی دفعہ سنجیدگی اختیار کرلیتا ہے جب وہ گرتے پڑتے مسافر کو کاٹ بھی لیتے ہیں۔

آوارہ کتوں کے کاٹنے کی خبریں ہر روز اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ کبھی ان کتوں کو باؤلا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ جب یہ آوارہ یا باؤلے کتوں کے کاٹے کو ہسپتال لے جایا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ہسپتالوں میں کتوں کے کاٹے کی ویکسین ہی موجود نہیں۔ یہ جواب صرف دیہاتی بنیادی طبی مراکز سے ہی نہیں ملتا، چھوٹے شہروں کے ہسپتالوں میں بھی اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں سال بھر میں ایک لاکھ 74ہزار 411افراد کو کتوں نے کاٹ لیا۔ طبی امداد کے لئے جب انہیں ہسپتال لے جایا گیا تو ان کے علاج معالجہ پر 63کروڑ 80لاکھ روپے خرچ ہوگئے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان اخراجات پر حکومت نے سر پکڑ لیا۔ ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز نے سیکریٹری لوکل گورنمنٹ سے رابطہ کرلیا ہے۔ اب ان کتوں کی تلفی کے لئے موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت نے ضلعی حکومتوں کو انسدادی کاروائیاں تیز کرتے ہوئے آئندہ تلف کئے جانے والے کتوں کی تصاویر بھجوانے کے حکم بھی دیا ہے۔ کتوں کی تلفی کے لئے ظاہر ہے مزید لاکھوں روپے کے فنڈ جاری کئے جائیں گے، اپنے پورے نظام میں چونکہ کمیشن وغیرہ کی مکمل گنجائش ہے، اور یہی ایک کام ہے جو مکمل دیانتداری سے سرانجام پاتا ہے، اس لئے تلف ہونے والے کتوں کی تصاویر سے کتوں کی تعداد کی گنتی میں آسانی رہے گی، اور اسی حساب سے اخراجات کی رقم کی ادائیگی کی جائے گی۔

کتوں کی تلفی کے لئے یقینا ضلعی کمیٹیاں معرضِ وجود میں آئیں گی، اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ ہر کمیٹی کی سربراہی کا بوجھ مقامی ڈی سی او کو ہی اٹھانا ہوتا ہے۔ اس کمیٹی کے سیکریٹری کے فرائض ٹی ایم او کے سپر د ہونگے۔ حکومت کو اس اہم ترین مسئلے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے، اس لئے ضروری ہے کہ کمیٹی میں مقامی منتخب نمائندوں کو بھی نمائندگی دی جائے، ایک ایم پی اے اور ایک کسی یو سی کا چیئرمین بھی اس میں شامل ہو تو بہتر ہے۔ آگے مزید ذیلی کمیٹیاں بھی بنانی پڑیں گی جن میں نئے منتخب کونسلر شامل ہونگے۔ کیونکہ بیوروکریسی ایسے معاملات پر زیادہ توجہ نہیں دیتی، اس لئے منتخب نمائندوں کو ہی اپنے عوام کو کتوں سے بچانے کی تدابیر اختیار کرنا ہونگی۔ مقامی نمائندوں کا یہ فائدہ بھی ہے کہ وہ اپنے علاقے سے بخوبی واقف ہوتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کہاں کہاں کتے زیادہ پائے جاتے ہیں، اور ان کی تلفی کس طریقے سے ممکن ہے۔ یہ کونسلر وغیرہ چونکہ ڈی سی اوز کے ماتحت ہی کام کریں گے اور فنڈز وغیرہ کے لئے انہی کے محتاج ہونگے ۔ اگر کونسلروں کو ہی یہ ذمہ داری سونپ دی جائے تو بہت بہتر رہے گا۔اگر فی کتا کچھ رقم مقرر کردی جائے تو زیادہ مناسب ہوگا، اس سے جو فرد جتنے مارے گئے کتوں کی تصاویر ظاہر کردے گا اسے اسی حساب سے ادائیگی کردی جائے۔ مگر یہ تصویر والا معاملہ بھی مشکوک ہی ہے، کیونکہ آئی ٹی کے زمانے میں کتوں کی تصویریں بنانا کوئی مشکل نہیں، اور ایک ہی کتے کے مختلف پوز بنا کر تصاویر بھی بنائی جاسکتی ہیں۔ اگر حکومت اس مہم کو مزید تیز اور موثر بنانا چاہتی ہے تو کچھ وزراء کو بھی ’’کتامارمہم‘‘ کی ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے، یا پوری کابینہ کو مختلف علاقے تقسیم کئے جاسکتے ہیں، اس سے آوارہ کتے بھی ختم ہوجائیں گے اور وزراء کو بھی مصروفیت مل جائے گی۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 430665 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.